ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادھوری سی عید – بتول اکتوبر ۲۰۲۱

طالبان کی فتح نے ان وقتوں کی یاد کو تازہ کردیا ہے جب روس حملہ آ ور تھا اور شوقِ شہادت ہمارے جوانوں کو چین نہ لینے دیتا تھا۔شہیدِ کنّڑ، فرحت اللہ بھائی کا مشک بوتذکرہ

 

فرحت اللہ بھائی مانسہرہ سے آگے تور غر کے قریب پہاڑوں کے درمیان ایک خوبصورت وادی بیلیاں کے رہنے والے تھے۔ ان کے گاؤں جانے کے لیے پہلے ہم مانسہرہ پہنچتے، وہاں سے ویگن میں آگے جاتے، پھر سوز وکی میں جا کر ایک موڑ پر اتر جاتےاور چند کلومیٹر پیدل سرسبز وادیوں ، چاول کے کھیتوں سے ہوتے ہوئے اپنے فرحت اللہ بھائی اور ان کی ماں کی محبتوں کے پاس پہنچ جاتے۔ رات گزار کر صبح ماں جی کے ہاتھ کے گرم گرم پراٹھے کھانے کے بعد فرحت اللہ بھائی کو اپنے ساتھ پشاور لے آتے۔
ماں جی کا ذکر کرتے ہی آنکھیں بھیگ گئیں ۔ کیوں …..آگے شاید معلوم ہو جائے!
فرحت اللہ بھائی بہت شرمیلے سے تھے۔ خاموش طبع ، بہادر اور ملنسار۔ایک بار پشاور کے چوک یادگار دفتر میں کسی ساتھی نے شامت سے ان کےنئے جوتوں کی تعریف کردی۔اس جوان نے فوری اپنے جوتے اتار دیے اور ساتھی کو کہا کہ اب یہ آپ کے۔وہ ساتھی پریشان کہ یار مجھے اچھے لگے لیکن میرا یہ مطلب نہیں۔
لیکن فرحت اللہ بھائی بضد کہ اب یہ آپ کے جوتے!
ان کو جہاد افغانستان سے جذباتی حد تک وابستگی تھی۔ اچانک چلے جاتے پھر بہت مشکل سے واپس آتے۔ ایک بار ان کے بھائی بھی لینے گئے اور بہت انتظار کے باوجود وہ ان کے ساتھ نہیں آئے۔
خیر جب میرے ہاتھ آئے تو میں نے آہستہ آہستہ اپنی ترجیہات کی طرف راغب کرنے کی کوشش شروع کردی۔ ان کی پڑھائی کی طرف توجہ دلاتا رہا اورزور دیتا کہ اس وقت پاکستان کے طلبہ کا اصل جہاد اچھی تعلیم حاصل کرنا ہے، ان اداروں کو علم و اخلاق کے مراکز بنانا ہے۔
میری اس زمانےایک سوچ تھی جو کہ اب مزید پختہ ہو گئی ہے کہ جمعیت کو بنیادی طور پر پاکستان کے تعلیمی اداروں پر فوکس کرنا چاہیے۔ یہی اس کا اصل میدان ہے ۔ ان علم کے مراکز میں بہترین تعلیمی کارکردگی اور کردار کی خوبصورتی کے ساتھ اپنا مقام پیدا کرنا چاہیے۔اس لیے اپنے ساتھیوں کی تعلیمی کامیابی ہمیشہ سے میری ترجیح رہی۔ اسلامیہ کالج میں اگر جمعیت کا کوئی کارکن اپنی کلاس کے دوران باہر گھومتا نظر آتا تو پھر اس کی میں خود کلاس لیتا۔ایک دفعہ اپنے حبیب الرحمان اورکزئی بھائی ناظم کالج کو ان کی کلاس کے دوران باہر ٹہلتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑا تھا۔ یہ کہانیاں پھر کبھی!
خیبر میڈیکل کالج والے ساتھی میری اس کمزوری کا بھرپور فائدہ اٹھاتے اور اکثر PREP کی چھٹی پر رہتے ۔ جس پر دوسری یونیورسٹیوں کے ساتھی کبھی کبھی گپ شپ میں طنز بھی کر لیتے کہ PREPوالے پھر غائب ہیں۔
تو بات فرحت اللہ بھائی کی ہورہی تھی۔ایک بار وہ اور میں چوک یادگار دفتر کی بلڈنگ کی سیڑھیوں پر اتر رہے تھے۔ انہوں نے اچانک میرے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے روک کر کہا۔
’’عامر بھائی مجھے آپ سے بہت محبت ہے‘‘۔
میں مسکرایا اور کہا، ’’مجھے بھی آپ سے محبت ہے فرحت اللہ بھائی!‘‘اور موقع بھانپتے ہوئے فرمائش کردی،’’اب آپ کومیری ایک بات ماننی ہوگی‘‘ ۔
’’کیا ؟‘‘ وہ حیران ہوئے۔
’’بس باقی سارے کام چھوڑ کر اپنی پڑھائی پر توجہ دینی ہوگی‘‘۔
انہوں نے تو پہلے بھی کبھی اپنے ناظم کی بات نہیںٹھکرائی تھی۔ بس ہمیشہ’’ جی “کہہ کے کام پر لگ جاتے۔
ہاں یاد آیا۔ایک بار بیچارے اپنے گاؤں مانسہرہ سے سارا دن

کاسفر کر کے بیگ اٹھائے تھکے ہارے پشاور دفتر پہنچے۔ان کے آنے سے پہلے مجھے مرکز سے کال آئی کہ کشمیر میں دعوتی مہم کے لیے پشاور سے فوری کچھ لوگ چاہئیں ۔ دو تین اور ساتھیوں کو کہا اور پھر فرحت اللہ بھائی پر نظر پڑی۔
میں نے کہا،’’ آپ تھکے تو ہوں گے لیکن ابھی رات کو ایک ہفتے کے لیے پنڈی مرکز روانہ ہونا ہے‘‘۔
’’جی ناظم صیب‘‘۔انہوں نے کہا اور انہی کپڑوں اور اسی بیگ کے ساتھ روانہ۔میں بعد میں سوچتا رہاکتنا تھکا ہؤا ہوگا فرحت اللہ بھائی لیکن ہم ناظمین بھی کبھی کبھی بڑے ظالمین بن جاتے تھے۔
خیر ….. انہوں نے پڑھائی پر فوکس کی بات مان لی اور وہ یہ بھی سمجھ گئیے کہ میں” کہاں‘‘ بار بار جانے سے روک رہا ہوں۔ میں نے تاکید کرتے ہوئیے کہدیا کہ فرحت اللہ بھائی خوب محنت کرنی ہے اور رات کو دو دو بجے تک پڑھنا ہے۔
ہماری تو ویسے بھی ساری مصروفیات رات گئے تک جاری رہتیں۔جب ساری دنیا صبح یونیورسٹی کی طرف آرہی ہوتی میں اس وقت فجر کی نمازوں کے جائزے سمیت ساری ذمہ داریاں ادا کرکے کالے موٹر سائیکل پر الٹی سمت میں یونیورسٹی سے باہر گھر ناشتے کے لیے جارہا ہوتا۔میرا گھر یونیورسٹی کے قریب تھا اور کوشش ہوتی کہ کم از کم ناشتہ والدین کے ساتھ ہو۔کبھی کبھی عجیب سا لگتا کہ سارے طلبا اور پروفیسر روڈ نمبر ۲ کے ایک طرف جا رہے ہیں اور میں دوسری طرف۔
میں ایک بار رات کے دو بجے سے تھوڑا پہلے نیو ہاسٹل فرحت اللہ بھائی کے کمرے میں پہنچ گیا۔دیکھا تو شہزادہ چارپائی پر کتابیں بچھائے پڑھائی میں مصروف ….پوراپڑھاکو قسم کا نیوٹن لگ رہا تھا۔ اچھا لگا۔میں نے ویسے ہی پوچھا ،’’یار دو بج گئے ابھی تک سوئے نہیں‘‘۔
کہنے لگا،’’ناظم صیب ، آپ کا حکم تھا کہ دو بجے تک پڑھنا ہے۔ اس لیے میں اب ہر روز دو بجے تک پڑھائی کرکے سوتا ہوں‘‘۔
اس دوران وہ اکثر محاذ پر جانے کی معصومانہ درخواست بھی کر لیتا مگر میں ہر بار ظالمانہ اور ناظمانہ طریقے سے رد کرتے ہوئے پڑھائی اور کالج کے معاملات پر توجہ دلاتا۔
لیکن ایک شام …..
نماز مغرب کے بعد قاسم ہال اور نیو ہاسٹل کے سامنے والی سڑک پر فروٹ شاپ کے ساتھ فرحت اللہ مجھے دیکھ کر بھاگتا ہؤا آیا۔
’’کیا ہؤا فرحت اللہ بھائی؟‘‘
’’ناظم صیب …..کنّڑ (افغانستان) میں نیا محاذ کھلا ہے اور میں ادھر بیٹھا ہوں۔میرے ساتھی مشکل میں ہیں ،مجھے بلا رہے ہیں‘‘۔
اچھی طرح یاد نہیں لیکن شایدوہ رونے لگا تھا۔
میں گم سم اس کو دیکھتا رہاکہ اب کیا جواب دوں …..جو جواب دینا چاہ رہا ہوں اس پر گناہگار نہ ہو جاؤں ….. اس کا دل بری طرح ٹوٹ نہ جائے …..اور جو جواب وہ مانگ رہا تھا وہ میں دینا نہیں چاہ رہا تھا۔تھوڑاخوف بھی تھا کہ اگر اس بار روکنے کی کوشش کی تو شاید میری نظامت اور محبت دونوں ہار جائیں۔
بس بغیر جواب دیےمیں نےاسے گلے لگا یا اور چلا آیا۔
اگلے دن پتہ چلا کہ فرحت اللہ بھائی جا چکے ہیں۔اورمیرے دل نے ایک ہلکی سی سرگوشی کی،عامر جمال، تمہارا فرحت اللہ بھائی واقعی جا چکا ہے۔
کچھ دنوں بعد صبح صبح گھر کی گھنٹی بجی …..باہر دیکھا تو عالمگیر آفریدی بھائی موٹرسائیکل کے ساتھ کھڑے تھے۔ملتے ہی کہا۔
’’عامر بھائی ! فرحت اللہ بھائی …..‘‘
اور اچھی طرح یاد ہے کہ میں نے ا ن کا جملہ مکمل کیا ۔
’’شہید ہو گئے!‘‘
آفریدی نے سر جھکا لیا،’’شام تک میت مرکز پہنچ جائے گی‘‘۔
میں نے انہیں ر خصت کیا اور کچھ دیر فرحت اللہ بھائی کے ساتھ گزرے لمحات میں گم ہو گیا۔ جب والدہ کا خیال آتا تو ہل جاتا …..
کیسے بتاؤں گا ان کا چھو ٹا لاڈلا بیٹا اب اس دنیا میں نہیں۔
شام کو مرکز پہنچا تو میت پہنچ چکی تھی جسے اب ان کے گاؤں لے کر جانا تھا۔ ان کے افغانی ڈرائیور کو ہم نے بہت کہا کہ کا کا تم سارا دن

گاڑی چلا کر تھک چکے ہو ،یا تو یہیں رک جاؤ اور یا الگ گاڑی میں آرام سے آجاؤ ۔
وہ نہیں مانا۔کہا “فرحت اللہ نے محاذ پرمجھے کہا تھا کہ جب میں شہید ہو جاؤں تو تم ہی نے مجھے میرے گائوں لے کر جانا ہے۔ میں وعدہ کر چکا ہوں‘‘۔
تقریباً ساری رات سفر کے بعد فجر کے وقت ہم ان کے گاؤں بیلیاں پہنچ گئے۔
جنازے میں کافی ساتھی پہنچے ہوئے تھے ۔
لوگ دُکھی بھی تھے لیکن ان کی شہادت کو قدر کی نظر سے بھی دیکھ رہے تھے۔ اللہ ان کی شہادت کو قبول فرمائے اور اعلیٰ جنتوں میں رکھے، آمین۔
میں اس کے بعد کئی بار فرحت اللہ بھائی کے گاؤں جاتا رہا ۔ماں جی سے مل لیتا،کبھی کبھی کراچی سے آئے بڑے بھائی اور ڈاکٹر صاحب سے بھی ملاقات ہو جاتی۔خاص کر عید کے موقع پر میرا معمول تھا کہ پہلا دن اپنے گھر پشاور میں اور دوسرا یا تیسرا دن فرحت اللہ بھائی کے گھر او گئی مانسہرہ پہنچ جاتا۔
ان کی ماں کے پیار میں کوئی کمی نہیں آئی بلکہ مزید بڑھ گیا۔ انہیں شاید ہم میں اپنا فرحت اللہ دکھائی دیتا۔ کچھ دیر کے لیے اوپر آکر ہمارے ساتھ بیٹھ جاتیں ۔صبح ان کے ہاتھ کا ناشتہ کرکے ہم فرحت اللہ بھائی کے کزن کے ساتھ اوپر پہاڑ پر قبر کی طرف چلے جاتے۔اب بھی ان کے گھر سے قبر کا راستہ اچھی طرح یاد ہے۔ پہاڑوں کے بیچ ایک چھوٹی سی پگڈنڈی پر ہم کچھ دیر چلتے ۔راستے میں ایک چشمہ یا کوئی کنواں بھی آتا جس سے گاؤں کے بچے اور خواتین پانی بھر رہے ہوتے۔
پہاڑ کے اوپر چڑھ کر ایک کھلی سی جگہ پر فرحت اللہ بھائی کی قبر کے ساتھ تھوڑی دیر بیٹھ جاتے۔ ان کی معصوم باتوں، سچائی اور اخلاص بھری یادوں کو جمع کرتے،دعا کرتے۔دکھ کے ساتھ ساتھ دل کو ایک عجیب سا سکون مل جاتا۔
ہمارے وہاں جانے سے فرحت اللہ بھائی کی ماں کی اور ہماری وہ ادھوری سی عید مکمل ہو جاتی!
٭ ٭ ٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x