ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ساحر آنکھیں -بتول اپریل ۲۰۲۱

یہ 1983ء کا ایک یاد گار دن تھا ۔ صبح کے نو بج رہے تھے ۔ میں زندگی میں پہلی بار بہ ذریعہ ریل گاڑی پنڈی سے کراچی جا رہا تھا ۔میرے ساتھ خاندان کے کچھ اور لوگ بھی تھے ۔ آپس میں گپ شپ کرتے ہمارا سفر خوب مزے میں کٹ رہا تھا ۔ گاڑی میں جوبھی پھیری والا آتا ، ہم اسے مایوس نہ لوٹاتے ۔ نتیجتاً ہمیں بار بار ٹوائلٹ جانے کی ضرورت پیش آتی ۔
ہماری نشستوں کے پیچھے ایک اورخاندان بیٹھا تھا ۔ ٹوائلٹ کی طرف جاتے ہوئے ان پر نظر پڑنا لازمی تھی۔ یہ ایک معقول خاندان دکھائی دیتا تھا ۔ مگر وہ آنکھیں … وہ آنکھیں کتنی خوب صورت تھیں دو تین بار میری نگاہ ان حسین آنکھوں پر پڑی اور میں ان کے سحر میںگرفتار ہو گیا ۔جی چاہتا تھاکہ بار بار ان آنکھوں کا نظارہ کروں ۔ چنانچہ پیٹ میں درد کا بہانہ کر کے ٹوائلٹ جاتا ۔ گزرتے گزرتے ان خوب صورت آنکھوں کا دیدار کرتا ۔ واپس آتا تو دوبارہ جانے کے لیے نیا بہانہ سوچنے لگتا۔
اللہ اللہ کر کے رات گزر گئی اور دن نکل آیا ۔ ایسا معلوم ہوتا تھاجیسے دن گاڑی کے ساتھ ساتھ آگے کوبھاگا جا رہا ہو ۔ کچھ دیر میں تمام لوگ اٹھ گئے اور ناشتے میںمصروف ہو گئے میں پھر ٹوائلٹ کا بہانہ کر کے اٹھا ۔ مگر جب پچھلی نشست پر نظر پڑی تو دل دھک سے رہ گیا ۔ نشست خالی تھی۔
’’ اوہ خدایا ! یہ لوگ رات کو کون سے اسٹیشن پر اتر گئے ؟‘‘ میں نے دکھ سے سوچا ۔ دل کہتا تھا کہ بس ابھی جلدی سے گاڑی سے چھلانگ لگا دوں اور ساری عمران خوب صورت آنکھوں کی تلاش میں زمانے بھر کی خوب چھانتا پھروں۔
دل ہی دل میں مختلف منصوبے بناتا میں ٹوائلٹ کے قریب پہنچ گیا۔ اچانک اس کا دروازہ کھلا اور میں نے دیکھا کہ وہی آنکھیں ، وہی دل رُبا آنکھیں باہر نکل رہی ہیں ۔میری روح جیسے واپس بدن میں آگئی میں ایک طرف ہو گیا اور وہ اپنی ماں کا ہاتھ پکڑ کرمیرے قریب سے گزرتی چلی گئی میں بھی واپس اپنی نشست پر آکر بیٹھ گیا ۔ اسی وقت میری دادی نے مجھے مخاطب کیا:
’’ بھولے ! بچہ اب کہیں ادھراُدھر نہ ہونا ۔ میری ٹانگوں میں بہت درد ہے ، ذرا دبا دے‘‘۔
میں ان کو دبانے لگا تو وہ نیندکی آغوش میں چلی گئیں ۔ میں نے شکر کیا کہ ان کی آنکھ لگ گئی ہے ۔اور سوچا کہ ذرا پھر ایک چکر لگا کر ان آنکھوںکا دیدار کر آئوں ۔ پر جوں ہی اٹھنے لگا ، دادی اماں کی آواز آئی:
’’ بھولے بیٹے، تھوڑا سا سر بھی دبادے ۔ ابھی کراچی آنے میں دو چار گھنٹے ہیں ، جب تک ذرا آنکھ ہی جھپک لوں ۔ شاباش میرے بھولے بچے ‘‘۔
اب بھولا بے چارہ کیا کرتا ؟ سوائے اس کے کہ دادی کا سر دباتا رہے اور ساتھ ساتھ ادھر اُدھر تاکا جھانکی کرتا رہے لیکن پچھلی نشست پر کس طرح نظر پڑے ۔
اللہ اللہ کر کے کراچی آگیا میں نے تہیہ کر لیا تھا کہ اسٹیشن پر اترتے ہی لڑکی سے اس کا نام اور پتا پوچھوں گا ۔ چنانچہ اسٹیشن آنے سے پہلی ہی دروازے پر جا کر کھڑا ہو گیا ۔ گاڑی اسٹیشن پر رکی تو میںپھرتی سے نیچے اتر گیا اوراس کا انتظار کرنے لگا ۔ میں نے ایک کاغذ پر اپنا نام اور پتا لکھ لیا تھا اور اس کے ہاتھ میں تھمانے کے پوری طرح تیار تھا ۔ مگر …
مگر اس وقت میرے پیروں تلے سے زمین نکل گئی جب اس کی ماں نے اس کے باپ کو آواز دی۔
’’ بلو کے ابا ! اس اندھی بے چاری کا ہاتھ پکڑ کر ہمیں نیچے تو اُتار ۔ تو اس طرح آگے آگے بھاگا جا رہا ہے جیسے یہ آنکھوں والی ہو‘‘۔
آہ! وہ آنکھیں … وہ ساحر آنکھیں … دیکھنے میں حسین ، لیکن نور سے محروم تھیں ! کاغذ کا ٹکڑا میرے ہاتھ سے چھٹ گیا اور کسی خزاں رسیدہ آوارہ پتے کی طرح ہوا کے دوش پر اُڑتا ہوا نظروں سے اوجھل ہو گیا
(ہند کو افسانہ سوہنٹرئیاں اکھیاں)

*…٭…٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x