ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

پری – بتول اکتوبر۲۰۲۲

خلاف معمول روحی کے تمام کام رات کے8بجے تک نمٹ چکے تھے ۔ کھانا تیار تھا ۔ روٹی بھی پک چکی تھی ورنہ عامر کو گھر آکر کھانے کے لیے کافی دیر انتظار کرنا پڑتا تھا ۔ اور تو اور روحی نماز سے بھی فارغ ہو چکی تھی۔ نومی کا ہوم ورک بھی مکمل کروایا جا چکا تھا ۔ اب تو نومی بھی سمجھ دار ہو گیا تھا۔ وہ بھی ضد کیے بغیر ،بدھ کو بغیر ستائے کام کرلیا کرتا تھا ۔ یہ کمال تھا اس 8بجے والے ڈرامے کا جس کا روحی کو پورے ہفتے بے چینی سے انتظار رہتا تھا ۔ اب تو عامر بھی اس ڈرامے میں دلچسپی لینے لگا تھا ۔ ڈرامہ بھی بڑی محنت سے تیار کیا گیا تھا ۔ کرداروں کا چنائو ، ان کی ادا کاری ، ہدایت کاری ، کہانی ، ڈائیلاگز سب ایک سے بڑھ کر ایک تھے ۔ سب سے بڑھ کر اس کی خوبصورت ہیروئن۔ جس کی خوبصورتی ، لباس ، ادائیں ، بولنے کا انداز ۔ ہر چیز دل لبھانے والی تھی۔
’’ اُف کالے لباس میں کیا غضب ڈھا رہی ہے ۔ کتنی اسمارٹ ہے ۔ اس کے چہرے پر سرخ لپ اسٹک کتنا سوٹ کر رہی ہے ۔ مجھے کتنا پسند ہے یہ شیڈ مجھ پر تو جچتا ہی نہیں ‘‘۔
اپنی دھن میں روحی بولتی چل گئی ، اس بات سے بے خبر کہ عامر اس سے زیادہ انہماک اور محویت سے ہیروئن کا جائزہ لے رہا تھا۔
’’ مما بھوک لگ رہی ہے۔‘‘چار سالہ نومی نے ان کی توجہ اپنی طرف کرنے کی کوشش کی ۔
’’ بس بیٹا ، ابھی 10منٹ میں ڈرامہ ختم ہونے والا ہے ۔ ابھی اپنے بیٹے کو کھانا کھلاتی ہوں ‘‘۔ روحی نے اسکرین پر سے بنا نظریں ہٹائے جواب دیا۔
نومی پھر سے اپنے کھیل میں لگ گیا ۔ اس کو اندازہ تھا کہ ممایہ ڈرامہ پورا کیے بغیر نہیں اٹھیں گی ۔ شاید پچھلی بار اس کے رو کر احتجاج کرنے پر پڑنے والا تھپڑ اسے یاد تھا ۔
کھانا کھانے کے بعد روحی ، نومی کو سلانے کے لیے لیٹی تو نومی نے کہانی کی فرمائش کردی ۔
’’ ایک بچہ تھا، گول مٹول ، بہت پیارا سا ۔ بالکل میرے نومی جیسا۔ اس کی امی اس کی روز کہانی سناتی اور وہ مزے سے کہانی سن کر سو جاتا ۔ ایک دن اس بچے کی مما کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی تو انہوں نے اس بچے کو کہانی نہیں سنائی تو وہ اداس ہو گیا ۔ اس کو نیند نہیں آ رہی تھی ۔ پھر ایک پری آسمان سے آئی اور اس بچے کو بہت اچھی سی کہانی سنائی جس کو سن کر وہ سو گیا ‘‘۔ روحی نومی کا سر ہلاتے ہوئے کہانی سنانے لگی۔
’’ مما پری کیسی ہوتی ہے ؟‘‘ نومی نے پوچھا۔
’’ پری ؟ پری بہت پیاری سی ، نازک سی ، گڑیا جیسی ہوتی ہے ‘‘۔
’’ ان آنٹی جیسی جو ڈرامے میں آتی ہیں ؟‘‘ نومی نے معصومیت سے پوچھا۔
’’ ہاں بالکل ویسی ہی ،‘‘ روحی نے ہنستے ہوئے جواب دیا اور نومی کوتھپکتے ہوئے خود بھی نیند کی وادیوں میں کھو گئی۔
٭…٭…٭
دوسرے دن گھر کے کام نمٹاتے ہوئے بھی روحی کا دھیان بار بار اسی ڈرامے کی طرف چلا جاتا ۔ وہ لمحے بھر رُک کر مسکراتی اور پھر اپنے کاموں میں لگ جاتی ۔ روزانہ کا وہی روٹین ہوتا ۔ کاموں کا انبار ، جھنجھلاہٹ ۔ غصے اور تھکان پر نومی کی شامت ۔ اب تو عامر کو بھی بدھ کا انتظار رہتا ۔ روحی اس دن غیر معمولی طور پر خوش رہتی اور اس کے کام بھی وقت پر ختم ہو جاتے۔
’’ کیا کوئی ڈرامہ بھی زندگی پر اس قدر اثرانداز ہو سکتا ہے ؟‘‘ بعض دفعہ عامر سوچ کے رہ جاتا۔
اس دن تو حد ہی ہوگئی ۔ پورے ڈرامے کے دوران نومی اپنے کھیل میں مگن رہا اور ساتھ میں ٹی وی بھی دیکھتا رہا ۔ پر نہ بیچ میں بولا، نہ ضد کی ۔ ڈرامہ ختم ہونے پر روحی نے سوئچ آف کیا اور کھانا لگانے چلی گئی۔
’’ مما ٹی وی کھولیں ۔ مجھے اور دیکھنا ہے ‘‘۔ نومی نے احتجاج کیا۔
’’ بیٹا ڈرامہ تو ختم ہو گیا ۔ اب کھانا کھائیں گے ، پھر سوئیں گے‘‘۔
’’ نہیں ، مجھے اور دیکھنا ہے ،‘‘ اپنے پیر زمین پر پٹختے ہوئی نومی چلایا۔
’’ڈرامہ لگائو ۔ لگائو نہ ،‘‘ نومی کی ضد بڑھتی گئی۔
روحی نے کھانے کا چمچہ منہ میں دیا تو اس نے ہاتھ جھٹک کر نیچے پھینک دیا۔
’’ نومی!‘‘ روحی اسے طمانچہ لگاتے ہوئے چلائی۔
’’ کیا ہو گیا ہے؟ اپنے آپ پر قابو رکھا کرو،‘‘ عامر نے نومی کو اپنی طرف گھسیٹتے ہوئے کہا ۔
’’ بیٹا آپ کو اس دن آئس کریم کھانی تھی نہ ؟ چلو میں آپ کو دلا لائوں ،‘‘ عامر نومی کو بہلاتے ہوئے باہر لے گیا۔
نومی کو اسکول سے لانے کے بعد ، نہلا دھلا کر جب اسے سلانے لیٹی تو سارا دن کی تھکی ہاری روحی کی بھی آنکھ لگ گئی ۔ دروازے پر بیل کی آواز سے اس کی آنکھ کھلی تو وہ ہڑ بڑا کر اُٹھ بیٹھی۔
’’ کون آگیا ؟‘‘ وہ دوپٹہ ٹھیک کرتے ہوئے باہر گئی۔
’’ آپا! رابعہ آپا کتنے دنوں بعد آپ سے ملاقات ہو رہی ہے ‘‘۔ ان سے گلے ملتے ہوئے روحی بولی ۔ رابعہ آپا گو کہ روحی کی تایا زاد عمر میں اس سے بڑی تھی پر ان کی جوڑی خوب جچتی تھی ۔
روحی چائے بنا کر لائی تو دونوں خواتین آپس میں خوش گپیوں میں مصروف ہو گئیں۔
’’ ارے روحی ! تمھیں پتہ چلا ، عارف بھائی نے دوسری شادی کرلی؟‘‘ رابعہ آپا نے چائے کی چُسکی لیتے ہوئے مزے سے کہا ۔ نہ جانے چائے کا مزہ لے رہی تھیں یا خبر کا ۔
’’ اچھا ! مجھے تو پہلے ہی اندازہ تھا کہ ان کی افشاں بھابھی سے زیادہ نبھے گی نہیں ‘‘۔ روحی نے بھی تھوڑا سا نمک مرچ لگا کر لذت بڑھانے کی کوشش کی۔
’’سنا ہے عارف بھائی بہت خوش ہیں ۔ نائمہ بھی کسی ڈرامے کی ہیروئن کی طرح بنی ٹھنی رہتی ہے ‘‘۔ رابعہ آپا نے بسکٹ پر ہاتھ صاف کرتے ہوئے کہا۔
’’ مما مجھے چاکلیٹ والا بسکٹ چاہیے‘‘۔نومی نے کہا جو کافی دیر سے چپ بیٹھا شاید ان لوگوں کی باتیں سن رہا تھا ۔
’’ ارے کیا بج گیا ؟ بینا کو ٹیوشن سے لیتے ہوئے گھر جانا ہے۔باتوں میں وقت کا پتہ ہی نہیں لگا ۔اچھا میں چلتی ہوں ۔ تم بھی کبھی آجایا کرو‘‘۔ رابعہ آپا نے اپنا پرس کاندھے پر ڈالتے ہوئے خدا حافظ کہا اور باہر نکل گئیں۔
’’ چلو نومی بیٹا ۔ آپ کے ہوم ورک کو بہت دیر ہو گئی‘‘ روحی اس کا ہاتھ پکڑ کر کمرے میں لے جاتے ہوئے بولی۔’’ ابھی مجھے رات کا کھانا بھی بنانا ہے ‘‘۔
٭…٭…٭
صبح دو مرتبہ الارم بند کرنے کے بعد روحی بادل نخواستہ اٹھ کھڑی ہوئی ۔سستی کرنے پر عامر کو آفس سے اور نومی کو اسکول سے دیر ہو جانی لازمی تھی ۔ بنا منہ ہاتھ دھوئے ، الجھے بالوں کو ہاتھ سے سمیٹنے کی کوشش کرتے ہوئے روحی جلدی جلدی ناشتہ بنانے لگی ۔ ساتھ ساتھ نومی کو بھی تیار کراتی جاتی۔
’’ میرے موزے کہاں رکھے ہیں ؟کوئی کام تو ڈھنگ سے وقت پر کرلیا کرو یار‘‘۔عامر کی کمرے سے آتی آواز میں جھنجھلاہٹ نمایاں تھی۔
عامر کو موزے دے کر اس نے سینڈوچ بنائے۔
’’پپا! کیا آپ دوسری مما لا سکتے ہیں ؟‘‘ نومی نے سینڈوچ کھاتے ہوئے بڑی معصومیت سے سوال کیا۔
چائے الٹتے ہوئے روحی کے ہاتھ وہیں تھم گئے ۔ اس نے تعجب سے نومی کو دیکھا ۔
’’ دوسری مما؟ کیسی مما چاہیے میرے بیٹے کو ؟‘‘ عامر نے بڑی گہری مسکراہٹ کے ساتھ کنکھیوں سے روحی کو دیکھتے ہوئے پوچھا۔
’’ ویسی ہی جیسی ڈرامے والی آنٹی ہیں ‘‘ نومی نے بڑے اعتماد اور سنجیدگی سے جواب دیا ۔
’’سی… ‘‘ نہ جانے گرم چائے روحی کے ہاتھ پر گرنے کی تکلیف کی آواز تھی یا اس کے دل میں اٹھنے والی ٹیس کی !
٭…٭…٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x