ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

بند دروازہ – بتول اگست ۲۰۲۱

ستّر کی دہائی میں لکھا گیا افسانہ جو جدیدیت کے ہاتھوں تہذیبی کشمکش کا شکار ہوتے مشرقی معاشروں میں ہمیشہ ترو تازہ رہے گا

 

’’دلی جا کرکہیں اپنے ہوش و حواس نہ کھو بیٹھنا‘‘
یہ بات چھوٹی سے پیارے نے کوئی دسویں بار کہی تھی۔
جیسے چھوٹی بالکل ہی سرن دیوانی ہے ۔ وہ خود شہر نہ گئی تو کیا ہؤا، اس کی دو سہیلیاں شہر میں بیاہی گئی تھیں ۔ جب وہ میکے سے لوٹیں تو چھوٹی کی قابلیت میں شدید اضافہ ہؤا تھا ۔ ان کی نقل میں چھوٹی بھی کمر پر سے قمیض کو تنگ کرنے لگی تھی اور خورجے کے میلے سے پیارے اس کے لیے ناخن رنگنے کا رنگ لایا تھا جنہیںناخنوں پر لگانے کے بعد چھوٹی کی انگلیاں چم چم چمکنے لگی تھیں۔
وہ بسولی کی فیشن ایبل بہو کہلاتی تھی جو ہمیشہ پنڈلیوں پر منڈھا ہؤا چست پاجامہ پہنتی تھی ۔مِسّی کی بجائے لاکھا جماتی اور شہر والیوں کے انداز میں آڑی مانگ نکال کر بال کانوں تک نیچے گرا دیتی تھی ایسے بال پیارے نے ایک پرانے فلمی رسالے میں مس لیلاچٹنس کے دیکھے تھے اور فوراً اس نے یہ ہیئر سٹائل چھوٹی کو دکھایا تھا ۔
چھوٹی لیلا چٹنس سے کیا کم تھی !وہ تو کھلا ہؤا گلاب تھی جس پر دس گائوں کے جوان مرتے تھے، لیکن وہ سیانی ہوئی تب اس کے ہوش و حواس پر پیارے چھایا ہوا تھا۔ یہ بات سارے گائوں میں مشہور تھی کہ پیارے کا بیاہ اگر اس سے نہ ہوا ہوتا تو پیارے زہر کھا لیتا۔ وہ بھی گھر کے کنویں میں ڈوب مرتی۔
لیکن اتنی چاہت کے باوجود پیارے نے کبھی اپنے آپ کو شاہجہاں نہ مانا کہ ممتاز محل کی آخری خواہش بن سکے ۔ اس لیے چھوٹی کئی دن سے انتظار کر رہی تھی کہ پیارے اُسے پیٹے۔ اس لیے اس دن شیشے کے سامنے کھی کھی ہنسنے پر پیارے نے اُسے رکابی کھینچ ماری اس نے اپنا بچائو نہ کیا بلکہ بندر کے گھائو کی طرح اپنے جسم کو نوچ نوچ کر لہو لہان کر لیا۔
پھر ہمیشہ کی طرح جب رات کو پیارے اسے منانے آیا تو جھٹ اس نے اپنی شرط پیش کر دی اور شاہجہاں کو جھکنا پڑا ۔
پھر جب نئی فصل کٹی تو چھوٹی کی زندگی میں وہ دن آئے جو پہلے کبھی نہ آئے تھے ۔گھر میں دس بھینسیں تھیں فصل کے سارے پھل آتے تھے ۔ اس کے سسرال میں کھانے پینے کی کمی نہ تھی ۔ اس لیے چھوٹی سولہ برس کی عمر میں بیس بائیس برس کی معلوم ہوتی تھی ۔ اس کے گالوں پر ایسے قدرتی گلاب مہکتے تھے جو گھنٹوں آئینے کے سامنے بیٹھ کر برش اور رنگوں کی مدد سے بھی شہر والیوں کو نصیب نہیں ہوتے تھے ۔ اس کا بدن سونے چاندی کے زیوروں سے ڈھکا رہتا تھا ، اور اس کے لبوں پر پیارے کے پیار کے چراغ جلتے تھے۔
جبھی تو اس کی ساس پیارے کو بیوی کا مجنوں کہتی تھی۔
اس بار شہر دیکھنے کی بات چھوٹی نے یوں اٹھائی کہ پیارے کے ساتھ ساتھ اس کے ساس سسر بھی راضی ہو گئے اور پورے گائوں میں فکر کے ساتھ کہتے پھرتے کہ ان کا بیٹا بہو کو سیر کرانے دلی لے جا رہا ہے جہاں پیارے کی پھپھو رہتی ہے ۔
پھپھو کے یہاں پہنچ کر پیارے نے ناشتہ دان ، صندوق اور گٹھڑیاںسنبھالیں’’ دیکھ لو کوئی چیز رہ تو نہیں گئی کوئی زیور ویور‘‘۔
چھوٹی نے ایک نگاہ خالی سکوٹر پر ڈالی اور اپنے زیوروں کو گننا چاہا لیکن کہاں تک گنتی ؟ چلتے وقت اس کی ساس نے اسے سونے کی مورت بنا دیا تھا وہ پہلی بار شہر جا رہی تھی اپنی پھوپھی ساس کے یہاں۔ اس لیے پیارے کی اماں نے سوچا اس کی نند کا میاں چاہے کتنا ہی پڑھا لکھا اور کمائو ہو اس کی لڑکیاں لڑکے کتنا ہی پڑھ لکھ گئے ہوں لیکن میرا بیٹا بھی کسی سے کم نہیں۔ اللہ کا دیا اس کے گھر میں سب کچھ تھا ۔

لیکن وہ دونوں جب سامان سمیت اندر جانے لگے تو بڑے جھگڑوں سے نمٹنا پڑا ۔ پہلے تو شیر کی صورت کے ایک خونخوار کتے نے ان کے لتے لے ڈالے۔ پھر ایک نوکر نے نہایت شستہ الفاظ میں ضروری پوچھ گچھ کی۔ اس کے بعد اندر پہنچے تو سامنے ورانڈے میں تین چار لڑکے لڑکیاں کرسیوں پر بیٹھے تاش کھیل رہے تھے۔ وہ سب پتے رکھ کر چونک پڑے اور غور غور سے ان دونوں کو دیکھنے لگے ۔ چھوٹی نے غیر مردوں کو دیکھتے ہی اپنے سرخ ریشمی برقعے کی نقاب گرا لی تھی ۔ لیکن پیارے کا لحیم شحیم بدن سیاہ واسکٹ میں لگے سونے کے بٹن ،اس کی سرخ مخمل کی کانپوری ٹوپی اور موچی کے ہاں بنے ہوئے بڑے بڑے مضبوط جوتے اور پھر سالار جنگ اول کی طرح چڑھی ہوئی مونچھوں کو اپنے گھر میں دیکھ کر وہ سب حیران رہ گئے ۔اتنی دیر میں پھوپھو نکل آئیں اور پیارے باہر کے طنزیہ قہقہوں کو بھول کر پھوپھو سے لپٹ گیا۔ پہلے تو وہ جھجکیں، گھبرائیں پھر اس کے پھوپھو کہنے پر بولیں ۔
’’اچھا اچھاتم پیارے ہو ؟ بسولی سے آئے ہو ۔ ماشاء اللہ کتنے بڑے ہو گئے ہو؟‘‘
’’ بلکہ ضرورت سے بہت زیادہ !‘‘ باہر کسی نے دبی زبان میں کہا اور قہقہوں کا سیلاب پھر امڈ پڑا۔
’’ ہاں تم کیسے آئے ۔ سب اچھے تو ہیں ؟‘‘ باہر کے قہقہوں کو نظر انداز کر کے پھو پھو ساڑھی کے پلو سے پنکھا جھلنے لگیں ۔ انہیں برقع پوش چھوٹی ابھی تک نظر نہ آئی تھی اور پیارے جھینپا جا رہا تھا کہ تین برس کی بیاہی بیوی کا پھوپھو سے کیسے تعارف کرائے ۔
چھوٹی میں بھی اتنی ہمت نہ تھی کہ پھوپھی ساس کو سلام کرلیتی۔ وہ توآنکھ بند کیے گردن جھکائے بیٹھی تھی کہ منہ دکھائی کی سلامی اور دعائیں لے تو آنکھیں کھول کر گھر دیکھے۔ آخر پیارے نے بڑی جرأت کے بعد کہا ۔
’’ آگے آ کر پھوپھو کو سلام کیوں نہیں کرتیں؟ ‘‘
’’ کون … اچھا تمہاری دلہن بھی ساتھ آئی ہے ‘‘پھوپھو نے گھوم کر پیچھے دیکھا اور مزید گھبرا گئیں۔
’’ برقعہ تو اتارو دلہن … تم لوگ ادھر کمرے میں چلے آئو … افوہ… اتنی بہت سی گٹھڑیاں پوٹلیاں کیوں ساتھ لائے ہو۔ آئو اس کمرے میں بیٹھو‘‘۔
جوتے اتارنے میں پیارے نے غور کیا کہ پھوپھو اب بالکل بدل چکی ہیں۔ وہ سفید وائل کی ساڑھی پہنے تھیں اور بہت تنگ کھلی کمروالا بلاوز تھا ۔ ان کے سفید بالوں کا جوڑا بندھا تھا ۔ پھوپھو بوڑھی ہو گئی تھیں ۔ اس کے باوجود ان کی چال ڈھال میں بہت تیکھا پن آگیا تھا ۔ چھوٹی میں چھپی ہوئی عورت کی چھٹی حس نے فوراً تاڑ لیا کہ پھوپھو ان کے آجانے سے بالکل خوش نہیں ہوئیں بلکہ بہت گھبرا رہی ہیں۔
’’ تم نے آخرہمارا مکان کیسے ڈھونڈ نکالا؟‘‘ پھوپھو نے نہایت بیزاری سے ان کے سامان پر نظر ڈال کر ماتھے سے پسینہ پونچھا۔
لیکن پیارے کو اس بات پر تعجب ہو رہا تھا کہ اتنی دیر ہو گئی اور پھو پھو نے ابھی تک اپنے بوڑھے بیمار بھائی کی خیریت نہیں پوچھی جو ابھی تک دن رات اس بات پر آنسو بہایا کرتا ہے کہ اس نے اپنی اکلوتی بہن کالے کوسوں شہر کے مفلس قلاش پڑھے لکھوں میں بیاہ دی ۔
وہ انہیں اپنے کمرے میںبٹھا کر باہر گئیں اور ہنسنے والے لڑکے لڑکیوں کو چپ کرایا۔ پھر اپنے نوکر سے کچھ آہستہ آہستہ باتیں کرنے لگیں ۔ کمرے میں آئیں تو ان پر بد حواسی طاری ہو گئی اور انہوں نے کرسی پر بیٹھ کر پوچھا۔
’’ یہ بتائو تم دلی کیوں آئے ہو ؟‘‘
’’ ویسی آگئے ۔چھوٹی کا بہت جی تھا دلی کی سیر کرنے کو اور پھر ابا نے کہا بہت دنوں سے پھوپھو کی کوئی خیر خبر نہ ملی ہے۔ سو ہم چل پڑے، کیا آپ کو ہمارا خط نہیں ملا ‘‘۔
’’ خط …؟ہاں شاید ملا تھا ‘‘۔ پھوپھو نے غیر یقینی لہجے میں کہا ۔ پھر ان کی نظر چھوٹی پر گئی جو برقعہ اتار چکی تھی۔ ہائے اللہ !کیسی خوبصورت اور صحت مند لڑکی ہے ۔لیکن کتنے بے شمار زیور اس پر لدے ہوئے تھے ۔ خدا کی پناہ۔
’’پیارے تمہاری دلہن تو بہت خوبصورت ہے لیکن اتنے زیور پہنا کر ٹرین کا سفر کیوں کیا آج کل زمانہ بہت برا ہے‘‘ ۔

’’یہ سب اس کے اپنے ہیں ۔ابھی اور ہیں، گھر چھوڑ آئی ہے ‘‘۔ پیارے نے بڑے فخر سے کہا ۔
’’ تم نے سنا پھوپھو اب تو ہم نے کھیتوں میں ہل چلانے والا انجن خرید لیا ہے اور بھئی اب تو پار والی زیارت تک زمین اپنی ہو گئی ہے اور وہ جو جمن سے ہمارے کنویں پر جھگڑا ہوا تھا نا… ‘‘
’’ میں ابھی آئی ‘‘۔
پھوپھی اٹھ کر باہر چلی گئیں زمین اور کھیتوں کی باتیں پیارے کے دل میں مچل رہی تھیں۔ اسے یقین تھا کہ پھوپھو بھی یہ ساری باتیں سننے کے لیے بے قرار ہو ں گی۔
سنتے ہیں عورت چاہے کتنی ہی بوڑھی ہو جائے لیکن اسے وہ کوے بھی پیارے لگتے ہیں جو میکے کی طرف سے اڑ کر آئیں۔
چھوٹی خالص گنوارن بنی ، آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر ایک ایک چیز کو دیکھ رہی تھی۔
اتنی دیر میں ایک لڑکی اندر آئی۔ گوری ،دبلی پتلی سی ، ایک بڑا سا بیگ ہاتھ میں لیے ، اس کے ہونٹوں پر بہت گہری سرخی لگی ہوئی تھی اور بالوں کا ایک بڑا سا ٹوکرا بنا سر کے بیچ میں رکھا تھا ۔ پیارے نے اسے غور سے دیکھا تو نظریں جھک گئیں کیونکہ وہ شاید بلائوز پہننا بھول گئی تھی اور صرف کالی چولی پہنے ہوئے تھی جس میں سے اس کی ننگی بانہیں اور …اور … اس نے بہت دلچسپی سے پیارے اور چھوٹی کو دیکھا ۔
’’ہیلو …اچھا آپ لوگ آگئے ہیں ؟ابھی ممی نے بتایا ‘‘۔وہ دونوں ہاتھوں میں بیگ لیے بہت دلچسپی سے انہیں دیکھنے لگی۔
’’ تم ربّو ہو … ؟‘‘اس نے بڑی شرمندگی سے کہا اب وہ رعنا ہاشمی ایم اے ہو چکی تھی اور اسے اپنے بچپن کا یہ نام بالکل یاد نہ رہا تھا لیکن یہ نام سن کر اچانک اسے ایک اور بات یاد آئی اس کی نانی کہا کرتی تھی ربو اور پیارے کی ٹھیکرے کی مانگ ہے ۔
اس وقت اس بانکے چھبیلے گنوار کو رعنا نے دیکھا تو اسے وہ بہت برا نہ لگا ۔ لیکن پیارے نے دل میں سوچا اللہ نے اسے کتنی بڑی بلا سے محفوظ رکھا ہے ۔
’’ اچھا تو اب چل دیے میرے کالج کی بس نو بجے جاتی ہے شام کو آپ سے ملاقات ہو گی ‘‘۔وہ جانے لگی تو چھوٹی نے دیکھا اس کی ساڑھی اتنی تنگ تھی کہ چلتے وقت اس کے کولہے تھرک رہے تھے ۔ اچانک چھوٹی ہنس پڑی پھر کئی لوگوں کو کمرے میں آتے دیکھ کر گھونگھٹ کھینچ لیا ۔
یہ سب ورانڈے میں بیٹھ کر ان پر ہنسے والے لڑکے لڑکیاں تھے ۔ ان میں ایک لڑکی شہلا تھی رعنا کی چھوٹی بہن۔ اس نے نہ جانے کیسے ذرا سے کپڑے کو اپنے بدن پر تان لیا تھا کہ وہ نہ تو اچھی طرح چل سکتی تھی نہ بیٹھ سکتی تھی۔ اس کے بال بھی چھوٹی بچیوں کی طرح کٹے ہوئے تھے۔ ان میں اصغر تھا ، رعنا کا بڑا بھائی، دبلا پتلا ، دھان پان ، ابھی یورپ سے ڈاکٹری کی ڈگری لے کر لوٹا تھا ۔ ہندوستان کے دیہات اور دیہاتیوں سے اسے بے حد دلچسپی تھی اصغر اور اس کے دوست سب ہی سوکھے مارے تھے ۔ انہوں نے نہ جانے کس کی پتلونیں چڑھا رکھی تھیں جو رانوں اور کولہوں پر چمٹ کر رہ گئی تھیں۔ یہ سب پیارے کے بہن بھائی اور ان کے دوست تھے۔ ان سب نے پیارے کی دلہن کو بہت غور سے دیکھا ۔ پھر اصغر نے کہا ۔
’’اجی پیارے صاحب آپ تو اب سچ مچ زمیندار معلوم ہو رہے ہیں ‘‘۔
’’ ہیں ہیں ہیں … ‘‘پیارے نے فخر سے دانت نکوس دئیے۔
’’ یار تم نے دلہن کو زیور تو خوب پہنائے ہیں ۔ کیا کہیں کھیتوں میں دفینہ مل گیا ہے ؟‘‘ اصغر کے دوست اکرم نے پوچھا۔ اکرم کی نظریں چھوٹی پر جم کر رہ گئی تھیں۔ اس کا بزنس کچھ اس قسم کا تھا کہ وہ شہروں شہروں گرل فرینڈز ڈھونڈتا پھرتا تھا ۔ لیکن دہلی میں ایسا شاداب حسن کہیں دیکھنے کو بھی نہیں ملتا تھا ۔
پیارے اور چھوٹی فخر سے ہنس پڑے ، پیارے نے سوچااب ان شہری چھوکروں سے کون کہے کہ میاں کھیتوں میں سونا اُگانے کے لیے بڑے فولادی ہاتھوں کی ضرورت ہوتی ہے ۔
پھر اس نے ترس کھانے والی نظروں سے اصغر کی طرف دیکھ کر کہا ۔
’’ اور تم لوگ پڑھ کر نرے صاب بہادر ہی بن کر رہ گئے ہو ۔ کیا

شہر میں کھانے کو بھی نہیںملتا کہ ایسے سوکھے کانٹا ہو گئے ہو ؟‘‘
لیکن چھوٹی کو یہ دبلے پتلے لڑکے بہت اچھے معلوم ہو رہے تھے ۔ دُبلے ہوئے تو کیا ہؤا،انہوں نے بال کتنی اچھی طرح کاڑھے تھے ۔ ان کے کپڑے کیسے اچھے تھے ۔ ان میں سے ایک لڑکا تو بار بارچھوٹی کو تعریفی نظروں سے دیکھ رہا تھا ۔
’’ ہاں یار تم بھی ناحق دلی آئے ‘‘۔ اصغر نے کہا ’’ یہاں تو بدن سے گوشت بھی نوچ لیا جاتا ہے ‘‘۔ اصغر نے ہنس کر اکرم کی طرف دیکھا۔
’’ چھوٹی کا دل بہت تھا دلی دیکھنے کو ۔ زبردستی لے آئی ‘‘۔
’’ اچھا تو اصغر بھائی آپ انہیں دلی کی سیر کرادیجیے ۔ کچھ پکچر وغیرہ بھی دکھائیے ‘‘۔ شکنجے میں کسی ہوئی لڑکی نے اپنے بھائی سے کہا ۔
’’ آپ لوگوں کو دلی ہم دکھائیں گے !‘‘ اصغر کے دوست اکرم نے کہا۔
اکرم نہ جانے کونسا بزنس کرتا تھا اصغر کو کبھی اچھی طرح معلوم نہ ہو سکا ۔وہ تو ہر وقت خوب صور ت لڑکیوں میں گھرا رہتا تھا ۔ یہاں بھی آتا تو اصغر سے زیادہ اصغر کی بہنوں میں دلچسپی لیتا تھا۔
’’ ارے یار تم لوگ گائوں سے آئے ہو تو کچھ گھی وغیرہ لاتے‘‘۔ اصغر نے کہا ۔
’’ لائے تو ہیں ‘‘۔ چھوٹی جھٹ پٹ اپنے بچھوے اور جھانجن بجاتی اٹھی اور گٹھڑیاں کھولنے لگی ۔
’’ اماں نے آپ کے لیے یہ سوغات بھیجی ہے ‘‘۔ چھوٹی نے سو روپے کا ایک نوٹ سرخ چنری ، گھی کی ایک ہانڈی، گُڑ کی ایک بھیلی پھوپھو کی طرف سرکائی۔
اس کا اثر یہ ہؤا کہ رات کو سب گھر والے لوٹے تو پیارے اور چھوٹی گھر میں گھل مل چکے تھے ۔ بلکہ اصغر ، رعنا ، شہلا کے باہر جانے کے بعد اکرم سارا دن ان کے ساتھ رہا تھا ۔ دلی کی ساری تعجب خیز چیزوں کے بارے میں انہیں بتا چکا تھا ۔ اب تو شہلا کے بدن پر منڈھی ہوئی قمیض، رعنا کا چولی نما بلائوز ، فیتے سے بجنے والا گرامو فون اور پھوپھو کا فیشن میں ڈوبا ہوا بڑھاپا ہر چیز چھوٹی کے لیے پرانی ہو چکی تھی۔پیارے بھی اپنی دولت اور بہادری کے قصے سب کو سنا سنا کر کافی مرعوب کر چکا تھا۔ خصوصاً رعنا کو تو پیارے کسی فلم کا ہیرو معلوم ہو رہا تھا ۔کیونکہ معاشیات میں ایم اے کرنے کے باوجود اسے ابھی تک کرشن چندر اور احمد ندیم قاسمی کے افسانوں والی دیہات کی رومانی فضائیں بہت پسند تھیں اور پیارے کسی ایسی ہی کہانی کا دلیر اور معصوم ہیرو معلوم ہوتا تھا ۔ اصغر کا دوست اکرم بھی ان دیہاتیوں کی سادگی کا دیوانہ ہو گیا تھا ۔ اس نے پیارے کو شہر کے پھیکے اور بد مزہ سگریٹ پلائے ۔ چھوٹی کو کیڈ بری چوکلیٹ کھلائے جن کی انگریزی خوشبو سے چھوٹی کو ابکائی آگئی لیکن وہ کسی طرح نگل گئی کیونکہ وہ اکرم کی پر کشش باتوں کے سحر میں کھو چکی تھی ۔ اکرم نے انہیں ایٹم بم اور فضائی مسافروں کے چاند پر پہنچنے کے قصے سنائے اور ہوائی جہاز کی کمپنی کے اس طلسمی پھاٹک کا ذکر کیا جو خود بخود کھلتا اور بندہو جاتا ہے ۔ یہ سن کر چھوٹی بے تاب ہو گئی کہ اس دروازے کے اندر گھس کر دیکھے۔ اکرم کی باتیں سننے میں اس کا منہ حیرت سے کھلا ہؤا تھا اور وہ پلک جھپکائے بغیر اکرم کی صورت تکے جا رہی تھی ۔ جب کبھی پیارے اس کی کسی بات پر ہلکا سا اختلاف کرنے کی کوشش کرتا تو چھوٹی اسے جھڑک دیتی۔
’’ تم کیا جانو یہ باتیں ، بھیاکو بات تو پوری کر لینے دو ‘‘۔
اس کے دل میں اور بھی بہت سی باتیں اٹھتیں کہ تم جاہل گنوار بھلا پڑھے لکھوں کے بیچ میں بیٹھ کر بول سکتے ہو لیکن وہ یہ بات پیارے سے نہ کہتی۔
یہ دیکھ کر پھو پھو پر صبح جو دہشت سوار ہوئی تھی وہ کچھ کم ہو گئی اور انہیں اپنے میکے والوں پر اتنی شرم نہ آئی کہ وہ نوکروں سے منہ چھپاتی پھریں۔
پھر بھی انہوں نے پیارے کو سمجھا دیا کہ یہاں بالکل ہی گائوں کے ملّا مت بن جانا اور بیوی کو بھی ہرایک سے پردہ کروانے کی ضرورت نہیں ہے ۔ کیونکہ گھر میں سب اس کے اپنے ہی ہیں ۔ اصغر ، رعنا ،شہلا دہلی کی نئی تہذیب میں پوری طرح رنگ چکے تھے اور پیارے کے آنے سے پہلے ان کوبالکل یاد نہ رہا تھا کہ ان کی ممی یو پی کے ایک چھوٹے سے گائوں کی رہنے والی ہیں اور ان کے ماموں ابھی تک کھیتوں میں کھڑے

کام کرتے ہیں ۔
دوسرے دن صبح ہی اکرم انہیں دلی دکھانے ٹیکسی میں لے کر چلا تو اس نے چھوٹی سے پوچھا پہلے یہ بتائیے کہ آپ یہاں کیا کیا دیکھنا چاہتی ہیں ؟جس وقت وہ چھوٹی سے کچھ کہتا تو اس کے بالکل قریب آجاتا تھا ۔ اس کی نگاہیں چھوٹی کے گلابی شاداب چہرے سے کس طرح نہ ہٹتی تھیں۔
’’ہم تو سب سے پہلے حضرت نظام الدین اولیا کی درگاہ شریف جائیں گے ‘‘۔ چھوٹی نے سر پر پلو سنبھال کر کہا …اصل میں تو اس درگاہ پر حاضری ہی دینے کے لیے وہ دلی آئی تھی۔ بیاہ کو تین برس ہو گئے ۔ جب بھی کوئی اس کی خالی گود پر ٹوکتا تھا تو چھوٹی کو اسی درگاہ کا خیال آجاتا تھا جیسے اس کی گود وہیں سے بھرے گی۔
’’ بس … لیکن آپ لوگ تو دلی کی سیر کرنا چاہتے تھے ؟‘‘
’’ہاں… اور وہ خود بخود کھلنے بند ہونے والا دروجہ( دروازہ) !‘‘ چھوٹی نے جھجکتے ہوئے کہا ۔
’’ اری پاگل وہ بھی کوئی دیکھنے کی چیز ہے ۔ گدھی کہیں کی !‘‘
پیارے نے اسے ڈانٹ دیا اور پھر بہت فخر سے اکرم کی طرف دیکھا نئے لوگوں کے سامنے بیوی کو جھڑکنا اور اس کی بے عزتی کرنا اس کی روایت میں شامل تھا تاکہ لوگ اسے بالکل ہی جورو کا غلام نہ سمجھیں ۔
’’ اکرم بھائی جنے کیا دھرا ہے اس بند دروجے میں ! سسری کو اس دروجے میں بند کر جائوں گا!‘‘ پھر وہ ہنسنے لگا لیکن اکرم نے اس کی ہنسی کا ساتھ نہ دیا ۔ چھوٹی بھانپ چکی تھی کہ اکرم کو اس کی مرضی کا بہت خیال رہتا ہے اور وہ صرف اسی بات کو ترجیح دیتا ہے جو چھوٹی چاہتی ہے ۔
وہ تینوں آگے بڑھے تو چھوٹی کے بچھوئوں اور جھانجھنوں کی آواز نے راہ چلنے والوں کو چونکا دیا ۔ بچھوئوںاور جھانجھنوں کی آواز کے ساتھ ان کے دل کی دھڑکن بھی تیز ہو گئی ۔ سرخ برقعہ کے اندر سے ہرے ساٹن میں منڈھی ہوئی جوان پنڈلیاں چمک رہی تھیں اور وہ ایک ایک پیر میں سیر سیر بھر چاندی بجاتی ، سیاہ سلیپرگھسیٹتی چلی جا رہی تھی ۔ دلی کی سڑکوں پر چلنا ہنسی کھیل تھوڑی ہے خصوصاً اس صورت میں جب نقاب میں سے جالی کی صرف دو آنکھیں کٹی ہوں، ان کا فوکس بھی لپائیں جھپائیں چلنے میں الٹ پلٹ جاتا تھا اور وہ کبھی گرتے گرتے اکرم کو پیارے سمجھ کر لپٹ جاتی تھی، کبھی کوئی اسکوٹر چلانے والا اس کی ماں بہنوں سے اپنا رشتہ ملاتا گزر جاتا تھا ۔
نظام الدین اولیا کے مزار پر پہنچتے پہنچتے مارے عقیدت کے چھوٹی کانپنے لگی ۔اس کے آنسو کسی طرح نہ رُکے ۔ وہ سڑک ہی پر سے مٹی اٹھا کر آنکھوں سے ملنے لگی ۔ پیارے بھی دونوں ہاتھ سینے پر باندھے گردن جھکائے منہ ہی منہ میں کچھ بد بدانے لگا ۔ اکرم نے اس کی یہ عقیدت دیکھی تو پیارے سے کہا ’’ تم سامنے والے دالان سے اندر جائو ۔ عورتوں کا راستہ اُدھر ہے میں چھوٹی کو پہنچا دوں گا ‘‘۔
’’ ہونہہ ہونہہ…‘‘ پیارے نے آنکھیں بند کیے ہوئے رضا مندی ظاہر کی۔ وہ اب سر سے پیر تک آنسوئوں میں ڈوب چکا تھا ۔ دلی آنے کے لیے سیر و تفریح کا تو ایک بہانہ تھا ۔ اصل میں تو اسے نظام الدین اولیا سے بہت کچھ کہنا تھا ۔ باپ کی طویل بیماری ، اپنی خالی گود ، ندی کے پار والے کھیتوں کا مقدمہ اور … اور آگے خواہشوں کاہجوم تھا ۔ وہ کیا کیا سنائے ! کیسے سنائے ! میرے حضرت میرے مولا …پھر وہ مزار کے آگے گر گیا ۔ نہ جانے کب تک روتا رہا ۔ کیا کیا کہتا رہا ۔ اس کے سامنے ایک بزرگ آئے ، سفید کڑے پہنے اور کہا ’’ جائو دروازے کھل گئے ہیں ‘‘۔ اس نے آنکھیں کھول کر دیکھا ۔ وہ یہاں نہ جانے کتنی دیر تک بیٹھا رہا یاسوتا رہا۔ آنکھیں مل کر اس نے حضرت کو پھر سارے وعدے یاد دلائے اورالٹے پیروں باہر آیا۔
اکرم اور چھوٹی نہ جانے کہاں چلے گئے تھے ۔’’ اکرم بھائی … ارے اکرم بھاآآئی ؟‘‘ وہ اتنی زور سے چلایا کہ وہاں سونے والے فقیر اٹھ گئے ۔ کئی لوگوں نے اس طرح چلانے پر ڈانٹ دیا ۔ پھر اندر سے ایک بوڑھا آدمی تسبیح لیے باہر نکلا اور بولا۔
’’ تم انہیں ڈھونڈ رہے ہو جو ایک کالے پتلون والے صاحب تمہارے ساتھ آئے تھے سرخ برقعہ والی عورت کو لے کر!‘‘
’’ ہاں ہاں …‘‘ پیارے نے جلدی سے کہا ۔
’’ اچھا تو وہ تمہارا انتظار کر کے کہیں چلے گئے ہیں ۔ وہ عورت تو

جانے کو تیار نہ تھی لیکن وہ صاحب زبردستی لے گئے ‘‘۔
’’ اچھا اچھا … اکرم بھائی بند دروجے کی سیر کرانے لے گئے ہوں گے ‘‘۔ پیارے مطمئن ہو گیا ۔
’’ اکرم بھائی نے یہ اچھا کیا وہ بے چارے کب تک یہاں کھڑے ہو کر میرا انتظار کرتے لیکن اس گنوارن کو سیر کروانے میں نہ جانے اکرم بھائی کوکتنی تکلیف ہو ئی ہو گی !‘‘
یہی سوچتا وہ پھوپھوکے ہاں پہنچا ۔ دروازے پر آیا ہے تو مسجدوں میں اذان ہو رہی تھی۔ بہت دیر کی حجت کے بعد نوکر گیٹ کھولنے پر رضا مند ہو گیا ۔ اندر گیا تو سب پڑے سو رہے تھے ۔ کمال ہے بھئی ۔ اذان ہو رہی ہے او رکوئی نماز کو نہیں اٹھا ۔ پیارے سخت حیران تھا اور چھوٹی نہ جانے کہا ںمری تھی ، کیا شہر آکے وہ بھی نماز پڑھنا بھول گئی ۔ ویسے بھی گائوں میں تو اذان کے ساتھ ہی صبح ہو جاتی ہے ، اتنی بڑی کوٹھی میں چھوٹی کو تلاش کرنا بہت مشکل کام تھا ۔ اور کہیں پھو پھو دیکھ لیں کہ وہ بیوی کے لیے اتنا بے قرار ہے تو کتنی شرم کی بات ہو گی۔
خیر نماز کے بعد دعائیں پڑھنے بیٹھ گیا ۔ سات بجے نوکر اٹھے ۔ پھر گھروالے ۔ پیارے کی نظریں چاروں طرف چھوٹی کو ڈھونڈ رہی تھیں ۔ کیونکہ بیاہ کے بعد اس نے ہمیشہ چھوٹی کے منہ پر سورج دیکھ کر آنکھیں کھولی تھیں ۔
آٹھ بجے پھو پھو نے اسے کھانے کے کمرے میں بلایا ۔ وہاں سب تھے اکرم اور چھوٹی کے سوا ۔
’’ کہو بھئی ، دلی کی سیر کرلی ؟‘‘ رعنا بہت دلچسپی سے اس کے پاس والی کرسی پر آ بیٹھی ۔
’’ ہاں اکرم … لیکن اکرم بھائی کہاں ہیں اور وہ … ‘‘ پیارے شرما گیا ۔
’’ اکرم ! اکرم روز کہاں آتا ہے ۔ کہیں چلا گیا ہوگا ۔‘‘ اصغر نے اخبار سے نظریں ہٹا کر کہا ۔
’’ اور چھوٹی ؟ پیارے اچانک گھبرا گیا ۔
’’ چھوٹی ؟ چھوٹی رات کو تمہارے ساتھ نہیں آئی ؟‘‘
’’ ارے ؟‘‘ اچانک پھو پھو ، اصغر ، رعنا اور شہلا سب ہی پریشان ہوگئے اور ایک دوسرے کومعنی خیز نظروں سے دیکھنے لگے ۔
’’ کیوں کیا بات ہے ؟‘‘ پیارے اٹھ کھڑا ہؤا ۔ اس کادل ڈوب رہا تھا اور آنکھیں چھلک اٹھی تھیں۔
’’ کچھ نہیں …‘‘ پھو پھو چائے کی پیالی رکھ کر کھڑی ہو گئیں ۔ ’’پیارے تم نرے گنوار ہی ہو ۔ بھلا اپنی بیوی کو غیر مرد کے ساتھ تم نے کیوں کر دیا ؟‘‘
’’ غیر … غیر کون اکرم بھائی تھے ساتھ میں!‘‘ اس نے اپنی آنکھیں پونچھ کر کہا۔
’’ یا اللہ … اصغراٹھو کچھ کرو نا بھئی ‘‘۔ پھو پھو بے قراری سے ٹہلنے لگیں ۔ ’’ اکرم سے ہمارا کوئی رشتہ نہیں ہے پیارے ۔ یہاں دلی میں ایسے ہی اجنبی دوست بن جاتے ہیں ‘‘۔
’’ ابھی چل کر طلسمی دروجے کے پاس دیکھ لیتے ہیں ۔ وہ لوگ وہیں میرا انتظار کر رہے ہوں گے ‘‘ اتنی دیر میں اصغر نے نہ جانے کہاں کہاں فون کر ڈالے۔ پھر رعنا اپنے کسی دوست کی کار لے آئی۔
’’ کیا چھوٹی اپنا سب زیور بھی پہن کر گئی تھی ؟‘‘ پھو پھو نے پوچھا۔
’’ہاں وہ تو تھوڑا سا زیور ہے ابھی تو اس کے پاس بہت سا گہنا ہے ‘‘ پیارے نے کہا ۔
’’ یہ دلی ہے پیارے ، اتنا سونا پہنا کر یہاں کیوں لائے اور پھر اس لفنگے کے حوالے کر دیا !‘‘ پھو پھو بے حد تشویش ناک لہجے میں بات کر رہی تھیں۔ ’’ اب ہم کیا کریں ؟‘‘
’’ چلیے ، ایر پورٹ اور اسٹیشن پر دیکھیں گے ‘‘۔ رعنا نے اپنے قریب پیارے کو بٹھایا اور کار اسٹارٹ کی ۔ پیارے کادل بے تحاشہ دھڑک رہا تھا ۔ دل ہی دل میں اس نے سارے نبیوں اور بزرگوں سے چھوٹی کی خیر چاہی ۔ پھر منصوبے بنانے لگا کہ آج رعنا کے سامنے چھوٹی کی لاتوں سے خبر لے گا ۔
رعنا نے اسے ایک جگہ کھڑا کیا اور خود کسی طرف چلی گئی ۔ اتنی دیر

میں پیارے نے وہاں سے گزرنے والے ہر شخص سے پوچھا کہ انہوں نے سرخ برقعے والی کسی عورت کو دیکھا ہے ؟
تھوڑی دیر بعد رعنا واپس آئی تھکی ماندی ۔ اداس صور ت لیے۔
’’ کیا ہؤا ؟‘‘ دل میں ہزاروں امیدیں سنبھالے پیارے نے پوچھا ۔ اس کے دل میں سینکڑوں کواڑ کھل کھل کر بند ہو رہے تھے۔
’’ دروازہ بند ہو چکا ہے ‘‘۔ رعنا نے آہستہ سے کہا اور پیارے کی بانہیں پکڑے اپنے پاس بٹھا لیا۔ ان کے آگے آگے ایک ایسی سڑک چل رہی تھی جس کا کوئی اورچھور پیارے کو نظر نہیں آ رہا تھا ۔
٭…٭…٭

 

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x