ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

سفر سعادت – اور سامنے منزل آجائے – آمنہ راحت،برطانیہ

بارہ سال کی عمر میں جب میرے والدین مجھے بڑے بہن بھائی کے پاس چھوڑ کرسعادت حج کے لیے سر زمین عرب کی جانب روانہ ہوئے تو دو وجوہات کی بنا پر میری آنکھوں سے آنسوئوں کی لڑی جاری ہو گئی ۔اولاً تو ماں باپ سے چالیس روز کی جدائی اور دوم خانہ کعبہ کے دیدار کی خواہش۔
جب ماما اور ابو چالیس روز بعد گھر لوٹے تو انہوں نے وہاں کی داستانیں سنائیں جن کو سن کر وہاں جانے کی خواہش دل کے کسی گوشے میں شدت پکڑتی گئی اور اللہ سے اپنے بلاوے کے لیے دعائوں کو اور تیز کر دیتی ۔ کئی بار امید بندھی مگر کسی نہ کسی وجہ سے خواب ٹوٹنے لگے ۔ کچھ ان چاہے خیالات ایسے بھی پیدا ہوئے کہ شایدمیری قسمت میں یہ نہ لکھا ہو مگر شیطان کے پیداکیے ہوئے ان وسوسوں کوکتنی بار جھٹکتی رہی ۔ تصاویر اور ویڈیوز میں اللہ کے گھر کو دیکھتی ، دعا کرتی اور اس سے پہلے کہ میری آنکھوں سے آنسو جاری ہو جائیں … اپنا دھیان گھر بچوںاور جاب میں لگا لیتی۔کبھی کبھاراس انتظار کی شدت اتنی بڑھ جاتی کہ ضبط کے بندھن ٹوٹ جاتے اور اللہ کے گھر جانے کے لیے بلک بلک کے رونے لگتی۔
میری اس کیفیت کا اندازہ میرے بہن بھائی کو بخوبی تھا ۔ ابو اپنے وصال سے قبل بارہااس خواہش کااظہار کر چکے تھے کہ ان کا دل چاہتا ہے کہ وہ اپنی دونوں بیٹیوں کو عمرے پر لے جائیں مگر زندگی نے ان کو موقع نہ دیا اور وہ ہم سے بچھڑ گئے ۔
2023ء کا رمضان المبارک میں نے پاکستان میں گزارنے کا ارادہ کیا ۔ اتفاقاً برطانیہ میں بچوں کی ایسٹر کی تعطیلات دورانِ رمضا ن آگئیں ۔ میں نے اپنے شوہرآصف سے تذکرہ کیاتو وہ بیٹے حمزہ کو رکھنے پر آمادہ ہو گئے جبکہ میں بیٹی فارعہ کے ساتھ پاکستان روانہ ہو گئی۔بھائی نے چند ہفتے قبل میرے پاسپورٹ کی تصویر منگوائی تھی پاکستان میں چھ سات دن گزارنے کے بعد اللہ نے میرے بھائی کو میری اس دیرینہ خواہش کی تکمیل کا ذریعہ بنایا۔
میری خوشی کاکوئی ٹھکانہ نہ تھا دل چاہتا تھا کہ اس خوشخبری کے بارے میں ہرکسی کو بتائوں کہ میری دعا پوری ہو نے جا رہی ہے ۔ معلوم ہؤا کہ وہاں بہت پیدل چلنا پڑتا ہے اور موسم بھی قدرے گرم ہوتا ہے ۔ میں توبرطانیہ سے لمبے بوٹ اور ہیل والے جوتے لائی تھی ، اب کیا کرتی ؟ بہن مجھے اسی روز بازار لے گئیں ۔ ہم نے جوتے سفر کا ضروری سامان اورایک پتلا سا گائون بھی لیا ۔
اگلے روز ہمارے ہاں افطاری تھی جس پرمیرے ابو کی جانب کا سارا خاندان جمع تھا ۔ اپنی بچپن کی سہیلی آمنہ سے بھی ملاقات ہوئی ۔ اللہ کی قدرت کہ صبر کا امتحان اتنا خوبصورت تھا کہ میں نے اپنے بڑے بہن بھائی کے ساتھ عمرے پر جا رہی تھی جن کے پاس ماما اور ابو جی نے بارہ سال کی عمر میں مجھے چھوڑا تھا ۔میری چچی ہم دونوں بہنوں کے لیے سبزرنگ کا خوبصورت اسکارف لے آئیں جس پر انہوں نے اپنے ہاتھوں سے خوبصورت نقش و نگار کاڑھے ہوئے تھے۔میری پھوپھو اس خوشی کے موقع پر میرے لیے خاص طور پر مزید ار کیک بنا کر لائیں جو وہ ہمیشہ میری سالگرہ پر بناتی تھیں ۔ سب مبارک دے رہے تھے اور اپنی اپنی دعائیں بتا رہے تھے ۔ میں خوشی اور حیرانی کی کسی بیچ کی کیفیت میںتھی ۔ میرے دل میں جتنی دعائیں تھیں وہ خانہ کعبہ کے سامنے اللہ کے حضور پیش کرنے کو بے چین تھی۔
سفر پرنکلنے سے پچھلی رات نیند میری آنکھوں سے کوسوں دور تھی ۔ میں اپنی بیٹی کو پاکستان میں جبکہ بیٹے کو والد کے پاس انگلینڈ چھوڑ کر اس سفر پر روانہ ہو رہی تھی ۔ دونوں بچے بہت بہادر ہیں ۔ میرے اس خواب کو پورا کرنے میں گویاقدرت کی تمام طاقتیں میرا ساتھ دے رہی تھیں ۔ سب کام خود بخود سنور رہے تھے ۔ اللہ کا پلان بہترین تھا ۔ صبر ، انتظار ، آنسوئوں اور دعائوں کو اللہ نے قبول کرلیا تھا اور مجھ ناچیز کو اپنے گھر آنے کی اجازت دے دی تھی۔دل کاحال توکبھی اللہ سے چھپانہیں ہوتا مگر اپنے دل کی باتیں اللہ کو سنانے کودل چاہ رہاتھا۔
10اپریل کو ہم تینوں بہن بھائی جدہ کی فلائٹ کے لیے اسلام آباد ائیر پورٹ سے روانہ ہوئے ۔ بچپن کی یادیں تازہ ہوگئیں ۔ میرے بہن اوربھائی مجھ سے عمرے میں کافی بڑے ہیں ۔ ایسا لگا کہ ماما اور ابو حج پر ہیں اورمیں اپنے بہن بھائی کے پاس ہوں ۔ ان دونوں کو اپنے ساتھ بیٹھا ہؤا دیکھتی تو ان کی درازی عمر کے لیے دعا کرتی اورتشکر سے آنکھیں بھر آئیں ۔ اگر میںاکلوتی ہوتی تووالدین کی جدائی کے بعد زندگی کتنی دشوار ہوجاتی ۔ سفر کے دوران جہاں دونوںمجھے عمرے کا طریقہ سمجھا تے رہے وہیں بچپن کے واقعات کا تذکرہ کرتے اور محظوظ ہوتے رہے ۔ ماما اورابوکے تینوں بچے اکٹھے اللہ کے گھر جارہے تھے ، اللہ اس کا اجر ہمارے والدین کو دے آمین۔بہن کہنے لگیں کہ ان کو ایسا لگ رہا ہے کہ ماما ان کو بادلوں میں سے دیکھ رہی ہیں ۔
جہاز میں ائیر ہوسٹس نے ہمیں افطاری کا سامان دیا ۔ پانی اور کھجور سے روزہ افطار کرنے کے بعد ہم نے باقی چیزوں کولفافے میں ڈال کر ساتھ رکھ لیاتاکہ ہوٹل میں پہنچ کر کھا سکیں ۔جیسے ہی جہاز میںمیقات کااعلان ہؤا تو مسافروں نے لبیک اللھم لبیک کی صدائیں بلند کرنی شروع کردیں۔ ہم تینوںبہن بھائی بھی ساتھ ساتھ دہرا رہے تھے ۔ فرحت اور کسی انجانی کیفیت سے میرا دل بھر آیا ۔ یا اللہ یہ وقت قریب آ رہا ہے ، مجھے چند اورسانسیں دے دیں تاکہ آپ کا گھر دیکھ سکوں۔ اللہ یہ سفرخیریت سے گزار دینا !
جدہ ائیر پورٹ امیگریشن سے فارغ ہونے کے بعد بھائی نے وہاں کی سم خریدیں اور ہمارے فون میں ڈالیں میں خود کو زمین پر اڑتے ہوئے محسوس کر رہی تھی ۔ جدہ سے مکہ جانے کے لیے بسیں ائیر پورٹ کے باہر قطار در قطار کھڑی تھیں ۔ہم تینوں ایک بس میں جا بیٹھے بہن کے چہرے پر سفر کی تھکان قدرے واضح تھی ، وہ بیٹھنے کے چند منٹ بعد ہی اونگھنے لگیں اور کب نیند کی وادیوں میں چلی گئیں ،ان کو شاید خود بھی خبر نہ ہوئی ، میں بھائی کے پاس بیٹھ کرباتیں کرتی رہی ہم گوگل میپ پر ہوٹل اوردیگر راستوں کو چیک کر رہے تھے ۔ نبی کریم ؐ کے اس دیس میں اتنا سکون تھا کہ عازمین عمرہ کی اس بس میں میری بھی آنکھ لگ گئی۔
جب آنکھ کھلی تو بس رکی ہوئی تھی اورمسافر نیچے اتر رہے تھے ۔ بھائی نے پھر سے میپ کو چیک کیا تو کہنے لگے کہ آمنہ ہمیںیہاںسے پیدل جانا ہوگا ۔ بس دوبارہ چلی تو اس نے اس راستے کاانتخاب کیا جو ہمارے ہوٹل سے تھوڑے فاصلے پرجا رہا تھا ۔ بھائی کے کہنے پرمیں نے بہن کو جگایا اوراگلے سٹاپ پر ہم تینوں بس سے اتر آئے ۔
یہ میرے مکہ کی زمین پر پہلے قدم تھے !
کئی سڑکوں اور گلیوں سے گھومتے ہوئے ہم دونوںبہنیں بھائی کے پیچھے پیچھے ابراہیم خلیل روڈ پر قائم المسع البدر کے سامنے جا پہنچے جس میں اگلے چارپانچ روزہم نے قیام کرنا تھا۔
کچھ دیر استقبالیہ پر انتظارکرنے کے بعد ہمیں کمرے کا کارڈ مل گیا ۔ یہاں بھی عمرہ زائرین کی کثیر تعداد موجود تھی سامان کمرے میں رکھا، کھانا کھایا اور تازہ دم ہو کرزیارت کعبہ کاارادہ کیا ۔ ابراہیم خلیل روڈ پر 10سے 12منٹ کی مسافت طے کی تو بلند و بالا عمارت پر گھڑیال نصب دیکھا ۔ بہن بھائی نے بتایا یہ کلاک ٹاور ہے ۔ پچھلی بار جب بہن عمرے پرآئی تھیں تو یہاں کھانا بھی کھاتیں اور یہ ان کا meeting pointتھا۔
اس کے بالکل سامنے حرم کادروازہ تھا ۔ اس سے اندر داخل ہوئے تو سامنے میرے اللہ جی کاوہ خوبصورت گھر تھا جس کی جانب قبلہ رو ہو کر تمام مسلمان دنیا بھر کے ہر گوشے میں نماز ادا کرتے ہیں ۔ یہ خالق کل کائنات، رب دو جہاں کا گھر تھا جس کی بنیاد حضرت ابراہیم ؑ نے اپنے بیٹے حضرت اسماعیلؑ کے ساتھ مل کررکھی ۔ مشرکین مکہ کے دورمیں یہاںرکھے 360بت بھی توڑے گئے ۔ اس کعبہ کی چار دیواری میںجتنا رعب تھا ، اس سے دل مٹھی میں آگیا ، قدم ڈگمگانے لگے ۔ آنکھیں تاب نہیں لا رہی تھیں ۔ ہونٹ کچھ مانگنے کے لیے کانپ رہے تھے ۔ بمشکل زبان نے ساتھ دیا اور بے اختیار اللہ اکبر اللہ اکبر کا ورد کرنے لگی ۔ دوتین دعائیںجو سوچ کر گئی تھی زبان پر جاری ہو گئیں ۔
ہزاروں لاکھوںلوگ کعبہ کے گرد چکر لگا رہے تھے ۔ ہم تینوںبہن بھائی لوگوںکے اس سمندر میںشامل ہوگئے ۔بھائی کے چلنے کی رفتار قدرے تیزتھی لہٰذا میںنے اور بہن نے ہاتھ پکڑ کر طواف کا آغاز کیا ۔ میںنے عربی زبان کے ساتھ ساتھ اردو میں بھی وہ سب دعائیں مانگ لیں جومیرے عزیزو اقارب نے بتائی تھیں سب گزارشات اورحاجات اللہ کی خدمت میں پیش کرتی جا رہی تھی ۔ خانہ کعبہ کی جانب آنکھ اٹھاتی تو مرعوب ہو کرنظریں جھکا لیتی بمشکل آنسوئوں کوقابو کر کے قدم بڑھا رہی تھی ۔ یا اللہ آپ نے اپنی اس خطا کار بندی کو اپنے در کا مہمان بنا لیا ۔ اللہ جی آپ کا بے حد شکریہ! میں دنیا و د مافیہا سے بے خبر چلتی چلی جا رہی تھی ۔ حیران تھی کہ یہ واقعی حقیقت ہے ۔
آج ہی پتہ چلا تھا کہ مطاف کس کو کہتے ہیں ۔ ہزار ہا لوگ پہلی اوردوسری منزل پر بھی طواف کرتے نظر آئے ۔ کئی لوگ گروپ کے ہمراہ تھے اور ان کے سربراہ یا گائیڈ نے ہاتھ میں کتابچہ پکڑا ہؤاتھا جس سے دیکھ کر وہ با آواز بلند دعائیں پڑھتے اور ان کے دائیں بائیں موجود افراد ان کودہرانے لگتے سبز روشنی کے قریب بنے دروازے سے جہاں کئی لوگ مطاف میں داخل ہوتے وہیں بے شمار لوگ مطاف سے سات چکر مکمل کرکے باہر نکلنے لگتے ۔ اسی مقام پر لوگ خانہ کعبہ کی جانب نظریں اٹھا کر اور ہاتھ بلند کر کے ’’ بسم اللہ واللہ اکبر ‘‘ کا ورد کرتے ۔ چنانچہ اس مقام پر رفتار انتہائی کم ہو جاتی ۔
کم و بیش1½گھنٹے کے بعد ہم طواف سے فارغ ہوئے۔ اسی اثنا میں اذان کی آواز گونجی ۔ بہن سمجھیں کہ یہ فجر کی اذان ہے اورجلدی جلدی زم زم کے کنٹینروں کی جانب بڑھ گئیں ، زم زم پیا ۔ جب وقت پر نظر ڈالی تو انداز ہ ہؤا کہ یہ تہجد کی اذان تھی ۔ وہاں طواف کے بعد دونوافل ادا کیے اور بھائی سے رابطہ کیا ۔ بھائی نے ہمیں اوپر والی منزل پر آنے کاکہا جہاں ہم برقی سیڑھیوں سے پہنچے ۔ زم زم اورکھجور کھا کر ہم نے وہاں فجر کی نماز ادا کی اور سعی کے ارکان پورے کرنے کے لیے روانہ ہوئے۔
صفا اورمروہ کے درمیان 7چکر لگائے تو سوچتی رہی کہ جب بی بی حاجرہؓ تپتی دوپہر میںاپنے نو مولود بچے کو لٹا کر پانی کی تلاش میں ان پہاڑوںکے چکر کاٹتی ہوں گی تو مامتا، بے چینی اور اللہ کی مدد کی امید کے کیسے منظر دکھتے ہوں گے ۔ جب حضرت اسماعیل ؑ کے ایڑھیاں رگڑنے سے وہاںچشمہ پھوٹا ہوگا توکتنا خوبصورت لمحہ ہوگا بہن نے تھکاوٹ کے باعث زم زم کے کنٹینروں کے پاس آرام کرنے کا ارادہ کیا ۔ ان کے کہنے پر میں نے سعی جاری رکھی ۔5منٹ کے وقفے سے میں نے اور بھائی نے سعی مکمل کرلی ۔
شہرمکہ پر سورج کی کرنیں روشنی بکھیر رہی تھیں ۔ مروہ کی جانب سے نکلنے والے گیٹ سے باہر نکلی تو بھائی سے ملاقات ہوگئی ۔ البتہ بہن سے رابطہ نہیںہو پا رہا تھا اور نہ ہی وہ مجھے دوران سعی بعدازاں نظر آئیں ۔ میں اوربھائی ان کے لیے کافی فکرمند تھے اور بار باران کوکالز ملارہے تھے ۔ بھائی نے عمرے کے آخری رکن یعنی حلق کے لیے Clock Towerمیں موجود حجام کی طرف جانے کا ارادہ کیا اور مجھے باہر بینچ پربیٹھ کر انتظار کرنے کوکہا ۔
جب وہ فارغ ہوئے توہم نے پھر بہن سے رابطہ کرنے کی کوشش کی ۔ پتہ چلا کہ وہ آخری چکر لگا رہی ہیں اور کچھ ہی دیر میں ہمارے پاس آجائیں گی ۔ ہم دونوں وہیں بہن کا انتظار کرنے لگے۔10-15 منٹ بعد بہن کی فون کال آئی کہ وہ ہمیںتلاش کر رہی ہیں۔ بھائی نے ان کو راستہ سمجھایا۔ وہ آئیں تو بہت تھک چکی تھیںاس لیے وہاں ایک کرسی پر بیٹھ گئیں۔ بھائی کسی کام سے کچھ دیر کو Clock Tower گئے اور پھر ہم تینوں واپس اپنے ہوٹل کی جانب روانہ ہوئے ۔ کمرے میں پہنچتے ہی بہن اپنے بستر پر لیٹ گئیں ۔ ان کے پائوںکے نیچے چھالا بن چکا تھا جوبے حد تکلیف دے رہا تھا ۔ بھائی نے چونکہ عمر ہ مکمل کرلیا تھا ، اس لیے انہوں نے احرام اتار کر کپڑے تبدیل کرلیے اورتھک کرآرام کرنے لگے ۔ میں نے بہن کی ہدایات پر اپنے اور بہن کے سر کے بال ایک انچ کاٹ دیے اور عمرہ مکمل ہونے پراللہ کا شکر ادا کیا showerلے کر میں نے بھی بستر کارخ کیا۔
ہمارے ہوٹل کے سامنے جا بجا جائے نماز بچھے ہوتے تھے جو ایک جانب حرم کی دیواروں تک اوردوسری جانب تا حد نگاہ نظر آتے تھے ۔ آس پاس کھانے پینے اور دیگر اشیا کی دکانیںتھیں اذان کی آواز آتے ہی دکانداراپنی دکانوں پرچادریںڈال کرنماز پڑھنے نکل جاتے دن بھر ہم نے تھکاوٹ دور کی کمرے میں آنے کے بعد قریبی پاکستانی ریستوران ’’مطعم المعلم عثمان‘‘ سے کھانا کھایا اورحرم کوروانہ ہوئے ۔ بھائی ہمیں حرم کی دوسری منزل پر لے گئے یہاں طواف قدرے طویل تھا ۔طواف کے بعد ہم نے مسجد حرام کی چھت پر فجر کی نماز ادا کی۔
گزشتہ روز اتنا چلنے کی وجہ سے میری ٹانگیںبہت درد کر رہی تھیں۔ بھائی اگلے روز ماشاء اللہ ہمت کر کے نماز پڑھنے حرم جاتے رہے مگرمیں نے اور بہن نے افطاری تک کمرے میںوقت گزارا ۔ بھائی ہمارے لیے کھانا لے آتے تھے ۔کھانا کھا کر ہم دوبارہ مسجد حرام کی جانب روانہ ہوئے ۔ قیام اللیل میںشمولیت اور نماز فجر کی ادائیگی کے بعد ہم نے واپس کمرے کی راہ لی ۔ خانہ کعبہ کو ہاتھ لگانے کی خواہش دل میں پنپ رہی تھی ، مگر وہاں پرموجود رش کودیکھ کر ہمت ہار دیتی۔ البتہ دعائیںمتواتر جاری تھیں ۔ پاکستان سے آتے وقت میں نے ارادہ کیا تھا کہ میں راستہ بناتے ہوئے سیدھا جائوں گی اور خانہ کعبہ کو ہاتھ لگائوں گی ۔
بھائی نے اگلی صبح احرام باندھا کیونکہ مطاف میںمرد حضرات کواحرام کے بغیر جانے کی اجازت نہیں تھی اورہم دونوںبہنوں کے ہمراہ حرم روانہ ہوئے یہ دن کاوقت تھا اور دھوپ میں گرمائش محسوس ہو رہی تھی۔ بہن حرم میںموجود خواتین کے حصے میں بیٹھ گئیں جبکہ بھائی اور میں مطاف میںداخل ہوئے۔ بھائی نے مضبوطی سے میرا ہاتھ پکڑا ہؤا تھا اوروہ عمرہ زائرین کے بیچ و بیچ راستہ بناتے ہوئے مجھے خانہ کعبہ کے کافی قریب لے گئے ۔ یہاں کافی دھکم پیل تھی ۔ لوگ خانہ کعبہ کی دیوار کے ساتھ لگے ہوئے تھے ۔ کچھ لوگ واپس نکلنے کے لیے راستہ بنا رہے تھے تو وہیں کچھ آگے جانے کی کوشش کررہے تھے ۔بھائی نے مضبوطی سے میرے کندھے پکڑے ہوئے تھے اور مجھے ان دھکوں سے بخوبی بچا رہے تھے ۔
رش کی یہ کیفیت دیکھ کربھائی نے پوچھا مزید کوشش کرنا چاہتی ہو ؟ اس سے پہلے میں کوئی جواب دیتی ایک کالے برقع میںخاتون آئیں اورآگے پھنس کر اپنا ہاتھ لگانے میںکامیاب ہوگئیں ۔ میں دور سے اپنے بازوئوںکوخانہ کعبہ کی جانب بڑھا رہی تھی ۔میںنے ان کے کندھے پر ہلکی سی تھپکی دی کہ مجھے آگے آنے دیں ۔انہوں نے میرا بازوپکڑا اور خدا کی قدرت کاوہ معجزہ میںساری عمر نہ بھول پائوںگی ۔ میرا بازو یکدم لمبا ہو گیا اور ہاتھ خانہ کعبہ کی دیوار سے جا ٹکرایا ۔ میں نے دائیںہاتھ کی انگلیاں آگے اور پیچھے سے خانہ کعبہ سے لگائیں ۔ میں سکتے کے عالم میںتھی ۔ اس لمحے سب لوگ دھندلا گئے ، جونظر آرہا تھا وہ خانہ کعبہ کا غلاف تھا ۔اچانک بھائی نے میرا رُخ پیچھے کی جانب موڑااوراس رش میں سے نکالتے ہوئے مطاف کے کنارے پر لے آئے ۔
میں پہلی منزل پرموجود خواتین کی صفوں میں بیٹھ گئی اور قرآن پڑھنے لگی ۔ کچھ خواتین وہاں سو رہی تھیں جبکہ کچھ نوافل میں مصروف تھیں ۔ اسی اثنا میں ایک خاتون میرے پاس آئیں اور ٹوٹی پھوٹی انگریزی میںسمجھانے لگیں کہ ان کے فون کی چارجنگ ختم ہوگئی اوروہ اپنے شوہر سے رابطہ کرنے سے قاصر ہیں وہ اپنا فون چارج کرناچاہتی تھیں مگر اس کے لیے ان کویہاں سے جگہ چھوڑنی پڑ رہی تھی جو انہیں کافی مشکل سے ملی تھی ۔ انہوں نے مجھے اپنا سامان دیا اور کہاکہ میںیہاں رکھ کر جا رہی ہوںاورمیںان کی جگہ اور سامان کی حفاظت کروں ۔ وہ کسی افریقی ملک کی معلوم ہو رہی تھیں ۔ ایک اورنیروبی خاتون بھی ہمارے پاس آکر بیٹھ گئیں اور باتیں کرنے لگیں انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ میں کس ملک سے ہوں؟میں نے بتایا کہ میرا تعلق پاکستان سے ہے تو وہ بہت خوش ہوئیںاورکہنے لگیں کہ وہ ہمارے دوست ہیں اور مسکراتے ہوئے مصافحہ کرنے لگیں۔ ان کے جانے کے کچھ ہی دیر بعد خواتین شرطیاں آگئیں اور سب کو وہاں سے اٹھانے لگیں ۔ میں نے ان افریقی خاتون کا سامان صف کے نیچے رکھ دیا اور وہاں سے باہر آگئی۔
باہر نکل کر میںنے بھائی سے رابطہ کیا جو طواف مکمل کر چکے تھے ۔ میں بھائی کا انتظار کرنے کے لیے مطاف ہی میںجائے نماز بچھا کر بیٹھ گئی۔ جب بھائی آئے تو انہوں نے خانہ کعبہ کے سامنے میری تصویر اتاری۔ ہم اس کے بعد اپنی بہن کا انتظار کرنے کے لیے پہلی منزل کی سیڑھیوںپر جا بیٹھے ۔ وہاں سے خانہ کعبہ سامنے نظر آ رہا تھا ۔ میں نے اوربھائی نے ابھی اپنے ہاتھ دعا کے لیے بلند کیے ہی تھے کہ شرطوں نے ہمیں وہاںبیٹھا دیکھ لیا اور ’’یلہ حجہ‘‘ کرکے وہاں سے اٹھا دیا ۔ ہم وہاں پاس ہی زمین پر بیٹھ گئے ۔ بہن کے واپس آتے ہی واپس جانے کا ارادہ کیا ۔ میں باربار اپنے ہاتھ اور بازو کو دیکھ رہی تھی سبحان اللہ ! اللہ جی کیسے نا ممکن کو ممکن بنا دیتے ہیں۔
قیام اللیل کے بعد ایک بار پھر میں طواف کے لیے چکروں کا قصد کر کے ہجوم میں شامل ہو گئی ۔ لا تعداد لوگ تھے ، بے انتہا رش تھا اور سب انتہائی چھوٹے چھوٹے قدم اٹھا رہے تھے ۔ کہیں فرش پر کسی کا جوتا گرا تھا تو کسی کی جراب ۔ لگتا تھا کہ دھکم پیل میں اتر گیا ہو۔ اگر یہاں کوئی چیز نیچے گر جائے تو اٹھانے کی بجائے چلتے چلے جانا ہی مناسب تھا کیونکہ انسانوں کے اس جم غفیر میں ایک شخص کاجھکنا سارے لوگوں کے لیے خطرناک ہو سکتا تھا ۔
اللہ کے گھر کے پاس اتنا سکون تھا کہ لوگ دنیا سے بے پروا دعائیں کرتے ہوئے چلتے چلے جا رہے تھے ۔ آسمان پرپرندے خانہ کعبہ کا چکر کاٹ رہے تھے ۔ لوگ ہلکی اوربلند آواز سے آیتوںکا ورد کررہے تھے۔ green lightکے آتے ہی رفتار حددرجہ کم ہوجاتی اورلوگ اپنے ہاتھ خانہ کعبہ کے سامنے بلند کر کے ’’ بسم اللہ واللہ اکبر ‘‘ پڑھتے اور آگے بڑھ جاتے نورہی نور تھا ۔ سکون ہی سکون تھا ۔ خانہ کعبہ پر نظر پڑتے ہی آنکھیںچھلک پڑتیں ۔ ہر رنگ و نسل ہر عمر اور تمام امیر و غریب اپنے رب کے گھر کے گرد عاجزی کے ساتھ چکر کاٹ رہا تھا ۔ سب مسلمان اپنے آقا کے در پر سوالی بن کر آئے تھے ۔ کچھ خواتین کو روتے اورمرد حضرات کودعائیں مانگتے دیکھا۔ کچھ لوگ چھوٹے بچوںکو اپنے کندھوں پر بٹھا کر طواف کرا رہے تھے ۔ کچھ خواتین نے ہاتھوںکی مدد سے زنجیر بنائی ہوئی تھی تاکہ وہ ساتھ طواف کر سکیں۔ اللہ سب کی دعائوںاور حاجتوںکو قبول کرے ۔ جب وہاں سے فارغ ہوئی تو دو نوافل ادا کیے اوربہن کو کال ملائی ۔ وہ کنگ فہد گیٹ کےescalatorسے پہلی منزل پر چلی گئی تھیں اور وہاں میرا انتظار کررہی تھیں۔
دوران طواف ہی قیام الیل کاآغاز ہو گیا تھا ۔ بھائی سے رابطہ ہؤا تو انہوںنے بتایا کہ وہ چھت پر جاچکے ہیں اور بعد از فجر لوٹیں گے ۔ انتظامیہ نے مطاف کی جانب سے سبزروشنی پر رش کے باعث رکاوٹیں کھڑی کردی تھیں جس کی وجہ سے میںراہداری میںایک افریقی بہن کے جائے نماز کی جانب جا کھڑی ہوئی اس نے چند قدم بائیں جانب ہو کر مجھے اپنے جائے نماز پر جگہ دے دی ۔ قیام اللیل کے دونوافل وہاں پڑھنے کے بعد مطاف تک جانے کے لیے طویل راستہ طے کیا اورجب وہاں پہنچی تو امام کعبہ نے دعا شروع کروا دی ۔ میںوہاںموجود خواتین کے پاس جا کھڑی ہوئی ۔
وہ ایک خوبصورت اوربے مثل منظر تھا ۔ امام کعبہ رقت آمیزانداز میںدعا کروا رہے تھے ۔ خانہ کعبہ میری نظروں کے سامنے کچھ ہی فاصلے پر تھا ۔ ہاتھ دعا کے لیے اٹھے ہوئے تھے ۔ دل میںموجود دعائیں لبوں پرآنے کی کوشش کر رہی تھیں اور آنکھیںزار و قطار آنسو بہا رہی تھیں ۔ اس کیفیت کو میں اس صفحے پر لکھنے کی لاکھ کوشش کروں، میرے الفاظ انصاف نہیں کر پائیں گے۔
ایک بچے کے رونے کی آواز سنائی دی ۔ شرطے اورخواتین پولیس کا عملہ اس کی جانب پانی لے کر بھاگا ۔ وہ اس کو خاموش کروانے کی کوشش کررہے تھے ۔ ایسے معلوم ہو رہا تھا جیسے وہ escalatorسے پھسل گیا ہو کیونکہ اوندھے منہ کے پاس زمین پر گرا ہؤا تھا ۔ اللہ اس بچے کی خیر کرے ۔
ایک بچی کو پیاس لگی تو وہاں موجود شرطے نے اس کو آب زم زم ڈال کر دیا ۔ ایک خاتون جودعا میںشریک تھیں ، پاس کھڑا شرطہ ان کے بچے سے کھیل رہا تھا تاکہ وہ اپنی ماں کو دوران دعا distrubنہ کرے ۔ دعا سے فارغ ہو کر میں نے بہن کے پاس جانے کا ارادہ کیا ۔ ایک دم سے escalatorپر بے تحاشہ رش ہو گیا ۔ میں سیڑھیوں کی جانب بڑھ گئی ۔ چند ہی زینے چڑھے ہوں گے کہ چیخوں کی آواز سنائی دی ۔ ایک خاتون کاتوازن escalator پرخراب ہو گیا تودیگر بھی گرنے لگیں ۔ عملے کے افرادescalator کی جانب بھاگے ۔ اللہ سب کی خیر کرے ۔ اوپر پہنچی تو بہن وہاںپہلے سے موجود تھیں۔ان کو سارے واقعات سنائے اور بہن کے ساتھ ہوٹل کی جانب روانہ ہوئی ۔میں نے پچھلے روز بہن کے ساتھ ’’مریم محل‘‘سے کچھ تحائف خریدے تھے ۔ اب بھائی کے ساتھ بھی قریبی دکانوں کا چکر لگایا ۔ میری بھانجی نے مجھ سے مکہ کے پتھروں کی فرمائش کی تھی ۔ میں جمعہ کی نماز سے گھنٹہ ڈیڑھ پہلے مکہ کی گلیوں میں جا نکلی اور اس کے لیے پتھر جمع کیے۔ میں جب کمرے میں واپس آئی تو پتہ چلا کہ بھائی جمعہ کی نماز کے لیے جا چکے ہیں ۔
میںبھی جائے نماز لے کر باہر نکلی ۔ رش کے باعث جا بجا سڑک پر بھی نمازیوںکی قطار یںبن چکی تھیں۔ حرم تک جانا تو نا ممکن تھا لگتا تھا کہ وہاںکے راستے بھی بند تھے ، جمعہ کی نماز میںنے ہوٹل کے استقبالیہ میں مصلیٰ بچھا کر ادا کی ۔ وہاں بھی ہر جانب جائے نماز بچھے ہوئے تھے ۔ خطبہ بھی سنا اور الحمد للہ جماعت سے جمعہ بھی ادا ہو گیا ۔
افطاری اور کھانا کھانے کے بعد میں اور بھائی حرم روانہ ہوئے ۔ میرا بہت دل تھا کہ ہم پہلے یا دوسرے فلور پر طواف کرتے مگر مختلف راستوں کو اختیار کرنے کے باوجود چھت پر جا پہنچے ۔ ہر جگہ رکاوٹیں کھڑی کی گئی تھیں ۔ لاکھوں لوگ حرم کے اندر اور اطراف میں موجود تھے بھائی نے طواف شروع کیا تو میںنے بھی طواف کا قصد کرلیا ۔ ابھی ایک ہی چکر مکمل کیا تھا کہ تھکاوٹ محسوس ہونے لگی ۔ بھائی کو میسج کیا کہ میں واپس کمرے میں جا رہی ہوں پھر وہاں خواتین کوقیام اللیل ادا کرتے دیکھ کر ارادہ بدل گیا ۔ چھت پر موجود سبز روشنی کے پاس خواتین کے لیے جگہ بنائی گئی تھی ۔ یہ جگہ چھت والی تھی اور چھت پر پنکھے لگے تھے میںنے جائے نماز بچھایا اورنمازمیںشامل ہوگئی ۔ گرمی کی وجہ سے پسینے آئے ہوئے تھے اور پنکھے کی ٹھنڈی ہوا پڑنے سے جسم میں سردی کی لہریںاٹھنے لگیں ۔ سلام پھیرا توبھائی کا میسج آیا ہؤا تھا کہ کیا میں اکیلے manageکر لوں گی ؟ میں نے بھائی کو دوسرا میسج کیا کہ میں سبز روشنی کے پاس قیام اللیل میں شامل ہو گئی ہوں، اور پھر اگلی رکعت کے لیے کھڑی ہوگئی ۔ اگلا سلام پھیرا تو بھائی کی کال آئی ہوئی تھی ۔ میںنے واپس فون کیا تو انہوں نے بتایا کہ وہ کمرے میں پہنچ گئے ہیں کیونکہ میں نے بھائی کو کہا تھا کہ میںواپس جا رہی ہوں لگتا تھا بھائی کو میرا دوسرامسیج نہیں ملا تھا ۔ اب جب ان کو پتہ چلا کہ میںاکیلی چھت پر ہوںتو فکر مند ہوگئے اوررش کے نکلنے سے پہلے پہلے مجھے واپس لوٹنے کو کہا ۔
میں فون بند کر کے ، جائے نماز اٹھائے چھت کے کنارے تک گئی ۔ نم نظروں سے خانہ کعبہ کی جانب دیکھا اور ہاتھ ہلایا ۔ اس سفر میں آخری بار خانہ کعبہ کو دیکھ رہی تھی ۔ بے اختیار آنسو جاری ہوگئے ۔ دل نے کہا ’’اللہ جی میں پھر آئوں گی ۔ پھر واپس مڑی اور Exitکی جانب تیز تیز قدم بڑھانے لگی ۔ سیڑھیاں اتر کر کلاک ٹاور کے سامنے جا نکلی ۔ رات کے تین بج رہے تھے مگر سڑک پر اتنی رونق تھی جیسے صبح کا وقت ہو ۔ میںتیز تیز قدم اٹھاتے ہوئے اپنے ہوٹل جا پہنچی ۔ بھائی نے دروازہ کھولا ۔ وہ جاگ رہے تھے اورمیرے منتظر تھے ۔
اگلے روزہم سفر مدینہ کا ارادہ رکھتے تھے جس کے لیے تقریباً2بجے دوپہر بذریعہ ٹیکسی روانہ ہوئے یہ تقریباً 3سے4گھنٹے کا سفر ہے ۔ راستے میں ہم نے کچھ پہاڑ دیکھے جوسیاہ رنگ کے تھے ٹیکسی ڈرائیور نے بتایا کہ کہا جاتا ہے کہ کسی زمانے میںیہاں آتش فشاںپہاڑ تھے ، راستے میں ایک مسجدگزری جہاں لوگ احرام میںنظر آئے ۔ بھائی اور ٹیکسی ڈرائیور کی باتوں سے اندازہؤا کہ یہ مسجد عائشہؓہے۔ میںاوربہن مکہ سے مدینہ تک آنحضرتؐ کی ہجرت کے بارے میںبات چیت کرتی رہیں ۔ بنا گاڑیوں کے اتنا طویل سفر کتنی دیر میں طے ہؤا ہوگا ؟ یہ واقعی ایک تاریخی ہجرت تھی جس کے بعد پہلی اسلامی ریاست قائم ہوئی ۔ سبحان اللہ !
ہمارا مدینہ کا ہوٹل مسجد نبویؐ سے صرف پانچ سات منٹ کی دوری پر تھا ۔ ہم نے افطار کرنے کے بعد مسجد نبوی ؐ جانے کارادہ کیا ۔ خانہ کعبہ میں جہاں اللہ کا رعب محسوس کیا وہیں مسجد نبوی ؐ میں سکون کا احساس ہؤا ہمیںبھائی نے باب السلام دکھایا ۔ وہاں پر موجود شرطوں سے پتہ چلا کہ خواتین کاگیٹ مسجد کی پچھلی جانب ہے لہٰذا بھائی تو قریبی گیٹ کی جانب مڑ گئے اور میں اور بہن خواتین کے گیٹ کی جانب داخل ہوئے تو ہر طرف پاکستانی چہرے نظر آئے ۔ کچھ خواتین کے ساتھ بہن کی کافی اچھی سلام دعا ہو گئی اور وہ مختلف موضوعات پر بہن سے گفتگو کر تی رہیں ۔ ہم نے پانی اور جوس پی کر روزہ بند کرلیا اورنماز فجر ادا کی ۔ بہن نے مجھے فانوس پر بیٹھا ایک خوبصورت پرندہ دکھایا ۔ میںنے اس کی ویڈیو اپنے کیمرے میں محفوظ کرلی۔دل کے کسی گوشے میں یہ خیال گزرا کہ کیا خبر یہ کوئی فرشتہ ہو۔
نماز پڑھنے کے بعد ہم خواتین انتظامیہ سے پوچھ کر اس گیٹ کی جانب آگئے جہاں سے خواتین ریاض الجنہ کی جانب جا رہی تھیں ۔ سعودی انتظامیہ نے نسوک ایپ کے ذریعے وقت لینا لازمی قرار دے دیا ہے جب عمرے پر جانے کا علم ہؤا تو میرے بھانجے نے میرے اور بہن کے فون پر یہ ایپ انسٹال کردی ۔ سفر پر اور جانے سے پہلے کئی لوگوںنے اپنے تجربات شیئر کیے ۔ اسی حساب سے ہم ہر گھنٹے دو مرتبہ مثلاً2بج کر ایک منٹ اور دو بج کر اکتیس منٹ پر ایپ کو چیک کرتے ، ہر روز اگلے دن کی اپائنٹ منٹ کھل جاتی ۔ ریاض الجنہ جانے والے راستے پر خواتین کے ساتھ مرد عملہ بھی تعینات کیا گیا تھا تاکہ اس جم غفیر کو احسن طریقے سے نمٹایا جا سکے ۔ چلتے چلتے ایک خاتون کی وہیل چیئر بڑی شدت سے میری بائیںٹانگ پر ٹکرائی ۔ مجھے چوٹ لگتا دیکھ کرایک خاتون جو قریب سے گزر رہی تھی کہنے لگیں کہ ان کو وہیل چیئر چلانی نہیں آتی ۔ لگتاہے وہیل چیئر چلانے والی خاتون برامنا گئیں یاکچھ اور مگر ان آنٹی کو بھی وہیل چیئر دے ماری ۔ خیر ہم ایک لائن سے دوسری لائن میں منتقل ہورہے تھے ۔ ایک خاتون نے مجھ سے کہا کہ انہوں نے اپائنٹ منٹ بنوائی تھی مگر نجانے کدھر گئی میںنے ان کو ایپ میںسے کھول دی جس پرانہوں نے بہت دعائیں دیں۔
سامنے گنبد خضریٰ نظر آیا تو درود شریف پڑھنے لگی ۔ کچھ خواتین جلدی اندر جانے کے چکر میں ایک قطار سے دوسری قطار میں جا رہی تھیں۔ بالآخر عملے نے نے راستہ کھولا اور ہم مسجد کے اندر داخل ہوئے اور صفوں پر بیٹھ کر اپنی باری کا انتظار کرنے لگے ۔ اجازت ملی تو سب ریاض الجنہ کی جانب چلے یا اللہ تیرا لاکھ لاکھ شکر ہے مجھ نا چیز کے قدم جنت کے ٹکڑے پر ہیں میںاسی احساس کے ساتھ چل رہی تھی خواتین وہاں پہنچتے ہی نماز پڑھنے لگیں۔ بہن نے کہا کہ آمنہ جلدی نفل پڑھو میںنے نوافل ادا کیے تو دیکھا کہ کچھ خواتین ایک جالی کے پاس جمع ہیںجس کو کپڑے سے ڈھکا گیاہے۔ میںبھی قریب گئی اوردرود شریف پڑھ کر باہر نکل آئی ۔ یہ نبی آخر الزماںؐ کی آرام گاہ ہے وہ ہستی جنہوں نے ہمیںاسلام سکھایا ۔ جن کی سیرت اور حیات طیبہ ہمارے لیے مشعل راہ ہیںیہ وہ نبیؐ ہیں جن کی امامت میںدوران معراج جلیل القدر انبیا نے مسجد اقصیٰ میںنماز ادا کی ۔
کمرے میںآئے تو مجھے بخار محسوس ہونے لگا کبھی سردی لگتی اور کبھی گرمی میں کمبل لپیٹ کر سو گئی اور مغرب کے وقت مسجد نہ جا سکی ۔ عشا کے وقت گئی اگرچہ بدستور بخار تھا ۔صبح فجر کی نماز مسجد نبوی میں ادا کرنے کے بعد دل چاہا کہ جنت البقیع دیکھوں وہاں موجود عملے سے راستہ معلوم کیا ۔ ایک شرطے نے بتایا کہ جنت البقیع گیٹ نمبر 340سے آگے تقریباً شاہ عبد العزیز دروازے کے پاس ہے۔ میںتب گیٹ نمبر 322کے پاس تھی ۔ لہٰذا چلتی رہی یہاں تک کہ میں نے مسجد نبوی کا مکمل چکر کاٹ لیا ۔ اس دوران بھائی کا فون آیا جو معلوم کررہے تھے کہ میں کدھر ہوں وہ گیٹ نمبر 318 کے پاس میرا انتظار کر رہے ہیں ۔ میںجب شاہ عبد العزیز گیٹ کے قریب پہنچی تو ایک لمبی سی دیوار دیکھی مردحضرات اس دیوار کے پاس بنی سیڑھیوںسے اوپر چڑھ رہے تھے جبکہ خواتین سامنے کھڑے فاتحہ پڑھ رہی تھیں ۔ میںنے قریب کھڑے ایک شرطے سے تصدیق چاہی تو اس نے بتایا کہ یہی جنت البقیع ہے ۔ میںنے فاتحہ پڑھی او واپسی کا راستہ ڈھونڈنے لگی ۔
شرطے نے گیٹ نمبر 37جو خواتین کے لیے ریاض الجنہ جانے کاراستہ ہے بند کر رکھا تھا ۔ آگے گئے تو اس سے متصل کئی گیٹ رکاوٹیں لگا کربند کیے گئے تھے ۔ میں گھومتے ہوئے مدینہ کی گلیوںمیں جا نکلی جسم بخارکی شدت سے تپ رہا تھا اور ٹوٹ رہا تھا اسی اثنا میںبھائی نے پھر کال کی کہ میں کدھر ہوں۔ میں نے بھائی کو ساری روداد سنائی کہ کیسے میں مدینہ میں گلیوں میںچکر لگا رہی ہوں۔ وہ کافی فکرمند ہوئے اورکسی بھی قریبی دروازے سے مسجد کے احاطے میںداخل ہونے کوکہا ۔ میںگیٹ نمبر 31سے اندر داخل ہو گئی ۔ بھائی مستقل میرے ساتھ فون پر رابطے میں تھے۔ اسی دوران بہن کابھی فون آیا جو میرے بارے میںپوچھ رہی تھیں میں نے ان کو آگاہ کیا کہ 318نمبر گیٹ پر مجھے بھائی مل گئے ہیں اور میں ان کے ساتھ ہوں۔
بھائی وہاں سے لے کر مجھے مسجد الغمامہ دکھانے لے گئے ۔ اس کے بعد بازار گئے ، جب ہم واپس کمرے میں لوٹے تو میری ہمت جواب دے چکی تھی ۔ تھکاوٹ اورحرارت کے باعث میں بستر پر جا گری ۔ بہن نے میری حالت دیکھتے ہوئے مجھے سمجھایا کہ میںروزہ نہ رکھوں اوربعد میںقضا کرلوں ان کی بات مانتے ہوئے میں نے زم زم کے ساتھ بخار کی دوائی کھا لی ۔ جتنی دیر میں سوئی ،بھائی اور بہن نے سامان کی پیکنگ کرلی ۔ ہم اسی دوپہر مدینہ ائیر پورٹ کے لیے روانہ ہوئے ۔ ٹیکسی ڈرائیور نے ہمیں جبل احد اورجبل اومہ دکھائے جہاں غزوہ احد ہوئی اور تیر انداز تعینات کیے گئے ۔ میں سمجھتی تھی کہ جبل احد ایک پہاڑ ہے مگر یہ تو ایک طویل پہاڑی سلسلہ ہے ۔
مدینہ ائیر پورٹ پر ہمیں آب زم زم کے کنٹینر ملے جوڈبوں میںپیک تھے ائیر پورٹ پر شدید ٹھنڈ تھی یا شاید میری طبیعت کچھ نازک تھی۔بعد ازاںافطاری ہمارا جہازمدینہ سے اسلام آباد کے لیے روانہ ہؤا دوران سفر مجھے بچوں کی بے حد یاد آئی وہیںدل مکہ مدینہ سے دور جانے پر اداسی محسوس کرنے لگا ۔ لگتا تھا میںنے کوئی حسین خواب دیکھا ہے اور اب میںاس سے جاگ گئی ہوں ۔ واپس خواب میں جانے کے لیے دل مضطرب تھا ۔ کئی بار دل بھر آیا کہ سفر اتنی جلد ی مکمل ہوگیا ۔ اب نہ جانے کب جائوں گی ، یہ جگہ تو مجھے بہت یاد آئے گی۔
اسلام آبادائیر پورٹ ہمارے بھانجے منتظر تھے اور گھر میں میری بیٹی نے خوبصورت تصویر بنا رکھی تھی جس پر لکھا تھا ۔ ’’ ویلکم بیک امی ! ‘ ‘ میںنے بچوں کو وہاں سے لائے ہوئے تحائف دیے ۔ میری بھانجی نے میرے لیے مزیدار قہوہ بنایا تاکہ میںبہترمحسوس کروں۔ اس روز ہماری واپسی کی خوشی میں بہن کے سسرال میںافطاری تھی ۔ اگلے روزہمارے گھر مہمانوں کا تانتا بندھ گیا ، جو ہمیںعمرے کی مبارک باد دے رہے تھے اس روز میری بیٹی کے قرآن ختم کرنے کی خوشی میںاوربھتیجے کے حفظ مکمل کرنے کی خوشی میں ہمارے گھرتقریب بھی تھی۔میںابھی تک حیرت کے سمندر میں غوطے لگا رہی تھی ۔ اللہ نے میری برسوں پرانی دعاسن لی تھی ۔ خانہ کعبہ ، مکہ کی گلیاں ، گنبد خضریٰ اور مدینہ کے وہ راستے میری آنکھوں کے سامنے گھوم رہے تھے ۔ یہ دعا اور امید ہے کہ دوبارہ اللہ کے گھر حاضری دینے کا موقع مل جائے اور زندگی کی سانسوںمیں اتنا اضافہ ہوجائے کہ وہاں مزید پل بتانے کا موقع میسر آجائے ۔ اللہ یہ حسین موقع ہر کسی کو دے اور بار بار دے ،آمین ۔
٭…٭…٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x