ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

کارِ جہاں دراز ہے – پروفیسر خواجہ مسعود

انسان کہاں سے چلا اور کہاں پہنچا ….کرۂ ارض کی تاریخ میں انسانی سفر پر ایک طائرانہ نظر

باغ بہشت سے مجھے حکم ِ سفر دیا تھا کیوں
کارِ جہاں دراز ہے اب میرا انتظار کر
(علامہ اقبالؒ)
اس کرہ ارض پر انسانی زندگی کی ابتدا اُس وقت ہو گئی تھی جب حضرت آدمؑ اور اماں حواؑ کو یہاں اتارا گیا اور پھر اس کرہ ارض پر انسان کا ایک طویل سفر شروع ہو گیا۔ حضرت آدمؑ سے نسلِ انسانی چلی ۔ ان کے ہاں لڑکے لڑکیاں پیدا ہوتے رہے اور نسلِ انسانی بڑھتی رہی ۔ پھر دنیا میں انسان کا پہلا قتل ہؤا۔ قابیل نے جذبہ رقابت میں اپنے بھائی ہابیل کو قتل کردیا ۔
ث حضرت آدمؑ دنیا میں پہلے انسان بھی تھے اور پہلے پیغمبر بھی ۔ چشمِ فلک نے اس کرہ ارض پر ان گنت واقعات وحادثات رونما ہو تے ہوئے دیکھے ۔حضرت نوحؑ کی قوم نے جب گمراہی کا راستہ ترک نہ کیا تو ایک خوفناک سیلاب آیا جو سب کچھ بہا کر لے گیا ۔ چند ایمان لانے والے مرد و خواتین اور جانوروں، پرندوں کے جوڑے کشتی میںسوار ہو کر حضرت نوحؑ کے ساتھ کوہِ جودی پہ پہنچے اور زندہ بچے ، حضرت نوحؑ سے دوبارہ نسلِ انسانی چلی اسی لیے حضرت نوحؑ کو آدم ثانی بھی کہا جاتا ہے ۔
ث چشم فلک نے وہ مہیب آگ بھی دیکھی جس میں حضرت ابراہیم ؑ خلیل اللہ کو پھینکا گیا لیکن وہ آگ اللہ کے حکم سے گل و گلزار بن گئی۔
ث اللہ کے حکم سے پھر حضرت ابراہیمؑ نے اپنے بیٹے حضرت اسماعیلؑ کے ساتھ مل کر خانہ کعبہ کو اللہ تعالیٰ کی ہدایت کے مطابق تعمیر کیا ۔ بقول علامہ اقبال ؒ:
دنیا کے بتکدوں میں پہلا وہ گھر خدا کا
ہم پاسباں ہیں اس کے یہ پاسباں ہمارا
ث نسل انسانی آگے بڑھتی رہی ۔ حضرت اسماعیل ؑ کی نسل سے ہمارے پیارے رسول حضرت محمد ؐ دنیا میں تشریف لائے۔
ث حضرت لوطؑ کی قوم بھی جنسی بے راہ روی کی بنا پر درد ناک عذاب کا شکار ہوئی۔
حضرت ابراہیم ؑ کے دوسرے بیٹے حضرت اسحٰق ؑ کے بیٹے حضرت یعقوبؑ تھے ۔ جن کی نسل بنی اسرائیل کہلائی۔ حضرت یعقوب کے بیٹے حضرت یوسف ؑ تھے اور ان کے گیارہ بھائی ۔ پھر چشمِ فلک نے دیکھا کہ ان بھائیوں نے حضرت یوسفؑ کو ایک دن کنویں میں پھینک دیا ۔ اور پھر کس طرح وہ مصر کے بازار میںجا کے ایک غلام کی حیثیت سے فروخت ہوتے ہوئے اور پھر وہی حضرت یوسف ؑ آگے چل کے مصر کے حاکم بنے۔ اور یوں بنی اسرائیل مصر میں آباد ہوئے۔
ث اس کرہ ارض پر نمرود کی بادشاہی بھی آئی ۔ نمرود نے خدائی کا دعویٰ بھی کیا تھا لیکن ایک مچھر کے ہاتھوں موت کا شکار ہوگیا۔
ث چشم فلک نے حضرت ایوبؑ کا صبر بھی ملاحظہ کیا ۔ حضرت یونس کا مچھلی کے پیٹ میں جانا بھی دیکھا ۔ تو بہ کے بعد آپ مچھلی کے پیٹ سے زندہ واپس نکلے ۔
ث اس کرہ ارض پر دائودؑ بھی تشریف لائے جن کی خوش الحانی مشہور ہے ۔ پھر ان کے بیٹے حضرت سلیمان تشریف لائے جن کو پیغمبری کے ساتھ ساتھ زبردست بادشاہت عطا کی گئی پھر چشم فلک نے ملکہ بلقیس کا تخت اڑا کے آناً فاناً حضرت سلیمان کے دربار میںپہنچتے ہوئے بھی دیکھا۔حضرت شعیبؑ کا زمانہ بھی آیا ۔ اور پھر حضرت موسیٰؑ کلیم اللہ کا دور آیا ان کے ساتھ ان کے بھائی حضرت ہارون ؑ بھی پیغمبر ہوئے۔
ث قدرت خدا کی کہ حضرت موسیٰ ؑنے اپنے دشمن بادشاہ فرعون کے محل میں پرورش پائی ۔
ث چشم فلک نے یہ نظارہ بھی دیکھاکہ حضرت موسیٰ ؑتو اپنے ماننے والوں کے ساتھ دریائے نیل کے پار چلے گئے لیکن فرعون اسی دریا میںغرق ہو گیا ۔ بنی اسرائیل کی طرف سے بار بار نا فرمانیاں بھی سامنے آئیں ۔ پھر حضرت عیسیٰؑ کا زمانہ آگیا ۔ آپ پاکیزہ خاتون حضرت مریم ؑ کے بطن سے بن باپ کے پیدا ہوئے یہ ایک معجزہ تھا۔ پھر اسی سر زمین پہ یہودی حضرت عیسیٰؑ کے سخت دشمن بن گئے ۔ آپ کے قتل کے در پے ہو گئے لیکن اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰؑ کو زندہ آسمانوں پر اٹھا لیا ۔
ث انسانی سفر جاری رہا ۔ پھر لوگ گمراہی کا شکار ہوگئے ۔ خاص طور پر عرب کےاندر تو بت پرستی عروج پر تھی۔
ث پھر اللہ تعالیٰ نے نسل انسانی پر کرم کیا کہ اس دنیا میں آخری پیغمبر حضرت محمد ﷺتشریف لائے ۔
جب آپ ؐ کو نبوت عطا ہوئی آپ نے تبلیغ شروع کی تو اپنے ہی ہم قوم ان کے جانی دشمن بن گئے ۔ چشم فلک نے دیکھا کہ کس طرح طائف کے اندر آپ ؑ پر پتھربرسائے گئے ۔ آپ کو لہو لہان کر دیا گیا ۔ پھر مکہ میںآپ کو دیوانہ تک کہا گیا ، گالیاں دی گئیں۔لیکن آپؐ کے پائے استقامت میں لغزش نہیں آئی ۔ آپ ثابت قدم رہے۔
آپؐ کو اپنے آبائی شہر مکہ سے ہجرت کرنے پر مجبور کر دیا گیا اور پھر چشم فلم نے دیکھا کہ آپ ایک دن فاتح کی حیثیت سے مکہ میںداخل ہوئے سب بت گرا دیےگئے اور اسلام سارے عرب میں پھیل گیا۔
انسان کا سفر جاری رہا ۔ آپ ؐ کی رحلت کے بعد چار خلفائے راشدین یکے بعد دیگرے آئے۔ لیکن ستم ظریفی یہ کہ ان میں سے تین خلفا شہید کیے گئے ۔
اب اسلام عرب سے نکل کر ایران ، ترکی ، افریقہ ، ہندوستان تک پھیل چکا تھا ۔ پھر اموی دور آیا ۔چشم فلک نے یزید کے دور میں نواسہ رسول حضرت امام حسین ؓ اور ان کے خاندان والوں اور سارے ساتھیوں کو کربلا کے تپتے میدان میں شہید ہوتے بھی دیکھا اوراس پاک خاندان کی خواتین کو قیدی بنا لیا گیا۔
ث اموی دور میں ہی سپین میں مسلمانوں نے فتح حاصل کر کے شاندار حکومت قائم کی اس کا سہرا طارق بن زیاد اور موسیٰ بن نصیر کے سر ہے مسلمانوں کے عہد میں سپین نے شاندار ترقی کی ۔
ث اموی دور کے بعد عباسی خلفا کا دور آیا ۔ انسانی سفر جاری رہا۔ تاریخ نے شاندار خلفا ہارون الرشید اور مامون الرشید کا دور بھی دیکھا۔ جب اسلامی سلطنت عروج پر تھی لیکن پھر چشم فلک نے وہ دور بھی دیکھا جب بغداد میں مسلمان عیش و عشرت کے عادی ہوگئے اور خلیفہ ہیرے جواہرات جمع کرنے لگے ۔ تو ہلاکو خان نے آ کے بغداد کی اینٹ سے اینٹ بجا دی اسلامی سلطنت کا شیرازہ بکھیر دیا ۔
ث پھروہ دور آیا کہ سپین میں بھی مسلمانوں کو زوال کا سامنا کرنا پڑا ۔
ث ترکی میں سلطنت عثمانیہ کے خلفانے نہایت دبدبے کے ساتھ چھ سو سال حکومت کی لیکن بالآخر وہ سلطنت بھی جنگ عظیم کے نتیجہ میں ختم ہو گئی۔
ث ہندو ستان میںمغلیہ دور کے شاندار عہد کے بعد مسلمانوں کی حکومت کوزوال آگیا ۔اور چشم فلک نے دیکھا کہ آخری مغلیہ شہنشاہ بہادر شاہ ظفر کو قیدی بنا کے کالے پانی بھیج دیا گیا اس کے بیٹوں کو قتل کر دیا گیا۔
ث وقت کے ساتھ جوں جوں اس کرہ ارض پر انسانی سفر جاری رہا۔ سائنس اور طب بھی ترقی کرتی رہی ۔پہیہ ایجاد ہؤا ۔ پہلے پہل گاڑیاں ، گھوڑا گاڑیاں چلیں ۔ انسانی ترقی کا سفر جاری رہا ۔ پھر ریل گاڑی ایجاد ہو گئی ۔ پھر موٹر کاریں ، بسیں اور پھر سمندروں کاسینہ چیرنے والے بحری جہاز ۔ ہوائوں کے روش پر اڑنے والے ہوائی جہاز ۔ دنیا سمٹ کے رہ گئی ۔ ایک دن میںساری دنیا کا چکر لگانا ممکن ہوگیا ۔
ث انسانی سفر کے ساتھ ساتھ ترقی جاری رہی ۔ پہلے ریڈیو ایجاد ہؤا پھر ٹرانسسٹر آئے ۔ پھر جام حم کی مانند ٹی وی ایجاد ہو گئے ،ٹیلی گرام اور ایجاد ہوئے جہاں مرضی بات کریں اور پھر کمپیوٹر کی ایجاد ۔ دنیا جہاںکی معلومات تک رسائی آسان ہوگئی ۔ موبائل ایجاد ہو گئے ۔ جیب میں رکھیں اور کہیں سے بھی کہیں بھی بات کر لیں۔
ث انسان نے خلائوںمیں بھی سفرشروع کر دیا اور ایک دن چاند پہ انسان نے اپنا پہلا قدم رکھا ۔زمین پر بیٹھ کر سیاروں کا مطالعہ شروع ہوگیا۔ دنیا سمٹ کے رہ گئی ۔ آن لائن سسٹم نے ہر کام آسان کر دیا۔
ث طب کے شعبے میں بھی انسانی ترقی کا سفر جاری رہا ۔ الٹراسائونڈ ، ایکسرے، ایم آر آئی ، سٹی سکین نہ جانے کیا کیا طریقے سامنے آگئے لیکن اس حساب سے نت نئے امراض بھی وجود میں آگئے جیسے کہ ٹی بی ، کینسر ، کورونا ، ایڈز پھر علاج بھی دریافت ہوئے۔ امریکہ اور یورپ نے بے حد ترقی کی مہلک جنگی ہتھیار بھی ایجاد کر لیے ۔ لڑاکا طیارے ، ٹینک ، توپیں ، ایٹم بم ، میزائل ، راکٹ اور پھر ایک دن چشم فلک نے یہ روح فرسا منظر بھی دیکھا کہ امریکہ نے ظلم کی حد کردی اور جاپان کے شہر ہیرو شیما پر ایٹم بم گرا دیا ۔ چند دن بعد دوسرے شہرناگا ساکی پر دوسرا ایٹم بم گرا دیا ۔ لاکھوں بے گناہ جاپانی شہری مارے گئے ۔
ث چشم فلک نے دوہولناک عالمی جنگیں بھی دیکھیں ، پہلی جنگ عظیم 1917تا 1919ء اوردوسری جنگ عظیم 1939تا1945ء یہ دوسری جنگ عظیم ہٹلر کے جنگی جنون کی وجہ سے برپا ہوئی ۔ لاکھوں انسان مارے گئے ۔ شہر تباہ ہوئے اور بالآخر ایک دن جرمنی کے ہٹلر کو خود کشی کرنا پڑی۔
ادھر برصغیر میں1947ء میں یہاں کے باشندوں کو انگریزوں کی غلامی سے نجات ملی اوردو آزاد ملک پاکستان اور بھارت معرض وجود میں آئے لیکن چشم فلک نے دیکھا کہ لاکھوں مسلمان اس تقسیم کے دوران بے دردی سے قتل کیے گئے ، ہزاروں مسلمان خواتین کی عصمتیں لٹیں ، بڑی قربانیوں کے بعد ہمیںپاکستان حاصل ہؤا مغربی پاکستان اورمشرقی پاکستان ۔ لیکن افسوس کہ 1971ءمیں ہمارا وہ بازو مشرقی پاکستان ہم سے الگ ہو گیا۔
ادھر مقبوضہ کشمیر میں ہندوستان کی فوج کا ظلم و ستم جاری رہا اور یہ بربریت کا دور ابھی تک جاری ہے اور اب تک لاکھوں کشمیری مسلمان باشندے شہید کر دیے گئے آج بھی بھارت کی نو لاکھ فوج وہاں ظلم و ستم ڈھا رہی ہے ۔
ث چشم فلک نے یہ بھی دیکھا کہ افغانستان کو امریکہ اوربڑی طاقتوں نے مل کے دوبارتباہ کیا آج تک وہاں امن و امان قائم نہیں ہو سکا۔ پائیدار حکومت قائم نہیں ہو سکی۔
دنیا نے چین کی افیونی قوم کو ترقی کرتے بھی دیکھا اور آج چین امریکہ کے مقابلے میں ایک بڑی طاقت بن چکا ہے ۔
انسان کا سفر اس کرہ ارض پر ابھی تک جاری ہے
محوِ حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہوجائے گی
ابھی نہ جانے دنیا میں کیا کیا ترقی کے مراحل طے پائے ہیں۔ ابھی انسانیت محوِ انتظار ہے کہ کب امام مہدیؑ کا ظہور ہوگا۔ ظالم دجال اس دنیا میں آئے گا ۔پھر حضرت عیسیٰ ؑ تشریف لائیں گے اور ایک دفعہ پھر اسلام کا بول بالا ہوگا۔
انسان کا جو سفر حضرت آدم ؑ سے شروع ہؤا تھا اب روز قیامت ہی ختم ہو گا ۔ یہ ایک طویل سفر تھا اور ابھی نہ جانے کب تک جاری رہے ۔اسی لیے علامہ پکار اٹھےتھے؎
کارِ جہاں دراز ہے اب میرا انتظار کر
٭ ٭ ٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x