ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

پاکستانی حجاج کرام ، چند غور طلب امور – حکیم سید صابر علی

(۱) گمشدہ افراد
مسجد ذوالحلیفہ میں گمشدہ افراد کے کائونٹر بنائے جائیں جہاں مختلف زبانوں پر عبور رکھنے والے اہل کار موجود ہوں ۔
مدینۃ المنورہ سے جب معتمر ین اور حجاج کرام مکہ کے لیے روانہ ہوتے ہیں توچند کلومیٹر کے بعد مسجد ذوالحلیفہ (میقات) میں احرام باندھنے کے لیے گاڑیوں کے قافلے رکتے ہیں یہ بہت بڑی مسجد ہے جس کے چاروں اطراف منظر ایک جیسا ہے ۔
جب بسیں رکتی ہیں تو ڈرائیور اعلان کرتا ہے کہ مسافر احرام باندھ کر نیت کر کے نوافل ادا کر کے آدھے گھنٹے میں واپس آئیں اور یہ بھی اعلان ہوتا ہے کہ تاخیر سے آنے والوں کا انتظار نہیں کیا جائے گا اکثر اوقات درجنوں بسیں اور گاڑیاں رکتی ہیں ۔ خواتین اور مردوں کا ایک انبوہ کثیر ہوتا ہے اگرچہ غسل خانوں اور ٹائلٹ کی تعداد سینکڑوں ہے لیکن زائرین کی تعداد زیادہ ہوتی ہے بوڑھے لوگ جلدی چل نہ سکنے والے مسافر اور اکثر خواتین دیے گئے وقت میں احرام باندھ کر فارغ نہیں ہو پاتے اور پھر مسجد کے صحن اور دروازے اور باہر بسوں کے سٹینڈ ایک ہی طرز کے ہیں لہٰذا اکثرلوگ بھول جاتے ہیںکہ اُن کی بس کہاں کھڑی ہے۔
مسافر جب احرام کی غرض سے اترتے ہیں تو اُن کا احساس ہوتا ہے کہ ابھی احرام باندھ کر واپس آجائیں گے۔ جلدی میں اپنا فون، سامان جس میں ویزہ ، ٹکٹ ، پاسپورٹ وغیرہ شامل ہوتا ہے بس میں رکھ کر آتے ہیں کہ کہیں گم نہ ہو جائے ، غسل کرنا ، وضو کرنا ، احرام باندھنا ، مسجد میں نیت عمرہ کے نوافل ادا کرنا جتنی بھی جلدی کریں وقت لے جاتا ہے ۔
ایک مسافر جو غلطی سے راستہ بھول جائے یا گاڑی کے سٹینڈ کو بھول جائے اس کی بد قسمتی کا آغاز ہو جاتا ہے ۔ اس کے پاس فون نمبر نہیں کسی کے رابطہ کا نمبر نہیں ، ویزہ ، پاسپورٹ ، شناختی کارڈ ، نقدی کچھ بھی پاس نہیں ۔ وہ مکمل بے یارو مدد گار ہے اگرچہ ایک کونے میں ایک دفتر ہے مگر وہاں موجود ڈیوٹی کا اہلکار عربی کے علاوہ کچھ نہیں جانتا ، اور گمشدہ مسافر عربی کا ایک لفظ نہیں جانتا ! وہ کیسے بتائے کہ اُس پر کیا بیت رہی ہے؟
دوسرے مسافر اس کی زبان سے واقف نہیں اور وہ ان مسافروں کی زبان سے واقف نہیں ، بس ڈرائیوربمشکل مجبور 5 دس منٹ انتظار کرتے ہیں اور چونکہ باقی مسافر چاہتے ہیں کہ جلدی سفر شروع ہو ۔ اندازہ کیجیے جو مرد یا خواتین ان پڑھ بھی ہیں اُن کے پاس کوئی کاغذ، کوئی پہچان نہیں ، جیب خالی ہے کہ اگر وہ رہ بھی جائے تو کسی ٹیکسی ڈرائیور یابس ڈرائیور کی منت کر کے وہ حرم تک پہنچ سکے اس کی حالت کیا ہو گی ۔
یہ عمل روزانہ ہوتا ہے ، دہرایا جاتا ہے، اور مسافرمردو خواتین کو اس حالت میں کھڑے ہو کر زار و قطار روتے اور مدد کے لیے پکارتے دیکھا ہے ۔ ساتھی بس میں چلے گئے ’زاد راہ نہیں ‘منزل کی خبر نہیں ، مافی الضمیر بیان کرے تو سننے والا کوئی نہیں ، ساری عمرہ کی خوشی اور زیارات کا لطف کچھ دیر کے لیے خاک میں مل جاتا ہے ۔اگرچہ دھکے کھا کرایک نئی داستان لے کر یہ مسافر اللہ کے گھر تک آتو جاتا ہے ، اُسے مکہ میں اپنے ہوٹل کا پتہ نہیں، ایڈریس اس کے پاس نہیں ، کئی مسافردو دو تین تین دن گم رہتے ہیں ۔ ان کا رونا خدا کو پسند آتا ہے تو وہ ٹھوکریں کھا کر اپنے ساتھیوں سے مل جاتے ہیں۔
اس عام پریشانی کے لیے وہاں کی انتظامیہ کو فوری اقدامات کی ضرورت ہے ۔ مسجد کے چاروں کونوں پر ایسے گمشدہ افراد کے لیے کیبن بنائے جائیں ، مختلف زبانوں پر عبوررکھنے والے ملازم موجود ہوں ، بس سٹینڈتک ایسے سپیکر نصب ہوں جن میں مسافر کا نام، اور گاڑی نمبر بار بار دہرایا جائے تاکہ اتنے اہم سفر میں دماغ ہلا دینے والی یہ ’’ گمشدگی‘‘ انسان کو حواس باختہ نہ کردے ۔
بسوں کے ڈرائیور کوہدایت کریں کہ کوئی مسافر کاغذات اور ضروری اقدامات ،کرنسی ، ویزہ، فون نمبر کے بغیر بس سے نہ اترے ۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ یہ صدا حکمرانوں تک پہنچ سکے اور عمرہ کے اس سفر میں کسی فریادی کی فریاد اسے رونے پر مجبور نہ کرے ۔
(۲) نظم و ضبط اور قومی شناخت
اپنی قومی پہچان اور اپنی اعلیٰ تربیت کا اہتمام ، وزارت حج کی ذمہ داری ، جب عمرہ اور حج کے دوران دنیا کی مختلف اقوام کی طرف سے آئے زائرین کے نظم و ضبط کو دیکھا جاتا ہے تو دل میں ایک حسرت بھرا سوال اٹھتا ہے کہ کیا ہماری قوم کی کوئی پہچان ہے ۔ ہماری کوئی تربیت ہے؟ انڈونیشیا ، ملائیشیا، مصر ، ترکی ،حتیٰ کہ چھوٹی ریاستیں تاجکستان ، ازبکستان ، وسطی عرب کی ریاستیں بنگلہ دیش ، ہندوستان کے مختلف علاقوں کے مسلمان ! مسلمان مردو خواتین ، عمر ہ میں اپنی پہچان کے لیے ایک ہی طرز کا لباس ایک ہی طرز کے دوپٹے کندھوں کی پٹیاں ، جیکٹ اور دیگر لباس پہن کر آتے ہیں۔
چالیس پچاس سو افراد کا قافلہ جس کمپنی کے ذریعہ آتا ہے اس کی طرف سے مفت فراہم کردہ لباس ہینڈ بیگ، مفلر ، ٹوپیاں غرضیکہ قومی تشخص کو اجاگر کرنے کا اہتمام ہوتا ہے ۔ ایک گائیڈ مائک ہاتھ میں لیے مطاف میں جانے سے پہلے سعی کے آغاز میں ، روضہ رسول ؐ پر حاضری سے پہلے اس مقام کی اہمیت احترام اور ادب سے آگاہ کرتا ہے خوش بختی کہ یہاں حاضری ہوئی اس پر اللہ کا شکر ادا کرکے چشم تر ندامت و محبت کے آنسوئوں کی لڑی پروتے حاضری دیتے ہیں۔
پاکستانی قوم کے ہزاروں افراد ہر سال ، ہر ماہ ، ہر موقع پرجاتے ہیں لیکن ان کی کوئی تربیت کوئی قومی پہچان ، ادب و احترام کے ساتھ حاضری کا اہتمام کچھ بھی نظر نہیں آتا ہمارے ایک کردارکی جھلک نظر نہیںآتی ، کیا ہماری وزارت حج و اوقاف ٹریول ایجنسی کو ہدایات نہیں دے سکتی کہ تربیت کر کے ایک ہی لباس ایک ہی انداز میں روانہ کرنے کا اہتمام کریں ؟
ہر بار ان قوموں کے نظم و ضبط کو دیکھ کر سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہمارے لیے ممکن نہیں کہ ہم بھی اپنے قومی تشخص کی پہچان کا اہتمام کر سکیں ، وزارت حج واوقاف ٹریول ایجنسیاں اس پہلو پر غور کر کے کوئی مثبت قدم کیوںنہیںلیتیں ؟

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x