ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

سعودی عرب میں رہنے کا تجربہ-بتول اپریل ۲۰۲۱

سعودی عرب کے کھانوں کا جب تذکرہ ہو رہا تھا تو کسی نے یاد کرایا کہ اس میں ایک بہت مشہور ریستوران کا تو ذکر ہی نہیں ہے۔ یاد دلانے والی تھیں ہماری محترمہ بنت شیروانی اور ان کے مطابق ہر کوئی ’’لبیک لبیک‘‘ کہتا ہؤا جاتا ہے اور ’’البیک البیک ‘‘کہتا ہؤا واپس آتا ہے۔
ان کی یہ یاددہانی بہت دل کو بھائی اور اس بار آپ کو’’البیک ریستوران‘‘کا تذکرہ پڑھنے کو ملے گا۔ ہم جب حج کے لیے آئے تو مناسک حج کی تفاصیل، سفر اور حضر کے مسائل اور ان کی حل کے ساتھ ساتھ جو ایک اور رہنمائی ہمیں ملی، وہ البیک کا تعارف تھا۔ پہلے دن تو میزبانوں نے ہمیں ریستوران تک جانے کا موقع ہی نہیں دیا۔ دوسرے دن ہمیں اندازہ ہؤا کہ حرم کے قرب و جوار میں کہیں بھی البیک کی شاخ نہیں ہے۔ اس کی وجہ کیا ہے، یہ نہ معلوم ہوئی۔ کچھ عرصہ بعد کسی نے بتایا کہ یہ کسی معاہدے کے تحت ہے جس کے مطابق کے ایف سی وغیرہ نے یہ شرط لگائی تھی۔ کیونکہ انہیں ڈر تھاکہ البیک کی وجہ سے ان کا کاروبار متاثر ہو سکتا ہے۔ یہ ایک سنی سنائی ہے جس کا کوئی حوالہ ہمارے پاس نہیں ہے۔ لیکن جتنا ازدہام ہم نے البیک پر دیکھا، کسی اور ریستوران پر نہیں دیکھا۔
اس مشاہدے کا موقعہ ہمیں سات ذوالحجہ کو ملا جب ہم منی پہنچے۔ ہم منی پیدل گئے تھے۔ وہاں پر بہت سے ریستورانوں کی شاخیں موجود ہیں۔ حج کے مناسک ادا کرنے سے پہلے تو ہمیں’’البیک‘‘ کی طرف توجہ کرنے کا موقع نہیں ملا۔لیکن جب اللہ نے یہ فریضہ خیرو عافیت سے مکمل کرایا تو ہم نے بھی ’’طواف زیارہ‘‘والے دن البیک سے کھانا کھانے کا سوچا۔ ایک لمبی قطار تھی، جس میں کھڑے ہونا حج کی مشقت کے بعد کار ےدارد لگ رہا تھا، لیکن اللہ کی مہربانی سے یہ مرحلہ آسانی سے سر ہو گیا۔ کھڑکی تک پہنچ کر اندازہ ہؤا کہ یہاں تو صرف نگٹس ہیں، خیر اب کیا ہو سکتا تھا۔ میرے شوہر جب کھانا لے کر آئے تو انہوں نے یہ خوشخبری بھی سنائی۔ اس وقت ان کی اتنی ہمت تو نہیں تھی کہ کچھ اور کھانے کے لیے کسی اور قطار میں لگتے۔ خیر اللہ کا شکر ادا کر کے ہم نے جب نگٹس کھانے شروع کیے تو وہ ہم سے کسی طرح بھی ختم نہیں ہوئے۔ ایک تو ان کا حجم بڑا تھا اور وزن میں بھاری تھے، دوسرے بہت سارے تھے۔ کچھ ہم نے کھائے اور کچھ بچ گئے۔
ہم شور بے والے سالن کھانے کے عادی ہیں، وہ کمی تو سعودی عرب کے کھانوں میں محسوس ہوئی، لیکن کھانے کے ذائقے، لذت، خالص پن، مقدار اور معیار میں کوئی کمی نہیں تھی۔ ایک کھانا لیں تو دو افراد آرام سے پیٹ بھر کر کھا سکتے ہیں۔ ہمارے بچے جب البیک، عمرہ سے واپسی پر لیتے تھے تو وہ کئی دنوں تک اسکول سے واپسی پر وہی کھاتے تھے۔ البیک کےبروسٹ کے اندر بھی کچھ مصالحہ بھرا ہوتا ہے اس لیے وہ اندر تک مصالحہ دار ہوتا ہے۔ البیک ریستوران کی ایک پہچان اس کے باہر ایک طویل ٹیڑھی میڑھی قطار بھی ہے۔ اس قطار کی ٹیڑھے ترچھے ہونے کی وجہ اس کی طوالت ہے۔ یہاں سے کھانا لینے کے منتظر شوقین افراد کی تعداد اس قدر زیادہ ہوتی ہے کہ باہر لگی قطار کئی کلو میٹر تک طویل ہو سکتی ہے۔ اس وجہ سے یہ قطار ریستوران کے باہر کی سڑک کو پار کر کے ارد گرد والی سڑکوں پر مڑ جاتی ہے۔ کمزور دل اتنی طویل قطار کو دیکھ کر حوصلہ ہار دیتے ہیں، لیکن البیک کی سروس اتنی عمدہ ہے کہ جب آپ قطار میں لگ جائیں تو آپ کی بار ی بہت جلد آ جاتی ہے۔ کئی بار بظاہر بہت ہجوم کے باوجود بچے کھانا فورا ًلے کر آ جاتے تھے۔
البیک ریستوران اب سعودی عرب کے کئی اور شہروں میں بھی ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے ریاض میں بھی البیک ریستوران کھلا ہےاور اب اس کی ایک سے زیادہ شاخیں ریاض میں کام کر رہی ہیں۔ ہمارے گھر کے قریب جو شاخ تھی اس پر صرف nuggets ملتے تھے۔ہمارے فرزند دل بند تشریف لائے تو وہ تقریباً پچاس کلومیٹر کا سفر طے کر کے قریبی شہر گئے، جہاں کے البیک سے بروسٹ اور سینڈ وچ بھی مل جاتے ہیں۔ یہ کام انہوں نے ہمیں ہمراہ لے کر لیکن یہ بتائے بغیر کیا کہ ہم البیک کی تلاش میں اپنے شہر سے نکل چکے ہیں۔ سچی بات ہے کہ ہمیں بھی نہیں پتہ چلا، کیونکہ ریاض اتنا بڑا ہے اور اس قدر پر ہجوم ہے کہ شہر کے اندر بھی اس سے زیادہ وقت لگ جاتا ہے جتنا ہمیں اس نزدیکی شہر پہنچنے میں لگا۔ واپسی پر صاحبزادے نے رضاکارانہ طور پر خود ہی یہ اطلاع فراہم کر دی کہ ہم کہاں گئے تھے۔ البیک کی محبت کیا کیا کام کرا دیتی ہے۔
حرم مکہ کے قریب اب البیک جبل عمر میں ہے ،’’حیات ریجنسی‘‘ ہوٹل کے باہر والی فوڈ کورٹ میں۔ اس البیک میں بھی صرف نگٹس ہی دستیاب ہیں۔ آپ ان کا بن کباب کھانا چاہتے ہیں یا بروسٹ، تو اس کے لیے آپ کو گاڑی یا ٹیکسی سے شہر میں موجود دوسرے البیک سے جا کر لانا پڑے گا، کیونکہ وہ کافی فاصلے پر ہے، اور وہاں پیدل نہیں جایا جا سکتا۔ اسی طرح کئی اور بھی ایسے البیک ریستوران ہیں جہاں صرف نگٹس ملتے ہیں۔ مکہ شریف سے واپسی پر جب بچے ہمارے ساتھ ہوتے تھے تو ان کی خواہش ہوتی تھی کہ راستے میں طائف سے البیک ضرور لیں۔ طائف والی شاخ سے بھی صرف نگٹس ملتے ہیں۔ ان کی پہلی کوشش تو یہ ہوتی تھی کہ تھوڑا سا راستے بدل کر مکہ سے ہی البیک کی سب چیزیں یعنی بن کباب، بروسٹ اور نگٹس لے لیں۔ طائف دوسری اور آخری ترجیح تھی۔ میری ایک دوست طبیبہ کے شوہر الخرج کے ہسپتال میں ملازمت کرتے تھے۔ وہ جب ہفتے کے اختتام پر وہاں سے آتے تو ان کے لائے ہوئے البیک سے ہم بھی کئی بار مستفیدہوتے رہے۔ کئی بار وہ خاص طور پر ہمارے لیے بھی البیک لائے۔ اس وقت اس پورے علاقے میں قریب ترین البیک خرج میں تھا۔یہ تھا ’’البیک‘‘ کا تذکرہ۔
کووڈ کے دنوں میں سفر کرنا بھی ایک نیا تجربہ رہا۔ بہت شدید تناؤ تھا اور بے یقینی تھی لیکن زندگی کی ایک اچھی بات یہ ہے کہ یہ ہر تجربے کو کسی نہ کسی انداز میں دل چسپ بنا دیتی ہے۔ ہمارا یہ سفر اور آنا جانا بھی ایسا ہی رہا۔ گزشتہ پورا سال جو وبا کی نذر ہو گیا، اس نے دیار غیر میں رہنے کے ساتھ ساتھ اپنے بھی کئی اثرات ڈالے۔ وطن عزیز بھی یاد آتا رہا اور پرانے سفر بھی، جو سعودی عرب آنے کے بعد ایسے ہی لگتے تھے جیسے ہم ایک ملک سے دوسرے ملک نہیں بلکہ ایک شہر سے دوسرے شہر سفر کر رہے ہوں۔ شاید دنیا کو ہی نظر لگ گئی ہے اس وبا کے آنے سے۔
ہم نے بڑا حوصلہ کر کے اور اپنی طرف سے اچھی طرح سوچ سمجھ کر دسمبر میں سالانہ چھٹی کا منصوبہ بنایا۔ ہم سے پہلے زیادہ باہمت ڈاکٹر چھٹیاں لے کر سفر کر چکے تھے، اس لیے ہم نے بھی ہمت پکڑ لی۔ یوں بھی سعودی عرب نے اکتوبر میں فلائیٹس کھولنے کا اعلان کر دیا تھا۔ ہم نے چوبیس دسمبر سے سفر کا آغاز کرنا تھا۔ سب کچھ تیار تھا، سارے کاغذات مکمل تھے، ہسپتال کا روٹا بن چکا تھا جس میں ہمارا نام نہیں تھا کیونکہ ہم چھٹیوں پر جا رہے تھے۔ مریضوں کو فردا ًفردا ًبتا دیا تھا، ان کے تبصرے اور بے وفائی کے طعنے بھی سن لیے، لیکن مریضوں کو بھی اندازہ تھا کہ چھٹی کتنی ضروری ہے۔ ہم سے پہلے ہماری ایک ڈاکٹر پاکستان جا رہی تھی۔ ہم مزے سے سارے کام مکمل کر کے اپنی آخری ڈیوٹی کا انتظار کر رہے تھے، جب رات کو ایک واٹس ایپ گروپ میں خبر پڑھی کہ سعودی عرب نے کووڈ کے نئے وائرس کی وجہ سے ایک ہفتے کے لیے فلائیٹس بند کر دی ہیں، اور یہ بھی پڑھا کہ اس مدت میں ایک ہفتے کا مزید اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ ہم نے سر خوشی کی عالم میں اسے ہر گز قابل اعتنا نہ جانا۔
اگلے دن ہسپتال گئے اور بھاگے بھاگے ہیومن ریسورس کے شعبے میں اپنی بیٹی کا ویزا لینے پہنچے۔ مینیجر نے کہا کہ ویزا تو اس کا تیار ہے، لیکن اوہ! دکتورہ، اب تو فلائیٹس ہی بند ہو گئی ہیں۔ اس وقت ہمیں ادراک ہؤا کہ یہ خبر تو ہم نے بھی رات کو پڑھی تھی لیکن اسے چنداں اہمیت نہیں دی۔ خیر اب کیا ہو سکتا تھا۔ حواس بحال ہونے کے بعد اپنی حالت کو سنبھالا اور فوری کرنے والے کام کیے، جن میں اپنی چھٹی ملتوی کرانا، ویزے ملتوی کرانا ، اور گھر والوں کو خبر دینا شامل تھا۔ یہ سب کرتے ہوئے اس ڈاکٹر کا بھی خیال آیا جو ائیر پورٹ کے لیے روانہ ہو چکی تھی۔ اسے بھی پیغام بھیجا کہ کیا بنا؟ اس کا شام کو جواب آیا کہ میں صبح صبح ائیر پورٹ پہنچی اور پھر وہیں سے دس بجے تک واپس گھر آ گئی۔ پریشانی بھی ہوئی اور اللہ کا شکر بھی ادا کیا کہ کہیں بیچ راستے میں نہیں پھنس گئے۔ پھر سے نیا روٹا بنا، اور مریضوں کو اپنا منہ دکھایا۔ ایک ہفتے کی پابندی کا اختتام قریب آیا تو مزید ایک ہفتے کے لیے اس پابندی میں توسیع ہو گئی۔ جنوری کے پہلے ہفتے میں فلائیٹس کھل گئیں تو ایک دو دن سوچتے رہے کہ اب کیا کریں۔ جائیں یا رہنے دیں۔ ہماری بیٹی پاکستان جانے کے لیے بے حد بے تاب تھی۔ ایک بار یہ سوچا کہ اسے روانہ کر دیں، یہی سوچتے سوچتے پھر سوچا کہ ہم بھی چلے ہی جائیں، جو سب کے ساتھ ہو گا، ہمارے ساتھ بھی ہو جائے گا۔ اللہ پر بھروسہ کرتے ہوئے ہم نے پھر سے چھٹی لی اور سفر کی تیاری شروع کر دی۔
اس بار ہماری فلائیٹ نو جنوری کو تھی۔ سات جنوری کو ہم اپنا آخری کلینک کر رہے تھے کہ ایک ہمسائی ڈاکٹر صاحبہ کا فون آ گیا۔ اس فون کے دوران ہمیں پاکستان کے ایک لینڈ نمبر سے کال آتی رہی جو ہم ظاہر ہے نہیں سن سکے۔ فون کال ختم ہونے کے بعد ہم بھول گئے کہ اس دوران کوئی اور بھی فون آیا تھا۔ گھر جا کر خوشی خوشی پیکنگ کی، چھوٹے چھوٹے کام مکمل کیے۔ اگلے دن جمعہ تھا اور ہماری فلائیٹ ہفتے کو صبح چار بجے تھی۔ ہمیں یہ خوشی بھی تھی کہ ہم خوب آرام کر کے جائیں گے۔ جمعے کو ایسے ہی بیٹھے بٹھائے ہمیں خیال آیا اور ہم نے اپنے بکنگ ایجنٹ کو واٹس ایپ پر پیغام بھیجا کہ ذرا ہماری فلائیٹ تو چیک کر لو کہ سب خیریت ہے۔ اس نے جوابی پیغام بھیجا کہ کیا آپ کو ائیر لائن سے فون نہیں آیا۔ اس وقت ہمیں سمجھ آیا کہ دوران فون جو فون آ رہا تھا، وہ ائیر لائن ہی کا ہو گا، کیونکہ نمبر بھی پاکستان کا تھا۔ اس نے ہمیں یہ خبر دی کہ اب فلائیٹ نو کو نہیں بلکہ دس کو ہے۔ بس اس بات کی دیر تھی کہ ہمارا مورال اتنا گر گیا جتنا خنجر اب پر ہوا کا دباؤ گرتا ہے یا سردیوں میں چترال کا درجہ حرارت۔
ہم نے اپنی بیٹی کو بتایا، ڈرائیور کو بتایا، پاکستان اطلاع کی اور جن جن کو بتا سکتے تھےاپنی پرواز کے ملتوی ہونے کا بتایا اور جو اطلاع دی وہ یہ تھی کہ ہم اب نہیں آ رہے، اگر آنے کا کنفرم ہو گیا تو آپ کو نئے سرے سے اطلاع کر دیں گے۔ ہم نے ماحول کو اس قدر دُکھی اور غمگین بنا دیا کہ ہماری ایک دوست الوداعی ملاقات کے لیے آنا چاہ رہی تھیں، ان سے بھی معذرت کر لی کیونکہ دل بڑے زور سے ٹوٹ چکا تھااور کسی سے ملاقات کو دل نہیں تھا۔ خود کو مصروف رکھنے کے لیے بازار کا رخ کیا۔ وہاں سے اپنے لیے دو جوڑے سنیکرزخریدے ، جو ویسے ہی کئی بار دیکھ کر چھوڑ آئے تھے۔ اور دل کو یہی سمجھایا کہ بس سمجھو نہیں جا رہے، چلے گئے تو اسے انعام سمجھنا۔ گھر واپس آکر ایک بار پھر استخارہ کیا، تو دل مطمئن ہو گیا اور سب اللہ پر چھوڑ دیا۔
جمعے کا پورا دن ہم نے یہ منانے میں گزارا کہ ہم تقریباً نہیں جا رہے۔ چلے گئے تو اللہ کی خاص کرم نوازی ہو گی۔ اس کا شور بھی خوب مچایا، سعودی عرب سے لے کر پاکستان اور کینیڈا تک۔ ہمارے ٹریول ایجنٹ نے ہمیں ہر طرح یقین دلانے کی کوشش کی کہ ان شا اللہ جہاز اب بروقت اڑے گا لیکن دل بے قرار کو نہ قرار آیا اور نہ ہی ان وعدوں پر اعتبار آیا۔ ہمارے شوہر نامدار نے بھی پی آئی اے کے ہیڈ آفس سے معلوم کر کے بتایا کہ دس جنوری کی پرواز کنفرم ہے۔ نو تاریخ کو پرواز ملتوی ہونے کی ایک وجہ کم مسافر تھے، اس لیے انہوں نے دونوں پروازوں کے مسافروں کو ملا دیا ہے۔ اس پر ہمیں کچھ حوصلہ ملا۔ ایک غم یہ بھی تھا کہ چھٹیوں کے دن تو ویسے ہی گنے چنے ہوتے ہیں، ان میں سے بھی تین دن یہیں گزر گئے۔ آج تک ایسا کبھی نہیں ہؤا تھا۔ ہم چھٹیوں میں اپنے سفر کا آغاز جمعرات کی شام سے کرتے تھے۔ سعودی عرب میں ہفتہ وار چھٹی کا آغاز جمعے سے ہوتا ہے، اس طرح ہم اپنی چھٹی کا ہر دن نئی جگہ پر جا کر استعمال کر سکتے تھے، اور اس کی ایک الگ ہی خوشی ملتی تھی۔ خیر، یہ بھی کووڈ کی کرم نوازیوں میں سے ایک کرم نوازی تھی کہ اس بار ہماری تین چھٹیاں یہیں پر گزر گئیں۔
اللہ اللہ کر کے ہم نے ہفتے کا دن گزارا اور رات کو ساڑھے گیارہ بجے گھر سے نکلے۔ ائیرپورٹ پہنچے تو لمبی قطار تھی، جسے دیکھ کر ہی ہم ڈر گئے۔ سوٹ کیس پر پلاسٹک چڑھوا کر ہم آئے تو شکر ہے کہ قطار میں شامل ہوئے بغیر انہوں نے ہمیں آگے بھیج دیا۔ ہم نے شکر ادا کیا کہ خاتون ہونے کا یہ فائدہ تو ہے، ورنہ ہم شاید ایک گھنٹہ اسی قطار میں لگے رہتے۔ ڈرائیور کو ہم نے اس وقت واپس بھجوایا جب بورڈنگ مکمل ہو گئی کیونکہ ہم ابھی بھی سفر کے بارے میں متیقن نہیں تھے۔ کاؤنٹر پر بھی ہماری بورڈنگ فورا ًہو گئی، سامان بک ہو گیا۔
اب ہمارے پاس ہاتھ کا سامان تھا، جو کچھ کم نہیں تھا۔ کچھ سالوں سے ائیر لائن کمپنیوں والے وزن کے معاملے میں بہت سنجیدہ ہو گئے ہیں۔ ہاتھ کے سامان کو بھی کئی جگہوں پر تولتے ہیں۔ سامان مقررہ وزن سے ایک دو کلو زیادہ ہو تو بالکل لحاظ نہیں کرتے۔ اسی طرح ہاتھ میں بھی ایک سے زیادہ بیگ پکڑنے کی سہولت اب ختم ہو گئی ہے۔ اس سفر میں تو ہم نے بڑے عرصے کے بعد اپنے دونوں ہاتھوں کے ساتھ ساتھ دونوں کندھوں کو بھی وزن اٹھانے کے لیے استعمال کیا۔ سامان زیادہ ہونے کی وجہ سے ہم نے اپنے ہینڈ بیگ کے اندر ایک ایک ہینڈ بیگ اور ڈالا۔ اس اندرونی ہینڈ بیگ کے اندر بھی ہم نے کافی کچھ پیک کر دیا۔ ہاتھ میں جو کوٹ پکڑا، اس کے اندر ایک جیکٹ کو بھی تہہ لگا کر رکھ لیا۔ ہم نے ڈیری ملک کی تین خوب لمبی چاکلیٹ خریدی تھیں۔ جب ہم خرید رہے تھے تو اپنے دونوں دیوروں اور بہن کے پیارے پیارے بچے نظروں کے سامنے تھے۔ اسی محبت کے دباؤ میں ہم اپنے سوٹ کیس کا حجم نگاہوں میں نہیں لا سکے۔ جب گھر آئے تو وہ چاکلیٹس کسی سوٹ کیس میں بھی پوری نہیں آئیں۔ چاروناچار ہم نے انہیں ہاتھ میں پکڑ لیا اور ساتھ دعائیں بھی کرتے رہے کہ یا اللہ ائیر پورٹ پر کوئی انہیں نہ لے جانے کا نہ کہہ دے۔ ان چاکلیٹس کو ہم نے اپنے ہاتھ والے سوٹ کیس پر رکھا جہاں سے وہ بار بار پھسل رہی تھیں اور ہم انہیں بار بار پکڑ رہے تھے۔ جب امیگریشن پر پہنچے تو ایک بزرگ اہل کار نے میری بیٹی سے یہ دلچسپ سوال کیا کہ بیٹی! کیا اس سے چھوٹی چاکلیٹس نہیں تھیں جو آپ کے سوٹ کیس میں آ جاتیں، ساتھ ہی وہ مسکرا دیے۔ خیر ہم وہ چاکلیٹس بخیر و عافیت لے کر جہاز میں بیٹھ گئے۔ کچھ زعم ہمیں یہ بھی تھا کہ ہم پی آئے پر جا رہے ہیں، کچھ اونچ نیچ ہو گئی تو سنبھال لیں گے۔ پہلی بار جب ہم سعودی عرب آئے تھے ملازمت کے لیے تو پی آئی اے پر آئے تھے۔ اس کے بعد یہ ہمارا پی آئی اے کے ساتھ دوسرا سفر تھا۔
ہمارے جہاز نے ریاض ائیر پورٹ کے بین الاقوامی ٹرمینل نمبر دو سے پرواز کرنا تھا۔ جب ہم اپنے گیٹ کی طرف گئے جہاں سے ہم نے جہاز میں سوار ہونا تھا تو وہ پورا حصہ خالی پڑا تھا۔ اس وقت ہمیں اندازہ ہؤا کہ ابھی بھی صرف’’ضروری سفر‘‘ ہی ہو رہا ہے۔ ہم نے بزنس لاؤنج کی طرف رہنمائی لینا چاہی تو ہر ائیر پورٹ اہل کار نے بتایا کہ وہ بند ہے اور آپ وہاں نہیں جا سکتے۔ ہم ایک جگہ بیٹھ گئے، لیکن ساتھ ہی بھوک نے ستایا تو ہم نے سوچا کہ کچھ کھانے کے لیے لیتے ہیں۔ صرف دو جگہیں کھانے کے لیے کھلی نظر آئیں، ایک’’سٹار بکس ‘‘اور دوسرا ’’ڈومینوز‘‘اور ایک تیسرا بھی تھا ’’برگر کنگ‘‘۔ ہم نے پاکستان جانے کی خوشی میں اپنے آپ کو دعوت دینے کا سوچا اور عازم ڈومینوز ہوئے۔ راستے میں ہمیں بزنس لاؤنج نظر آ گیا۔ قریب سے گزرے تو لاؤنج کی اندرونی روشنیاں جل رہی تھیں۔ بیٹی نے کہا کہ اوپر جا کر معلوم کر لیتے ہیں کہ کھلا ہے یا نہیں۔ ہم سامان سے اتنے لدے پھندے تھے کہ ناکامی کی صورت میں سیڑھیاں چڑھنے اور اترنے کا خطرہ مول لینے کے لیے تیار نہیں تھے۔ ہم دو قدم چلتے تھے اور اس کے بعد سامان کو درست کرنے کے لیے رکتے تھے۔ کبھی جیکٹ کوٹ کے اندر سے نکل کر پھسل جاتی تھی تو کبھی کوئی ایک یا ساری چاکلیٹس سوٹ کیس کو چھوڑ کر ادھر ادھر ہو جاتی تھیں۔ اسی طرح رکتے تھمتے ہمارا خیال تھا کہ کم از کم جہاز کے اندر داخل ہو جائیں۔
خیر ہماری صاحبزادی نے یہ بیڑا اٹھایا کہ وہ اوپر جا کر چیک کریں گی اور اگر لاؤنج کھلا ہؤا تو ہمیں اشارہ کر دیں گی۔ وہ اوپر گئیں اور تھوڑی دیر بعد سیڑھیوں کے اوپری سرے پر نمودار ہو کر ہمیں اوپر آنے کا اشارہ کیا۔ ہم لشتم پشتم مشینی سیڑھیوں سے اوپر پہنچ گئے۔ الحمدللہ لاؤنج کھلا تھا لیکن اس میں ہو کا عالم تھا۔ ہمارے سوا اور کوئی مسافر نہیں تھا۔ بعد میں کچھ دیر کے لیے ایک اور خاندان آیا اور تھوڑی دیر رک کر چلا گیا۔ ان کی پرواز ہم سے پہلے تھی۔ لاؤنج کا یہ نظارہ بھی ہمارے لیے باعث حیرت تھا۔ کھانے کے لیے بھی انہوں نے ڈبے پیک کر کے رکھے تھے جو انہوں نے ہمیں دیے۔ ورنہ بوفے لگا ہوتا ہے جہاں سے آپ اپنی مرضی سے کھانا لے سکتے ہیں۔شکر ہے کہ چائے مل رہی تھی۔ ہماری پرواز میں ابھی کافی وقت تھا۔ ہم ائرپورٹ کی اس ویرانی کا مشاہدہ اور اس پر غوروفکر کرتے کرتے کچھ دیر کے لیے سونے کی کوشش کرنے لگے۔ کچھ سوتے جاگتے وقت گزر گیا اور ہم جہاز کی طرف روانہ ہو گئے۔ اللہ کا بار بار شکر ادا کیا کہ جہاز میں داخل ہو گئے ہیں۔ ذہن کے کسی گوشے میں ایک اور سفر کی یاد بار بار در آنے کی کوشش کر رہی تھی جب جان ایف کینیڈی ائیر پورٹ پر ہم چار گھنٹے جہاز میں بیٹھ کر پھر آف بورڈ ہو گئے تھے۔ ہم نے اس یاد کو کافی کوشش کر کے بھلانے کی اور دماغ کے کسی دور دراز کونے میں دھکیلنے کی کوشش کی۔ شکر ہے نیند کی وجہ سے اس میں کافی کامیابی ہوئی۔
جہاز کے اندر داخل ہوتے ہی اپنائیت کی ایک شدید لہر آئی جس سے ہمیں لگا کہ ہم ابھی سے پاکستان پہنچ گئے ہیں۔ اس سارے سفر کی آنکھوں دیکھی تفصیل آپ یو ٹیوب پر ہمارے ولاگ میں دیکھ سکتے ہیں۔٭
٭٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
2.5 2 votes
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
2 Comments
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments
بنت شروانی
بنت شروانی
3 years ago

فائقہ باحی آپ کی تحریر پڑھ کر ہمیشہ کی طرح کافی مزہ آیا۔اور اس ائر پورٹ پر ہونے والی داستان کو پڑھ کر اپنے ساتھ گزرے واقعات بھی یاد آۓ۔
بہت خوب

trackback
2 years ago

[…] سعودی عرب میں رہنے کا تجربہ […]

2
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x