ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ابتدا تیرے نام سے – بتول نومبر ۲۰۲۱

قارئین کرام!
ڈاکٹرعبدالقدیر خان کی رحلت ایک قومی صدمہ ہے۔ وہ حقیقی معنوں میں محسنِ پاکستان تھے۔انہوں نے پاکستان کے لیے ایٹمی پروگرام کی داغ بیل ڈالی جس کو پھر بہت سی شخصیات اور اداروں نے ترقی دے کر وطنِ عزیز کو ایٹمی طاقت بنادیا۔ اس کا اعزاز انہی کے نام آتا ہے، عزت کا یہ مقام اللہ جس کو چاہتا ہے عطا کرتا ہے۔پاکستان بننے کے بعد اپنے آبائی وطن سے ہجرت کی اور خود کو پکا اور سچا پاکستانی بنایا۔ ملک کو اتنی بڑی دفاعی صلاحیت دینے پر انہیں امریکہ کے حکم پرقوم سے معافی مانگنی پڑی اور پانچ سال کے لیے گھر میں نظربند رہنا پڑا۔ اور یہ اس وقت ہؤا جب پاکستان اپنے مفادات کے بالکل خلاف جاکر امریکہ کی جنگ کا حصہ بنا جو صریحاً ناجائز بلکہ انسانیت کے خلاف سنگین جرائم پر مبنی تھی۔اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ’’ صفِ اول کے اتحادی ‘‘ کو عالمی طاقتوں نے کس ذلت کے مقام پر رکھا ہؤا تھا۔وہ ساری قوم کے لیے بے حد مشکل اور دکھ سے بھرپور وقت تھا۔ مگر اس وقت کی یاد آج بھی ہمارے اجتماعی قومی ضمیر کے لیے ایک تازیانہ ہے۔قوم کا یہ محسن عوام سے بھرپور محبت پانے کے باوجودآخر وقت تک حکومت پاکستان کے اس بزدلانہ اقدام پر دکھی رہا۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کو ان کی سعیِ جمیلہ پر اپنے ہاں خصوصی اکرام و انعام سے نوازے اور ان کے حسنِ عمل کو قبول فرمائے آمین۔
آب و گِل کے زخم لے کر موسموں کے پیار سے
خشک پتے دیر تک چمٹے رہے اشجار سے
میری پلکوں پر گھنیری دھوپ کا صحرا اُتار
میں اندھیرے چن رہا ہوں صبح کے رخسار سے
چائنہ کی سوشل میڈیا ایپ ٹک ٹاک کی جانب سے کمیونٹی گائیڈ لائنز پر عمل کی رپورٹ جا ری کی گئی جس میں رواں سال کے چند ماہ کے دوران ایپ سے ہٹائے جانے والے مواد کی مقدار اور نوعیت بتائی گئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق تین ماہ میںدنیا بھر سے آٹھ کروڑ ویڈیوز کو ہٹایا گیا جن کا مواد غیر مناسب تھا، اس میں ہراسیت، بدمعاشی، عریانی، جنسی بے راہروی اور نفرت پھیلانا شامل ہیں۔جو مواد ہٹایا گیا، ایپ کمپنی کے مطابق اس کی مقدار کل مواد کے ایک فیصد سے بھی کم ہے۔ البتہ اس خبر میںہمارے لیے شرمناک بات یہ ہے کہ اس غیر مناسب مواد میں، یعنی جو چینی کمپنی کو بھی غیر مناسب لگا اور اس نے ہٹا دیا، پاکستانی لوگوں کا بنایا ہؤا مواد دوسرے نمبر پر ہے اوراس کی مقدار ایک کروڑ کے قریب ہے۔اس سے پہلے جنوری سے مارچ کے دوران پاکستان کی بنی ہوئی پینسٹھ لاکھ ویڈیوز ٹک ٹاک سے ہٹائی گئی تھیں اور تب بھی پاکستان امریکہ کے بعد سب سے زیادہ بری ویڈیوز بنانے والا ملک تھا۔ٹک ٹاک ایپ کے اسی غلط استعمال کی وجہ سے پاکستان میں یہ ایپ پابندیوں کی زد میں رہی۔سب سے پہلے غیر اخلاقی اور فحش مواد کی ہزاروں شکایات موصول ہونے پراکتوبر 2020ءمیں پی ٹی اے نے اس پر بین لگا یاجس کو دس ہی روز بعد اٹھا لیا گیا جب کمپنی نے ضمانت دی کہ فحش مواد پھیلانے والے اکاؤنٹ بند کردیے جائیں گے ۔پھر رواں سال مارچ میں ایسی ہی شکایات پر پشاور ہائی کورٹ نے اسے بین کیا جس کو اپریل میں ہٹالیا گیا۔اس کے بعد جون میں سندھ ہائی کورٹ نے اخلاق باختگی اورفحاشی پھیلانے پر ملک میں ٹک ٹاک کی رسائی معطل کر نے کا حکم جاری کیا ،مگر پھر تین ہی روز بعد معطلی کا یہ حکم واپس لے لیا۔ آخر کار جولائی میں پی ٹی اے کا فیصلہ آیا کہ اس ایپ اور اس کی ویب سائٹ کو پاکستان میں بند کیا جارہا ہے کیونکہ اس پر بے شمار مخرب اخلاق مواد بن رہاہے اور کمپنی اس کو روکنے میں ناکام ہے۔یہ پابندی ابھی تک

برقرار ہے ،جو اس کے بغیر نہیں رہ سکتے وہ ٹوٹکے استعمال کر کے اس کو چلاتے ہیں ۔
ہمیں یہ بات سمجھنی چاہیے کہ آزادی پابندی کی محتاج ہوتی ہے۔ جدید میڈیا کے ذرائع اب ہر ایک کے ہاتھوں میں ہیں۔ اگر آزادیِ اظہار ہمارا حق ہے تواظہار کی حدود ہمیں اپنے لیے خود متعین کرنے کی تہذیب سیکھنی ہوگی، اپنی مذہبی اور سماجی حدود کا خیال کرنا ہوگا۔ جب لوگ اپنی ذمہ داری کو خود نہیں سمجھتے تو لامحالہ قانون بنانے پڑتے ہیں اورانفرادی آزادی کو محدود کردیا جاتا ہے ،پھر شکایت کیسی!بلکہ قوانین ہر جگہ لاگو ہوتے ہیں اور آزادی کو ٹھیک طریقے سے کام کرنے کے لیے کچھ اخلاقی حدود کا پابند کیا جاتا ہے، اسی سے معاشرے تہذیب سیکھتے ہیں،آزادی کا مطلب لاقانونیت نہیں ہوتا۔ عام افراد کی بات تو ایک طرف رہی ہمارے ہاں تو پرائیویٹ میڈیا ہاؤسز کو کام کرتے ہوئے بیس سال ہو چلے ہیں مگر میڈیا کے شعبے سے وابستہ افراد بھی ایک پیشہ ورانہ اور ذمہ دارانہ کلچر کو رواج نہیں دے سکے حالانکہ اس وقت میڈیا ہاؤسز کو ہر طرح کی آزادی حاصل ہے۔ اس آزادی کا استعمال سستی ریٹنگ لینے کے لیے کیا جارہا ہے۔ حال ہی میں پیمرا نے ٹی وی چینلوں کو نوٹس جاری کیا ہے کہ ڈرامے پاکستانی سوسائٹی کے حقائق کی ترجمانی نہیں کررہے، بلکہ شادی سے باہر ناجائز تعلقات کو گلیمرائز کر رہے ہیں،ولگر اور عریاں لباس ، مخالف صنف سے قربت کے مناظر، بیڈروم کے مناظردکھا رہے ہیں،انہیں اس سے پرہیز کرنا چاہیے کیونکہ یہ سب ہمارے ہاں عمومی اخلاقی معیار سے گرا ہؤا سمجھا جاتاہے۔اس پر نام نہاد آزادی پسند طبقہ خاصا برہم ہے۔بھارتی میڈیا جس کے سر پہ ہر وقت پاکستان سوار رہتا ہے،اس سے رہنمائی لیتے ہوئے ہمارے بھی بعض اخبارات نے لکھا کہ قربت تو منع ہے مگر گھریلو تشدد کے مناظر پر پیمرا کو کوئی اعتراض نہیں۔حالانکہ یہ مطالبہ بھی عوام ہی کی طرف سے آتا ہے، لبرل میڈیا تو ایسے مناظر پر پابندی کی خود بھی کبھی بات نہیں کرتا کیونکہ اس سے آرٹ پابند ہو جاتا ہے۔ایک پرائیویٹ میڈیا کمپنی نے اس نوٹس کے خلاف ہائی کورٹ میں درخواست بھی دے دی ہے۔ پیمرا کو چاہیے کہ اس ضمن میں ماہرین کو شامل کر کے ایک مکمل اور جامع ضابطہ اخلاق ترتیب دے جس کی بنیاد عوامی رائے پر اور آئینِ پاکستان پر ہو، تاکہ اسے پوری یکسوئی سے لاگو کیا جا سکے اور کسی مخالفت کی بنا پر ایسے فیصلے بار بار واپس نہ لینے پڑیں۔
شاعر، کالم نگار، استاد ڈاکٹر اجمل نیازی داغِ مفارقت دے گئے۔صاحبِ طرز شاعرڈاکٹر ابرار احمد بھی چلے گئے۔انہی کے چند ستم ظریف اشعار کے ساتھ اجازت دیجیے اگلے ماہ تک بشرطِ زندگی!

یہیں کہیں پہ ہے رستہ دوام وصل کا بھی
یہیں کہیں سے ہی راہِ فنا نکلتی ہے
ہم اپنی راہ پکڑتے ہیں دیکھتے بھی نہیں
کہ کس ڈگر پہ یہ خلقِ خدا نکلتی ہے
گماں سا ہوتا ہے جس بھی جگہ پہ منزل کا
پہنچ کے دیکھیں تو وہ راستا نکلتی ہے
جو ہو سکے تو سنو زخمہِ خموشی کو
کہ اس سے کھوئے ہوؤں کی صدا نکلتی ہے

دعاگو، طالبہ دعا
صائمہ اسما

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x