ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

پل صراط پر – دیارِ غیر کی ہجرت – سوشل میڈیا سے

ایک دلخراش گوشوارہ….شیخ علی طنطاوی کی پوتی کی تحریرجو بہت سی خوش گمانیاں ختم کردیتی ہے

آج بڑی تیزی سے اہل اسلام یورپ اورمسیحی ممالک کی طرف ہجرت کر رہے ہیں۔ پہلے بھی کرتے رہے ہیں؛ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ بنیاد مضبوط نہ ہونے کی وجہ سے ان کی نسلیں ان کے ہاتھوں سے نکل رہی ہیں اور کنبے کا کنبہ مرتد ہوتا چلا جارہا ہے۔ معروف مصری عالم شیخ علی الطنطاوی کی پوتی مومنہ العظام کی اس سلسلے میں ایک چشم کشا، فکر انگیز اور دل و دماغ جھنجھوڑ دینے والی ایک رپورٹ پڑھیے، وہ کہتی ہیں کہ:
میرے داداشیخ طنطاوی نامور عالم و فاضل ہونے کے ساتھ بڑے روشن دماغ اور مستقبل شناس تھے۔ دادا کی عالمی شہرت کی وجہ سے ہمارے پاس یورپ جانے کے بہت سے مواقع تھے، آسانی سے ویزے مل سکتے تھے؛ لیکن وہ ہمیں ہمیشہ دیارِ غیر میں جانے سے روکتے تھے۔ مجھے بڑا غصہ آتا تھا کہ یہ کیا دقیانوسیت ہے، سارے لوگ ہجرت کررہے ہیں، زندگی کی آسائشوں سے لطف اندوز ہورہے ہیں؛ مگر ہمارے مذہبی خاندان نے عجیب قسم کی پابندی ہمارے اوپر لگا رکھی ہے۔
لیکن جب میں بڑی ہوئی، یورپ کے دورے کیے،اور بہت سارے مہاجر خاندانوں سے ملاقات کا اتفاق ہؤا تو دادا جان کے لیے دل سے دعائیں نکلیں اور ان کی دور اندیشی کو سلام کرنا پڑا؛ کیوں کہ ان کا خدشہ صد فی صد حقیقت ثابت ہؤا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’کفر کی زمینوں پر رہنا، اور کافرانہ ملکوں میں بودوباش اختیار کرنا پیش آمدہ نسلوں کے ایمان وعقیدہ کے لیے بڑا خطرہ ہے۔ ہوسکتاہے آپ اپنے بچوں کے ایمان کو بچالیں، لیکن ان کے بعد کیا ہوگا، اور پھر ان کے پوتوں کے پوتوں پر کیا بیتے گی اس کی کوئی ضمانت نہیں لے سکتا‘‘۔
بہت سے مذہبی لوگ یہ دعوے کرتے ہیں کہ الحمدللہ ہمارا گھرانہ بڑا کٹر دینی ہے، کہیں جائے اور کسی زمین پر رہے فرق نہیں پڑتا۔مگر نہیں صاحب ایسا نہیں ہے، وقت گزرنے کے ساتھ فرق پڑتا ہے اور بہت بڑا فرق پڑتا ہے۔
مومنہ العظام کہتی ہیں کہ ایک دہائی قبل مجھے مہاجر خاندانوں خصوصاًمشہور بیروتی مذہبی ’’رمضان خاندان‘‘ کی تحقیقات پر مامور کیا گیا۔ جب میں نے ریسرچ شروع کی، ان کے شجرات کھنگالے اور دنیا جہان میں پھیلے اس خاندان کے افراد کا جائزہ لیا تو قریبا پانچ ہزار لوگوں کا سراغ ملا۔ لیکن ان کی نسلوں کی مذہبی تباہی کی داستان بڑی دلخراش اور جگرشگاف تھی۔ پھر انھوں نے یورپ ہجرت کرجانے والے خاندانوں کا ایک گوشوارہ تیار کرتے ہوئے یہ انکشاف کیا کہ:
100سال قبل ہجرت کرجانے والوں کی پشتوں میں قریباً 96% غیرمسلم ہوچکے ہیں۔
80 سال قبل ہجرت کرجانے والوں کی پشتوں میں قریباً 75% مرتد ہوچکے ہیں۔
60 سال قبل ہجرت کرجانے والوں کی پشتوں میں قریباً 40% عیسائی ونصرانی بن چکے ہیں۔
40 سال قبل ہجرت کرجانے والوں کی پشتوں میں قریباً 25% اسلام چھوڑ چکے ہیں۔
قریباً اَسّی سال قبل ایک مشہور شیخ نے جنوب امریکہ کے ایک شہر ’ایکویڈر‘ کی طرف ہجرت کی، اور وہاں سب سے پہلی مسجد کی بنیاد رکھی۔ انھوں نے گھر کا ماحول مذہبی رکھا اور بچوں کو سختی سے دینی تعلیم بھی دی۔ لیکن آج بدقسمتی سے ان کے پوتوں میں کوئی بھی مسلم نہیں۔ ایسا ہی کچھ معاملہ بیشتر مہاجر خاندانوں کے ساتھ ہے۔دور کہاں جانا، ہم لوگ قریباً چالیس سال سے امریکہ میں مقیم اور یہاں کے شہری ہیں، اور خود میرے دادا شیخ علی الطنطاوی کے پوتے پوتیوں میں سولہ غیرمسلم ہوچکے ہیں۔
وہ کہتی ہیں ،ایکویڈر میں رمضان خاندان کے اٹھانوے لوگ آباد ہیں۔ ان کے آباؤ اجداد ۱۹۲۳ میں ہجرت کرکے یہاں پہنچے تھے۔ آج وہ سارے کے سارے عیسائی بن چکے ہیں، جن میں سے میں نے جورج، کرسچین، اور امیلیو رمضان سے ملاقات بھی کی۔ان کو میں نے ان کا تابناک خاندانی پس منظر بتایا اور ہر طرح سے مدد کرنے کی کوشش بھی کی کہ کسی طرح گھر واپسی کرلیں، لیکن نعوذ باللہ کوئی رضامند نہ ہؤا۔
شیخ الطنطاوی کی پوتی کی یہ رپورٹ میں نے کئی سال قبل پڑھی تھی، اور پڑھ کر بڑا دکھ ہؤاتھا کہ دنیا میں کیسے کیسے حادثا ت وواقعات رونما ہوتے رہتے ہیں۔پھر ذہن سے بات نکل گئی تھی۔ ابھی چند روز قبل قنوج میں منعقد احیائے تصوف کانفرنس کے لیے جانا ہؤا تو وہاں ایک شیخ سے ملاقات ہوئی، اور باتوں ہی بات میں انھوں نے حیدر آباد کے ایک معروف عالم کہ جن کی لکھی کتاب آج بھی درسِ نظامی کی ابتدائی جماعت میں پڑھائی جاتی ہے، کے بچوں کے امریکہ ہجرت کر جانے کا ایک دلخراش واقعہ سنایا تو برسوں قبل پڑھی ہوئی مذکورہ رپورٹ کا نقشہ ذہن میں گھوم گیا۔
شیخ صاحب نے بتایا کہ مولاناکے دو بچے ایک زمانے سے امریکہ میں رہتے تھے، وہیں کے شہری بن گئے، وہیں ان کی اولادیں بھی ہوئیں، گھر سے انھوں نے کوئی تعلق نہیں رکھا۔ مدتوں بعد ابھی حال ہی میں جب انھیں اپنی مٹی کی یاد آئی تو ان میں سے ایک ہندوستان گھومنے آیا۔ اس نے جب اپنے امریکی خاندان کی روداد سنائی تو سامعین پر سکتہ طاری ہوگیا کہ اس کے اپنے دو بیٹے دائرۂ اسلام سے خارج ہوچکے ہیں: ایک عیسائی بن گیا اور دوسرا ایتھیسٹ۔ آج وہ بہت پچھتا رہا تھا لیکن’’اب پچھتاوے کیاہوت جب چڑیا چگ گئی کھیت‘‘۔
واقعی اولاد کی تربیت اور ان کے قدموں کو دین پر جمائے رکھنا سب سے مشکل، صبر آزما اور اہم ترین کام ہے۔ مگر کیا کیجیے گا کہ ہمیں جب اپنے دین وایمان کی فکر ہی نہیں تو اپنی اولاد اور اولادوں کی اولاد کے ایمان وعقیدے کی فکر کیا ہوگی!جب کہ اپنی اولادوں کے ایمان وعقیدہ کے بارے میں فکرمند ہونا اور انھیں بہترین دینی واسلامی ماحول فراہم کرکے جانا یہ انبیائے کرام کی سنت ہے۔
اللہ جل شانہ ہمارے حال زار پر رحم فرمائے اور ایمان وعقیدہ صحیحہ کی روشنی ہماری نسلوں میں باقی رکھے۔ آمین یا رب العالمین۔
کچھ رہے یانہ رہے بس یہ دعا ہے کہ امیرؔ
نزع کے وقت سلامت میرا ایمان رہے
٭ ٭ ٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x