ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

کھلتی کلیاں – نور مارچ ۲۰۲

ندامت

حافظہ ایمن عائشہ

احمد اور سالاربہترین دوست تھے۔ تعلیم مکمل کرنےکےبعددونوں نوکری کی تلاش میں تھے۔احمد سالار کی نسبت زیادہ محنتی اور ذہین تھا۔ سالارکا تعلق امیر گھرانے سے تھا جبکہ احمد متوسط گھرانے سے تعلق رکھتا تھا۔ احمد کو والدین نے بہت محنت کر کے تعلیم دلوائی تھی یہاں تک کہ گھر گروی رکھ دیاتھا۔ جبکہ سالارکی زندگی آسائشوں میں گزری تھی۔
اتفاق سےدونوں دوستوں نے ایک ہی کمپنی میں انٹرویو دیا۔ احمد نے اپنی قابلیت کی وجہ سے انٹرویو پاس کر لیا اور بد قسمتی سے سالار رہ گیا۔ سالار نےرشوت اور سفارش کے سہارے یہ نوکری حاصل کر لی اور اپنے بہترین دوست کا بھی خیال نہ کیا۔ احمد نے ہمت نہیں ہاری اورایک بارپھرنوکری کی تلاش میں مارا مارا پھرنےلگا۔ سالار کو کچھ ماہ کے بعد ہی کمپنی والوں نے نکال دیا کیونکہ وہ کوئی بھی کام احسن طریقے سے سر انجام نہیں دیتا تھا۔ کمپنی کواس کی لاپروائی کی وجہ سے بہت نقصان اٹھانا پڑا۔ سالار کو پتا چلا کہ ا سے نو کر ی نکال دیا گیا ہے، تو وہ غصےمیں گاڑی چلا رہا تھا کہ اچانک اس کی گاڑی ایک ٹرک سے ٹکرا گئی۔ احمد کو پتا چلا تو اس کی خیریت معلوم کر نے ہسپتال پہنچا۔ سالار شرمندگی کی وجہ سےاس سے نظریں نہیں ملا پا رہا تھا، اس کو اس بات کا شدت سے احساس ہو چکا تھا کہ اس نے احمد کا حق مارا ہے۔اس کا دل بےچین تھا۔ پھر ہمت کر کے اس نے احمد کو بتا ہی دیا کہ وہ نوکری میں نے رشوت دے کر حاصل کی تھی جوتمھاراحق تھی اور آج دیکھو اس کا انجام۔ جب ان حقائق کا احمد کو علم ہوا تو اسے بہت دکھ ہوا لیکن اس نے سالار کو معاف کر دیا اور کہا جو قسمت میں ہوتا ہے وہی ملتا ہے۔اور چلا گیا۔اعتراف سے سالار کواپنےدل کا بوجھ ہلکاہوتامحسوس ہوا۔مگرندامت کابوجھ تو ا سے ساری زندگی اٹھاناتھا۔

رانی پری

اللہ رکھا چوہدری

رانی پری اپنے میاںراجا کے ساتھ آسمان کی سیر کر رہی تھی کہ اچانک اس کی نظر زمین پر دوکھیلتے ہوئے بچوں پر پڑی۔ رانی نے راجا کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ۔
’’ راجا جی ۔ میں اکثر خواب میںدو بچوںکو آپس میں کھیلتے اور ہنستے بولتے دیکھتی ہوں ۔ آج جو ان بچوںکودیکھا ہے تومجھے اپنا خواب یاد آگیا ۔‘‘ رانی نے نیچے زمین پر کھیلتے ہوئے بچوں کی طرف اشارہ کیا ۔
’’ مجھے بچوں کا ہنسنا ،کھیلنا ،شرارتیں کرنا بہت پسند ہے اور یہ کتنے پیارے بچے ہیں ۔ کتنے پیار سے اپنی چیزیں ایک دوسرے کو دے رہے ہیں ۔ایسے بچے مجھے بہت اچھے لگتے ہیں میںان سے پیار کرتی ہوں ۔ میں ان بچوں سے نفرت کرتی ہوں جو ہر وقت لڑائی جھگڑا کرتے رہتے ہیں ۔‘‘ راجا نے سر ہلا کر کہا۔
’’ رانی یہ بات تو درست ہے ۔ چلو، ان کے پاس جاتے ہیں اور ان کو کچھ انعام دیتے ہیں ۔‘‘راجا اور رانی آسمان سے نیچے آئے انھوں نے دونوں پیارے بچوں کو مزے مزے کی چاکلیٹ اور پھل کھانے کو دیے اور دونوں کو پیار کر کے واپس اپنے مسکن میں چلے گئے ۔

نیکی کا صلہ

کامران جٹ ۔ لاہور

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ کسی بستی میں ایک کمہار رہتا تھا ۔ وہ دن بھر مٹی کے برتن بناتا اور ان کو بیچتا تب جا کر اسے دو وقت کا کھانا نصیب ہوتا ۔ ایک دن ووہ بیمار ہو گیاوہ فکر مند تھا کہ اپنی محنت سے بنائے ہوئے برتن بیچے گا تو اس کے پاس پیسے آئیں گے مگروہ بازار نہ جا سکتا تھا آخر کار وہ اللہ کا نام لے کر سو گیا اگلے دن وہاں سے ایک امیر زادی گزری اس کی نظر کمہار کے بنائے ہوئے برتنوں پر پڑی ۔ اس کو وہ برتن پسند آگئے۔ اس نے کمہار کے برتن خرید لیے ۔ اللہ نے ایسا اچھا بندو بست کر دیا تھا ۔ کمہار نے اپنا علاج کروایا دو دن بعد وہ تندرست ہوگیا اس نے اللہ کا شکر ادا کیا اور اپنا کام دوبارہ شروع کر دیا ۔ کیونکہ امیر زادی کو اس کے بنائے ہوئے برتن بہت پسند آئے تھے وہ اکثر آتی اور اس سے برتن خریدتی اب کمہار خوشحال ہو گیا تھا۔

٭ ٭ ٭

حدیث مبارکہ

نادیہ رحمان

سیدہ سلمہؓ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ؐ نے ارشاد فرمایا : جب تم کسی مریض کے پاس جائو یا کسی میت کے پاس جائو تو خیر کے کلمات کہا کرو کیونکہ جو کچھ تم کہتے ہو فرشتے اس پر آمین کہتے ہیں ۔ ام سلمہؓ کہتی ہیں جب ابو سلمہؓ فوت ہو گئے ۔ میں نے نبی اکرم ؐ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کی اے اللہ کے رسولؐ ! ابو سلمہ ؓ فوت ہوگیا ہے تو آپ ؐ نے ارشاد فرمایا : تم کہو’’ اَللّٰھمَّ اغْفِرلِی وَلَہ و أعْقِبْنْی مِنْہُ عْقْبٰی حَسَنَۃً‘‘اے اللہ !مجھے اور ابو سلمیٰؓ کو معاف فرما اور مجھے اس کا نعم البدل عطا فرما ( ام سلمیٰؓ کہتی ہیں ) میں نے یہ کلمات پڑھے تو اللہ تعالیٰ نے مجھے اس (ابوسلمہؓ)سے بہتر (خاوند) عطا کیا (وہ نبی اکرمؐ تھے ) صحیح المسلم۔

٭ ٭ ٭

سکول
وہ محفلیں سجانا
وہ رونقیں لگانا
پھر دوستوں کے ہمراہ
ہر لمحہ لمحہ مسکرانا
یاروں کو دوستوں کو
بریانیاں کھلانا
کرنی شرارتیں بھی
پھر مل کے ڈانٹ کھانا
روٹھے ہوئوں کو اپنے
ہنستے ہوئے منانا
چھوٹےمذاق پہ پھر
خود ان سے روٹھ جانا
کتنا حسین تھا وہ
سکول کا زمانہ

عیشم یٰسین

جن

اس بوڑھے کی لال آنکھیں ، سفید بال ، منہ پر جھریاں اور سفید لباس تھا ۔ سالم اور ماہا کو بہت ڈر لگ رہا تھا ۔ وہ بوڑھا ان دونوں کے پاس آ رہا تھا ۔ ماہا نے چیخ ماری وہ کانپ رہی تھی سالم بار بار کوشش کر رہا تھا کہ ماہا زیادہ نہ ڈرے مگر ماہا کی گویا جان ہی نکل گئی تھی ۔ بوڑھا ایک دم دوسری طرف مڑ کر وہاں سے چلا گیا ۔ اب ماہا کو تھوڑا سکون ہوا ۔ ماہا اور سالم بہن بھائی تھے وہ لوگ روز گھر سے باہر دس منٹ کی سیر کو نکلتے تھے ۔ ماہا دس سال کی تھی جب کہ سالم اس سے ایک سال بڑا تھا ۔ وہ لوگ اس رات گھر دیر سے آئے تو امی نے وجہ پوچھی ان لوگوں ن ےساری داستان سنا دی ۔ امی نے کہا ’’ اوہ کوئی بات نہیں ، بوڑھے ایسے ہی ہوتے ہیں ۔‘‘ مگر ماہا ابھی بھی ڈر رہی تھی سالم امی کی بات پر یقین کر کے سونے چلا گیا ۔ ماہا جب صبح اسکول گئی تو اس نے اپنی سہیلیوں کو بھی سب کچھ بتایا مگر انہوں نے بھی وہی کہا جو امی نے کہا تھا ۔ اس پر وہ غصہ سے بولی :’’ وہ ہمیں گھور رہا تھا ۔‘‘ پھر وہ اپنی سیٹ پر جا کر بیٹھ گئی ۔ اس کی سب سے اچھی دوست عریشہ تھی ۔ عریشہ کو جب اس نے بوڑھے کے بارے میں بتایا تو عریشہ بولی ’’تم مجھے بھی دکھائو ۔ اگر وہ کوئی خطر ناک مخلوق ہے تو وہ آج رات بھی یہیں کھڑا ہو گا اور اگر وہ عام انسان ہوا تو وہاں نہیں ہوگا ۔‘‘ ماہا کو یہ بات بہت پسند آئی ۔ گھر جاتے ہی اس نے کپڑے تبدیل کیے ، کھانا کھایا اور پھر اسکول کاکام کیا اس کے بعد وہ سو گئی ۔ شام کے 6بجے وہ اٹھی تواس نے جلدی سے بال کنگھی کر کےسکارف پہنا اور بھائی کے ساتھ سیر کو نکل گئی ۔ عریشہ اس جگہ پر ان کا انتظار کر رہی تھی ۔ جب سب اکٹھے ہوئے تو وہاں کوئی بوڑھا نہیں تھا ۔ عریشہ ماہا سے کہنے لگی : ماہا جن بھی ہماری طرح اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہے۔ ہمیں اس سے اتنا نہیں ڈرنا چاہیے اور جن کا دماغ صرف دس سال کے بچے جتنا ہوتا ہے ۔ اس لیے وہ ہمارے ساتھ شرارتیں کرتے ہیں ۔ ماہا کی سمجھ میں یہ بات آگئی ۔ پھر کبھی وہ جن سے نہیں ڈری۔

نوری بچے

٭ ٭ ٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x