ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

مکدّر دل – بتول مارچ ۲۰۲۲

صالحہ کے میاں راشد صاحب نے ان کی خواہش پر اتوار کے دن سینڈزپٹ پر ہٹ بک کروایا۔آج کل صالحہ بیگم کے روز و شب میں قنوطیت یاسیت طاری تھی۔بلکہ بیٹی کرن کی شادی کے بعد یہی حالات تھے۔ایسے میں میاں راشد صاحب ان کا ڈپریشن ختم کرنے کے لیے یہی ترکیب کیا کرتے کہ ان کی پسندیدہ تفریح کا اہتمام کرتے۔سمندر کنارے بیٹھ کر ڈوبتے منظر کا نظارہ کرنا انھیں بہت پسند تھا۔عمر کے اس حصے میں تھے کہ ایک دوسرے کی پسند کا احترام تھا یا دونوں کی پسند ہی ایک ہو گئ تھی۔میاں راشد بھی بیگم کے ساتھ اس منظر سے لطف اندوز ہوتے۔
سورج آگ برسا برسا کر اب ٹھنڈا پڑ چکا تھا۔اس لیے ہوا کے جھونکے بڑے دلفریب لگ رہے تھے۔ سورج سرخ تانبا سا ہوگیا تھا۔لال گول سی ٹکیہ سی نکلنے والی شعاعیں پانی میں منعکس ہو کر پانی کی سطح پر مختلف شوخ رنگ بکھیر رہی تھیں ۔سورج پانی سے ملنے کو بے تاب نظر آرہا تھا ۔یہ وقت صالحہ کو ہمیشہ وصل کا وقت لگتا ۔سورج ڈھل کر پانی میں گم ہوگیا دو وقت بھی آپس میں گلے مل گئے صالحہ کے دل پر چھائی اداسی قنوطیت جیسے مٹ گئ۔
دور کہیں سے اللہ اکبر کی صدا کان میں رس گھولنے لگی ۔صالحہ بیگم پھول کی مانند ہلکی پھلکی ہو کر میاں سے گھر چلنے کا کہنے لگیں۔راشد صاحب پر امید تھے کہ اگلے کئی روز بیگم کا موڈ فریش رہے گا
٭ ٭ ٭
کرن نے تقریباً اک ماہ بعد میکے میں قدم رکھا تو امی جان برآمدے میں بچھے تخت پر بیٹھے زاروقطار روتی نظر آئیں۔وہ بےاختیار ہوکر امی سے لپٹ گئی اور انہیں چپ کروائے گئی ۔وجہ امی کا مستقل رہنے والا ڈپریشن!
اس کی شادی کے بعد تو امی کا اک ہی کام رہ گیا تھا کام کاج سے فراغت کے بعد پرانا وقت یاد کرنا رونا دھونا۔امی اپنے ماضی سے نہیں نکلتی تھیں۔ گزرا ازدواجی زندگی کا ابتدائی زمانہ بھلائے نہیں بھولتا تھا۔امی کا نام صالحہ تھا لیکن خاندان رشتے دار ان کی بھولی طبیعت کے پیش نظر بھولی کہہ کر پکارتے۔اسی طبیعت کو جان کر زیرک پھپھو اکلوتے بیٹے کے لیے بہو بنا کر لے گئیں اور تین بیٹیوں کے ساتھ خوب ٹف ٹائم دیا۔اک نند شادی شدہ سگے چچا کے بیاہی ہوئی، دیوار سے دیوار ملی تھی، دو کنواری ۔ خودپھپھو جوانی میں بیوہ ہوئی بیٹے کے لیے بہت حساس تھیں ،باقی دو بیٹیاں بھی اسی کے ساتھ مل کر بیاہنی تھیں۔بیٹا سب سے بڑا تھا ،پوتا پوتی کی خواہش شدید تھی سوبیٹیوں کے بر کی منتظر پھپھو نے اسے کنوارا نہیں رکھا۔
لیکن شادی کے بعد بیٹے سے سخت ہوگئیں بیٹیوں سے نرم ۔بیٹے کی شادی سے پہلے یہ حساب الٹا تھا۔گھر بہت بڑا تھا پھپھو جہاں چاہے چارپائی ڈالتیں مگر پھپھو کو راحت میاں راشد کے کمرے کے آگے رکھے پلنگ کے آگے ہی ملتی۔کام تو اتنا نہ لیا جاتا نندیں بھاوج مل بانٹ کر کرتیں۔ لیکن کنواری نندوں کے سونے تک جلدی کمرے میں جانے کی اجازت نہیں تھی۔ نندیں تو دیر تک سونے کی عادی تھیں بھولی بہو کیا کرتیں جنہیں صبح وقت پہ اٹھنا ہوتا۔ پھپھو ہمیشہ کھانا بیٹے کے ساتھ کھاتیں۔ صالحہ بیگم کھانا پکاتیں تو میاں راشد کو سرو نندیں کرتیں۔
کنواری نندوں کی وجہ سےشرم وحیا کا ماحول تھا۔میاں کے ساتھ کے چند گھنٹے ہوتے تھے ،اس دورانیے میں بھی آواز ہنسی کمرے سے باہر نہ جانے کے خوف میں گزرتے ورنہ پھپھو کی عار دلاتی نظر سہی نہ جاتی۔ اتنے دورانیے میں کیا انڈر اسٹینڈنگ ہوتی کیا دکھ سکھ کہتے کیا راز و نیاز کی باتیں ہوتیں ! بس نپی تلی گفتگو ۔
خرچ سب اماں کے ہاتھ میں ہوتا ضرورت کی ہر چیز اچھی سے اچھی گھر میں مہیا ضرور ہوتی مگر سب اماں کی مرضی مطابق۔ میکے بھی گئی تو بہترین گاؤن جوتے اچھے کپڑے، پرس بھی ہوتا مگر خالی۔میاں راشد نے بھی اس سارے منظر نامے میں کبھی تبدیلی کی کوشش کی تو بار آور نہ ہوئی۔ناردرن ایریاز کا پروگرام پھپھو کی بیماری وجہ سے کھٹائی میں پڑ گیا۔ میاں راشد صالحہ بیگم کی تکلیف محسوس کرنے کے باوجود اندھے گونگے بنے رہے۔
چودہ سال بعد پھپھو کا سورج غروب ہؤا تو ریت مطابق صالحہ کا طلوع ہؤا۔نندیں غیر فعال ہوئیں۔ میاں راشد نے بھی جتنی ماں کی نبھائی اب بیوی کا بھی اتنا ہی مان رکھا ہر ادھوری خواہش پوری کی۔ صالحہ بیگم اپنی مرضی سے خریداری کیا کرتیں ۔کرن کی شادی میں معمولی چھوٹے بڑے کام صالحہ کی مرضی مطابق ہوئے۔کرن کی شادی کے بعد حج کا رخت سفر باندھا واپسی پر پوری فیملی داماد سمیت ناردرن ایریاز گئے۔
لیکن اس سب میں صالحہ خوش نہ تھیں ۔بلکہ دل کی خلش بڑھ گئی۔ عمر کا سنہری دور اپنی مرضی کا پہنے کھائے پیے ہنسی مذاق گھومے پھرے بغیر گزر گیا۔ اس عمر میں امنگ شوق ارمان وہ پہلے والے تو نہ تھے۔ صالحہ جنھیں بھولی کہا جاتا ایسے رویے دینے لگیں کہ میاں راشد سے سہے نہ گئے۔
٭ ٭ ٭
اسکردو میں قیام کے دوران لوئر کچورا وزٹ کے بعد دوپہر کا کھانا ہوٹل میں خوشگوار ماحول میں کھایا گیا ۔میاں راشد داماد بیٹی کی دیکھا دیکھی صالحہ بیگم کی پلیٹ میں ہی کھانا کھانے لگے تو صالحہ بیگم کے کھانا کھاتے ہاتھ سست ہوگئے۔ کچھ قدرے توقف سے اس پلیٹ کو میاں راشد کی طرف کھسکا کربیٹے کے ساتھ کھانا کھانے لگیں۔داماد کے علاوہ سب نے نوٹ کیا مگر خاموش رہے ۔میاں راشد بیگم کو خفا نظروں سے دیکھ کر رہ گئے۔
شام میں نزدیکی مارکیٹ شاپنگ پر گئے۔ سب ہی نے کچھ اپنے لیے خریداری کی ،کچھ احباب کے لیے تحائف خریدے ۔اک بہت خوبصورت پشمینہ شال میاں راشد کو بہت پسند آئی۔ شال صالحہ کو بھی بہت بھائی تھی مگر اس کا رنگ تیز شوخ تھا ۔
’’اس سے کیا فرق پڑتا ہے‘‘۔ بیگم کے اعتراض کو نظر انداز کرتے ہوئے راشد پیمنٹ کرنے لگے تو صالحہ نے انکار کر دیا۔
’’ رہنے دیں اس عمر میں یہ رنگ اچھے نہیں لگتے‘‘۔
راشد میاں نے قدرے غصے سے شال پٹخ دی ۔
’’سو سال کی بوڑھی ہوگئی ہونا…..تمھاری عمر میں آج کی خواتین کد کڑے لگا رہی ہیں‘‘ ۔
’’آپ کا اشارہ ماہ نور بلوچ کی طرف ہوگا شاید…..جی ہاں لگا رہی ہیں مگر فلموں میں۔ اصل زندگی میں نہیں‘‘ وہ جل کر بولیں ۔
دوران ِسیر یہی سوچیں دماغ میں پلتیں رہیں۔ آہ! کتنا ارمان تھا شادی کے اولین دنوں میں یہاں آنے کا!
اسکردو وزٹ مکمل ہوگیا مگر میاں راشد اور صالحہ کے درمیان کھنچاؤ بدستور قائم رہا۔ صالحہ نے اس کھنچاؤ اور فاصلے کو اپنے رویے سے پاٹنے دیا بھی نہیں۔
٭ ٭ ٭
میاں راشد آفس سے گھر آئے تو فریش ہو کر ٹی وی لاؤنج میں چائے کے منتظر تھے۔صالحہ چائے دے کر واپس جانے لگیں تو میاں راشد نے ہاتھ پکڑ کر روک لیا۔
’’دو گھڑی پیار محبت کی باتیں ہی کر لیا کریں‘‘۔
صالحہ کی نظر میں کاٹ اتری۔
’’ کبھی عادت ہی نہیں بنی آپ کے ساتھ بیٹھنے کی….. اب جوان بچوں کی موجودگی میں مجھے مناسب نہیں لگتا طوطا مینا کی جوڑی بن کر بیٹھوں….. کام ہیں بہت سے مجھے‘‘۔
’’صالحہ! پتہ نہیں کیا مسئلہ ہے تمھارے ساتھ….. آسانی کا وقت دیر سے دیکھا مگر دیکھا تو …..کچھ لوگ ساری عمر تپسیہ کاٹتے ہیں ہاتھ ایک خوشی نہیں لگتی‘‘۔ میاں راشد کو آج غصہ ہی آگیا تھا ۔ صالحہ نے جواب ميں خوب سنائیں۔
’’ خوف خدا کریں ،مجھے بے صبری کہتے ہیں !‘‘
اور میاں راشد کی مری ماں کی ہر زیادتی یاد دلائی۔ زندگی میں زہر گھولنے والی نندوں پر بھی جلے دل کے پھپھولے پھوڑے ۔
’’اماں تو اللہ کے پاس گئیں اللہ ان سے خود حساب کر لیں گے ۔ نندوں پر اس گھر کے دروازے بند کردو،میں نہیں روکتا….. دل میں اتنا کینہ ہے تو مت نبھاؤ دنیاداری‘‘۔ میاں راشد نے چائے ٹیبل پر پٹخی اور چلے گئے۔
٭ ٭ ٭
صالحہ نے مکدر دل کے باوجود نندوں کو میکے کا مان دیا ہؤا تھا۔میاں راشد کے گھر سے نکلنے کے بعد سے صالحہ نیر بہا رہی تھی۔کرن حوصلہ دینے میں ناکام ہوئی تو تھک کر بولی۔
’’ امی جان دادی کے لیے بددعا کریں ۔پانچ سال ہوگئے دادی اماں کو دنیا سے گئے….. ان کی دی تکالیف آپ نہیں بھولیں‘‘۔صالحہ دھک سے رہ گئی ۔
’’اللہ نا کرے کہ اللہ میری وجہ سے ان کی پکڑ کریں…..آگ میں ڈالیں…..اللہ ان کی مغفرت کریں۔ اتنی کم ظرف نہیں کہ مرے ہوئے کو بدعا دوں‘‘۔
’’اچھا پھپھو تو زندہ ہیں…..ان کی بٹیا کوبہو بنا کر وہ زندگی دیں جو ان لوگوں نےآپ کو دی‘‘۔
’’ ایسی دِکھتی ہوں میں تمھیں؟‘‘ صالحہ ناراضگی سے بولیں۔ کرن نے ہنکارا بھرا۔
’’ امی جب بدلہ دنیا میں نہیں لینا نہ ہی آخرت میں، تو سیدھا مطلب ہے آپ نے انھیں معافی دی ہوئی ہے ۔جب معاف کر دیا تو بری باتوں کو دل دماغ میں رکھ کر ، ذہن پراگندہ کر کے خود کو تکلیف کیوں دے رہی ہیں؟ ماضی کی بری یادوں سے ڈپریس ہو کر خوشی بھرے حال سے زیادتی کیوں کر رہی ہیں ؟امی جو لوگ کہتے ہیں نا معاف کر دیا مگر بھول نہیں سکتے، تو یہ نہ بھولنا ہی تو دراصل کدورت ہے …..کینہ اور بغض اسے نہیں تو کسے کہتے ہیں؟ مومنانہ بصیرت یہ کہ ڈسنے والے کے ساتھ معاملات نہ کریں ،باقی معافی کے ساتھ بھولنے میں عافیت ہے۔
میں نے کہیں پڑھا کہ دل کو سب سے زیادہ خطرہ اچھی یادداشت سےہے ۔تو بھول جائیں زہریلی یادوں کو….. الله کبھی کدروت بھرے دل میں قیام نہیں کرتا۔ کینہ جائے گا تو دل میں اللہ آئیں گے۔امی !ساس نندوں کے ظلم بڑھاپے تک یاد رکھ کر خود کو تکلیف دیتے رہنا اگلی نسل تک پہنچانا…..تکلیف دینے والے چلے گئے تو ہم نے ان کی یادوں کو اپنے لیے تکلیف کا ذریعہ بنا لیا….. اس سے بہترہے کہ بھول کے ربڑ سے یہ تحریر مٹائیں، اپنی بہوؤں کو پاک صاف دل کی ساس دیں، خود کو بھی تکلیف سے بچائیں اور خوش باش رہیں‘‘۔
امی بہت ہلکی پھلکی ہو کر غور سے کرن کو دیکھ رہی تھیں۔ امی کی آنکھ میں بیٹی کے لیے جو تھا دیکھ کر کرن جھینپ گئی۔صالحہ نئے دل کے ساتھ میاں راشد کا انتظار کرنے لگیں۔
٭ ٭ ٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x