ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ابتدا تیرے نام سے – صائمہ اسما

قارئینِ کرام سلام مسنون!
بٹگرام میں دریا پرڈولی میں پھنس جانے والے سکول کے بچوں اور ان کے استاد کو بچا لیا گیا۔ اگرچہ اس ریسکیو آپریشن میں کئی ادارے متحرک ہوئے مگرمقامی افراد کی ہمت اور حوصلے کو داد ہے جنہوں نےبالآخر جانیں خطرے میں ڈال کر ان لوگوں کو بچایا۔ خصوصاً وہ ایک بہادر نوجوان اعلیٰ سول ایوارڈ کا مستحق ہےجس نے رات کے اندھیرے میں رسّے کے ذریعے سب کو باری باری ریسکیو کیا۔ اس بات کا ندازہ بھی ہؤا کہ ان پہاڑوں پہ رہنے والے ،جری اور شجاع لوگ ہیں ،کم ڈیویلپمنٹ اورناقص انفرا سٹرکچر کے باعث ایسی مشکلات سے نبرد آزما ہوناان کی زندگی کا حصہ ہے، ایسی مہمات بھی سر کرتے ہیں جوسہولیات کے باوجود دوسرے نہیں کرسکتے۔
ہمارے معاشرے میں بدقسمتی سے پیری مریدی اور وڈیرہ شاہی کے اتصال سے بنی ہوئی گدّیاں ،ظلم کا گڑھ بن چکی ہیں۔ظلم کے نظام کے سب سے بڑے رکھوالے یہی طبقات ہیں جو سیاسی طاقت حاصل کر کے حکومتی مناصب اور وسائل پر بھی قابض ہوجاتے ہیں۔ پھر ان کو چیلنج کرنے والا کوئی نہیں رہتا کیونکہ قانون اور قانون نافذ کرنے والے ادارے ان کےگھرکی لونڈی بن جاتے ہیں اور جہالت اور غربت میں دھنسے ہوئے عوام نسل در نسل ان کی غلامی سے نکل نہیں پاتے۔ سندھ میں منظر عام پر آنے والاتازہ واقعہ بھی اسی بدنصیبی کی کہانی ہے۔ رانی پور میں نام نہاد ننگِ انسانیت پیر کے گھر خدمت کے لیے چھوڑی ہوئی دس سالہ بچی کا قتل ایک روح فرساواقعہ ہے۔ اس مجرمانہ گٹھ جوڑ کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ مقدمہ قائم ہونے پہ کچّےکے ڈاکوؤں نے بھی دھمکیاں دی ہیں اوراپنے پیر کے گھرانے کی حفاظت کا اعلان کیا ہے۔فاطمہ اس وطن کی ان لاکھوں بچیوں میں سے ایک تھی جن کو زندہ اور محفوظ رہنے، پھلنے پھولنے کا حق حاصل ہے مگر جن کو اپنے ہی وطن میں غلاموں اور جانوروں سے بدتر رکھا گیا ہے۔ایسے معاشرے میں ظلم کو ظلم کہنے اور ظالم کا ہاتھ نہ پکڑنے والوں کی بھی اللہ کے ہاں پوچھ ہوگی۔جب اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے ہوئے لوگوں کا اس ظلم کے تسلسل سے تعلق اتنا واضح نظر آ رہا ہو تو ہم میں سے ہر ایک کاکم سے کم اتنا تو فرض بنتا ہے کہ جو سیاسی جماعت ظلم کے ان پاسبانوں کے بل پہ اقتدار میں آنا چاہتی ہواس کا ساتھ نہ دے تاکہ اللہ کے آگے جوابدہ نہ ہونا پڑے۔ اہلِ سیاست کے لیے بھی وقت کا سب سے بڑا جہاد یہی ہے کہ طاقت کے ان جھوٹے مراکز کی محتاجی سے پاک سیاست کی جائے۔
اس سے پہلےاسلام آباد میں ایک اور گھریلو ملازمہ رضوانہ کے ساتھ تشدد کا افسوس ناک واقعہ بھی خبروں کی زینت بنا۔ ہمارے ہاں چائلڈ پروٹیکشن ایکٹ بھی بنے ہوئے ہیں،گھریلو ملازمین کی حفاظت کے بھی اور لیبر لاز بھی، مگر ان دو واقعات نے ایک بار پھر ثابت کیا ہے کہ پاکستان میں ہر قسم کی لاقانونیت،بدعنوانی اور جرائم کی پشت پر یا تو بااثر افراد کا ہاتھ ہوتا ہے یا وہ خود اس میں ملوّث ہوتے ہیں۔ ایک طرف پیری مریدی کی آڑ میں اور دوسری طرف بااثر جج کے اپنے گھر میں سنگین جرائم کا ارتکاب ہؤا۔ فاطمہ اور رضوانہ جیسے واقعات کو رونما ہونے سے روکنے کے لیے ضروری ہے کہ مجرموں کو عبرت ناک سزائیں دی جائیں۔ ہمارا دین تو قصاص کے اصول پربہت واضح ہے۔ بلکہ جب معاملہ طاقتور اور کمزور کا ہو تو معافی یا خون بہا کا اصول بھی ساقط کردینا چاہیے کیونکہ غریب کو مجبور کردیا جاتا ہے کہ وہ اپنا حق چھوڑ دے۔ ان معصوم بچیوںکے ساتھ ہونے والے انسانیت سوز سلوک پر سر شرم سے جھک جاتا ہےکہ ہم نے کیسا معاشرہ تشکیل دیا ہے۔ جہاں طاقت اور دولت کا اندھا استعمال ہو ،نہ خدا کا

خوف ہو نہ قانون کا،وہاں کمزوروں کا استحصال ایک معمول بن جاتا ہے۔ہمارا دین ہر کمزور طبقے کے حقوق کی حفاظت کی ضمانت دیتا ہے، مگر افسوس کہ دین کا عمل دخل نہ تربیت میں ہے اور نہ انصاف کی فراہمی کے نظام میں۔قانون کی گرفت کمزوروں پر ہوتی ہے،بااثر لوگ انصاف کے کٹہرے میں نہیں لائے جاتے جبکہ عورت اور بچی سمیت ہر کمزور طبقے کی حفاظت قانون کی بلاامتیاز عملداری سے ہی ہو سکتی ہے ۔
اسی تناظر میں جڑانوالا میں ہونے والے واقعے کودیکھیں تو دکھ ہوتا ہے کہ ہم کس طرح مذہب کے نام پر آسانی سے گمراہی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ جو دین گھونسلے میں رہنے والے پرندے کی بھی سلامتی کا درس دینے آیا ہے، اس کے پیروکار اپنے جیسے انسانوں کے گھر جلانا کیسے نیکی سمجھ سکتے ہیں! پاکستان اس وقت جس نازک صورتحال سے گزر رہا ہے اس بات کا کافی امکان ہے کہ جڑانوالا کے افسوس ناک واقعے میں لوگوں کو اکسانے کے پیچھے ایسے عناصر ہوں جو پاکستان کو کمزور کرنا چاہتے ہیں۔ شفاف تحقیقات کے بعد اصل مجرموں اور ان کے سہولت کاروں کوبے نقاب کرنا اور قرار واقعی سزا دینا بہت ضروری ہے تاکہ پاکستان پر سے یہ داغ دھل سکے۔
ملک کی سیاسی فضا ہنوز دگرگوں ہے۔پچھلی حکومت ایک سال پانچ ماہ گزار کر رخصت ہوئی اور ملکی معیشت کو پہلے سے بھی کہیں زیادہ برے حال میں کر گئی۔پٹرول، بجلی اور اشیائے صرف کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ، روپے کی قدر میں مزید کمی ، ڈالر دوگنا مہنگا،جی ڈی پی کی چھے فیصد شرح افزائش کو 2.9پر لاکر چھوڑ گئی۔ترقیاتی بجٹ کا ننانوے فیصد ممبران پارلیمنٹ کی سکیموں کے لیے بانٹ دیا تاکہ آئندہ بھی ان کی وفاداریاں خرید سکیں۔جس اشرافیہ کے لیے بجلی پٹرول مفت ہے اسے عوام کی تکلیف کا کیا احساس! بڑے شہروں میں مہنگائی اور بجلی کی قیمت کے خلاف مظاہرے ہورہے ہیں، بِل جلائے جارہے ہیں،گزارا کرنے میں ناکامی پر خودکشیوں کی خبریں کثرت سے مل رہی ہیں، عوام میں بے بسی سے بڑھ کر اب غم و غصہ ہے۔ اس وقت سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ نگران حکومت جو آئین کے مطابق نوے دن کے اندر انتخابات کروانے کے لیے آتی ہے، کیا اپنا یہ اصل کام کر پائے گی؟
۴ ستمبر کو یوم حجاب منایا جاتا ہے۔اس بار یہ آگاہی مفید ہوگی کہ چادر اور چاردیواری کے تقدس کو پامال نہ کیا جائے۔
گھروں میں کام کرنے والی بچیوں کی حفاظت کے لیے قوانین بنائے جائیں ۔ کالجوںمیں تعلیم حاصل کرنے والی بچیوں کے لیے ایسا ماحول مہیا کیا جائے کہ وہ کسی خوف و خطر کے بغیر آزادی سے اپنی تعلیم مکمل کر سکیں اور بہاولپور یونیورسٹی جیسے واقعات دوبارہ نہ ہوں ۔دفاتر اور تعلیمی اداروں میں کام کرنے والی خواتین کو حراسگی سے بچایا جائے ۔ عورتوں اور مردوں کے اختلاط کو کم سے کم کیا جائے ۔تعلیمی نصاب میں قرآن و سنت کی تعلیمات کے مطابق عورتوں کو لباس اورحجاب کے اصول بتائے جائیں ۔
بنگلہ دیش میں عہدِ وفا نبھانے والا ایک اور نفسِ مطمئنہ چلا گیا ۔ نائب امیر جماعت اسلامی ،بلند پایہ دینی سکالر، مبلّغ ،عوام میں پذیرائی رکھنے والی محبوب اورنمایاں شخصیت علامہ دلاور سعیدی تیرہ برس کی قید سخت کاٹ کر داغِ مفارقت دے گئے۔ ہزاروں لوگ حکومت کے خلاف احتجاج اور دکھ کے اظہار میں سڑکوں پر امڈ آئے۔ اللہ مرحوم کے درجات بلند فرمائے آمین۔
اس بار کا شمارہ ستمبر اور ربیع الاوّل کا امتزاج ہے۔ پڑھیے اور پڑھنے کو دیجیے۔ اگلے ماہ تک اجازت بشرطِ زندگی!

دعاگو، طالبہ دعا
صائمہ اسما

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x