ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

قصور وار کون؟ – ڈاکٹر بشریٰ تسنیم

شہر کی معروف اور مصروف ترین سڑک پہ ہجوم بڑھتا جا رہا تھا، ہر کسی کی خواہش تھی کہ صورتحال کو اپنی آنکھوں سے دیکھے اور اپنی رائے کا اظہار کرے ۔ وہاں ایک سائیکل والے مزدور کی ٹکر ایک کار سے ہوگئی تھی۔ ہجوم کی اکثریت کار والے کو برا بھلا کہہ رہی تھی، سب لوگ اپنے ضروری کاموں کو بھول کر اس حادثے کے ذمہ دار کا تعین کرنے میں لگے ہوئے تھے، راہ گیر زیادہ تر درمیانہ طبقہ تھا جس کی رائے یہ تھی کہ قصور کار والے کا ہے، عینی شاہد وں میں سے کسی نے سائیکل والے کا قصور ظاہر کرنے کی کوشش کی تو کسی نے اس بات پہ توجہ نہ دی۔ سب کار والے کی امارت کو لعن طعن کر رہے تھے اور کار کو نقصان پہنچا نے پہ آمادہ تھے ، اس بات کو جانے بغیر کہ معاملہ کیا ہے۔ سب اپنا وقت برباد کر رہے تھے جیسے دنیا میں اس سے اہم کوئی کام نہیں ہے۔
ٹریفک کے قوانین کے کچھ بین الاقوامی اصول و ضوابط ہوتے ہیں ۔دانشوروں کا کہنا ہے کہ کسی بھی قوم کی ، ذہنی تربیت، اخلاقی رویے، وقت کی اہمیت ، کا اندازہ ٹریفک قانون کی پاسداری سےلگایا جا سکتا ہے۔
طبقاتی کشمکش کے نتیجے کا ایک مظاہرہ ایسے ہی مناظر میں نظر آتا ہے،جب قصور سائیکل والے کا یا پیدل آدمی کا ہر گز نہیں سمجھا جاتا، اسی طرح معاشرتی رشتوں میں یہ گردانا جاتا ہے کہ زیادتی یقیناً با اختیار کی طرف سے ہوئی ہوگی۔ مالک نے ہی اپنے ماتحتوں پہ ظلم کیا ہوگا، نوکر ہمیشہ بے قصور ہوگا، ساس ہی ظالم ہوگی ،شوہر ہی حق تلفی کا مرتکب ہوگا، پیسے والا ہی متکبر ہوگا، غریب اور کم مرتبہ ہمیشہ ہی قابل رحم ہوگا۔ یہ معاشرتی روّیے ایک خاص ذہنی خلجان کی نشان دہی کرتے ہیں، جب بے انصافی نسلوں کو منتقل ہوتی ہے تو طبقاتی کشمکش بھی پختہ ہوکر مزاج کا حصہ بن جاتی ہے۔ بر تر طبقہ یا رشتےکے نسل در نسل متکبرانہ رویے نے اس مزاج کو جنم دیا۔
اللہ رب العزت نے اس کائنات کا ہر ذرہ عدل اور بالقسط پہ قائم کیا ہے، اور زمین کا نظام جن کے ہاتھوں میں دیا تو بالقسط کو ہی بنیاد بنایا، جب بھی دنیا میں فساد برپا ہوا اس بنیاد کو ہلانے کی وجہ سے ہی ہوا۔ بالقسط سے مراد حق دار کو پورا پورا حق دینا ہے، جس نے ذمہ داری احسن طریقے سے نبھائی اس کو اس کے مطابق حوصلہ افزائی کرنا، تعریف کرنا سراہنا ،اوراس کےدیگر حق ادا کرنا ہے۔جس نے جہاں کوتاہی کی اس کو اس کے مطابق خبردار کرنا تنبیہہ کرنا، سرزنش کرنا، نصیحت کرنا یا حسب ِجرم سزا دینا ہے ، یعنی کسی ذاتی مفاد کی خاطرنہ تعریف اور عطا میں غلو کرنا اور نہ ہی ذاتی عناد کی وجہ سے سزا میں زیادتی کرنا، یا حق مارنا ہے۔ دونوں معاملے میں ٹھیک ٹھیک توازن برقرار رکھنا۔
واقیموا الوزن بالقسط ولا تخسروا المیزان (سورہ الرحمن)
میزان میں رخنہ ہی ساری خرابیوں کی جڑ ہے، ذہنی ،جسمانی، معاشی ،معاشرتی میزان جب توازن کھو بیٹھتی ہے تو نظام کائنات میں خسارہ صرف اولاد آدم کے حصے میں آتا ہے۔ اولاد آدم کو افکار و اعمال ، حقوق وفرائض حتیٰ کہ عبادات میں بھی توازن کی ہدایت کی گئی ہے۔ انسان کے لیے زندگی ،دنیا اور دین کے توازن کے ساتھ حسین بنائی گئی ہے، جس طرح روح اور بدن مل کر انسان کی تکمیل ہے ، اسی طرح دین روح ہے تو دنیا ظاہری جسم ہے۔ دونوں کا جس قدر حق ہے اسی حساب سے خیال رکھنا انصاف ہے۔
انسان کی عقل و شعور جب ہوش مندی کا توازن بر قرار نہ رکھ سکے تو اسے معذور قرار دے دیا جاتا ہے کہ اب اس سے ہوش مندی کی توقع رکھنا یا کسی سنجیدہ معاملے میں رائے لینا بے کار ہے، جب تک کہ اس کا علاج مکمل نہ ہوجائے۔ اللہ تعالیٰ نے بھی عقل و شعور سے بے گانہ کو اپنی اطاعت کا مکلّف نہیں ٹھہرایا، معاملات کو بالقسط کی شرط کے ساتھ دیکھنا ، پرکھنا ، نتیجہ نکالنا اور فیصلہ صادر کرنا اور پھر اس کے مطابق عمل میں لانا ہی باشعور انسان اور زندہ معاشرے کا شیوہ ہوتا ہے۔ معاشرہ افراد کا ہی مجموعہ ہے جس کی اکائی گھر ہے۔ جو حکمران، با اختیار بنتے ہیں ، انصاف کی کرسی پہ بٹھائے جاتے ہیں وہ گھروں سے ہی نکل کر آتے ہیں، اور تعلیمی ادارے چلانے والے بھی اسی زمین کی مخلوق ہوتے ہیں۔ اس کرّہ ٔ ارضی میں انسان ہی انسانوں کی تربیت پہ مامور ہے۔
گھروں کی راجدھانی میں حکمران باپ ہوتا ہے ، جو اپنی ملکہ اور رعایا کی بالقسط پہ نگرانی کرتا ہے، ملک و قوم کو مخلص استاد ،نیک حکمران ، منصف قاضی، ایمان دارتاجر، کسی فیکٹری نے تیار کرکے مہیا نہیں کرنے ہوتے ، ماں اپنے بچوں کو کیسی قوم بنا رہی ہے یہ دیکھتے رہنا گھر کے سربراہ کی ذمہ داری ہے، قوم کا با اختیار طبقہ والدین کی توجہ ، تربیت اور سنجیدگی کی نشان دہی کرتا ہے، اس وقت مسلم امہ قیادت کے فقدان کا شکار ہے، لوگ ایک ہجوم کی مانند ہیں جو کسی بھی معمولی اور بے مقصد معاملے پہ بے کار بحث میں گھنٹوں وقت ضائع کرتے ہیں ۔ یہ سڑک پہ ہونے والا کوئی چھوٹا سا حادثہ ہو یا ٹی وی پہ کسی چینل کا ٹاک شو ، دونوں میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔ قصور وار ثابت کرنے کے لیے عینی شاہد کی کوئی نہیں سنتا، ہرکوئی اپنے آپ کو عقل کل سمجھتا ہے۔اور کسی بھی با اختیار (جہاں بھی ہتھے چڑھ جائے) کے خلاف اپنی اندر کی بھڑاس کو نکالنا چاہتا ہے، با اختیار فرد بے اختیار (جہاں بھی دستیاب ہو جائے)کی عزت نفس کو پامال کرنا فرض سمجھتا ہے ، اس رویے سے نفرتوں کو مزید ہوا ملتی ہے۔
قوم کے دین دار ،محب وطن عناصر انفرادی یا اجتماعی طور پہ اپنی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں لیکن حالات یہ بتاتے ہیں کہ قوم کی ذہنی پستی کا علاج کرنے کے لیے کوئی طویل المیعاد منصوبہ بندی کو پیش نظر رکھتے ہوئےمزید ٹھوس لائحہ عمل شروع کرنا ہوگا ۔
گھر کی اکائی کو عدل پہ رکھنا پہلا نکتہ آغاز ہے۔ اولاد کی ساری تربیت کا بوجھ ماں پہ ڈال دینا اور صرف اسی کو ذمہ دار سمجھنا بالقسط کے منافی ہے۔ باپ کا کام صرف کما کر لانا یا بچے کو دنیا میں لانے کا سبب بننانہیں ہے ، وہ اپنی اولاد اور بیوی کی مصروفیات، انداز و اطوار ، اخلاق اور اپنی کمائی کے جائز مصرف پہ نگران بھی ہے، اور اس سے بیوی بچوں کے بارے میں کڑا محاسبہ ہوگا۔ جب گھر کا سربراہ بالقسط کی شرائط پوری کر رہا ہوگا تو اپنی رعیت کے لیے آئیڈیل بھی بن رہا ہوگا، اور سب گھر والوں کا تعاون بھی مثالی ہوگا۔ بے جا تنقید، توقعات ، اور بے انصافی پہ مبنی رویے ختم ہوں گے تو گھروں پہ اللہ کی رحمت سایہ فگن ہوگی ،دلوں میں سکون نازل ہوگا۔
کرنے کا کام یہ ہے کہ باپ اپنی ذمہ داری سمجھیں ۔ بچوں کے لیے بہترین تحفہ ادب و تہذیب سکھا کرمثالی مسلمان بنانا ہے ، بیویوں پہ واجب ہے کہ اپنے گھر کے سربراہ کی اطاعت کریں اور بچوں کی صحیح رخ پہ تربیت کے لیے ان کے ساتھ تعاون کریں، گھر کےنظام میں حفظ مراتب کی اور ذمہ داری کی ترتیب کا خیال رکھنا مربوط ومنظم زندگی کی دلیل ہے۔ ’’بالقسط‘‘والی شرط اور بنیاد حقوق و فرئض کی ادائیگی میں حسن اور جان ڈال دیتی ہے اور کسی کو حق تلفی کا خطرہ ہوتا ہے نہ گلہ۔ باہمی اختلاف کا معاملہ چھوٹا ہو یا بڑا وقتی ہو یا دیرپا ، افہام و تفہیم سے سلجھایا جا سکتا ہے، مہذب لوگ اپنی غلطی کو تسلیم کر لیتے ہیں،اپنی اصلاح کر لیتے ہیں ،اس طرح وقت، صلاحیتیں، توانائیاں ضائع ہونے سے بچ جاتی ہیں۔
معاشرے میں طبقاتی کشمکش کی ابتری اور تنزل راتوں رات نہیں آجاتا، اور جب آجائے تو دنوں میں ختم نہیں کیا جاسکتا، اس کی اصلاح نکتہ آغاز سے کرنا ہوگی۔
٭٭٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x