ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

قسط۱۰ – اک ستارہ تھی میں – اسما اشرف منہاس

زرک پون کے متعلق مزید معلومات کے لیے اس کے ماں باپ سے ملتا ہے ۔ اور پھر اظفر سے بھی ۔ اظفر جو نوکر شاہی کی بد ترین مثال ہے بے حس ، حرام خور اور عیش پسند ۔ اسے عوام اور ان کے مسائل سے کوئی دلچسپی نہیں ۔ وہ اپنے مقام ، مرتبے اور آسائشوں سے لطف اندوز ہو رہا ہے ۔پون زرک کو کئی سال پرانے واقعات بتا تی ہے ۔ جب وہ سکول میں تھی اور ان کا ٹرپ پہلی بار شہر سے باہر گیا تھا تب وہاں اس کے ساتھ عجیب و غریب معاملات پیش آتے ہیں ۔

اس چھوٹے سے جملے میں کچھ تو تھا جومسلسل اس کے دماغ میں چبھ رہا تھا ،ہلچل مچا رہا تھا۔اس نے سنا تھا کہ حقیقی زندگی کے کسی واقعے کے بارے میں جب لگے کہ یہ واقعہ دوسری بار ہو رہا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ آپ نے اس سے پہلے ایسا ہی کوئی خواب دیکھا ہوتا ہے۔ تو کیا اس نے بھی یہ جملہ خواب میں سنا تھا؟ واقعی وہ اسے دوسری بار سن رہی تھی۔
آخر یہ ہے کیا؟ اس کا مطلب کیا ہے؟
اس کا دماغ مسلسل کھوج میںتھا۔ وہ تھک چکی تھی۔ اس چیز کو ذہن سے جھٹک دینا چاہتی تھی۔ مگر لاشعوری طور پر دماغ سخت بے چین تھا۔ کسی تلاش میں تھا۔
’’تم اتنی چپ کیوں ہو؟‘‘ عائشہ کی آواز پر وہ چونکی تھی۔
’’میں پہلے بھی زیادہ کب بولتی ہوں‘‘ وہ مسکرائی۔
’’ہاں مگر اتنا کم بھی نہیں بولتی تھیں کہ کہہ کر بلوانا پڑے‘‘۔
’’تھک گئی ہوں‘‘ اس نے سیٹ کی پشت سے ٹیک لگائی۔
صبح مس نے مسجد نہیں جانے دیا۔ کیوں؟ یہ سوچ سوچ کر دماغ خالی ہو گیا تھا اور اب یہ ایک جملہ دماغ سے چپک کر رہ گیا تھا۔ وہ جلد از جلد گھر پہنچنا چاہتی تھی۔ اس کا جسم اور ذہن بری طرح سے تھک چکے تھے۔ آدھا جملہ بار بار اس کے ذہن میں گونج رہا تھا۔ ساری کوشش کے باوجود پورا ہو کے نہیں دے رہا تھا۔
مغرب کے بعد ہی وہ سب اپنے اپنے گھروں کو پہنچی تھیں۔ وہ یونیفارم بدل کر بستر پر لیٹ گئی تھی۔ حالانکہ اس کی بہنیں ٹرپ کی روداد سننے کے لیے بے چین تھیں مگر وہ کچھ بھی بتانے سنانے کی حالت میں نہیں تھی۔
’’سنو! تم لوگوں کے ذہن میں یہ جملہ سن کر کچھ آتا ہے؟‘‘ اس کی بہنیں کمرے سے جا رہی تھیں جب اس نے پوچھا تھا۔
’’کون سا جملہ؟‘‘ اس کی بہن بولی تھی۔
’’میں گواہی دیتی ہوں … اس کے بعد کیا آتا ہے کوئی بتا سکتا ہے؟‘‘وہ سوالیہ نظروں سے دونوں کو دیکھ رہی تھی۔
’’میرے ذہن میں تو کچھ نہیں آتا سوائے اس کے کہ کوئی عدالتی سے الفاظ ہیں‘‘ اس کی بڑی بہن الجھے ہوئے انداز میں بولی تھی۔
’’میرے ذہن میں کچھ آرہا ہے‘‘ اس کی چھوٹی بہن بڑی سنجیدگی سے بولی تھی۔
’’کیا؟ کیا آ رہا ہے تمہارے ذہن میں؟‘‘ وہ اٹھ بیٹھی تھی۔
’’یہی کہ میں گواہی دیتی ہوں کہ میری بہن کا دماغ چل گیا ہے‘‘۔
اس سے پہلے کہ پون کا پھینکا کشن اسے لگتا وہ کمرے سے فرار ہو گئی تھی۔ مگر کچھ دیر بعد جب مما کمرے میں آئی تھیں اس نے ان سے بھی یہی سوال کیا تھا لیکن وہ بھی اسے کچھ نہیں بتا سکی تھیں۔
اس نے آنکھیں بند کر لیں وہ سخت تھکاوٹ محسوس کر رہی تھی۔ مزید کچھ سوچنا نہیں چاہتی تھی۔ سونا چاہتی تھی اور پھر کچھ دیر بعد وہ واقعی سو چکی تھی۔ مگر نیند مکمل طور پر پر سکون نہیں تھی۔ایک کے بعددوسرے اور دوسرے کے بعد تیسرے خواب کا سلسلہ چلتا رہا۔ کبھی وہ خاتون وہی جملہ بولتی سنائی دیں، کبھی وہ بچی ، کبھی وہ خود اور کبھی خدیجہ اس کے بچپن کی سہیلی۔
صبح اٹھ کر اس نے تھوڑا سا ناشتہ کیا تھا اور پھر جانے کو تیار ہو گئی تھی۔ وہ خدیجہ سے ملنے جا رہی تھی۔ خواب میں اسے یہ جملہ بولتے سن کر اسے حیرانی ہوئی تھی۔ خدیجہ نے اس کے ساتھ ابتدائی کچھ سالوں تک پڑھا تھا اور اب کبھی کبھار کا ہی ملنا تھا۔ پھر وہ خواب میں کیوں نظر آئی تھی؟ شاید وہ اس ادھورے جملے کو مکمل کر دے۔ شاید وہ اس کے متعلق کچھ اور بھی جانتی ہو!
خدیجہ اسے اپنے گھر پر دیکھ کر بہت خوش ہوئی تھی۔ اس کا گھر اگرچہ بہت دور نہ تھا پھر بھی ایک عرصے بعد ملاقات ہو رہی تھی۔
’’خدیجہ میں تم سے ایک بات پوچھنے آئی تھی‘‘۔ ادھر ادھر کی باتوں کے بعد وہ جلد ہی اصل موضوع پر آگئی تھی۔ ’’ایک جملہ ہے تم مجھے اس کے متعلق کچھ بتا سکتی ہو؟‘‘
’’ہاں بتائو‘‘۔ خدیجہ پوری طرح متوجہ تھی۔
’’میں گواہی دیتی ہوں‘‘۔ اس نے ان چار لفظوں کو دہرایا جنہوں نے کل سے اس کا سکون تہہ و بالا کر رکھا تھا۔
’’میں گواہی دیتی ہوں …‘‘ خدیجہ ذہن پر زور دیتے ہوئے ان الفاظ کو زیر لب دہرا رہی تھی۔
’’ارے ہاں یاد آیا‘‘ اس نے اپنے ماتھے پہ ہاتھ مارا’’یہ تو کلمہ شہادت کا ترجمہ ہے بلکہ ترجمہ انہی الفاظ سے شروع ہوتاہے۔ میں گواہی دیتی ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمدؐ اللہ کے رسول اور بندے ہیں‘‘اس نے پورا ترجمہ دہرا دیا تھا۔
اور وہ ششدر رہ گئی تھی۔
’’تو یہ کلمے کا ترجمہ ہے! ‘‘اس کا جوش ٹھنڈا پڑ گیا تھا’’اور میں سمجھ رہی تھی نجانے کس خزانے کی چابی ہیں یہ لفظ۔ خواہ مخواہ ہی اتنی پریشانی رہی یہ تو بس … ‘‘
’’ویسے تم نے یہ سب سنا کہاں؟‘‘ اس نے اپنے گھر میں تو یہ الفاظ نہیں سنے ہوں گے اس کا تو خدیجہ کو یقین تھا۔
’’کل ٹرپ سے واپسی پر ہم کسی کے گھر گئے تھے‘‘ وہ بول رہی تھی مگر اس کا ذہن جیسے کہیں اور تھا’’تو وہاں ایک خاتون ایک بچی کو پڑھا رہی تھیں‘‘۔ ٗٗ
’’ہاں جیسے میری دادی مجھے پڑھا تی تھیں‘‘ خدیجہ کو یاد آیا ’’اور تمہیں یاد ہے میری دادی مجھے جو کچھ بھی مجھے پڑھاتی یا بتاتی تھیں میں اگلے دن تمہیں ضرور بتاتی تھی۔وہ تو ہمارے سکول الگ ہو گئے ورنہ میں تمہیں اب تک اسلام پر اتھارٹی بنا چکی ہوتی‘‘ اس نے بڑے یقین کے ساتھ مذاق کیا۔
’’ہاں مجھے بھی کچھ کچھ یاد تو آرہا ہے‘‘ وہ اسی بے دھیانی کی کیفیت میں بولی تھی۔
’’چلو تم بھولا ہؤا سبق یاد کرو‘‘ خدیجہ اٹھتے ہوئے بولی ’’میں تمہارے لیے ناریل کی مٹھائی لے کر آتی ہوں۔ امی نے کل ہی بنائی ہے۔ بڑے مزے کی ہے‘‘۔
وہ اسے روکتی رہ گئی مگر خدیجہ جلدی سے کچن کی طرف دوڑ گئی تھی۔ وہ واقعی صحیح کہہ رہی تھی۔ ان دونوں کو ہی کہانیاں پڑھنے اور پھر سکول جا کر ایک دوسرے کو سنانے کا شوق تھا۔ وہ دونوں اس قدر تفصیل سے ایک دوسرے کو کہانیاں سناتی تھیں کہ سننے والے کو لگتا ہی نہیں تھا کہ اس نے کہانی پڑھی نہیں سنی ہے۔ خدیجہ اپنی دادی سے قرآن شریف پڑھتی تھی لیکن اس کے علاوہ وہ اسے پیغمبروں کے صحابہ کرامؓ کے اور اسلامی تاریخ کے مختلف واقعات سناتی تھیں جو وہ سکول جا کر من و عن اسے سنا دیتی تھی۔
اور پیغمبر ؐ کے حالاتِ زندگی تو سارے کے سارے اس نے خدیجہ کی زبانی سن لیے تھے۔ اسے ان کا حضرت حلیمہ سعدیہ کے ساتھ ان کے گائوں جانے کا واقعہ تو بہت ہی دلچسپ لگتا۔ وہ تصور کی آنکھ سے اکثر حضرت حلیمہ کا گائوں ، ان کا گھر ادھر ادھر کھیلتے بچے، بکریاں، اونٹنیاں دیکھتی تو یوں لگتا جیسے یہ آج کی ابھی کی بات ہو۔ انہی کھیلتے، بکریاں چراتے بچوں میں وہ بچہ بھی ہوتا جس کا حضرت حلیمہ کی بیٹی شیما خاص خیال رکھتی تھیں یعنی محمدؐ۔ اس کے تصور میں بسا سادہ سا گائوں انؐ کا خیال آتے ہی اور بھی خوبصو رت ہو جاتا ۔ تب اس کا بڑی شدت سے جی چاہتا کاش وہ بھی اسی گائوں میں ہوتی۔ فرشتے کے غار میں آنے کا واقعہ تو اس کے رونگٹے کھڑے کر دیتا تھا، جسم میں عجیب سی سنسنی دوڑا دیتا۔ اسے لگتا وہ غار کے ایک کونے میں موجود اپنی آنکھوں سے سب دیکھ رہی ہے۔ فرشتہ انہیں بار بار سینے سے لگا کر بھینچ رہا ہے اور کہہ رہا ہے ’’پڑھو، اور وہؐ کہہ رہے ہیں میں پڑھنا نہیں جانتا‘‘۔
خدیجہ جیسے جیسے آپؐ کی زندگی کے واقعات بتاتی گئی اس کی دلچسپی بڑھتی گئی تھی۔ اور یہ دلچسپی کب محبت اور عقیدت میں بدلی اسے پتہ ہی نہ چل سکا تھا۔ اور جب انہوں نے آپؐ کے وصال کا واقعہ کسی کتاب میں پڑھا تھا تو روتے روتے اس کی ہچکیاں بندھ گئی تھیں۔ اسے یقین ہی نہیںآرہا تھا کہ ایسے زبردست اور شاندار انسان دوسرے انسانوں کی طرح فوت بھی ہو سکتے ہیں۔ اس کو تو یقین تھا کہ آپؐ اسی دنیا میں کسی جگہ زندہ موجود ہیں۔
اس وقت اس کی عمر بھی کم تھی اور سمجھ بھی۔ لہٰذا اس خوش فہمی کو پھلنے پھولنے میں کوئی دقت نہیں ہوئی تھی۔ لیکن جب اسے معلوم ہؤا کہ آپؐ واقعی اس دنیا سے تشریف لے جا چکے ہیں تو اسے شدید دکھ ہؤا تھا۔ وہ اس بات پر سخت مایوس تھی کہ وہ اب آپؐ سے کبھی مل نہیں سکے گی، کبھی آپؐ کو دیکھ نہیں سکے گی۔ اسے معلوم ہی نہیں تھا آپؐ کے وصال کے چودہ سو سال بعد جب وہ بے اختیار روئی تھی تو نجانے کتنے فرشتے اس کے آنسو ہتھیلیوں پر سمیٹنے کے لیے تیزی سے لپکے ہوں گے۔ پھر یہ آنسو نہایت عقیدت و احترام کے ساتھ اوپر بہت دور آسمانوں پر لے جائے گئے ہوں گے۔ان آنسوئوں کے بدلے اس کے اونچے نصیب کا فیصلہ ہو رہا تھا۔ اس کے مقدر کا ستارہ چمک رہا تھا۔
مگر اب میں یہ سب باتیں کیوں سوچ رہی ہوں… اس نے ٹھنڈی سانس لی۔یہ تو سب بچپنے کی باتیں تھیں ۔ ماضی کی باتیں… اب بھلا ایسی باتوں سے اسے کیا فرق پڑتا تھا۔
’’ارے واہ ! یہ تو بڑے مزے کی ہے‘‘ وہ مٹھائی کا ایک ٹکڑا منہ میں رکھتے ہوئے بولی تھی۔ مٹھائی واقعی مزے کی تھی۔ منہ میں رکھتے ہی گھل گئی تھی۔
’’بالکل جتنی مزا ہے‘‘ وہ کھاتے ہوئے بولی۔
’’جنتی مزے سے یاد آیا تمہیں بھی جنت میں جانے کا بڑا شوق تھا‘‘ خدیجہ اسے شرارتی نظروں سے دیکھتے ہوئے کہہ رہی تھی ’’کیونکہ میں نے تمہیں بتایا تھا کہ وہاں ہر نعمت ہو گی ہر خواہش پوری ہو گی اور سب لوگ بہت حسین ہوں گے تو تم فوراً وہاں جانے پر تیار ہو گئی تھیں‘‘۔
’’ہاں مجھے یاد آرہا ہے‘‘ مٹھائی اب اس کے حلق میں پھنس رہی تھی۔ اس کی آنکھوں میں آنسو لا رہی تھی۔
’’اور یاد ہے میں نے کہا تھا جو ایک جملہ بولے گا وہی جنت میں جائے گا، تو تم وہ جملہ فوراً بولنے پر تیار ہو گئی تھیں … اور وہ جملہ … یہی تو تھا … کلمۂ شہادت!‘‘ خدیجہ کو اب نجانے کیا کیا یاد آرہا تھا۔
تو اسی لیے اسے لگا تھا وہ یہ الفاظ دوسری بار سن رہی ہے! کم عمری اور نا سمجھی میں کہے گئے کچھ الفاظ نے اسے کتنی بڑی کشمکش سے دو چار کر دیا تھا۔ ’’ویسے اس حساب سے تو تم … ‘‘ خدیجہ کچھ کہتے کہتے رک گئی تھی۔
’’کیا اس حساب سے میں؟‘‘ وہ اس کے اچانک رکنے پر چونکی تھی۔ اس حساب سے تو … تم کو جنت میں جانا چاہیے، خدیجہ یہی کہنا چاہتی تھی یا اس نے بات بدل دی تھی وہ فیصلہ نہ کر پائی۔
اس کا خیال تھا کہ یہ ادھوری بات جب مکمل ہو جائے گی تو اس کا ذہن پر سکون ہو جائے گا۔ مگر یہ اس کی خام خیالی تھی۔ وہ پر سکون نہیں ہوئی تھی مزید بے چین ہو گئی تھی۔ اس ایک کلمے نے لا متناہی یادوں کا دروازہ کھول دیا تھا۔ اچانک اس کی یادداشت جیسے واپس آگئی تھی۔ اسے ایک ایک بات یاد آ رہی تھی۔وہ کچھ بھی نہیں بھولی تھی۔
اسے سب یاد تھا اور جو یاد تھا وہ اس کے اندر بے چینیوں اور بے قراریوں کی پوری فصل اگا رہا تھا۔ اسے کسی پل سکون نہیں تھا۔ آس پاس کی ہر چیز بری لگ رہی تھی۔ تکلیف دے رہی تھی۔ ہر چیز سے اس کا دل اچاٹ ہو چکا تھا۔
امتحان سر پر تھا مگر وہ اس امتحان سے کہیں بڑے امتحان سے دوچار ہو چکی تھی۔وہ کتنی کتنی دیر تک کتابیں کھول کر بیٹھی رہتی اور ایک لفظ بھی نہ پڑھ پاتی۔ دماغ کی دیواروں سے وہی ایک جملہ زخمی پرندے کی طرح ٹکراتا اور اسے بے سکون کرتا چلا جاتا۔ اسے لگتا تھا وہ اب کبھی بھی پر سکون نہیں ہو سکے گی، کبھی بھی پہلے جیسی زندگی نہیں گزار سکے گی۔ اسے بہت حیرانی ہوتی ماضی کی کچھ یادداشتوں نے اس طرح اس کے ذہن کو جکڑ لیا کہ وہ ان کے سامنے بے بس ہو کررہ گئی تھی۔ اٹھتے بیٹھتے، سوتے جاگتے یہی واقعات اس کے دماغ میں ہلچل مچاتے تھے اسے بے چین کرتے تھے۔
گھر میں اس کی بڑی بہن کی شادی کی تیاریاں چل رہی تھیں۔ سب انہی میں لگے تھے۔ ورنہ اس کی جو کیفیت تھی اسے پکڑ لیا جاتا سب اس قدر مصروف تھے کسی کو اندازہ ہی نہ ہو سکا تھا کہ وہ کس ذہنی خلجان کا شکار ہے، ہر وقت کہاںکھوئی رہتی ہے، کون سی گتھی ہے جو اس سے سلجھ نہیں پا رہی۔
آخر مسئلہ کیا ہے، وہ جھنجھلا گئی تھی۔ مسلسل ایک ہی کیفیت نے اسے تھکا دیا تھا۔ میں یہ سب ذہن سے نکال کیوں نہیں دیتی۔ پیچھا کیوں نہیں چھڑا لیتی۔ پیچھا چھڑانا چاہتی ہوں مگر نہیں چھڑا سکتی۔ اسے اپنے ہی اندر سے ایک بے بس سی آواز سنائی دیتی تھی۔ آخر میری اس زندگی میں خرابی کیا ہے اس نے اپنے آپ سے سوال کیا۔ سب کچھ تو ہے ماں باپ ، بہن بھائی کا پیار آزادی محبت توجہ سب کچھ تو حاصل تھا۔ پھر ذہن اور دل کس کمی کا رونا رو رہے تھے۔ ہر وقت خود اسی کے ساتھ حالت جنگ میں کیوں تھے۔
شادی والے دن بھی اس کی یہی کیفیت تھی۔ وہ تقریب سے لا تعلق بالکل الگ ایک کرسی پر بیٹھی تھی اور حسب معمول اپنے ہی ادھیڑ بن میں مصروف تھی۔ اسے پتہ ہی نہ چلا انیل اس کا چچا زاد کب اس کے پاس آ بیٹھا تھا۔
’’ تم یہاں اکیلی کیوں بیٹھی ہو ‘‘ہ بیٹھتے ہوئے بولا تھا۔
’’ ایسے ہی ذرا تھک گئی ہوں ‘‘۔
وہ تھکی ہوئی تو تھی مگر جسمانی نہیں ذہنی طور پر۔ وہ اس کے سامنے بیٹھا پر شوق نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا۔ اس کی آنکھوں میں ایک پیغام تھا مگر اسے اس کے کسی پیغام سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ وہ عمر کے اس حصے میں تھی جب ایسی باتیں اچھی لگتی ہیں۔ مگر اس پر جو آفت ٹوٹ پڑی تھی اس نے اسے اپنے اطراف سے بے گانہ کر رکھا تھا۔ وہ اس کی نظروں کی تبدیلی محسوس کر سکتی تھی۔ وہ ساتھ کھیل کر بڑے ہوئے تھے۔ آپس میں کوئی تکلف نہ تھا۔ اس نے اپنے ماں باپ کو بھی اس کے مستقبل کے حوالے سے بات کرتے سنا تھا اور اس میں انیل کا ذکر بھی تھا۔ مگر ابھی وہ اس کی کسی طرح کی پذیرائی کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھی۔ اس کے تو مسئلے ہی کچھ اور ہو چکے تھے۔ انیل تھوڑی دیر بیٹھ کر خود ہی مایوس ہو کر اٹھ گیا تھا کیونکہ وہ ہوں ہاں کے سوا اس کو کوئی جواب ہی نہیں دے رہی تھی۔
رات جب وہ سونے کے لیے لیٹی تھی تب بھی اس کا ذہن آزاد نہیں تھا۔ ماضی کی یادوں کی واپسی کا سلسلہ ہنوز جاری تھا۔ اوہ گاڈ !اسے کچھ بھی نہیں بھولا تھا اسے ایک ایک بات یاد تھی۔
جب وہ حرا سے واپس آئے تو ایک دن انہوں نے اپنے خاندان کی دعوت کی تھی ۔
اور اپنا پیغام سنایا مگر کسی نے ان کی حمایت نہیں کی تھی سوائے ایک کم عمر لڑکے کے۔ اس نے کہا اگرچہ میری آنکھیں دکھتی ہیں اور ٹانگیں کمزور ہیں مگر پھر بھی میں آپ کے ساتھ ہوں۔ اور صفا کی پہاڑی پر بھی لوگوں کو بلا کر انہوں نے یہی کہا تھاکہ اگر تم نے میری بات نہ مانی تو تم پر عنقریب ایک عذاب آنے والا ہے۔
افوہ میں یہ سب کیوں سوچ رہی ہوں۔ یہ باتیں میرے لیے نہیں ہیں۔ میں نہ شراب پیتی ہوںنہ جوا کھیلتی ہوں۔ نہ اور کوئی غلط کام کرتی ہوں پھر مجھے کسی عذاب سے ـخوفزدہ ہونے کی کیا ضرورت ہے۔ ویسے بھی عذاب ثواب کے چکر میںمجھے پڑنا ہی نہیں چاہیے ۔ میرا ان سے کوئی واسطہ نہیں۔ یہ سارے بچپن کے قصے کہانیاں تھے ۔ تب وہ ان سب سے بہت متاثر تھی کیونکہ وہ کم عمر بھی تھی اورانجان بھی مگر اب تو وہ جان چکی تھی کہ وہ در اصل کون تھی ، کیا تھی۔ لہٰذا اب ان واقعات کوسوچنے اور ان سے متاثر ہونے کی کوئی وجہ نہیں تھی ۔
اُس نے کروٹ بدل کر ذہن کو کہیں اورلگانے کی کوشش کی ۔ وہ عائشہ کے متعلق سوچنے لگی۔ وہ اس کی بڑی اچھی اورگہری سہیلی تھی۔ اس نے ہر معاملے میں اس کا ساتھ دیا تھا حالانکہ کچھ لوگوں کوان کی دوستی پر اعتراض بھی تھامگر اسے کسی کی پروا نہیں تھی ۔ ایک دفعہ پون کی کلاس میں نئی آنے والی لڑکی سے کافی دوستی ہو گئی تھی لیکن اس نے محسوس کیا عائشہ اس سے کھنچی کھنچی رہنے لگی تھی ۔ پوچھنے پر بھی اُس نے کچھ نہیں بتایا تھا لیکن پھر آہستہ آہستہ اُسے خود ہی سمجھ آگیا کہ وہ اس کی ربیعہ سے دوستی پر خوش نہیں تھی ۔ یہ احساس ہوتے ہی پون نے ربیعہ سے ملنا جلنا کم کردیا تھا ۔ وہ عائشہ کو ناراض نہیں کر سکتی تھی ، وہ اس کی بہت پیاری سہیلی تھی اور جب ربیعہ دور ہوتے ہوتے کسی اور گروپ میں شامل ہو گئی تب عائشہ کا موڈ ٹھیک ہؤا تھا وہ اپنی اور پون کی دوستی کے بیچ کسی اور کو برداشت نہیں کر سکتی تھی ۔
پون کو ہنسی آگئی پرانی باتیں یاد کر کے ۔ وہ دن اور آج کا دن اس کی عائشہ کے سوا کوئی سہیلی نہیں تھی ۔ اُسے معلوم تھا عائشہ کو یہ بات پسند نہیں عائشہ کی یہ بات یاد کرتے ہوئے اس نے سوچا کہ انسانوں کو اپنے رشتے اور تعلق بانٹنا پسند نہیں تو جس نے ہمیں پیدا کیا اورپھر ہمیں زندگی گزارنے کے لیے ہر نعمت اور سہولت دی کیا وہ پسند کرے گا کہ اس کے اس کارنامے میں کچھ اور لوگوں کو بھی شریک کرلیا جائے ؟ وہ کریڈٹ جو صرف اسے ملنا چاہیے وہ کچھ اور ہستیوں میں بانٹ دیا جائے ؟ اس کے ذہن میں ایک بار پھر سوال اٹھ رہے تھے اوروہ چاہنے کے باوجود اپنے ذہن کو روک نہیں پا رہی تھی سوال کرنے سے ۔
اُف یہ میں کیا سوچ رہی ہوں ! وہ بری طرح سے جھنجھلا گئی ۔ عائشہ کے متعلق اس نے اپنا ذہن ہٹا نے کے لیے سوچا تھا مگر اس میں سے بھی وہی بات نکل آئی تھی جس سے وہ بچنا چاہ رہی تھی ۔ وہ صاحب جن کی سچائی کی گواہی مکہ کے اکھڑ مزاج تیز خو اور کسی کو خاطر میں نہ لانے والے لوگوں نے بھی دی ، وہ بھی تو یہی کہتے … اللہ کو ایک مان لو… اور وہ کبھی غلط تو کہہ نہیں سکتے تھے ، اس بات پر تو اُسے سو فیصد یقین تھا اور اس یقین کو وہ جھٹلانا چاہتی بھی نہیں تھی ۔ وہ اور اُن سے متعلق ہر بات اُس کے دل کے بہت قریب تھی ۔ وہ اُس وقت سے انھیں جانتی تھی جب اُسے ابھی اپنی بھی پہچان نہیں تھی اور تب سے اُس نے اُن کے لیے محبت اور عقیدت کے سوا کچھ محسوس نہیںکیا تھا ۔ یہاں تک توسب ٹھیک تھا مگراُن کی یہ بات کہ خدا کو بھی ایک مانو اسے تقسیم کر دیتی تھی،وہ اُلجھ جاتی تھی۔ اس کی سوچیں پیچیدہ سے پیچیدہ ہوئی چلی جا رہی تھیں ۔ وقت تیزی سے گزرتا جا رہا تھا مگر اس کا درد مستقل لادوا تھا ۔
گھر میں ہر طرف آگ لگی ہوئی تھی دروازے کھڑکیاں ان کھڑکیوں پر پڑے پردے حتیٰ کہ دیوار یں تک سب کچھ جل رہا تھا ۔ آگ کے شعلے اس کے دائیںبائیں آگے پیچھے ہر طرف اُسے اپنے گھیرے میںلیے ہوئے تھے ، اُسے راکھ کردینے کو بے تاب تھے اور وہ پورے گھر میں بھاگتی پھر رہی تھی دروازے کی تلاش میںجو اُسے کہیں نظر نہیں آرہا تھا ۔ وہ اپنے سب گھر والوںکو بھی ڈھونڈ رہی تھی اور اُن میں سے کوئی بھی اسے نظر نہیں آ رہا تھا ۔ سب یا تو آگ کاشکار ہو چکے تھے یا پھر پہلے ہی اس کو اور گھر کو چھوڑ کر جا چکے تھے۔ اس پر سخت گھبراہٹ طاری تھی ۔ آگ کے شعلے یوں لگتا تھا اس کے دل تک پہنچ رہے تھے ، اُسے اندر تک جھلسا رہے تھے ۔ اس کی سانس رک رہی تھی ۔ وہ مدد کے لیے چلانا چاہ رہی تھی مگر حلق سے ایک آواز نہیںنکل رہی تھی اسے پورے گھر میں کوئی دکھائی بھی نہیںدے رہا تھا وہ بالکل تنہا تھی کوئی بچانے والا نہیں تھا اور باہر نکلنے کا راستہ اسے مل نہیں رہا تھا ۔ جہاںاس کے گھر کا باہر جانے کے لیے دروازہ ہوتا تھا اب وہاں بھی صرف آگ تھی اور دروازے کا نام و نشان تک نہ تھا ۔ اس کے اندر گھٹن تھی اور آنکھوں کے سامنے اندھیرا اور پھر اسی بھاگ دوڑ کے دوران اس کا پائوں پھسلا تھا اور اس کی آنکھ کھل گئی تھی۔
ہر طرف رات کا گہرا اندھیرا اور سناٹا تھا خاموشی تھی اوروہ پسینے میں شرابور اپنے بستر پر لیٹی گہری گہری سانسیں لے رہی تھی ۔اب وہ آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر چاروں طرف دیکھ رہی تھی ۔ آنکھ کھل جانے کے باوجود اسے سو فیصدیقین تھا کہ ابھی تھوڑی دیر پہلے اسی گھر میں آگ لگی ہوئی تھی ہر چیز جل رہی تھی اور وہ شدید گھٹن اور گھبراہٹ کاشکار تھی ۔یہ خواب نہیںتھا ۔ اُس نے سب کچھ اتنے قریب سے دیکھا اور محسوس کیا تھا کہ وہ مان ہی نہیں سکتی تھی کہ یہ محض ایک خواب تھا ۔ وہ ابھی تک اس آگ کی تپش کواپنے جسم پر محسوس کر رہی تھی ۔ وہ اپنے بستر پر اُٹھ بیٹھی اورپھر دبے قدموں اس نے پورے گھر کا چکر لگایا ۔ سب اپنے اپنے کمرے میںگہری نیند سو رہے تھے ۔ کوئی کہیں نہیں گیا تھا ۔ وہ اکیلی نہیں تھی ۔
اُس نے ڈھیر سارا پانی پیا اور پھر واپس آکر اپنے بستر پر لیٹ گئی۔ شکر ہے وہ زندہ تھی اور اس کا گھر بھی سلامت تھا۔
یہ خواب اس نے پہلی بار نہیں دیکھا تھا ۔ وہ پہلے بھی کبھی کبھار اس طرح کے خواب دیکھتی تھی۔ اسے یاد تھا اس دن جب پہلی بار کسی کو جلتے دیکھا تھا تب سے وہ آگ کے خواب دیکھتی آرہی تھی۔ مگر ایسی شدت اور سختی اس نے اس سے پہلے کبھی محسوس نہیں کی تھی ۔ آج تو اگر عین وقت پر اس کی آنکھ نہ کھل جاتی تو وہ تقریباً مر ہی چکی تھی ۔ بس ذرا سی ہی سانس باقی رہ گئی تھی جب خواب ٹوٹ گیا اور وہ بچ گئی۔ شکر ہے ! اُس نے اطمینان کی گہری سانس لی تھی۔
خوابوں کا یہ سلسلہ کب سے شروع ہؤا تھا وہ نہیں جانتی تھی ۔ جب وہ بہت چھوٹی تھی تب سے یا پھر اس وقت سے جب ایک کھلے میدان میں اس نے کسی کو جلتے دیکھا تھا ۔ یا پھر تب سے جب سنی جانے والی باتیں اور کہانیاں سمجھنے کے قابل ہوئی تھی ۔ وہ ہر دوسرے تیسرے دن وہی خواب دیکھتی ۔ حالات و واقعات مختلف ہوتے مگر ان سب کا بنیادی جزو ایک ہی تھا ،آگ ! ہر خواب میں اسے آگ نظر آتی ، جلتی بھڑکتی ، جلاتی اور جھلساتی۔ ہر دفعہ وہ گھبرا کر نیند سے اُٹھ جاتی او راگلا سارا دن اس کی طبیعت خراب رہتی اُسے ہر طرف سے آگ کی تپش محسوس ہوتی ، جسم جلتاہؤا لگتا ،پیاس ختم ہونے کا نام نہ لیتی، وہ ہر چیز ہر کام سے بیزار ہو جاتی ۔
اُس نے کئی دفعہ اس خواب کا ممی کو بتایا تھا ۔ وہ بھی اس کی حالت دیکھ کر پریشان ہو جاتیں ۔ یہی وجہ تھی کہ وہ دوبارہ اُسے اس کھلے میدان میں لے کر نہیں گئی تھیں۔انہیں لگتا وہ تب بہت چھوٹی تھی اس لیے ڈر گئی تھی اور یہی ڈراور خوف شکلیں بدل کر اسے خواب کی صورت دکھائی دیتا تھا ۔ وہ اسے کہیںدم کر انے بھی لے گئی تھیں مگر اس کا بھی کچھ فائدہ نہ ہؤا۔ اسے رات اور نیند سے خوف آتا ۔ اول تو نیند آتی نہیں تھی ، اگر آتی تو وہ ہی خواب پھر سے نظر آتا ،یوں اس کی نیند سکون سب ختم ہو جاتا۔ اب تو چولہے میں لگی آگ بھی اُسے ڈراتی اسے لگتا کہ آگ کے شعلے اسے اپنی لپیٹ میں لینے والے ہیں ۔ اس کا یہ وہم اس حد تک بڑھتا کہ اُسے حقیقت لگتا ۔
اُس کامیٹرک کارزلٹ آگیا تھا اورسبھی کوبہت مایوسی ہوئی تھی اس کا رزلٹ دیکھ کر ،سب کاخیال تھا کہ وہ بورڈ میں ضرور کوئی نہ کوئی پوزیشن لے گی مگر ایسا نہیںہؤا تھا ۔ اُس نے اپنے سکول میںپوزیشن لی تھی اوربس۔ وہ خود تو اتنے پر بھی بہت خوش تھی ، شکر ادا کر رہی تھی کیونکہ وہ جانتی تھی کہ پیپرز کے دوران تووہ کوئی تیاری کر ہی نہیں پاتی تھی۔ بس پہلے کا جو پڑھا ہؤا تھا اسی پر اُس نے امتحان دے ڈالا تھا اورشکر ہے وہ پاس ہوگئی تھی۔
اس نے اور عائشہ نے ایک ہی کالج میںداخلہ لیا تھا اور وہ اس حوالے سے پُر جوش بھی بہت تھی اس کاخیال تھا نئے ماحول اورنئے طرح کے حالات میںشاید اس کاذہن بدل جائے ، اُس کے اندر کی بے چینی میںکچھ کمی آجائے مگر و ہ چاہنے کے باوجود شروع کے کئی دن کالج نہ جا سکی تھی ۔ اُسے بخار ہوگیا تھا اور پھر طبیعت ٹھیک ہونے میںکئی دن لگے تھے۔ عائشہ روزانہ فون کر کے اُسے کالج کے اور کلاس فیلوز کے قصے سناتی تھی ۔ وہ بھی اس کا بے چینی سے انتظار کر رہی تھی ۔
جب وہ ٹھیک ہو کر کالج پہنچی تھی توکلاسز شروع ہوئے تقریباً دوہفتے گزر چکے تھے۔ عائشہ سبھی سے اس کا تعارف کرا رہی تھی اور وہ یہ دیکھ کر سخت حیران تھی کہ اُن کے گروپ میںایک عدد لڑکا بھی شامل تھا ۔ اگرچہ کالج میں کو ایجوکیشن تھی مگر پھر بھی لڑکے لڑکیوںکے بالکل علیحدہ علیحدہ گروپ بنے ہوئے تھے یہاں لڑکے اور لڑکیوں کے بیچ کسی طرح کی بے تکلفی کا ماحول نہیں تھا پھر یہ لڑکا بھلا اُن کے گروپ میںکیا کر رہا تھا !
’’ ارے یہ بالکل بے ضرر ہے اسے بس اپنی پڑھائی سے مطلب ہے ‘‘ عائشہ نے اسے تسلی دی۔
’’مگر پھر بھی …‘‘وہ ابھی تک معترض تھی ۔
’’پھر بھی کیا ؟ دیکھنا یہ تمہیں نظر بھی نہیں آیا کرے گا ۔ یہ لائبریری میں ہی ہوتاہے زیادہ تر کتابیں ہی اس کا اوڑھنا بچھونا ہیں بس کبھی کبھی ہمیں کوئی لیکچرڈ سکس کرنا ہو تو گروپ میں آ بیٹھتا ہے اور بس‘‘ عائشہ اسے مطمئن کرنے کی پوری کوشش کر رہی تھی۔
’’ اچھا ٹھیک ہے بھئی‘‘ اُس نے ہار مان لی تھی ۔
کالج کی پڑھائی مشکل تھی ۔ وہ اپنے آپ کو بار بار یہ احساس دلا کراپنا دھیان کتابوںمیں لگانے کی کوشش کرتی تھی ۔ اُس نے میٹرک جیسا رزلٹ نہیں لانا تھا اس نے طے کر رکھا تھا ۔ وہ اپنی کوشش میں کسی حد تک کامیاب بھی تھی مگر پھر اسے ہفتے دو ہفتے بعد آگ کا خواب نظر آ جاتا اور وہ پھر سے ذہنی طورپر منتشر ہوجاتی ۔ جب سے اُس نے کسی کوجلتے دیکھا تھا یہ منظر اس کی یاد داشت کے ساتھ چپک کر رہ گیا تھا اور یہی منظر چہرے بدل بدل کر اسے خوابوں میں دکھائی دیتا تھا ۔ کبھی وہ دیکھتی اس کے گھر کو آگ لگ چکی ہے اور کبھی دیکھتی اس کے گھر والے اس کو آگ لگا رہے ہیں ۔ یہ خواب اور اس کی سوچیں اسے مل کرپاگل کیے دے رہی تھیں ۔
کبھی کبھی تو وہ بے بسی کے عالم میں گھٹنوں کے بل فرش پر گر جاتی اُسے سمجھ نہیں آتا تھا اپنی تکلیف کس کو بتائے کس سے مدد مانگے۔ اُس کے دل کا بوجھ بڑھتا جا رہا تھا، نا قابل برداشت ہوتا جا رہا تھا۔اُسے لگ رہا تھا اب وہ زیادہ دیر تک اس بوجھ کوبرداشت نہیں کر پائے گی۔ اب اپنا درد کہے بغیر کوئی چار ہ نہیں تھا ۔
اورپھر اس نے ایک دن عائشہ کو سب کہہ سنایا۔ وہ اس کی برسوں پرانی سہیلی تھی مگر وہ بھی اس کی ذہنی کیفیت سے بے خبر تھی۔ اُسے بھی پتہ نہیںچل سکا تھا کہ وہ کس ذہنی کشمکش کا شکار ہے ،کیا سوچ رہی ہے ، کیسے کیسے بوجھ اُٹھائے پھر رہی ہے ۔ دو سال ہونے کو آئے تھے وہ ایک ہی کیفیت کاشکار تھی اوراب ہر حال میں اس کیفیت میں سے نکلنا چاہتی تھی ۔ اُسے کسی ایک طرف ہونا ہی تھا کسی ایک راستے کا انتخاب کرنا ہی تھا ورنہ اسے ڈر تھا وہ ایک دن پاگل ہوجائے گی ۔
وہ آج اپنے سارے دُکھ عائشہ کے سامنے رو رہی تھی۔ کالج میں کلاسز توکئی دنوںسے نہیںہو رہی تھیں کیونکہ سکینڈ ائیر کے امتحان ہونے ہی والے تھے سب اپنے اپنے طور پر پڑھائی کر رہے تھے ۔کچھ کالج میں آکر اورکچھ گھر پر بیٹھ کر۔ آئی تو وہ بھی گروپ سٹڈی کے لیے ہی تھیں مگر پھرالگ بیٹھ کر باتوں میں مگن ہوئی تھیں، یہاںتک کہ اُس نے عائشہ سے سب کہہ ڈالا ۔
’’ آخر مجھے ہی انتخاب کی مشکل میںکیوں ڈالا گیا ؟ تم اگر خود کو میری جگہ رکھ کر دیکھو تو تمہیں پتہ چلے گا کہ صحیح اورغلط کا فیصلہ کرنا کس قدر مشکل ہے ‘‘ وہ کہہ رہی تھی ’’ آخر یہ سب میرے ہی ساتھ کیوںہو رہا ہے ؟ اس عمر میں لڑکیاں ناول پڑھتی گھنٹوںموبائل پر گپیںمارتی ہیں ، نت نئے فیشن کرتی ہیں، اداکاروںگلو کاروں کے پیچھے پاگل ہوتی ہیں… اور میں اس الجھن میں پڑتی ہوں کہ میں اپنے باپ دادا کے جس طریقے پر ہوںوہ صحیح ہے یا غلط… مجھے کبھی کبھی ایسا لگتا ہے کہ جیسے میں رات کے وقت کسی گھنے جنگل میں ہوں… خوفزدہ اوربالکل تنہا … دور ایک جگنو کی سی روشنی نظر آرہی ہے مگر اُس روشنی تک پہنچنا بہت مشکل ہے بہت ہی مشکل …
’’اور پھر مجھے یہ بھی نہیںمعلوم کہ یہ روشنی واقعی موجود ہے یا پھر میرا وہم ہے ۔ میں فیصلہ کرنے کی کوشش میںالجھتی جا رہی ہوں۔ جتنا سوچتی ہوں اتنا ہی الجھتی ہوں ۔ بار بار ایک ہی سوال میرے ذہن میںاٹھتا ہے … آخر میں ہی کیوں …؟‘‘
وہ روہانسی ہوگئی تھی۔
’’ اس کے جواب میںبہت ساری باتیں کہی جا سکتی ہیں‘‘ عائشہ بہت سنجیدگی سے کہہ ر ہی تھی ۔ اُسے بھی معاملے کی سنگینی کا پوری طرح سے احساس ہوچکا تھا ۔
’’ لیکن سو باتوںکی ایک بات یہی ہے کہ شایداللہ نے تمہیںہدایت دینے کافیصلہ کرلیا ہے ‘‘۔
’’ آخر میں ہی کیوں؟‘‘ اُس نے پھر اپنی بات دہرائی تھی ’’ یہاں ہزاروں لاکھوںلوگ مختلف طریقوں اور عقیدوںکی پیروی کر رہے ہیں… پھر صرف میرے ہی لیے یہ فیصلہ کیوںہؤا؟‘‘
’’ ایسی نا شکری کی باتیں نہ کرو‘‘عائشہ نے اُسے ٹوک دیا ’’ہدایت کوئی ایسی چیز نہیں جسے کوئی بازار سے خریدلے یا کسی سے مانگ لے … یہ اسی کو ملتی ہے جسے اللہ دینا چاہے اور یہ خاص فیصلہ خاص لوگوں کے لیے ہی ہوتا ہے ‘‘۔
’’مگر مجھے کیسے پتہ چلے گا کہ جس راستے کی طر ف مجھے بلایا جا رہا ہے وہی درست ہے ؟‘‘اُس کا ذہن سوالوں سے بھرا پڑا تھا ۔
’’اگر تمہیںیہ معلوم نہیںکہ یہ راستہ درست ہے تو پھر یہ بھی تو نہیںپتہ کہ یہ غلط ہے ۔ تم پر اللہ کا احسان ہے کہ اس نے دونوں چیزیںتمہارے سامنے رکھ دی ہیں ۔ اب یہ تمہارا کام ہے کہ تم خوب سوچ سمجھ کر فیصلہ کرو کہ کون سی چیز عقل اور فطرت کے زیادہ قریب ہے … جلدی مت کرو … ‘‘عائشہ اسے بڑی نرمی سے سمجھا رہی تھی’’ وقت لگائو دماغ لگائو پھر فیصلہ کرو… اگر یہ بھی نہیں کر سکتی ہو تو کم از کم اپنے لیے دعا تو کرو کہ جوسچ ہے جو درست ہے وہ تمہارے سامنے واضح کر دیا جائے اور پھر تمہارے لیے فیصلے کو آسان کردیا جائے‘‘۔
ہاںیہ وہ کر سکتی تھی۔ بچپن میںسہیلی کی زبانی سنے ہوئے واقعات اس کی دل کی دنیا بدل ڈالیں گے اس نے کبھی نہیں سوچا تھا۔جن کی محبت اور عقیدت سے دل لبریز تھا اب انہیںمان لینے کی منزل درپیش تھی اور یہ منزل اس قدر کٹھن اورخطر ناک ہو گی وہ سوچ کرہی ہول جاتی تھی ۔
’’ تم محمدؐ کی سیرت پر کتابیں پڑھو جب تک انہیں نہیں سمجھو گی ان پر یقین نہیں کرو گی آگے نہیں بڑھ سکو گی ‘‘ عائشہ کی آواز اُسے خیالوں سے باہر لے آتی تھی ۔
’’ تم خدا تک بھی انہی کے ذریعے پہنچو گی‘‘ وہ کہہ رہی تھی ’’ تمہیں اُن کی زبان کااعتبار کرنا ہوگا کیونکہ ہم تک سب کچھ انہی کے ذریعے پہنچا ہے ‘‘۔
اُسے اُن پر توبہت اعتبار تھا کیونکہ اُن سے محبت اور عقیدت کی منزل وہ بہت پہلے طے کر چکی تھی اورجن سے محبت ہوتی ہے اُن پر اعتبار خود بخودآجاتا ہے ۔ لیکن اس سے اگلی منزل اسے بہت کٹھن اورخطرناک لگ رہی تھی … اللہ کو ایک مان لینا اپنا معبود بنا لینا … یہ سب آسان نہیں تھا ۔ بے شمار دیوار یںتھیں جو اُس کا راستہ روکےکھڑی تھیں ۔اسے تنہا ہو جانے سے خوف آتا تھا وہ آس پاس کے لوگوں کے بدل جانے سے بھی بہت خوفزدہ تھی مگر اسے اس خوف کو شکست دینا تھی۔کوئی ایک فیصلہ کرنے کے لیے یہ بہت ضروری تھا۔
عائشہ اپنے کہے کے مطابق اگلے ہی دن سیرت پر لکھی ہوئی مختلف مصنفین کی کئی کتابیں لے آئی تھی۔ عائشہ کے والد مقامی کالج میں پروفیسر تھے اوراُن کی لائبریری میں ہرطرح کی کتابیں موجود تھیں اس نے ایک ہی ہفتے میں سب کتابیں پڑھ ڈالی تھیں ۔اُن سب کتابوں میں آپؐ کے متعلق بنیادی حقائق ایک جیسے تھے ۔ حالانکہ کچھ کتابیں غیر مسلموں کی بھی لکھی ہوئی تھیں اور کچھ جگہوں پر انہوںنے اختلاف بھی کیا تھا ۔ مگر کسی نے بھی آپؐ کو نعوذ باللہ جھوٹایا بناوٹی انسان نہیں کہا تھا ۔
سب انہیں اعلیٰ ترین اخلاقی صفات کاحامل سمجھتے تھے ۔
یہ کتابیں پڑھ کراس کی بے چینی اور بڑھ گئی تھی ۔ اُسے اچھی طرح سے پتہ چل چکا تھا کہ وہ اس سے کیا چاہتے ہیں اور جووہ چاہتے تھے اُس پر عمل کاسوچ کر بھی اس کی جان نکلتی تھی ۔ وہ خود کو بہت کمزور اور بے بس محسوس کر رہی تھی ۔ اس کی راتیں نیند سے اوردن سکون سے خالی تھے ۔ انہی ذہنی الجھنوں کا شکار وہ پیپرز کی بھی تیاری کررہی تھی اور اُسے معلوم تھا اس دفعہ بھی نتیجہ پہلے سے مختلف نہیں ہوگا ۔ مگر سوچ سوچ کر اُس کا دماغ پک گیا تھا ۔ وہ کوئی بھی درمیانی راستہ نکالنے میں بُری طرح سے ناکام رہی تھی ۔ دن ہفتوں مہینوںاورسالوں میںبدلنے جا رہے تھے مگر وہ آج بھی اسی دوراہے پر کھڑی تھی۔
٭…٭…٭
’’ میں نے اسلام قبول کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے ‘‘۔
اس صبح اس نے بڑے سادہ سے انداز میں عائشہ کو خبر سنائی تھی۔
اُس نے بڑے سادہ سے انداز میں عائشہ کو خبر سنائی تھی ۔
’’ کیا ؟ کیا کہا تم نے ؟‘‘
وہ جیسے اچھل ہی تو پڑی تھی۔ اسے اس خبر کی توقع نہیں تھی کیونکہ پون جوں جوں فیصلہ کرنے میں دیر لگا رہی تھی توںتوں وہ اس بات سے مایوس ہوتی جا رہی تھی کہ وہ کوئی درست فیصلہ کرے گی ۔
وہ اسی طرح پر سکون بیٹھی تھی ۔
’’ میں نے اسلام قبول کرنے کافیصلہ کیا ہے ‘‘ اُس نے ایک ایک لفظ پر زوردیا ۔
’’ تم کو معلوم ہے ناں یہ بہت بڑا فیصلہ ہے ؟‘‘ وہ جیسے اُسے یاد دلا رہی تھی ’’ مصیبتوں اور آزمائشوں سے بھرپور …تم نے اچھی طرح سوچ لیا ہے ناں؟‘‘
’’ ہاں میں نے اچھی طرح سوچا ہے ۔دنوں نہیں ہفتوں نہیں بلکہ سالوں سوچا ہے اوراب میں اسی نتیجے پر پہنچی ہوں کہ میں مزید دو کشتیوں کی سوار نہیں رہ سکتی مجھے اس کشمکش سے نکلنا ہوگا ورنہ میں پاگل ہو جائوں گی ۔ میرے دل نے تو برسوں پہلے یہ سب مان لیا تھا مگر زبان سے میں آج اس کا اعلان کروں گی پورے شعوراور ہوش و حواس کے ساتھ …
ہاں تو پھر پڑھائو مجھے کلمہ! ‘‘وہ پوری طرح سے تیار ہو کر آئی تھی۔
’’ اشھد ان لا الہ الا اللہ‘‘ عائشہ آہستہ آہستہ بول رہی تھی اور وہ اُس کے پیچھے الفاظ دہرا رہی تھی ۔
’’ میں گواہی دیتی ہوں … ‘‘وہ اب ترجمے کے الفاظ بول رہی تھی ’’ ہاں آج میں پورے شعور اور دل کی رضامندی کے ساتھ گواہی دیتی ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اورمحمد ؐ اس کے بندے اور رسول ہیں‘‘ وہ آنکھیں بند کیے یہ الفاظ جیسے زبان سے دل میں اُتار رہی تھی ۔
’’بہت مبارک ہو‘‘عائشہ نے آگے بڑھ کر اُسے گلے لگایا تھا ’ ’ مگر تم نے جو راستہ چنا ہے وہ آگے چل کر بہت خطر ناک ہو جائے گا‘‘ وہ اسے خبر دار کر رہی تھی ۔
’’ ہاں جانتی ہوں… سب جانتی ہوں ‘‘ اُس نے ٹھنڈی سانس لے کر کہا ’’مگرمیرے پیغمبرؐ کی زندگی میرے لیے نمونہ ہو گی ۔ انہوں نے بھی صبر کیا میںبھی صبر کروں گی یہاں تک کہ اللہ کی مدد آ پہنچے ‘‘۔
وہ بہت سنجیدگی سے کہہ رہی تھی اور عائشہ اُسے بغور دیکھ رہی تھی۔ اس کی آنکھیں سرخ اورمتورم تھیں ۔ وہ رات بھر سوئی نہیں تھی روئی تھی ۔ قطرے سے گہر ہونے تک کا سفر بہت مشکل سے کٹا تھا ۔فیصلے کی رات اُس پر بہت بھاری گزر ی تھی۔
’’ تمہارا چہرہ اُتراہؤا ہے کیا تم خوش نہیںہو؟‘‘
٭ ٭ ٭

 

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x