ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

دادی جان،فرنگی اورمسلمان بادشاہ کا پاکستان – بتول اگست ۲۰۲۱

گرمیوں کی چھٹیوں میں ہم اکثر اپنی دادی کے پاس گاؤں جایا کرتے۔ ہمارا گاؤں خیبر پختونخوا کے ایک دوردراز پسماندہ علاقے میں ایک خوبصورت دریا کے کنارے آباد تھا اس لیے گرمی بھی پشاور کی نسبت کم ہوتی۔
اس زمانے میں کچھ سیاستدان کہتے کہ واپڈا والے تربیلا ڈیم میں ہمارے پانی سے ساری بجلی نکال کر خالی خولی پانی ہمارے لیے چھوڑ دیتے ہیں۔ تو وہ ’’خالی خولی ‘‘پانی سب سے پہلے ہمارے گاؤں سے گزر کر باقی پاکستان کو سیراب کرتا تھا۔
دریا کے اس طرف ریت کے پہاڑ اور گھنے جنگل تھے جن کو’’بیلے‘‘کہتے تھے۔ گاؤں میں جن کے گھر شادی ہوتی وہ بیلے جا کر بہت ساری لکڑی لے آتے۔
ہم اپنے کزنز کے ساتھ کھیتوں سے ہو کر دریا تک جاتے۔وہاں خوب تیرتے کھیلتے اور جب بھوک لگ جاتی تو اپنی پھوپھی زاد بہنوں سے جو دریا کے ایک طرف کپڑے دھو رہی ہوتیں، پیاز اور رات کی بچی ہوئی تندور کی روٹی لیتے اورکھا کر پھر کھیلنے لگ جاتے۔ میں نے دنیا بھر کے ریستورانوں میں کھایا لیکن اس وقت اس پیاز اور باسی روٹی کا جو مزہ ہوتااس کا کوئی مقابلہ نہیں۔
کچھ بچے دریا پار کرکے ریت کے پہاڑوں سے ہو کر ’’بیلے‘‘ چلے جاتے لیکن ہمیں وہاں جانے کی اجازت نہیں تھی۔ سنا تھا بیلے میں جنات اور ڈاکوؤں کا ڈیرہ ہے اور اس علاقے کے ذریعے رات کو دریا کے راستے سمگلنگ بھی ہوتی۔
ہماری دادی ان پڑھ لیکن بہت سمجھدار، پرہیزگار اور جی دار خاتون تھیں۔ گاؤں کے چھوٹے بڑے ان کو بھابھی کہتےیہاں تک کہ میرے والد صاحب اور کبھی کبھی ہم بھی ان کو بھابھی کہتے۔ بس وہ پورے گاؤں کی ایک بہادر اور ملنسار بھابھی تھیں۔میرے دادا میرے والد صاحب کے بچپن میں ہی فوت ہو گئے تھے۔ دادی نے بڑی استقامت اور بہادری سے اپنے چھ بچوں کو پالا پوسا۔
میں ان کا لاڈلا پوتا تھا۔ وہ مجھے پیار سے عامر جمال شہزادہ کہہ کر پکارتی تھیں۔ لسی، مکھن اور سامنے والے دریا کی تازہ مچھلی میں میرا خاص حصہ ہوتا۔ ہمسایہ، مقرب کا کا جی جب رات کو جال لے کر مچھلیاں پکڑنے جاتے تو دادی کا آرڈر ساتھ ہوتا اور فجر کے وقت وہ تازہ مچھلی گھر پہنچا دیتے۔
مجھے بھی اپنی دادی سے بہت پیار تھا۔ ان کے ساتھ بیٹھ کر ڈھیر ساری باتیں کرتا۔ ان سے سوال کرتا ، ان کی کہانیاں سنتا۔ حضرت معاذؓ اور معوذؓ کی کہانی تو وہ بڑے مزے سے سناتیں اورمیں کئی بار فرمائش کرکے سنتا۔
مجھے دادی جان کی تین چیزوں سے چڑ تھی۔
ایک تو وہ چپل اکثر الٹا پہنتیں جو میں مسلسل سیدھا کرتا رہتا۔ دوسرا ، وہ رمضان میں گھگھو (سائرن) پر روزہ نہیں کھولتی تھیں بلکہ سخت گرمیوں میں شربت کا بڑا کٹورہ ہاتھ میں پکڑے مؤذن کی اذان کا انتظار کرتیں اور مؤذن صاحب خوب کھا پی کر اذان کے لیے تشریف لاتے۔ہم منت کرتے کہ دادی گھگھو ہو گیا ہے،ٹائم ہو گیا ہے لیکن ان کاسختی سے جواب آتا۔
”نہیں میں گھگھو نہیں مانتی ……ملا صاحب نے اذان نہیں دی ……نہیں کھولوں گی روزہ‘‘۔
تیسرا ، وہ قرآنی آیات پڑھتے ہوئے ’’ ف‘‘ کو’’پ‘‘ کہتیں اور خاص کر جب وہ مغرب کی نماز کے بعد اپنے تخت پوش پر بیٹھ کر تیز آواز میں سورہ فیل سناتیں تو سننے والا عالم ہوتا ،’’ ف “ بے چاری کا حشر کھل کر

منظر عام پر آجاتا۔میں اگر تصحیح کی کوشش کرتا تو:
’’ لرے شہ وے‘‘ یعنی پرے ہٹ کہہ کر اپنے انداز میں قرآن پڑھتی رہتیں۔
ایک بار گرمیوں کی چھٹیوں میں ہم گاؤں گئے تھے۔ شاید میں چھٹی ساتویں جماعت میں تھا اور دادی کے پاس بیٹھا گپ شپ لگا رہا تھا،ان کی کہانیاں سن رہا تھا۔میں نے پوچھا ۔
’’نیاں بے بے……دادی اماں آپ کو کیسے پتہ چلا کہ پاکستان بن گیا ہے‘‘؟
دادی اماں نے کہا کہ بس ہمیں خبر ہوئی کہ پہلے ہمارا بادشاہ فرنگی تھا اور اب مسلمان بادشاہ ہو گیا ہے۔
پھر اپنی ہندو سہیلی کے بارے میں سوچ کر مسکرانے لگیں جو گاؤں کے اس طرف رہتی تھی ۔وہ اور اس کا سارا خاندان ۱۹۴۷میں گاؤں چھوڑ کر چلا گیا۔ ان کواپنی سہیلی بڑی یاد آتی۔
میری دلچسپی بڑھ گئی۔میں نے کہا’’دادی جان پاکستان بننے سے اور کو ئی فرق آپ نے محسوس کیا‘‘؟
کچھ سوچنے کے بعد کہنے لگیں۔
’’ہاں…..جب انگریز بادشاہ کی حکومت تھی تو اگر گاؤں میں کوئی جرم کرتا ، کوئی کسی کو قتل کرتا تو وہ بچ نہیں سکتا تھا۔ اس کو عدالت میں سزا ضرور ہوتی۔لیکن جب مسلمان بادشاہ کی حکومت بنی تو جرم کرنے کے بعد لوگ ’’بڈے‘‘ دے کر سزا سے بچ جاتے ہیں (اپنے پہنے کپڑوں میں ایک خفیہ جگہ میں رقم چھپا نے کو پشتو میں بڈے کہتے ہیں، مطلب رشوت دے کر بندہ بچ جاتا ہے)اس لیے بد امنی بڑھ گئی ہے۔بس یہی فرق دیکھا ہے میں نے‘‘۔
یہ بچپن میں میرے لیے بڑی دلچسپ اور سوچنے والی بات تھی۔
انگریزوں کے نو آبادیاتی پراجیکٹ ، ماضی اور حال کے بڑے بڑے مظالم اپنی جگہ لیکن اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ معاشروں اور قوموں کے امن اور ترقی کیلئے شفافیت اور انصاف کا ہونا ، قانون کی عمل داری ہوناکتنا ضروری ہے۔پائیدار امن انصاف کے بغیر ممکن نہیں۔شاید حضرت علیؓ کا قول ہے کہ کفر کا نظام تو چل سکتا ہے لیکن ظلم کا نہیں۔اب بھی شاید فرنگی بادشاہ کے علاقوں میں نسبتاً امن اور خوشحالی اس لیےہے کہ وہاں علم سے محبت ، انصاف کی فراہمی اور قانون کی پاسداری قائم ہے۔
میری سادہ سی ان پڑھ دادی جان کے تجزیے اور احساسات میں کئی سوال چھپے ہیں جو شاید اب بھی جواب طلب ہیں !
٭ ٭ ٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x