ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

اک قطرۂ آب کی – نور مارچ ۲۰۲۱

سترھویں صدی کے آخر تک حکماء پانی کو ایک عنصر مانتے تھے ۔ پھر 1780ء میں ایک مشہور انگریز کیمیا دان ہنری کیونڈش(Henry Cavendish)نے دریافت کیا کہ پانی مفردنہیں بلکہ دو گیسوں آکسیجن اور ہائیڈروجن کا مرکب ہے اور اب یہ بات پایۂ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ پانی ایک حصہ آکسیجن اور دو حصے ہائیڈروجن پر مشتمل ہے ، اس کا فارمولا H2Oہے۔ یہ ہوا کی نسبت770 گنا بھاری ہوتا ہے ۔ نقطہ انجماد صفرڈگر ی سینی گریڈ یعنی 32 ڈگری فارن ہائیٹ ہے او رنقطہ کھولائو 100 ڈگری سینٹی گریڈ یعنی 212 ڈگری فارن ہائیٹ ہے ۔ خالص حالت میں یہ شفاف ، بے بو اور بے مزہ ہوتا ہے جس کی کوئی باقاعدہ شکل نہیں ہوتی، اسی لیے جس چیز میں ہوتا ہے اسی کی شکل میں ڈھل جاتا ہے ۔ زمین پر یہ سمندروں ، دریائوں ، جھیلوں ، چشموں اور آبشاروں کی صورت میں پایا جاتا ہے ، بارش کے ذریعے آسمان سے بھی برستا ہے ۔ نا صرف دنیا کا ثبات بلکہ اس کا حسن اور خوبصورتی بھی صرف اسی ’’ قطرہ آب‘‘ کے دم سے ہے ۔ سورہ ملک کی آخری آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ؛
’’ بھلا دیکھو تو ! اگر صبح کو تمہارا پانی زمین میں دھنس جائے ( خشک ہو جائے ) تو کون ہے جو تمھیں لا دے پانی بہتا ہوا ۔‘‘
بے شک ہم اللہ کی اس بیش بہا نعمت کے لیے جس قدر شکر کریں کم ہے جس کے بغیر زندگی کا کوئی تصور نہیں۔
جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ یہ تازہ شیریں پانی ہمارے پینے کے علاوہ بے شمار طریقوں سے کام آتا ہے ،دوسرے الفاظ میں نا صرف زندہ رہنے کے لیے ضروری ہے بلکہ ہم اپنے روز مرہ کے ہر کام میں پانی کے محتاج ہیں ، جیسے ؛
ث ایک مسلمان کے لیے تو سب سے پہلا کام یعنی طہارت اور پاکی بھی پانی کے بغیر نا مکمل ہوتی ہے ۔
ث پانی ہماری غذا کا جزو اعظم ہے کیونکہ انسانی جسم کی بناوٹ میں 70 فیصد یا دو تہائی سے تین چوتھائی تک پانی ہوتا ہے ، اس لیے بقائے حیات کے علاوہ بھی یہ بہت اہم اور ضروری ہے ۔
ث یہ جسم کے درجہ حرارت کو متوازن رکھتا ہے ، منہضم غذا کو تحلیل کر کے جزو بدن بناتا ہے ۔
ث بافتوں کی بناوٹ میں اہم کردار ادا کرتا ہے ۔ ہڈیوں سے لے کر خون تک کی بناوٹ میں پانی درکار ہے کیونکہ یہ پٹھوں کے نئے خلیے بنانے کی رفتار کو بڑھا دیتا ہے ۔
ث یہ خون کو پتلا کرتا ہے ۔ خون میںتقریباً92 فیصد پانی ہوتا ہے جس کی وجہ سے پٹھے اور جوڑ ملائم رہتے ہیں ۔ مدافعتی نظام کو بہتر بنانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔
ث جسم سے فضلات کو خارج کرنے میں مدد دیتا ہے۔
ث ایک بالغ شخص کو صحت مند رہنے کے لیے روزانہ پینے کے لیے دس گلاس پانی پینا ضروری ہے ۔
ث یہ ہماری فصلوں کو سیراب کرتا ہے ۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور پانی کے بغیر زراعت نا ممکن ہے ۔
کنویں کا پانی بھاری یا الکلی والا ہوتا ہے کیونکہ اس میں معاون جیسے کیلشیم اور میگنیشیئم پائے جاتے ہیں ۔ اس پانی سے بال دھوئے جائیں تو یہ بالوں پر بھی انہی معاون (Mineral) کی ایک تہہ سی چھوڑ دیتا ہے اس لیے بال کھردرے اور بے رونق نظر آتے ہیں ۔ سطح زمین سے نکلنے والا پانی ہلکا ہوتا ہے ، یعنی اس میں الکلی کم اور تیزابیت زیادہ ہوتی ہے ۔مگر جب یہ لوہے کے پائپوں سے گزرتاہے تو ان کو گلانا شروع کر دیتا ہے اس طرح جب یہ ہماری ٹوٹیوں تک پہنچتا ہے تو اس میں بہت سی معاون بھی شامل ہو چکی ہوتی ہے ۔
ان دنوں پانیوں کی نسبت بارش کا پانی ’’خالص‘‘ ہوتا ہے ۔ لیکن آج کل کی آلودہ فضاسے ہو کر جب یہ ہم تک پہنچتاہے تو یہ بھی آلودہ ہو چکا ہوتا ہے ۔ ہاں اگر بارش لگا تار ہوتی رہے تو یہ پانی فضا کی آلودگی کو بھی بہا کر لے جاتا ہے پھر یہ بالکل خالص ہوتا ہے اس کو آپ سنبھال کر کم از کم اپنے بال دھونے کے لیے رکھ سکتے ہیں ۔
سورہ حج میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’ کیا تم دیکھتے نہیں کہ اللہ بلندیوں سے پانی برسا کر زمین کو سر سبز کر دیتا ہے ۔ وہ کتنا مہربان اورہماری ضروریات سے کس حد تک باخبر ہے ۔‘‘
ذراتصور کیجیے کہ کچھ عرصہ بارش نہ ہو تو گرد آلود ماحول میں ہمیں سانس لینا بھی مشکل لگنے لگتا ہے ۔ مٹی سے اٹے درختوں کو دیکھ کر عجیب و حشت سی ہونے لگتی ہے ۔ ہر طرف دھواں اور دھول مٹی دیکھ کرانسان کی جمالیاتی حس جواب دینے لگتی ہے ، زندگی سے خوبصورتی کا احساس ختم ہو جائے تو جینا دشوار محسوس ہونے لگتا ہے اور ہم بے چین ہو کر بارش کی دعائیں مانگنے لگتے ہیں۔
گرد سے اٹی فضا اور درختوں کو صرف بارش کا پانی ہی دھو سکتا ہے ۔ بارش کے بعد ماحول کس قدر صاف ستھرا ہو جاتا ہے ، ہوا تازہ ہو جاتی ہے اور دل خود بخود کرتا ہے کہ لمبے لمبے سانس لیے جائیں تاکہ صاف ستھری آکسیجن ہمارے پھیپھڑوںمیں جا سکے ۔ اس طرح دوران خون بہتر ہوتا ہے او رہم خود میں ایک چستی اور بشاشیت محسوس کرتے ہیں ، معمولات زندگی ایک دم بدلے بدلے سے لگنے لگتے ہیں ، زندگی خوبصورت لگنے لگتی ہے ۔ انسان کی جمالیاتی حس لوٹ آتی ہے اسے زندگی سے پیار ہونے لگتا ہے ….! تو پھر نوٹ کیجیے کہ ایک پانی کے ہونے اور نہ ہونے سے انسانی زندگی پر کیسے کیسے اثرات مرتب ہوتے ہیں !
سو انسان کتنا بھی لا پرواہی کرلے ، اس بات کو کتنا بھی جھٹلا لے لیکن یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ زمین پر موجود ہر جاندار شے اپنا ہر دن گزارنے کے لیے ہوا کے بعد پانی کی کس قدر محتاج ہے اور اب انسان کی لا پرواہی سے یہ محتاجی بڑھنے والی ہے ۔
مگرانسان تو ایسا ڈھیٹ ہے کہ اپنے مستقبل کی کوئی فکر ہی نہیں ہے ! سب کچھ فراموش کر کے اپنے حال میں ایسا مست ہے کہ یہ خبر ہی نہیں کہ آنے والے کل میں ان کے ساتھ اور اس دنیا کی ساتھ کیا ہونے والا ہے ۔ اس کی بلا سے جنگل بھی ختم ہو جائیں چاہیے پانی بھی نہ رہے ! اور اس تباہی سے نا صرف انسان خود بلکہ اس کرہ ارض پر موجود ہر جاندر چیز اس سے متاثر ہو گی ! ہر وہ چیز جس کا کوئی قصور ہی نہیں ، غلطی تو سرا سر انسان کی ہے لیکن جس کو بھگتنا تمام مخلوق کوپڑے گا ۔ گویا
ہم تو سوکھے ہیں صنم ، تم کو بھی سُکھا دیں گے
ڈوبنے ڈوبانے کا سلسلہ تو پانی کے بغیر ہوگا ہی نہیں ۔ انسان کا یہ منصوبہ بڑا بھیانک ہے جو وہ کم علمی اور لا پرواہی کے سبب پانی کو ضائع کر کے خود اپنے ہی خلاف بنا رہا ہے ، اور یہ بھی نہیں جانتا کہ اس کے ساتھ اور کتنی مخلوق ہے جو فنا ہو جائے گی ۔ ہم آج صرف یہی کہہ سکتے ہیں ؛
’’ اب بھی نہ سنبھلا تو پھر کب سنبھلے گا اے انسان ؟‘‘

تسنیم جعفری

٭ ٭ ٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x