ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

سعودی عرب میں رہنے کا تجربہ – بتول اکتوبر ۲۰۲۱

ہے کہ آپ کسی بھی جگہ داخل نہیں ہو سکتے جب تک ماسک چہرے پر نہ ہو۔ کچھ دن پہلے ہمارے میاں صاحب ہمیں کام پر چھوڑنے آئے اور ماسک گھر بھول گئے۔ راستے میں ایک سبزی کی دکان سے کدو خریدنے کے لیے گئے تو دکان دار نے فرمایا کہ پہلے ماسک لگا کر آئیے۔
پردے کے بے شمار فوائد میں سے ایک کا تعلق کورونا سے بھی ہے۔ خواتین کو اس بات کی اجازت ہے کہ اگر انہوں نے کپڑے کے نقاب سے چہرہ ڈھکا ہؤا ہے تو وہ سرجیکل ماسک نہ لگائیں۔ ہمیں تو یہ بہت اچھا لگا، اگرچہ ہمارے پیشے کی بدولت ہمیں کام کی جگہ پر سرجیکل ماسک ہی لگانا پڑتا ہے۔ اس صورت میں ہم دوہرا ماسک لگاتے ہیں، جس کی وجہ سے بعض اوقات سانس کا مسئلہ بھی ہو جاتا ہے۔ الحمدللّٰہ مملکت کی سب رونقیں واپس آ رہی ہیں، سڑکوں پر ٹریفک بھی تقریباً پہلے جیسا ہی واپس آ گیا ہے، کیونکہ بہت سے اسکول، کالج اور سب جامعات کھل گئی ہیں۔عمرے کے لیے بھی اجازت نامے زیادہ کر دیے گئے ہیں۔
یہاں پر ویکسین کا انتظام بھی بے حد اچھا تھا اور ہے۔ہم سب گھر والوں نے تو بھلے وقتوں میں تھوڑے کو بہت جانتے ہوئے ویکسین لگوا لی تھی۔ لیکن بہت سے لوگ آخری وقت کے انتظار میں تھے۔ ہمارے ہمسائے میں ہماری ایک کولیگ ہیں، ان کی چھوٹی بیٹی کو ویکسین نہیں لگی تھی۔ یکم تاریخ کو اس کا فون بند ہو گیا۔ وہ بے چاری بھاگی بھاگی اسے گھر سے لا کر ویکسین لگوانے گئیں، تب اس کی سم کھلی۔ اب تو تقریباً سب کو ویکسین لگ گئی ہے۔آخری باری بچوں کی تھی۔ روزانہ ہسپتال سے واپسی پر ہم دیکھتے تھے کہ مائیں بچوں کو لے کر ویکسین لگوانے آ رہی ہوتی تھیں۔ بچوں سے مراد بارہ سال کی عمر تک کے بچے ہیں۔
ویکسین بذات خود ایک بہت بڑا موضوع ہے۔ شروع میں تو یہ تھا کہ جس کو ویکسین لگ گئی، وہ ویسے ہی کاندھے اکڑائے پھر رہا ہے۔ اور باقی سب اسے حسرت سےتکے جا رہے ہیں۔ کندھوں کے اس اکڑاؤ میں کچھ کردار ویکسین کے لگنے کا بھی تھا کیونکہ تین دن تو کندھا ویسے ہی ٹیکے والی جگہ پر درد کرتا رہتا ہے۔ پھر جسے فائزر لگ گئی، وہ اپنے آپ کو دوسروں سے برتر سمجھ رہا ہے یا نہیں، دوسرے جن کو ایسٹرا زینیکا لگی ہے، وہ اپنے آپ کو اس سے کمتر ضرور سمجھ رہے ہیں۔ ہم نے ویکسین کی پہلی ڈوز ایک پرائمری ہیلتھ سنٹر سے لگوائی۔ ہسپتال میں جس نے سنا، اس نے افسوس کا اظہار کیا اور یہ نصیحت بھی کی کہ آپ نے تو فلاں ہسپتال سے لگوانی تھی۔ اس وقت تک ہمارے ہسپتال میں ویکسین کا سلسلہ شروع نہیں ہؤا تھا۔ ہماری صاحبزادی کی باری آئی تو ہمارے ہسپتال میں سٹاف اور ان کے خاندان کے لیے ویکسین بغیر اپائنٹمنٹ کے لگ رہی تھی۔ انہوں نے اسے مسترد کرتے ہوئے اپنی اپائنٹمنٹ گھر سے پچیس کلومیٹر کے فاصلے پر ریاض کے “بزنس ڈسٹرکٹ” کے ہوٹل “کراؤن پلازا” میں لی۔ ہم آدھے گھنٹے کی ڈرائیو کر کے گئے اور آئے۔ لیکن اسی بہانے ہم نے ریاض کا ایک خوبصورت حصہ دیکھ لیا، اور اس پر جھٹ سے ایک ولاگ بھی بنا ڈالا۔ وہاں پر بہت بڑا ویکسی نیشن سنٹر تھا جو منسٹری آف ڈیفنس کے زیر انتظام کام کر رہا تھا۔ انتظام بے حد عمدہ تھا اور بہت بڑی تعداد میں ویکسین لگنے کے باوجود کہیں پر کوئی گڑ بڑ اور شور و ہنگامہ نہیں تھا۔
مجموعی طور پر ویکسین لگانے میں سب کو برابر رکھا گیا ہے۔ یہاں تک کہ سیاحتی ویزے پر آنے والوں کو بھی حکومت کی طرف سے مفت ویکسین لگائی گئی ہے۔ یکم ستمبر سے ویکسین کی دو خوراکوں کے بغیر کسی بھی دفتر، مال یا عوامی جگہ پر داخلہ ممنوع ہے۔ اگست کے آخری ہفتے میں جن مریضاؤں نے ویکسین نہیں لگوائی تھی، وہ بار بار پوچھتی تھیں کہ ہم جب

پیدائش کے لیے آئیں گے تو ہسپتال ہمیں اندر داخل ہونے سے منع تو نہیں کر دے گا! یوں تو حمل اور رضاعت کے دوران ویکسین ممنوع نہیں ہے، اور ہم اپنی سب مریضاؤں کو یہی بتاتے ہیں۔ لیکن پھر بھی کچھ تعداد ایسی تھی جو پیدائش کے بعد ویکسین لگوانے کا انتظار کر رہی تھی۔
ایک اور بات جو ہمیں بہت متاثر کن لگی، وہ یہ ہے کہ کوئی بھی علامات کو چھپاتا نہیں ہے۔ مریض فوراً کورونا کی تشخیص کراتے ہیں تاکہ بیماری کا علم ہو جائے اور علاج ہو سکے اور احتیاط بھی کرتے ہیں۔ ہماری بہت سی مریضوں نے ہمیں خود اپنے کووڈ کے بارے میں بتایا۔ جلد تشخیص اور بہترین سہولتوں کی بدولت یہاں پر کورونا کی وجہ سے ہونے والی اموات کی شرح بہت کم ہے۔
ہم نے ہر ایک کو ماسک لگائے ہوئے اور باقاعدہ منہ اور ناک دونوں ڈھانپے ہوئے دیکھاہے۔ لیکن وطن عزیز میں ماسک کے جتنے استعمال دیکھے ہیں، وہ یہاں نظر کبھی نہ آئے۔ سال رواں کے آغاز میں ہم جب وطن گئے تو ہر جگہ ماسک نظر آئے۔ گاڑی کے ڈیش بورڈ پر، لوگوں کے ہاتھوں میں، خواتین کے پرس کے اندر، گھروں میں چابی لٹکانے والی جگہ پر، بازاروں میں بکتے ہوئے، کان پر چڑھے ہوئے لیکن منہ سے نیچے، گلے میں لٹکے ہوئے۔ ایک ہی ماسک کے ساتھ منہ اور ناک دونوں کو کور کیے ہوئے دیکھنے کا اتفاق ہمیں بہت کم ہؤا۔اور جہاں ماسک اور ہاتھ دھونے کا اہتمام دیکھا، ان خاندانوں میں کورونا کے کیس بھی نہ ہونے کے برابر ملے۔
مملکت میں اب کورونا کے کیس نہ ہونے کے برابر رہ گئے ہیں، لیکن ابھی بھی احتیاط بہت ہے۔ پچھلے دنوں ہماری ایک سعودی کولیگ کی بھانجی کی شادی تھی۔ دلہن،دلہا اور دونوں خاندان شادی کے لیے بحرین گئے۔ بے حد محدود دعوت تھی، جس میں صرف قریبی عزیز شریک تھے۔ اس کے باوجود جس ہوٹل میں تقریب تھی انہوں نے پارکنگ سے ہی چیکنگ شروع کر دی تھی۔ اور یہ سلسلہ شادی کی تقریب کے دوران بھی جاری رہا۔ بقول ہماری دوست کے، شادی کی تھکاوٹ ایک طرف اور چیکنگ کی تھکاوٹ دوسری طرف۔
جہاں ویکسین اور کورونا کا ذکر ہو رہا ہے، وہیں لگے ہاتھوں ہم آپ کو وبا کے دوران اپنے مدینہ اور مکہ شریف کے اسفار کا احوال بھی سنا دیتے ہیں۔ پچھلے سال اکتیس جولائی کو عید الاضحی تھی اور ہماری عید کی ڈیوٹی تھی۔ یکم اگست کو ہم صبح نو بجے فارغ ہوئے، گھر والے تیار ہو کر ہمیں لینے کے لیے ہسپتال آئے۔ پروگرام یہ تھا کہ ہم ہسپتال سے ہی مدینہ شریف روانہ ہو جائیں گے۔ اگرچہ سعودیہ میں موسم گرما دن کے وقت سفر کرنے کے لیے موزوں نہیں ہے ، خاص طور پر دوپہر کے چند گھنٹے ، لیکن ہم نے یہ فیصلہ چھٹیوں کی قلت کی بنا پر کیا۔ ہم جب سامان اٹھا کر جلدی جلدی نکلنے لگے تو ہماری عینک غائب ہو گئی۔ عینک کے بغیر تو ہمیں آدھا دکھائی دیتا ہے۔ سب کچھ دھندلا دھندلا نظر آتا ہے۔ ہم ڈھونڈ ڈھونڈ کر تھک گئے لیکن عینک نہ ملی۔ پوری کمرے میں ایک بستر تھا اور ایک صوفہ۔ آخرکار جب آدھا گھنٹہ گزر گیا اور ہم مایوس ہو گئے تو عینک اسی بستر سے مل گئی جہاں سے ہم ڈھونڈ رہے تھے۔ ہمیں تو لگتا ہے یہ کسی ایسے جن کی کار ستانی تھی جسے کافی عرصے سے مدینہ شریف جانے کا موقع نہیں ملا، اور اسے ہم پر رشک آ رہا تھا۔ بہرحال، ہم فورا ً بھاگ کر گاڑی میں پہنچے اور سفر شروع ہو گیا۔ کچھ نہ پوچھیے کہ کیا کیفیت تھی۔ ایک تو کافی مہینوں کے بعد سفر اور وہ بھی مدینہ کا۔ دل بے حد بے قرار تھا ۔ شکر ہے کہ گرمی کے باوجود سفر خیریت سے گزر گیا۔
اس وبا کی بدولت کئی نئے مشاہدات ہوئے۔ ہم نے زندگی میں پہلی بار مدینہ طیبہ کو اتنا خالی پایا۔ ہمارے ہوٹل پہنچنے کے ساتھ ہی مغرب کی اذان ہو گئی۔ ہمارے شوہر فورا ًنماز کے لیے حرم نکل گئے۔ ہم بھی بھاگم بھاگ حرم کی طرف چل پڑے۔ راستے میں اذان سنتے جا رہے تھے۔ سڑک پر بہت کم لوگ تھے، اور ان میں اکثریت ہمارے پاکستانی بھائیوں کی تھی۔ حرم نبوی صلی اللہ علیہ وسلم بالکل سامنے تھا اور مشکل سے دو منٹ پیدل راستہ تھا۔ اس لیے ہم بڑے مزے میں ماحول سے لطف اٹھاتے ہوئے، مدینہ شریف کی فضاؤں اور ہواؤں کو محسوس کرتے ہوئے چلے جا رہے تھے۔ اتنی بے فکری شاید اپنے آبائی شہر میں بھی محسوس نہیں ہوتی جتنی طیبہ شریف میں محسوس ہوتی ہے۔

جب حرم کے پھاٹک پر پہنچے تو وہ بند تھا۔ پہلے تو یقین نہیں آیا کہ ہمارے ساتھ ایسا ہو گیا ہے۔ محافظ نے اشارہ کیا کہ اگلے دروازے سے جائیے۔ کچھ اور افراد بھی جا رہے تھے، ہم بھی ان کے پیچھے پیچھے چل پڑے۔ جب اگلے پھاٹک پر پہنچے تو وہ بھی بند ملا۔ لوگ باہر بیٹھ کر دروازہ کھلنے کا انتظار کر رہے تھے۔ ہم بھی بیٹھ گئے اور ساتھ ساتھ سن گن لینے کی کوشش کی کہ کب تک دروازہ کھلے گا۔ وہاں پر موجود محافظ نے بتایا کہ جب نماز مکمل ہو جائے گی تو پھاٹک کھل جائیں گے تاکہ نمازی باہر جا سکیں اور نئے زائرین اندر داخل ہو سکیں۔ یہ انتظام وبا کی وجہ سے کیا گیا تھا، تاکہ ایک وقت میں ایک خاص تعداد ہی زائرین کی حرم میں موجود ہو۔
اندر داخل ہوئے تو بہت سی خواتین چھوٹے بچوں کو لے کر حرم کے صحن والے حصے میں بیٹھی ہوئی تھیں۔ ہم مرکزی دروازے کی طرف چلے تاکہ مسجد نبوی شریف کے اندر داخل ہو سکیں۔ دروازے پر ہماری صاحبزادی کے بارے میں ان کا خیال رہا کہ ان کی عمر کم ہے، اس لیے یہ اندر نہیں داخل ہو سکتیں۔ ہم نے انہیں یقین دلایا کہ یہ مسجد میں داخلے کی عمر کی ہیں۔ انہوں نے ہماری بات پر یقین کیا اور ہمیں اندر جانے دیا۔
حرم نبوی میں فاصلہ برقرار رکھنے کے لیے نشانات لگے ہوئے تھے۔ حفاظتی تدابیر کے طور پر قالین اٹھا دیے گئے تھے۔ مسجد کے اندر کھانے اور پینے کی سب اشیا ممنوع تھیں۔ آب زمزم بھی عارضی طور پر دستیاب نہیں تھا۔ قرآن کا نسخہ بھی سب کو اپنا ہی لے کر آنا تھا۔ ماسک اور ہاتھوں کی صفائی ضروری تھی، درجہ حرارت بھی باقاعدگی سے ماپا جا رہا تھا۔ ان سب قوانین پر عمل درآمد سو فی صد تھا۔ ہم بہت ڈرتے ڈرتے حرم گئے تھے، لیکن وہاں یہ سب انتظامات دیکھ کر سب ڈر اور خوف دور ہو گیا۔
ہر بلاک میں ایک ہوٹل، ایک بقالہ اور ایک تحائف کی دکان کھلی تھی۔ باقی سب عارضی طور پر بند تھا۔ ایک دن حرم کے بالکل ساتھ ایک مال میں ہم داخل ہوئے۔ وہاں سب دکانیں بند نظر آئیں سوائے ایک کافی شاپ کے، جس پر ایک پاکستانی خاندان بیٹھا ہؤا تھا۔ ہم ابھی تک اپنے آپ کو کووڈ کی وجہ سے آنے والی تبدیلیوں سے ہم آہنگ نہیں کر سکے تھے۔ ہماری آنکھوں کو ابھی یہ سب دیکھنے کی عادت نہیں ہوئی تھی اور دماغ ابھی اس سوچ کا عادی نہیں ہؤا تھا۔ ہم یہ سمجھے کہ نماز کا وقفہ ہے اس لیے سب دکانیں بند ہیں۔ ایک دکان ہمیں کھلی نظر آئی تو ہم اس میں داخل ہو گئے۔ دکان دار سے ہم نے پوچھا کہ باقی دکانیں کب کھلیں گی؟ اس نے جواب دیا کہ یہ دکانیں اب چھے مہینے کے بعد لگیں گی جب عمرے کے ویزے اور سفر دوبارہ کھلے گا۔ اس وقت ہمیں اپنی کم علمی اور معصومیت کی سمجھ آئی، اور ہمیں اس وبا و آزمائش کے اثرات کا اندازہ ہؤا۔ بہرحال ہم نے جو خریدنا تھا، وہ خریدا اور واپس اپنے ہوٹل میں آ گئے۔ کھانے کے لیے بھی تھوڑی بہت دکانیں کھلی تھیں، لیکن بہت تنظیم کے ساتھ تاکہ زائرین کو تکلیف نہ ہو۔
ایک دن ہم عشا کی نماز پڑھ کر فارغ ہوئے تو موسلادھار بارش شروع ہو گئی۔ کافی دیر تو ہم بارش کے تھمنے کا انتظار کرتے رہے۔ لیکن جب اس کی شدت کافی دیر تک بھی کم نہیں ہوئی تو اللہ توکل ہم نے ہوٹل کی طرف چلنے کی ٹھانی۔ برستی بارش میں کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا کیونکہ مسلسل بوچھاڑ پڑ رہی تھی۔ ہوٹل میں داخل ہوئے تو بارش کی شدت بھی کم ہو گئی۔
ہمارے ہوٹل کے راستے میں جو تحائف کی دکان تھی، اس سے ہم نے کچھ خریدا۔ جب ادائیگی کرنے لگے تو صاحب دکان نے کارڈ کے ذریعے ادائیگی وصول کرنے سے معذرت کر لی۔ ہم نے میاں صاحب کو فون کیا تاکہ وہ جب ہوٹل واپس آئیں تو رقم ادا کر کے ہماری چیز دکان سے اٹھاتے لائیں۔ دکان دار نے ہمیں کہا کہ آپ اپنی چیز لے جائیں۔ آپ کے شوہر جب آئیں گے تو وہ ادائیگی کر دیں گے۔ ہم نے کچھ حیران اور کچھ پریشان ہو کر دوبارہ پوچھا۔ حیران ہم ان کے اپنے اوپر اعتماد پر ہوئے، اور پریشانی اس بات کی تھی کہ کہیں میاں صاحب بھول نہ جائیں یا کسی وجہ سے ادائیگی رہ نہ جائے۔ لیکن ان صاحب نے اصرار کے ساتھ ہماری چیز ہمارے ہاتھ میں پکڑا دی۔ ہم وہ لے کر ہوٹل میں آ گئے۔ اس وقت ہم نے شکر ادا کیا جب علم ہؤا کہ دکان پر رقم ادا ہو گئی ہے۔
(جاری ہے)
٭ ٭ ٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x