ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

جہاز آنے والا ہے! – بتول نومبر۲۰۲۰

ایک نہ ختم ہونے والے انتظار کے کرب میں ڈوبی سچی کہانی…جس میں دکھ کی لہریں ذات سے لے کر وطن تک افق تا افق پھیل گئی ہیں

 

دوڑتے بھاگتے بے فکر بچپن میں اکثر ایسا ہوتا کہ شفیق و مہربان اور ہر پل مسکرانے والے دادا جان یک دم اداس نظر آنے لگتے۔
میں چونکہ ان کی سب سے بڑی اور لاڈلی پوتی تھی تو بس میں بھی ان کے ساتھ بے سبب اداس ہو جاتی۔ گو ابھی ناسمجھ تھی مگر دل کہتا تھا کوئی غیر معمولی بات ضرور ہے۔ ایسا کیا ہے ؟ بہت غور کیا مگر بے سود۔پھر نادان لڑکپن کہیں سے اچانک مسکراتے ہوئے بھاگ جانے کااشارہ کرتااورمیںسب کچھ بھول بھال کردوڑجاتی۔
پھر ایک دن کانوں سے دادا ابا کی درد اور امید سے لبریز آواز ٹکرائی۔
’’بیٹا جہاز آنے والا ہو گا جلدی چلے جاؤ ‘‘۔
’’ ابا ابھی تو بارہ گھنٹے ہیں ،ابھی سے جا کر کیا کروں گا ؟‘‘
میرے بابا دھیرے سے منمنائے،ان کے لہجے سے بیزاری اورناامیدی صاف جھلک رہی تھی۔
مجھے اپنے بابا کا یہ انداز اچھا نہ لگا تھا۔ بابا تو بہت اچھے ہیں ،کیوں دادا کی بات نہیں مانتے ، کیا ہؤا جو ذرا جلدی چلے جائیں گے ، اوں ہوں! ہمیں تو کہتے ہیں فوراًبڑوں کا کہا مانا کرو ، اب اپنی باری میں بھول گئے !
میرے اندر کہیں کچھ الجھ رہا تھا۔
چند گھنٹوں بعد دادا کا وہی سوال چچا سے تھا ، اور حیرت کی بات تھی کہ وہاں بھی فوری عمل درآمد کے کوئی آثار نظر نہ آئے۔
اب تو مجھے بہت غصہ آیا ، اور آؤ دیکھا نہ تاؤ دادا کے پاس جا کر اپنی خدمات پیش کر ڈالیں۔
’’مجھے بتاٰئیں دادا کہاں جانا ہے ؟ کون آ رہا ہے ؟‘‘
وہ دھیرے سے مسکرائے،اداس اورخالی نظروںسے خلامیںکچھ دیکھنے لگے۔
مجھے بہت غور سے دیکھنے پر بھی سوائے کمرے کی چھت میں لٹکے پنکھے اور موٹی چھپکلی کی آرام گاہ (ٹیوب لائٹ) کے کچھ نہ نظر آیا تو دادا کو زور سے ہلا ڈالا ، مگر… اْف… وہ تو رو رہے تھے۔
میں بہت ڈر گئی۔
دادا…بابا… چچا… یہ سب تو نہیں روتے ،یہ تو بہادر ہیں۔ ان کو کیا ہؤا؟ اورایسا لگا جیسے کچھ بہت برا ہوگیا ہے، جو شاید بتایا بھی نہیں جا سکتا۔
ننھا سا دل بری طرح دھڑک رہا تھا۔
دور سے ماں کی آواز آئی تو لگا وہ سب ٹھیک کر دیں گی ، دوڑ کر ان سے لپٹ گئی ، ڈرتے ڈرتے پوچھا۔
’’اماں کیا ہؤا ہے ؟ دادا کے کون سے مہمان آنے ہیں ؟ کوئی لینے کیوں نہیں جاتا؟ وہ رو رہے ہیں‘‘۔
’’اماں… اماں !‘‘
اماں کے گرم گرم آنسوؤں نے مجھے جیسے جلا ہی ڈالا۔
اوہ !
یقین ہوگیا کچھ بہت برا ہوگیا ہے۔
مگر کیا ؟
میری گڑیا تو بالکل صحیح سلامت ہے۔
اماں کے بستر کی چادر پر بھی کوئی مٹی والے پیر نہیں چھپے ہوئے۔
اور بابا کی نیند کا وقت بھی نہیں جو اتنا گہرا سناٹا ہے۔
آخر کس سے پوچھوں ؟
’’اماں بتا دیں ناں کیا ہؤا ہے ،کون آنے والا ہے؟‘‘
’’ تمہاری دادی اور دو چچاؤں نے آنا ہے ‘‘۔
اماں کی آواز کہیں دور سے آئی –
ہیں !!!!!‘‘۔’’
میں خوشی اور حیرت سے چیخی۔
’’میری دادی ؟ کیا وہ زندہ ہیں ؟ اور میرے اور بھی چچا ہیں ؟‘‘
بے یقینی اور خوشی مجھ سے برداشت نہ ہوئی تو پھر بھاگ کر دادا سے لپٹ گئی، اورپھر وہیں سے چیخ چیخ کر چھوٹی بہنوں کو پکارتی جاتی تھی۔
’’ دادی آنے والی ہیں ،چاچا آنے والے ہیں‘‘۔
مگر یہ سب اب تک کہاں تھے ؟ اچانک جیسے مجھے ہوش آگیا۔ ہم سب تو ساتھ رہتے ہیں تو پھر… یہ سب اب تک کہاں تھے ؟
اچھا بھائی چھوڑو ،تیاری کرتے ہیں۔
سب سے اچھا سوٹ پہن لیتی ہوں اور کتابیں کاپیاں سب ٹھیک کر لیتی ہوں، آخر انہیں اپنے اسٹارز بھی تو دکھاؤں گی۔
اور پھر بارہ گھنٹے بھی گزر گئے ، بابا چچا لوٹ آئے تھے مگران کے ساتھ توکوئی بھی نہیںآیا۔
پھر…پھر…
میں نے پہلی بار سب کو روتے دیکھا۔
میرے اسٹرونگ بابا، پہلوانوں جیسے چچا، ہر وقت مسکرانے والے دادا ،سب رو رہے تھے۔
اور میری اماں جو بس نماز میں روتی تھیں ،وہ بھی رو رو کر ہلکان تھیں۔
ہم بچے بھی ڈرے سہمے ڈبڈبائی آنکھوں سے سب کو دیکھ رہے تھے مگر کچھ سمجھ نہ پائے۔
رات ہو چلی اور یوں ہی آنکھ لگ گئی۔
دن پر دن گزرتے رہے ، میں اکثر دادا سے دادی اور دیگر چچاؤں کے بارے میں پوچھتی ،جواب کبھی تسلی بخش نہ ملا بلکہ ان کو اداس ہوتا دیکھ کر میں خود ہی جلدی سے اپنا ہوم ورک نکال کر بیٹھ جاتی اور بات آئی گئی ہو جاتی۔
یوں ہی ہنستے کھیلتے شعور کی منازل طے کیں تو ایک روز دادا کی صندوقچی کی صفائی کرتے ہوئے ان کی ڈائری ہاتھ لگی ،اس کے صفحے پلٹتے ہوئے چندتصاویراس میںسے گرپڑیں۔
دادی ،دادا کے ساتھ میرے بابا اور چچا کی تصویر دیکھتے ہی میں نے آج اس سوال کا جواب حاصل کرنے کی ٹھان لی جو برسوں سے میرے بچپن اور لڑکپن کی واحد الجھن تھی۔
’’ دادا آپ بتاتے کیوں نہیں اس تصویر کے باقی لوگ کہاں ہیں ؟ آتے کیوں نہیں ہمارے پاس ؟‘‘
شاید آج میری آنکھوں سے جھلکتا عزم دادا نے بھانپ لیا تھا یا پھر آج ان کے ضبط کے بندھن بھی ٹوٹ گئے تھے۔
درد بھری آواز میں بولے۔
’’بیٹا یہ سب کھو گئے ہیں‘‘۔
’’ ہائیں… مگر کیسے ؟‘‘ میں ڈر کر چیخی۔
بولے ’’بیٹا ہم سب پر دشمنوں نے حملہ کر دیا تھا‘‘۔
’’ اوہ ! کون دشمن ؟ کیوں ؟‘‘ میرے سوال جیسے ان کے درد پر مرہم رکھ رہے تھے اور وہ بولنے لگے۔
’’ہم مشرقی پاکستان میں رہتے تھے ، وہاں بنگالیوں کی اکثریت تھی ،پاکستان بننے کے بعد کچھ عرصہ تو امن رہا مگر پھر لسانی فسادات نے جیسے سارا امن اور بھائی چارہ تباہ کر ڈالا، حقوق کی دوڑ نے سب کو اندھا کر دیا اور مسلمان ،مسلمان کی جان کا دشمن بن گیا۔ 70 کے اوائل میں بنگالیوں نے نہتے مہاجرین پر حملے شروع کر دیے۔ سال یوں ہی گزر گیا ،بہت کوششوں کے باوجود حالات بہتر نہ ہوسکے اور پھر سن 71 کے ابتدائی چند ماہ میں قیامت خیز قتل و غارت گری کا بازار گرم کر دیا گیا۔ ایک دن ہمارے محلے پر حملے کی خفیہ اطلاع ملی ، ہم سب خوف زدہ ہو گئے ، جس کو جدھر پناہ کی امید ہوئی وہ ادھر بھاگا، تمھاری دادی کو تمھارے یہ دو چچا محفوظ مقام کی طرف لے گئے۔اور وہ پھر کبھی نہ لوٹے ‘‘۔
’’آپ لوگوں نے انہیں ڈھونڈا نہیں ؟ ‘‘
میں نے غم اور حیرت کی ملی جلی کیفیت میں پوچھا۔
’’ ہم بہت دن تو خود جان بچانے کو چھپے رہے ، چند کے سوا سب ہی الگ الگ کہیں چھپے ہوئے تھے،اسی حال میںکافی دن گزرگئے۔
پھر پاکستان آرمی ہماری مدد کو پہنچی ، جان میں جان آئی تو اپنے پیاروں کی تلاش شروع کی ، جو ملتا جاتا تسلی اور خوشی بڑھتی جاتی مگر جو نہ ملا اس کی تڑپ کہیں زیادہ جان لیوا تھی۔
بہت لوگ نہیں ملے بیٹا ، ہم روز ڈھوندتے رہے اور مرتے رہے ، سب چھن جاتا مگر اپنے بچ جاتے ، کاش سب پہلے جیسا ہو سکتا، مگر نہیں ہؤا۔
پھر ایک روز پاکستان آرمی اور ریڈ کراس کی مدد سے ہمیں مغربی پاکستان منتقل کر دیا گیا۔
پاکستان دو ٹکڑے ہو گیا ، ہم سب کچھ لٹا کر یہاں آگئے۔
اور جب سے اب تک ایک دہائی گزر جانے کے باوجود وہاں سے آنے والے ہر جہاز میں کسی اپنے کے لوٹ آنے کی امید رہتی ہے، دیکھنا وہ سب ایک دن ضرور آجائیں گے ان شاء اللہ!‘‘
ان کی آنکھوں سے آنسو جھڑی کی صورت میں بہہ رہے تھے اور میں حیران پریشان اس داستان کی کڑیاں ملانے کی ناکام کوشش کر رہی تھی۔

٭…٭…٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x