ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

محشرِ خیال

پروفیسر خواجہ مسعود ۔ اسلام آباد
’’ ابتدا تیرے نام سے ‘ ‘ اب کے مدیرہ محترمہ ڈاکٹر صائمہ اسما کا تحریر کردہ اداریہ دل دہلا دینے والا ہے ۔ ملکی اور بین الاقوامی حالات پر جس پُر درد اور تلخ لہجے ( اور سچ تلخ ہی ہوتا ہے )میں آپ نے تبصرہ کیا ہےاُسے جرأت مندانہ ہی کہا جا سکتا ہے ۔ واقعی حالاتِ حاضرہ پر آپ کی کڑی نظر رہتی ہے جو ہر ماہ تبصرے کی شکل میں ہمارے سامنے آجاتی ہے ۔ کاش ارباب اختیار بھی یہ تبصرہ غور سے پڑھ لیا کریں ۔ اداریہ کے یہ جملے خوبصورت ہیں ’’ نبی اکرمؐ نے جس شاندار ریاست اور معاشرے کی بنیاد ڈالی اُس کی ایک مثال دنیا کے سامنے پیش کریں ، سچ ، دیانت داری ، امانت کا پاس، عدل وانصاف ، مساوات ، شجاعت ، خودداری ، محنت ، خود انحصاری ، ایک دوسرے کی خیر خواہی ، بھائی چارہ اور حقوق العبادمیں کمال حاصل کریں ‘‘۔ مدیرہ صاحبہ نے تو اسلامی تعلیمات کا نچوڑ پیش کر دیا ہے۔واقعہ کربلا پربھی آپ کا تبصرہ زبردست ہے ۔یہ جملے قابل داد ہیں ’’ واقعہ کربلا اصول پسندی، جرأت و شجاعت ، فرض شناسی اور حق گوئی کی ایسی قد آور مثال ہے جس کے سامنے دور جدید کی انسانی تاریخ کی سب مثالیں بونی نظر آتی ہیں ‘‘۔
’’ فضائل حرمین شریفین‘‘( عبد الغفار) اس بصیرت افروز مضمون میںبتایا گیا ہے کہ اللہ کے ہاں روئے زمین پر سب سے محبوب اور افضل شہر مکہ مکرمہ ہے ۔ یہیں اللہ کا پہلا گھر خانہ کعبہ ہے ۔ جس کا طواف تسکینِ روح و جاں کا سبب بنتا ہے ۔ ہمارے پیارے رسول پاکؐ کو بھی یہ شہربہت محبوب تھا ۔ ہجرت کے وقت اسے چھوڑتے ہوئے آپ کا دل بے حد دکھی ہؤا ۔مسجد حرام میں ایک نماز کا ثواب ایک لاکھ نمازوں کے برابر ہے ۔
دنیا میں دوسرا مبارک ترین شہر مدینہ منورہ ہے۔ جہاں مسجد نبوی ؐ اور رسول پاکؐ کا روضۂ مبارک ہے جس کی زیارت دل اور آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچاتی ہے ۔ یہیں روضۂ مبارک کے قریب متبرک ریاض الجنہ موجود ہے ۔ مسجد نبویؐ میں ایک نماز کا ثواب ایک ہزار نماز کے برابر ہے ، نبی پاکؐ نے اس شہر کو امن و سلامتی کا شہر قرار دیا۔
’’ بدعات محرم‘‘ (ڈاکٹر بشریٰ تسنیم) آپ نے اس مضمون میں وضاحت کی ہے کہ اسلام میں وفات کے موقع پر آہ بکا، سینہ کوبی ، بین کرنے اور بے صبری کا اظہار کرنے کی ممانعت ہے اللہ تعالیٰ ہمیں صبر کی تلقین کرتا ہے ۔ شہادت امام حسین ؑ سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ حق کی خاطر باطل کے سامنے ڈٹ جانا چاہیے اور دین حق کی سر بلندی کے لیے جان قربان کرنے سے بھی دریغ نہیں کرنا چاہیے ۔ یہ جملے خوبصورت ہیں ’’ جنت میں داخل ہونے اور جنت کے اماموں کے ساتھ رہنے کی تمنا ہے تو حضرت علیؓ جیسا سچا اور پختہ ایمان چاہیے۔ خاتونِ جنت حضرت فاطمہؓ زہرہ کے ساتھ رہنے کو دل بے تاب رہتا ہے تو اسوہ بتولؓ کو اپنایا جائے ۔اپنے بیٹوں کو حسنؑ اور حسین ؑ کی سیرت میں ڈھالنے کا عزم کیا جائے ‘‘۔ یہ جملے بھی زبر دست ہیں ’’ تاریخ کے سبق سیکھو حق کا بول بالا اور باطل کا منہ کالا ہی ہوتا ہے ۔ مگر اس کے لیے علیؓ کی شجاعت فاطمہ ؓ کی سیرت ،حسنؓ کی سی حکمت جذبہ خیر خواہی ، حسین ؑ کی سی دلیری اور اصولوں پر ڈٹ جانے کا حوصلہ چاہیے‘‘۔
حبیب الرحمٰن صاحب کی غزل سے ایک منتخب شعر:
عجب ہے بے کیفیت کا عالم میں ہوکے بھی جیسے میں نہیں ہوں
خدارا اے زندگی مجھے تو بتا کہاں جا کے بھول آئی
شاہدہ اکرام کی چھوٹے بحر کی ایک خوبصورت غزل ۔ اشعار میںبلا کی روانی ہے ہر شعر اپنی جگہ ایک نگینہ ہے ۔
چھلکنے پائے نہ چشمِ پُرنم
چھپا کے غم صد ہزار رکھنا
سحرؔ جو لائی ہے گُل کی خوشبو
اسے نفس میں اتار رکھنا
لفظ سحر کا ذو معنی استعمال خوب ہے ۔
حرمت ِ قرآن مجید ( اسما جلیل قریشی) ۔حرمت کریم قرآن پاک پر ایک خوبصورت نظم ۔
ہم عظمت ِقرآن کی حرمت کے امیں ہیں
ہم نورِوحی نورِہدایت کے امیں ہیں
’’ جڑواں بھائی ‘‘( شاہدہ اکرام ) قیام پاکستان کے وقت ہندوستان سے مسلمان آگ اور شعلوں کے درمیان سے گزر کر پاکستان آئے ۔ یہ کہانی بھی ایسی لازوال قربانیوں کی داستان ہے ۔ یہ جملے خوبصورت ہیں ’’ریشم آج بھی آنکھوںمیںآس کے دیپ جلائے اپنے جڑواں بھائی ( پاکستان) کی کامیابی کے خوا ب بنتی ہے ‘‘۔
’’ دارالخلد‘‘( عینی عرفان) ایک نیک فطرت انسان کی کہانی جس نے اپنی زندگی بے سہارا بچوں کے لیے وقف کر دی ۔ اُس کا اپنا پیارا بیٹا فوت ہو گیا لیکن اللہ نے انہیں انعام کے طور پر ایک منہ بولا بیٹا ولید عطا کردیا۔
’’قفس کو آشیاں سمجھے‘‘ ( عالیہ حمید ) آزادی کی قدر کو اجاگر کرتی ایک کہانی ایک طوطا جب گھر کے کھانوں کے مزے ، سب کا پیار چھوڑ کے آزاد فضائوں میں اڑ جاتا ہے تو اُسے آزادی کی قدر محسوس ہوتی ہے۔’’ آپ کے گھر کے تمام کھانے ، پھل لاڈ پیار ، راحتیں ، آرام اور محبتیں آزادی سے بھرپور ایک اڑان پر قربان کہ آزادی تو پھر آزادی ہے‘‘۔ ایک خوبصورت کہانی ۔
’’ زیتون کہانی ‘‘ ( بنت سحر)فلسطینی مجاہدین کے جذبہ جہاد اور قربانیوں میں ڈوبی ایک دلگداز کہانی ۔ دل پہ اثر کرنے والے جملے ’’قریب پہنچ کر اُس نے دھیرے سے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا اُس کی ہتھیلی پردو سبز زیتون رکھے تھے ۔ یہ تم نے مجھے لوٹانے ہیں اس لیے واپس آجانا، اللہ کی امان میں۔ یہ کہتے ہوئے اس کی آواز کپکپا گئی‘‘۔کہانی کے اختتام پر بے اختیار آنکھوں سے آنسو نکل آئے ۔ بلا شبہ اس کہانی کو معیاری کہانیوں میں شمار کیا جا سکتا ہے ۔
’’ کرم اورتقدیر ‘‘ ( شہلا خضر) ایک غریب لیکن بڑے دل والے انسان کی کہانی جس نے اپنا ایک گردہ بلا معاوضہ ایک مغرور سیٹھ کی زندگی اورموت کی کشمکش میں مبتلابیٹی کو عطیہ کردیا ۔ قربانی کی ایک عظیم مثال۔
’’ ایک ستارہ تھی میں ‘‘ ( اسما اشرف منہاس) پون کو امید تھی کہ وہ اسلام قبول کرے گی تو اظفر اس سے شادی کرلے گا لیکن ایک افسر بن کے وہ بدل گیا تھا اب پون پریشان ہے کیونکہ ابھی تک اس نے اپنا اسلام لانا گھر والوں سے چھپا رکھا ہے ۔ دیکھیں اب آگے کیا ہوتا ہے۔دلچسپ صورت احوال ہے ۔
’’ مگر ایک شاخ نہالِ غم‘‘ ( الطاف فاطمہ) تقسیم ہند کے پس منظر میں لکھی گئی ایک دلچسپ کہانی ۔ ایک معزز مسلمان خاندان کی کہانی جو شملہ میں بھی راج کرتا تھا ۔ پاکستان آ کے بھی وہ با عزت زندگی گزارنے لگے ۔ ابھی یہ کہانی جاری ہے ۔
’’ اور سامنے منزل آجائے ‘‘ (آمنہ راحت) طواف کعبہ ، مسجد نبویؐ، روضہ رسولؐ کی زیارت ، ریاض الجنہ کا تذکرہ حرمین شریفین کی زیارت کا دل افروز اور ایمان افروز تذکرہ ۔ پڑھ کے لگتا ہے کہ ہم بھی ان مبارک جگہوں پہ پہنچ گئے ہیں ۔ یہ جملے دل پر اثر کرتے ہیں ’’ مدینہ سے دور جانے پر اداسی محسوس ہوئی۔ لگتا ہے میں نے کوئی حسین خواب دیکھا ہے ۔ کئی بار دل بھر آیا کہ یہ مبارک سفر اتنی جلد ختم ہوگیا ۔ اب نہ جانے کب جائوں گی یہ جگہ تو مجھے بہت یاد آئے گی ‘‘ ۔
’’ با مروّت ہیڈ ماسٹر ‘‘ ( دانش یار ) ایک ایسے مخلص سربراہ ادارہ کا تذکرہ جو ہمیشہ طلبا اساتذہ اور سکول کی بہتری کے لیے کوشاں رہتے تھے۔
’’ موبائیلی سیاپے ‘‘ ( نبیلہ شہزاد) موبائل کے بے جا استعمال پر ایک دلچسپ مضمون ۔ ہاتھ میں موبائل ہو تو ہم اردگرد کے ماحول سے بے خبر ہو جاتے ہیں ۔ وہ باہم خلوص ، پیار محبت ، گفت و شنید سب کچھ ختم ہوتا جا رہا ہے ۔ خاص طور پہ بچے موبائل کے بے حد رسیا ہوتے جا رہے ہیں جوباعث تشویش ہے ۔
’’ مدد گار نمبر ، ماہنامہ بتول‘‘ ( پروفیسر امینہ سراج) ۔ پروفیسر صاحبہ نے ’’ چمن بتول‘‘ مدد گار نمبر پر بہترین تبصرہ پیش کیاہے پڑھ کے مزا آگیا ۔ انداز بیان بڑا پر کشش ہے ۔
’’ بتول میگزین‘‘ ’’ یوں ہی تو نہیں ‘‘( ثروت اقبال) اولاد کی محبت میں گندھی ہوئی ایک کہانی ۔ یہ جملے خوبصورت ہیں ’’ مصیبتوں اور پریشانیوں کو ماں اپنے آنچل میں چھپا لیتی ہے ۔ ساری دنیا میں ماں اور اولاد کے رشتے کی گہرائی اتنی ہے جسے کبھی نا پا نہیں جا سکتا ‘‘۔
’’ نفس مطمئنہ کی واپسی ‘‘( روزینہ خورشید ) ایک مہر بان ماں کی اپنی پیاری بیٹی کے لیے بے پناہ محبت کی داستان ہے ۔ یہ جملہ خوبصورت ہے ’’ جب میں اپنی شادی کے بعد اپنی امی سے ملنے ان کے گھرجاتی تووہ کہتیں ، میری چڑیا گھر سے چلی گئی تو چڑیوں نے بھی یہاں آنا چھوڑ دیا ‘‘۔
’’ ایک ملاقات کا احوال‘‘ ( حنا سہیل جدہ) ڈاکٹر بشریٰ تسنیم صاحبہ سے ایک ملاقات کا خوبصورت احوال جس میں حاضرین نے ڈاکٹر صاحبہ سے بہت کچھ سیکھا خاص طور پر یہ کہ روزہ اور دیگر عبادتوں کا اصل مقصد تقویٰ ہے جس کا اعلیٰ درجہ ہے ۔
’’ کیا ہم آزاد ہیں ‘‘ ( تنجینہ احمد ) آزادی کی اہمیت پر ایک مختصر لیکن جامع مضمون ۔ بتایا گیا ہے کہ آزادی بڑی قربانیاں دے کر ملتی ہے اس کی قدر کرنی چاہیے ۔
’’ کون سی قوم ہیں ہم ‘‘ ( شہناز یونس) نہایت درد دل کے ساتھ ہماری قوم کے اندر موجود خامیوں کو گنوایا گیا ہے ۔ ایک جذبہ اصلاح کے ساتھ یہ مضمون لکھا گیا ہے ۔
’’ گوشہِ تسنیم ‘‘ ڈاکٹر بشریٰ تسنیم صاحبہ کا فکر انگیز کالم اسلامی معیشت کے بارے میں ایک مختصر لیکن جامع مقالہ ۔ ایک اسلامی فلاحی ریاست کا بڑا اچھا تصور پیش کیا گیا ہے ۔ ہم رزق حلال کو اگر اپنا شعار بنا لیں تو ہی ایک فلاحی اسلامی ریاست قائم ہو سکتی ہے جس میں کوئی انسان بھوکا نہیں سوئے گا ۔
آخر میں ’’ چمن بتول‘‘ ادارہ چمن بتول اور تمام قارئین اور لکھاری خواتین و حضرات کے لیے نیک خواہشات!
٭ ٭ ٭
روبینہ قریشی- راولپنڈی
جب ہم کسی انسان سے ملتے ہیں تو ہمیں اس سے مثبت یا منفی لہریں موصول ہوتی ہیں۔ اسی طرح جب ہم کچھ پڑھتے ہیں تو ان حروف سے بھی ہمیں کبھی مثبت اور کبھی منفی طاقت ملتی ہے۔۔کبھی ہم لکھے ہوئے کو پڑھ کر پرسکون ہوجاتے ہیں اور کبھی پریشان اور بے سکون۔
ستمبر کا ماہنامہ بتول ایک مثبت طاقت کے ساتھ میرےہاتھ میں موجود ہے۔حسب معمول صائمہ اسما کا ’’ابتدا تیرے نام سے‘‘ ایک مکمل پیکیج ہے۔اس میں پچھلے دنوں میں پیش آنے والے قابل ذکر تمام واقعات کاتذکرہ بھی ہے اور ان سے نمٹنے کے حوالے سے مناسب تجاویز بھی ہیں۔اللہ اپ کو جزائے خیر دیں کہ آپ نے پاکستان کے آج کے انتہائی برے حالات میں بھی امیدوں کے دیے جلائے ہوئے ہیں۔ معروف دینی سکالر علامہ دلاور سعیدی کی وفات پر دلی رنج ہے۔
ڈاکٹر میمونہ حمزہ کا’’اعجاز قران ‘‘ بہت معلوماتی مضمون ہے۔
ندا اسلام صاحبہ کا مضمون ’’بیوی کے حقوق‘‘ ایک نہایت جامع اور پر اثر تحریر ہے۔پلیزاسے خود بھی پڑھیں اور اس میں دیا گیا سبق اپنے گھر کے مردوں کو بھی بتائیں۔
اس شمارے کا خاص مضمون’’سید ابو الاعلی مودودی‘‘ واقعی خاص مضمون ہے۔ سید مودودی صاحب کی زندگی کے کئی پوشیدہ پہلو سامنے آئے جن کے بارے میں جان کر حیرت ہوئی۔خاص طور پر جب انہیں فوجی عدالت میں سزائے موت سنائی گئی اور انہوں نے رحم کی اپیل کرنے سے نہ صرف انکار کردیا بلکہ اپنے بیٹے عمر فاروق سے کہا:
بیٹاذرا نہ گھبرانا! اگر میرے پروردگار نے مجھے اپنے پاس بلانا منظور کرلیا ہے تو بندہ بخوشی اپنے رب سے جا ملے گا اور اگر اس کا ہی حکم نہیں آیا تو پھر چاہے یہ لوگ الٹے لٹک جائیں مجھے نہیں لٹکا سکتے‘‘۔
’’دیر کتنی لگتی ہے‘‘ قانتہ رابعہ کی حسب معمول بہت پیاری تحریر ۔ جزاک اللہ پیاری قانتہ۔
اسما جلیل قریشی صاحبہ کا ہدیہ نعت بحضور آقا صلی اللہ علیہ وسلم بہت بہت پیارا ہے اور ایک ایک شعر گویا اللہ کی رحمت سے ان پر اتارا گیا۔ملاحظہ فرمائیے
عقیدت یاد رہتی ہے، اطاعت بھول جاتے ہیں
نبیؐ کے نام لیوا ہو کے سنت بھول جاتے ہیں
بصد تعظیم جاتے ہیں سبھی آقا کے روضے پر
زیارت یاد رہتی ہے، ہدایت بھول جاتے ہیں
صفحہ نمبر 32 پر سنیعہ عمران نے بہاولپور سے ایک لاجواب اقتباس بھیجا ہےطلعت نفیس صاحبہ کی تحریر’’درد آشنا‘‘ اچھا پیغام دینے میں کامیاب رہی جس میں ساس اپنی جواں سال بیوہ بہو کی دوسری شادی کرواتی ہیں۔’’مگر ایک شاخ نہال غم‘‘ محترمہ الطاف فاطمہ صاحبہ کی منتخب تحریر جس کے لفظ، لفظ میں درد سمویا ہؤا ہے۔
محترمہ قانتہ رابعہ کی افسانہ نگاری پر لائبہ شفیق صاحبہ نے بڑا مکمل جائزہ پیش کیا جس میں انہوں نے ان کے موضوعات، پلاٹ، کردار نگاری، مکالمہ نگاری، اسلوب اور نقطہ نظر کے ساتھ ساتھ ان کے چندافسانوں پر فرداً فرداً بھی تبصرہ کیا۔
ڈاکٹر سمیعہ راحیل قاضی کا ملائشیا میں چندروز کافی معلوماتی مضمون تھا۔قصیدہ بردہ شریف نم آنکھوں سے پڑھا۔
بتول کے لیے بہت ساری دعاؤں کے ساتھ اجازت لوں گی۔
٭ ٭ ٭
اسما صدیقہ ۔ کراچی
مددگار کی حاجت سے تو پیغمبرعلیھم السلام اور صحابہ ؓ اور ان کے اھل خانہ بے نیاز نہ ہوسکے کہ اکیلا تو وہی ایک رب ہے جس کا کوئی شریک نہیں نہ اسے کسی شراکت کی احتیاج ہے مگر بندہ اسباب کی دنیا میں شراکتوں کا محتاج ہے ۔یہ محتاجی جدید دنیا میں مزید ترقی کرگئی ہے خصوصا ً خواتین کے لیے۔ سیزیرین ڈلیوری،اس سے پہلے کئی ماہ کے بیڈریسٹ نے جہاں گائنی سرجن اور نرسوں کا بھلا کیا ،ان کی آمدنی بڑھائی وہیں ماسیوں کی طلب دودہائیوں سے زیادہ عرصے سے بےاندازہ بڑھی ۔ پھر کمر اور گھٹنے کی تکالیف فروزن شولڈر جیسے تکالیف کی وجہ سے تو ماسی کے بنا جینے کا تصور کرنا محال ہوگیا۔مگر ماسی رکھنے کے لیے اعتماد بڑی چیز ہے یہ نہ ہو تو سمجھیں اپنے گھر پہ ڈکیتی ڈلوانے کا سامان خود کرلیا۔اس سلسلے میں رحم اور انفاق کے ساتھ ایک محتاط رویہ رکھنے کی ضروت ہے لہٰذا اس اھم موضوع کو بنیاد بناتے ہوئے تاکہ گھر کی نگری میں صفائی کے ساتھ حفاظت اور احتیاط کے اپنے کارآمد چٹکلے دوسروں کو شیئر کریں اور تلخ و شیریں تجربات سے سیکھنے سیکھانے کا اجر کمائیں ،مددگار نمبر شائع کیا گیا ۔اس کاوش پہ بہت مبارکباد ۔یہ گھرہستی سنوارنے کا (اپنی حفاظت کے ساتھ) ایک اچھا قدم ہے اور انفاق فی سبیل اللہ کی طرف آمادہ کرنا کہ حضرت محمد مصطفیٰ ؐ آخری نصیحت کا احساس خواتین میں جگانا بہت لازمی ہوگیا ہے۔لیکن اس کے ساتھ منفی کرداروں سے اٹے تلخ تجربات سے بھی احتیاط کا درس ملتا ہے۔
سب کی تحریریں بہت موثر اور سیرحاصل رہیں ۔ہم جو مددگاروں کی مدد کرتے ہیں وہ روپیے پیسے کھانے کپڑے سے ہی کرتے ہیں ان کی تعلیم و تربیت دعائیں سکھانا یا دس منٹ ہی سہی نکال کر پڑھانا بھی انفاق ہے ۔یہ ان کے اخلاق اور ایمان کو نکھارنے کو بہت ضروری ہے۔کچھ کہانیاں اور رسالے دے دیے جائیں کہ ماسی کی بچیاں تو اردو پڑھ لیتی ہیں۔ پھر ان سب کے ساتھ ایک محتاط رویہ بہت اہم ہے خصوصاً مردوں اور لڑکوں کے سلسلے میں تاکہ شیطان یہاں کوئی چال نہ چلنے پائے ۔کوشش کرنا چاہیے کہ ان سے ماسیاں مخاطب بھی نہ ہوں ۔
بہرحال یہ ایک یادگار کاوش ہے ۔اس سلسلے میں کرائے دار اور مکان مالک کو بھی موضوع بنایا جاسکتا ہے۔امید ہے کہ نوآموزگاروں کے لیے گھرہستی کی ذیل میں یہ بتول ایک مددگار نمبر ثابت ہوگا لہٰذا شادی کے مواقع پہ شمارہ جہیز میں یا بطور تحفہ دیا جائے تو نئی زندگی کی شروعات میں خاصے کی چیز ہوگی۔

٭ ٭ ٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x