ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

خراج – شہلاخضر

شام ڈھلنے کو تھی۔نوری کا دل بیٹھا جا رہا تھا۔بات ہی پریشانی کی تھی۔
بالا سویرے سے نکلا اب تک نہ لوٹا تھا۔وہ کبھی اتنی دیر گھر سے باہر اکیلا نہ رہا تھا ۔
سویرے اس کا جھگڑا نذیرے سے ہو&ٔا تھا۔بات تو معمولی سی تھی پر نوبت ہاتھا پائی تک پہنچ گئی ۔بالے کو اماں کے ہاتھ کے پکے گڑ والے چاول بےحد پسند تھے ۔پچھلی رات نذیرے نے اپنے حصے کے چاول نعمت خانے میں رکھے تاکہ سویرے کام پر ساتھ لے جائے پر بالا بھوک لگنے پر رات کے کسی پہر سارے چٹ کر گیا۔بس اس بات پر نذیرے کو تو پتنگے لگ گئے ، مار مار کر بالے کا چہرہ سجا دیا۔
کہنے کو تو نذیرا عمر میں بالے سے پورے تین سال چھوٹا تھا ، پر بالے کو اس نے کبھی بڑا بھائی نہ سمجھا۔بات بے بات جھڑکنا اور حقارت آمیز سلوک کرنا ہر دم کا وطیرہ تھا۔
باپ کے مرنے کے بعد سے نذیرا ہی گھر کا کل مختار تھا۔باپ کی طرح مزدوری کر کےوہ سب کے پیٹ پال رہا تھا ۔جہاں تک بالے کا معاملہ تھا تو وہ تو سدا کا اللہ لوک اور سادھو سا تھا۔پیداہو&ٔا تو تب سے ہی ماں باپ کے لیے آزمائش بن گیا ۔رب نے جسمانی طور پر تو مکمل پیدا کیا پر دماغ اس کا عمر کے ساتھ بڑھ نہیں پایا ۔ نہ کوئی بات اسے سمجھ آتی نہ ہی وہ کوئی بات ٹھیک سے بولتا ، بالے کے بعد نذیرا اور پھر سجو پیدا ہوئے۔ وہ دونوں بالکل تندرست و توانا تھے۔
نوری اور کرمو تو رب کی رضا جان کر بالے کو محبت سے پال رہے تھے ۔سجو بھی اپنے اس مٹی کے مادھو بھائی کا بہت خیال رکھتی۔پر نذیرے کی نظر میں تو بالے کی اہمیت گلی کے نکڑ پر بندھے چاچا سراجے کے بیل سے بھی کم تھی۔اسے توچاچا سراجا اپنی بیل گاڑی میں جوت کر اپنا اور اس کا پیٹ پال رہا تھاپر بالا تو ہٹا کٹا ہو کر بھی نرا مفت کی روٹیاں توڑ رہا تھا ۔
نذیرے کے ہاتھ پیر جب سے مضبوط ہوئے وہ ابا کے ساتھ مزدوری پر جانا شروع ہوگیا۔اسے اپنی خون پسینے کی کمائی مفت خورے بالے پر ضائع ہوتے دیکھناایک آنکھ نہ بھاتا۔
میلا ملگجا بالا کچے مکان کے باہر بنے چبوترے پر بیٹھا نہ جانے اپنے آپ سے کیا باتیں کرتا رہتا۔کبھی اپنی ہی ترنگ میں راہ چلتے لوگوں کو بلا وجہ جھڑکیاں دینے لگتا۔کبھی اپنی ادھ کھلی آستین سے چہرے پر امڈتے پسینے کے ننھے قطرے پونجھتا ۔اور کبھی اسی چبوترے پر ہی سر رکھ کر سو جاتا۔ برسہا برس سے اس کا یہی معمول تھا ۔اب تواس کی ذات اس چبوترے کا حصہ ہی لگنے لگی تھی۔
شام کو جب باپ بیٹا دیہاڑی سے تھکے ہارے لوٹتے تو اس پر نگاہ پڑتے ہی نذیرے کی تیوریاں چڑھ جاتیں اور آنکھوں میں نفرت بھری چنگاریاں برسنے لگتے۔
نوری جلدی جلدی صحن میں بنی چھوٹی سی تندوری پر تازہ پھلکے سیکتی ۔سجو ابا کی مخصوص چارپائی پر بچھی چادر پر دستر خوان لگاتی ،اور وہ دونوں اس پر بیٹھ کر کھانا کھاتے۔
بالا کھانے کی خوشبو سونگتے ہی چبوترے سے اچھل کر اترتا اور روٹیاں پکاتی ماں کے پاس جابیٹھتا ۔اس کے مٹی سے اٹے بال اور پسینے کی بساند بھرے وجود کے باوجود نوری اسے مامتا بھری نگاہوں سے دیکھتی رہتی ۔پہلےکرمو اور نذیرے کو پھلکے دیتی پھر بالے کا منہ ہاتھ دھلوا کر تندور کے پاس ہی رکابی میں سالن ڈال دیتی۔بالا ہمیشہ ماں کے ہاتھوں سے ننھے بچوں کی طرح کھانا کھاتا۔
جتنی دیر وہ کھانا کھاتا چارپائی پر بیٹھا نذیرا تلملاتا رہتا ۔
نذیرے کے دل میں بچپن سے یہ نفرت بھرنے والی کوئی اور نہیں اس کی اپنی سگی دادی تھی ۔نذیرے کی دادی ایک سخت گیر عورت تھی۔ بیٹے کے گھر پہلوٹھی کے معذور بچے کی پیدائش کی مکمل ذمہ دار وہ نوری کو ہی سمجھتی۔اس کاماننا تھا کہ ان کی سات پیڑھیوں میں کبھی کسی کے گھر ایسا بے ڈھبابچہ پیدا نہ ہؤا تھا ۔نوری غیر برادری سے بیاہ کر آئی تھی ، اسی لیے وہ اس بیماری کو ساتھ لائی تھی۔ وہ بالے کے رینگتے بلکتے وجود سے نفرت کرتی تھی جس کی پیدائش پر ساری برادری میں ان کی ناک کٹ گئی تھی ۔
اسی ذہنی مریض بالے کی دیکھ بال میں نوری کو اپنا ہوش نہ رہا تھا۔اور پھرساس کے زہر بھرے طعنوں کے نشتر اس کے سینے کو چھلنی کر دیتے ۔
اسی دوران مکمل صحت مند نذیرا پیدا ہؤا تو اس کی دادی کے پیر خوشی کےمارے زمین پر نہ ٹک رہے تھے ۔جتنی نفرت وہ بالے سے کرتی تھی اتنی ہی محبت وہ نذیرے سے کرنے لگی ۔ نذیرے پر وہ بالے کا سایہ بھی پڑنے نہ دیتی ۔بالے کو تو وہ مکان کے باہر بنےچبوترے پر بٹھا دیتی پھر اسے دن بھر اندر آنے کی اجازت نہ دیتی ، نوری اپنے بے زبان بچے کے لیے تڑپتی رہتی ، پر ساس کے دل میں بالے کے لیے رحم کی رتی بھی نہ جاگتی ۔ یہ انجانی سی نفرت وہ مرنے سے پہلے نذیرے تک منتقل کرگئی تھی۔ نذیرےنے ہمیشہ بالے کو فالتو اور اضافی بوجھ سمجھا،یا پھر سب کے حصے کی مامتا اور روٹیاں کھا جانے والا خوفناک دیو ۔
نذیرا اکثر جل کر ماں سے کہتا کہ تجھے تو بس اس جانور کی پرواہے ، تیرا سگا تو بس یہ ایک ہی ہے۔اس کی اور بھی جو دل میں آتا بولتا جاتا۔نوری کا دل چھلنی ہو جاتا۔ پر وہ یہ نہیں جانتی تھی کہ کس طرح اسے یقین دلایا کہ وہ سب ماں کی کوکھ کا حصہ ہیں ۔
٭٭٭
رب نے کرمو کو جلدی اپنے پاس بلا لیا ۔گاؤں میں ڈینگی پھیلا تو کرمو بھی اس کی لپیٹ میں آگیا۔گھر کا چولہا جلانے والے دو ہاتھ چلے گئے تو چار زندگیوں کا بوجھ ڈھونا اور بھی بوجھل ہوگیا ۔پہلے سے تیکھےمزاج کا نذیرا اور بھی کڑوا کسیلا ہوگیا۔
سویرے چاول کے چند دانوں پر بڑے بھائی کو لاتوں اور مکوں سے بری طرح پیٹ ڈالا ۔
٭٭٭
نوری نے منت ترلہ کر کے گلی کے لڑکوں کو بالے کو ڈھونڈنے بھیجا۔کچھ ہی دیر میں وہ اسے ڈھونڈھ لایا ۔وہ انہیں نہر کے کنارے سوتا ہؤا ملا۔رات ہو چکی تھی ۔اسے دیکھ کر نوری کے تڑپتے کلیجے کو چین پڑا۔
نذیرا روزانہ کی طرح اپنے دوستوں کے ساتھ بیٹھک پر گپ شپ کے لیے گیا ہؤا تھا۔
درد کے مارے بالے کا جسم بھی بخار سے تپ رہا تھا۔نوری نے بالے کا منہ ہاتھ دھلوا کر کھانا کھلایا ۔وہ صحن میں بچھی چارپائی پر ہی بیٹھ گیا۔سجو نے اپنے بھائی کے سوجے چہرے کی ٹکور کرنے لگی ۔
اتنے میں نذیرا واپس لوٹا ۔صحن میں قدم رکھتے ہی چارپائی پر بیٹھے بالے پر نظر پڑی ۔
اپنے ابا کی چارپائی پربالے کو بیٹھا دیکھ کر غصے سے اس کا خون کھول گیا۔اس چارپائی پر ابا کے بعد وہ صرف اپنا حق سمجھتا تھا۔کیونکہ اب وہ ابا کی طرح سب کے پیٹ پال رہا تھا ۔
نذیرا تیزی سے بالے کی جانب لپکا۔اس سے پہلے کہ بالا کچھ سمجھتا ، زور سے لات مار کر اس گندگی کے ڈھیر کو نذیرے نے نیچے پٹخ دیا ….بالے کا سر فرش سے ٹکرایا اور خون کا فوارہ نکل کر فرش کی سوکھی زمین کو تر کرنے لگا۔
سجو کے ہاتھوں سے سکائی کا رومال دور جاگرا۔نوری جو کمرے سے بالے کے لیے گرم کھیس لینے گئی تھی شور سن کر بدحواسی میں دوڑی آئی۔ بالے کے سر سے بہتا خون دیکھ کر اس کی چیخ نکل گئی ۔بخار کی وجہ سے وہ پہلے ہی نڈھال تھا۔سر پر چوٹ لگی تو بالکل ادھ موا سا ہو گیا۔
نوری نے بیٹے کی حالت دیکھی تو نذیرے کو برا بھلا کہنے لگی ۔ نذیرے پر نہ جانے کون سا بھوت سوار تھا ، ماں کو بھی زوردار دھکا دے کر پرے پھینک دیا۔نوری لڑکھڑا کر نیچے گر گئی۔
بالےکے کان سے جیسے ہی ماں کے کراہنے کی آواز ٹکرائی وہ تڑپ کر اٹھا۔چند قدم کے فاصلے پر نوری اوندھے منہ فرش پر پڑی کراہ رہی تھی ۔سجو ماں سے چمٹ کر روئے جا رہی تھی ۔نیچے گرنے سے اس کی پسلیوں میں شدید چوٹ آئی تھی ۔
ماں کی حالت دیکھ کر بالے کی حالت غیر ہو گئی ۔
اس کےماتھے سے بہتے خون کواپنی ادھ کھلی آستین سے پونچھااور تیر کی طرح تیزی سے نعمت خانے کی طرف لپکا۔کچھ ہی لمحوں میں وہ چاقو لہراتا باہر نکلا۔
سجو نیچے جھکی ، ماں کو سہارا دے کر اٹھایا۔ اچانک نوری کی نظر بالے پر پڑی،خون سے لتھڑا چہرہ ، آنکھوں سے ٹپکتی وحشت ، پراگندہ بال اور نوری کے جہیز کا تیز دھار والا رامپوری خنجر ہاتھ میں تھامے وہ مشینی انداز سے آگے بڑھ رہا تھا۔اس کی نظریں چارپائی پر لیٹے نذیرے پر گڑی تھیں۔خلاف معمول آج پہلی بار اس کی نگاہیں غصے سے شعلے برسا رہی تھیں۔نفرت سے اس کی سانسیں دھونکنی کی طرح تیز چل رہی تھیں اور باچھوں سے جھاگ نکل رہی تھی ، اس سے پہلے کہ وہ خنجر نذیرے کے پیٹ میں گھونپتا نوری اس کے آگے آگئی۔خنجر سیدھا نوری کی پسلیاں چیرتا اندر دھنستا چلا گیا۔ اس کے منہ سے زور دار چیخ نکلی ۔نذیرا ہڑبڑا کر اٹھ گیا۔ماں کے پیٹ سے ابلتے خون کے فوارے اور بت بنے بالے کے ہاتھ میں خنجر دیکھ کر اسے کچھ سمجھ نہ آیا کہ کیا ہؤا ہے ۔
خون میں لت پت نوری نے کراہتے ہوئے نذیرے کا ہاتھ تھام لیا۔ڈوبتی سانسوں میں بیٹے کی طرف دیکھ کر لرزتی آواز میں بولی۔
’’نذیرے تو بھی بالے کی طرح میرے وجود کا ٹکڑا ہے ، ماں کی آخری نصیحت سمجھ کر اپنے بھائی کو سینے سے لگا لے، میں تجھے اپنے دونوں بچے امانت کے طور پر سونپ کر جا رہی ہوں ، میرے مرنے کے بعد تو ان کا ذمہ وار ہے ‘‘۔
گم صم کھڑے نذیرے کی آنکھوں سے آنسووں کا سیلاب امڈ امڈ کر اس کے شرمندہ چہرے کو تر کر رہا تھا ۔
سجو اور بالا ماں کے بے جان ہوتے ٹھنڈے وجود سے لپٹے سسکیاں لے رہے تھے ۔ نوری کے چہرے پر طمانیت بھری مسکراہٹ اپنے جگر کے ٹکڑوں کے لیے مامتا کا آخری خراج تھی۔
٭٭٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x