ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

نئی صبحیں – زینب جلال

’’امامن بوا شام کے جھٹپٹے میں کیسے نکل آئیں ‘‘۔
مغرب کی نماز سے فارغ ہوکر بیگم ڈیوڑھی کی بتی جلانے باہرآئیں تو پوٹلی سنبھالے بوا کو بیٹھا دیکھ کر حیران ہوگئیں۔
’’ارے بیوی صبح کس نے دیکھی ہے،ہم توزندگی کی شام گزار آئے۔اللہ تمہیں نئ صبحیں مبارک کرے۔ سنا ہے پاکستان جانے کا قصد کرلیا ہے‘‘ بوا جذبات سے لبریز ہوکر بولیں ۔
’’ہاں بوا کتنی جانگسل جدوجہد کے بعد ہمیں الحمدللہ اپنا وطن ملا ہے‘‘۔ بے ساختہ بیگم کے لہجے میں جوش سا نمایاں ہؤا، وہ امامن بوا کے قریب بیٹھ گئیں۔’’ مگرپاکستان بننے کی خبر کے ساتھ ہی فسادات کی آگ بھڑک گئی ہے‘‘۔
’’اب امن صرف اپنے وطن کی فضا میں ملے گا۔ تم بھی چلو ہمارے ساتھ ایک اکیلی جان ہو‘‘ بیگم نے بوا کو سمجھایا۔
’’اپنے پیاروں کی قبریں چھوڑ کر کیسے جائوں بی بی !‘‘ بوڑھے چہرے کی شکنوں میں چند آنسوخاموشی سے نکل کر کھو سے گئے ’’ہاں اپنی امانت حضرت جی کو دینے آئی ہوں ‘‘۔
امامن نے سینے سے لگی پوٹلی , ان کے سامنے کھول دی , حضرت جی مسجد سے آکر وہیں بیٹھ گئے تھے، بچےبھی اردگرد کھڑے ,سب حیران نظروں سے کھلے سامان کو دیکھ رہے تھے۔ ماں کی یادگار چاندی کی بالیاں شوہر کی محبت نشانی سرخ مخمل پر ٹکا سونے کے پھول والا گلوبند، رومال میں سلیقے سے بندھے نوٹ جنھیں حج کے پر امامن جانے کب سے جمع کررہی تھیں ۔
’’میرے پاکستان کی خدمت میں میری یہ امانت لگادینا ‘‘۔
بوا کےجھریوں بھرے کانپتے ہاتھوں نے اپنا کُل اثاثہ اپنے وطن پر نثار کردیا تھا۔ ڈیوڑھی کی ملگجی روشنی میں گویا چاند تارے چمک رہے تھے۔
’’میری بوڑھی جان کس کام کی اللہ آپ سب کو خیریت سے پاک زمین پر پہنچائے۔ اب جوان خون پاکستان کو اپنی محبت ومحنت سے سجاے گا ‘‘۔
بوا امامن نےقریب کھڑے نوخیز صبیح الدین کی بلائیں لیتے ہوئےلرزتی آواز میں دعا دی۔
صالحہ نے ڈائری کو نشان لگا کر بند کرتے ہوئے کاغذ قلم سمیٹ کر سر کرسی کی پشت سے لگا کر آنکھیں موند لیں۔ صلو چچا کی ڈائری ,قیام پاکستان سے رواں پاکستان کی، کہی ان کہی داستانوں کی رازداں جسے صالحہ ہر اگست اس ارادے سے کھولتی کہ مسودہ تیار کرکے چھپنے کو دے سکے۔
وہ بھی 14اگست کی صبح تھی جب صلو چچا سب بچوں کے ساتھ قائد کے مزار پر ‘پاک سر زمین شاد باد کا ترانہ پڑھ کر آئے تھے انہوں نے صالحہ کے ہاتھوں میں اپنی ڈائری دیتے ہوئے کہا تھا۔
’’ہمیں جو امانت سونپی گئی تھی خدا گواہ ہے ہم نے اس کی حفاظت کی اب میرے بچو تمہیں اس کا امین بناتے ہیں امانت کی پاسداری کا عمل چلتے رہنا ہے‘‘۔
صلو چچا،دادا میاں کے بھتیجے عمر کی آخری حد پر پہنچتے پہنچتے زمانے کی دورنگی پر دل گرفتہ ضرور مگر ناامید نہیں تھے جبھی زندگی کی شمع بجھنے تک انگنت شمعیں روشن کرگئے۔
صالحہ گھر کے کاموں سے جلد فراغت لے کر لکھنے پڑھنے کے لیے وقت نکال لیتی کچھ گھنٹوں کی اس مشغولیت کے دوران اگرچہ لوڈشیڈنگ کا دورانیہ پابندی سے ہوتا مگر اگست کی روشن صبح کی خنک ہوائیں، صالحہ کے ذہن میں یکسوئی سے سوچ کے در وا رکھتیں۔
یکایک ہوا کےایک جھونکے کے ساتھ در آنے والی ناگوار بو نے صالحہ کو بے چین کردیا۔ پھر کسی نے اپنے گھر کا کچرا گلی کی کچرا کنڈی میں اچھالا ہے , یا کچرا چننے والے لڑکے نے اپنی ضرورت کی اشیاء تلاش کرکے باقی کچرا گلی میں پھیلادیا ہے۔ اس حرکت پر وہ اکثر صالحہ کی ڈانٹ کھاتا مگر نتیجہ صرف بے حسی شاید بے حسی ہم سب کے مزاج کا حصہ بن گئی ہے –
’’ تب ایسے میں تو ذمہ داری دوچند ہوجائے گی ‘‘ صالحہ کے ذہن نے فیصلہ سنایا ۔
تھوڑی دیر میں صالحہ اپنے زینے کی آخری سیڑھی پر بادشاہ خان کے سامنے بیٹھی تھی جس کی آنکھوں میں حیرت وخوشی کا تاثر تھا کہ جو باجی روز ڈانٹ پلاتیں، آج روٹی کھلارہی ہیں اور نرمی سے بات کررہی ہیں۔ صالحہ کہہ رہی تھی۔
’’بادشاہ خان تم اتنے سمجھ دار ضرور ہو جو یہ فیصلہ کرسکو کہ عمر بھر ڈانٹ وذلت بھری زندگی میں روٹی کے نوالوں کو ترسو گے یا سر اٹھا کر جینا سیکھ کر عزت کی روٹی کھائوگے …آئو میں تمہیں ذمہ داری سے جینے کا سلیقہ دوں‘‘۔
وہ دونوں کونسلر صاحب کے آفس گئے جہاں صالحہ کی تجویز کو اہمیت دی گئی۔
اگلی صبح 14 اگست تھی صالحہ اپنی کھڑکی سے گلی کے مناظر دلچسپی سے دیکھ رہی تھی ۔
محلے کے بچوں نے جہاں پاکستان کے پرچم والی جھنڈیوں سے پوری گلی کو سجایا تھا وہیں صاف ستھری گلی میں اب کچرا کنڈی موجود نہیں تھی کونسلر صاحب نے دلجمعی سے گلیوں کی صفائی کروانے کے ساتھ ہی کچرا کنڈیوں کی جگہ پودے لگا کر علاقے کو سرسبز بنادیا تھا۔
تھوڑی دیر میں ہر گھر کے آگے وقفے وقفے سے بادشاہ خان کی آواز گونجتی۔
’’باجی کچرا دے دو تاکہ کچرے کی گاڑی میں ڈال دوں ‘‘۔
اب بادشاہ خان صالحہ کے دروازے پر کھڑا تھا۔ صالحہ کو اس میں غیر معمولی اعتماد نظر آیا ,جس کا سبب یقیناََ اس کی بوسیدہ قمیض پر چپکا کاغذی سبز ہلالی پرچم تھا۔
بادشاہ خان اپنی ذمہ داری اٹھانے کے لیے پر اعتماد تھا صالحہ اس کے کچرا اٹھائے ہاتھوں کو عقیدت سے دیکھتے ہوئے اپنے اگلے منصوبے کی کامیابی کا اعتماد محسوس کررہی تھی، اس کا دل گنگنا اٹھا ۔
جو تجھ سے عہدِ وفا استوار رکھتے ہیں
علاجِ گردشِ لیل و نہار رکھتے ہیں
کہ اسے اب محلے کی خواتین کے تعاون سے بادشاہ خان جیسے بچوں کے لیے مدرسہ اسکول قائم کرنا تھا۔
٭٭٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x