ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

اک نئی رُت – بتول مارچ ۲۰۲۳

کھڑکی سے چھن کر آتی سورج کی کرنیں اس کے چہرے پر پڑیں تو وہ آنکھیں مسلتی ہوئی سستی سے اٹھ بیٹھی، باورچی خانے سے مسلسل اٹھا پٹخ کی آوازیں آ رہی تھیں، وہ بال لپیٹتی ہوئی منہ پر چھپاکے مار کے کمرے سے نکل آئی، سامنے ہی لاؤنج میں اس کی طرف پشت کیے بیٹھی بیگم فیروز پر نظر پڑی، وہ جھنجھلاتی ہوئیں باورچی خانے کے ادھ کھلے دروازے سے نظر آتی منجھلی بہو کو گھور رہی تھیں۔
عروہ نے سامنے جا کے سلام جھاڑا تو انہوں نے ذرا کی ذرا نظر ہٹا کے اسے دیکھا اور سر ہلا دیا، عروہ دوپٹہ سنبھالتی کچن کی طرف مڑی۔
’’پھوہڑ کی پھوہڑ ہیں سب‘‘ پیچھے سے اپنی ساس کی بڑبڑاہٹ اسے صاف سنائی دی لیکن وہ نظر انداز کر گئی۔
کچن میں اقصیٰ بھابھی تیز تیز ہاتھ چلاتے ہوئے بچوں کو ڈپٹتی ناشتہ کروا رہی تھیں۔
ان کو سلام کر کے اس نے کرسی گھسیٹی اور علی کی ناشتے میں مدد کرنے لگی، اقصیٰ بھابھی نے اسے تشکر بھری نظروں سے دیکھا اور توے پر پڑے پراٹھے کی طرف مڑ گئیں۔
بچوں کے سکول جانے کے بعد راحم، زین بھائی اور ارقم بھائی بھی اسی طرح افراتفری مچاتے آفس کی طرف نکل گئے، اسی اثناء میں وہ اپنے اور اقصیٰ بھابھی کے لیے ناشتہ تیار کر چکی تھی۔
نمرہ بھابھی آج کل اپنے میکے میں تھیں۔
ناشتہ کر کے اقصیٰ بھابھی انگڑائی لیتیں کمرے میں جا گھسیں اور وہ بکھرے ہوئے کچن کو ایک نظر دیکھ کر گہری سانس بھرتی ہوئی اٹھ کھڑی ہوئی، دوپہر کے کھانے کی ڈیوٹی اس کی تھی۔
کچن صاف کرنے کے بعد دوپہر کے لیے سبزی چڑھائی۔
’’بھابھی! ناشتہ بنا دیں‘‘۔
تبھی ارم جماہی لیتی کچن میں آئی۔
’’تم بیٹھو، میں ابھی بنا دیتی ہوں‘‘، وہ جلدی سے اس کے لیے ڈبل روٹی سینکنے لگی۔
’’یہ اقصیٰ بھابھی کہاں ہیں؟ آج تو ان کی ڈیوٹی نہیں تھی ناشتے کی؟‘‘ ارم اسے استفہامیہ نظروں سے دیکھ رہی تھی۔
’’ہاں، انہی نے بنایا ناشتہ، میں تو دوپہر کے لیے سالن بنا رہی تھی، تم دیر سے اٹھی ہو ناں اس لیے‘‘ انڈا پلیٹ میں نکالتے ہوئے اس نے تفصیل سے جواب دیا۔
ارم نے محض سر ہلایا اور ناشتے کی ٹرے اس کے ہاتھ سے لے کے لاؤنج میں جا بیٹھی۔
سب کو دوپہر کا کھانا کھلانے کے بعد عروہ چائے کا کپ لیے اپنی پسندیدہ جگہ پر آ بیٹھی، گھر کی پچھلی طرف بیک یارڈ تھا، اس میں لیموں اور آم کے درخت لگے ہوئے تھے اور چھوٹی سی کیاری میں مختلف سبزیاں بہار دکھا رہی تھیں، یہ عروہ کی پسندیدہ جگہ تھی، وہ اکثر اپنی سہ پہر یہاں گزارتی تھی۔
اڑتے پرندوں کو دیکھتے ہوئے وہ یونہی ماضی میں جا نکلی تھی۔وہ گھر میں سب سے چھوٹی تھی، دو بھائی بڑے تھے، ان کی شادیاں ہوئیں تو امی نے خاموشی سے باورچی خانہ بھابھیوں کے حوالے کر دیا۔
جو ان کا دل چاہتا اور جیسے ان کو پکانا آتا، وہ کھانا بناتیں، امی نے کبھی اعتراض نہ کیا۔
شروع شروع میں کبھی اس بات پر چخ چخ ہو جاتی کہ کیا بنے گا اور کون بنائے گا کیونکہ امی نے کسی کے ذمے کوئی ڈیوٹی نہیں لگائی تھی،

دونوں بھابھیوں میں جب، جس کا موڈ ہوتا وہی کھانا بنا دیتی۔
البتہ جب کوئی بدمزگی ہوتی تو امی خاموشی سے عروہ کو کچن میں بھیج دیتیں۔
اسی طرح آہستہ آہستہ گھر کی روٹین سیٹ ہوتی گئی، شروع کے جھگڑے اب کم ہو گئے، اکثر دونوں بھابھیاں ساتھ کچن میں جاتیں اور مل کے کام سنبھال لیتیں اور خوش دلی سے سب کام ہو جاتا تھا۔
لیکن جب وہ بیاہ کر سسرال آئی تو شادی کے ایک ماہ بعد بیگم فیروز نے اسے پاس بٹھایا اور کہا کہ:
’’بیٹا، اس گھر میں سب کی ذمہ داریاں تقسیم کی گئی ہیں، کپڑے اور صفائی تو ماسی کر جاتی ہے لیکن کھانا مجھے کسی سے بنوانا پسند نہیں، اس لیے آج سے تم دوپہر کا کھانا اور شام کی چائے بناؤ گی، نمرہ رات کا کھانا اور اقصیٰ ناشتہ تیار کرے گی تاکہ کوئی بدمزگی نہ ہو اور تم تینوں میں کسی پر کام کا بوجھ بھی نہ پڑے‘‘۔
عروہ کے لیےیہ بات ہضم کرنا مشکل تھی کہ جب گھر میں کوئی کسی کے لیے اجنبی نہیں ہے اور وہ سب ایک خاندان ہیں تو بھلا اس طرح کام تقسیم کرنے کی کیا ضرورت ہے جبکہ مل جل کے سب زیادہ اچھا ہو سکتا ہے۔
لیکن اس وقت خاموشی کو مصلحت جان کر اس نے فقط سر ہلا دیا۔
وقت گزرنے کے ساتھ عروہ کو احساس ہوتا گیا کہ یہ سب بہت مشکل ہے۔
وہ اور اقصیٰ بھابھی آگے پیچھے ہی بیاہ کر اس گھر میں آئی تھیں، اقصیٰ بھابھی کو زیادہ کوکنگ نہیں آتی تھی، کبھی ان سے پراٹھا جل جاتا، کبھی انڈے میں نمک زیادہ تو کبھی چائے پھیکی۔
ایسے میں بیگم فیروز بغیر لحاظ کے کھری کھری سنا دیتیں اور زین بھائی بھی خفا ہو جاتے تھے۔
خود عروہ کے لیےسالن بنانا ایک مشکل کام تھا، امی کے گھر وہ چھوٹے موٹے کام سنبھالتی تھی لیکن پڑھائی کے فوراً بعد شادی کی وجہ سے باقاعدہ کچن سنبھالنے کا تجربہ سسرال میں ہی ہوا، چنانچہ وہ دونوں ہی بیگم فیروز کی زیر عتاب رہتیں۔
اسی روز و شب میں ایک دن اقصیٰ بھابھی کا پاؤں سلپ ہو گیا اور اچھی خاصی موچ آ گئی۔
چار دن وہ بستر سے اٹھ نہیں پائیں اور یہ دن ان پر کیسے بھاری گزرے وہی جانتی تھیں۔
عروہ نئی دلہن تھی، اس لیے بیگم فیروز نے اس پر ذمہ داری ڈالنے کی بجائے نمرہ بھابھی سے ناشتہ بنانے کا کہہ دیا، نمرہ بھابھی کے مزاج کی وجہ سے عروہ ان سے اب تک گھل مل نہ سکی تھی۔
سو وہ کمرے میں ہی رہتی، ارم یونیورسٹی اور یونیورسٹی سے گھر کے علاوہ کسی کام کے موڈ میں کم ہی نظر آتی تھی۔
ڈبل ڈبل ڈیوٹی نمرہ بھابھی نے سنبھالی تو ان کا مزاج مزید چڑچڑا ہوتا گیا، آتے جاتے اقصیٰ بھابھی کو کھری کھری سنا دیتیں۔
خدا خدا کر کے اقصیٰ بھابھی ٹھیک ہوئیں تو یہ مسئلہ سلجھا اور دوبارہ سب روٹین پر آیا۔
لیکن تب عروہ نے امی سے یہ سب ڈسکس کرنے کی ٹھان لی تاکہ وہ کوئی حل دے سکیں اور گھر میں سکون رہے۔
’’عروہ! کہاں ہو یار؟‘‘ راحم آوازیں دیتے اسے طرف آ رہے تھے۔
وہ ایک دم خیالوں سے چونکی اور نظر گھما کے ان کو دیکھا۔
’’جی، میں بس آ رہی تھی‘‘ وہ جلدی سے اٹھ کھڑی ہوئی۔
’’دیکھو موسم کتنا خوبصورت ہو رہا ہے، چلو تمہاری امی سے مل آتے ہیں اور واپسی پر ڈنر بھی کریں گے، تم تیار ہو جاؤ اور امی کو بتا دو‘‘۔
راحم اسے ساتھ لیے ہدایات بھی جاری کر رہے تھے، اس نے سر ہلایا اور ساس امی کے کمرے کی طرف چل دی۔
ان سے اجازت لے کے وہ امی کی طرف آئے تھے، باتوں میں وقت گزرنے کا پتا ہی نہیں چلا تو امی نے کھانےکے لیے وہیں روک لیا، راحم کی رضامندی پر وہ بھی پرسکون ہو کے بیٹھ گئی۔
راحم اور بھائی لاؤنج میں تاش سجائے بیٹھے تھے، دونوں بھابھیاں کچن میں مصروف تھیں، وہ امی کے کمرے میں ان کے ساتھ بیٹھی خشک

میوہ جات سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔
’’امی! ایک بات پوچھوں؟ ‘‘اس نے امی کو مخاطب کیا۔
’’ہاں، بولو‘‘۔
’’امی، آپ نے کبھی دونوں بھابھیوں کی کھانے پر ڈیوٹی کیوں نہیں لگائی؟ یہی کہ دوپہر کا تم بناؤ، رات کا دوسری بنائے؟‘‘
امی مونگ پھلی منہ میں رکھتے ہوئے مسکرائیں۔
’’دیکھو بیٹا، جب کوئی لڑکی بیاہ کر نئے گھر جاتی ہے تو اس وقت اس کو یہ احساس دلانا سب سے اہم ہوتا ہے کہ وہ اس گھر کی فرد ہے، اور اس کا بھی اس گھر پر اتنا ہی حق ہے جتنا کہ اس کی ساس، شوہر یا پھر نندوں کا، تو وہ جیسے چاہے اپنے گھر میں رہ سکتی ہے‘‘۔
’’اور بیٹا، اس کے لیے سب سے اہم یہ ہوتا ہے کہ آپ اپنی راجدھانی کی ملکہ اسے بنا دیں‘‘۔
امی اپنی بات مکمل کیے بغیر رک گئی تھیں۔
’’اور وہ کیسے بنا سکتے ہیں امی؟‘‘ عروہ دلچسپی سے سیدھی ہو بیٹھی۔
’’بیٹا، اس کا کام عزت سے اس کے حوالے کرو، اسے مت کہو کہ آج سے تم اتنا سنبھالو گی، بلکہ اسے کہو آج سے یہ پورا گھر اور یہ سب رشتے تم سنبھالو گی، یہ سب تمہارے ہیں، تم گھر کے جس کام کو کرنا چاہو، وہ کرو، گھر کے جس فرد سے چاہو، اس سے مدد لو، جس کی چاہو، اس کی مدد کرو‘‘۔
’’بیٹا، جب گھر کے بڑے اسے یہ کہیں گے تو وہ خود ہی کر کام سنبھال لے گی، تب پھر ڈیوٹی کی ضرورت نہیں پڑے گی، اس کو جہاں جہاں اپنی ضرورت محسوس ہوگی، وہ وہاں جا کے اپنا حصہ ڈال دے گی، پھر اس کو بتانے کی، سمجھانے کی ضرورت نہیں رہے گی‘‘۔
امی نے بات مکمل کر کے اسے دیکھا تھا۔
’’اور امی، اگر گھر کے بڑے یہ مان نہ دیں تو پھر اس لڑکی کو کیا کرنا چاہیے‘‘؟ عروہ نے کچھ سوچتے ہوئے ایک اور سوال کیا تھا۔
’’عروہ بیٹا، گھر بنانے کے لیےکوشش دونوں طرف سے کرنی پڑتی ہے، جب کوئی آپ سے نہیں کہہ رہا تو پھر آپ کا فرض ہے کہ آپ جس حد تک ہو سکے اپنے آپ کو پیش کریں، اپنی ڈیوٹی کے علاوہ بھی باقی افراد کی مدد کے لیے موجود رہیں تاکہ آہستہ آہستہ سب کو سمجھ آ جائے کہ گھروں میں، خاندان میں کچھ باتیں فرض سے بڑھ کر احساس کی صورت زیادہ اچھی لگتی ہیں‘‘۔
’’تھینک یو امی جان، آپ نے میری الجھن حل کر دی‘‘ عروہ نے چہک کر ان کے گلے میں بانہیں ڈالی تھیں۔
’’خوش رہے میری بیٹی‘‘۔
امی نے مسکرا کر اس کا سر چوم لیا۔
’’اوہو، بڑے لاڈ اٹھوائے جا رہے ہیں نند صاحبہ‘‘، صاعقہ بھابھی جو اسی وقت کمرے میں داخل ہوئی تھیں، اسے چھیڑتی ہوئی پاس آئیں۔
’’بس بھابھی جی کیا کریں، جن کی آپ جیسی ظالم بھابھی ہو، وہ اپنی ماں کے ساتھ ہی لاڈ کرے گی ناں‘‘، عروہ آنکھیں پٹپٹاتے ہوئے جواباً بولی تھی۔
’’اچھا اچھا میری مظلوم نند، آ جاؤ کھانا لگا دیا ہے، سب انتظار کر رہے ہیں،‘‘ بھابھی نے ہنستے ہوئے اسے چپت لگائی اور باہر نکل گئیں۔
عروہ نے مسکرا کر امی کو دیکھا اور ایک عزم سے باہر کی طرف چل دی۔
اسے اک نیا بیج ڈالنا تھا، ایک محبت بھری روایت کا بیج!
٭٭٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x