ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

غصہ ایک اہم اور فطری جذبہ – بتول فروری ۲۰۲۱

چند سال پہلے میں رضاکارانہ طور پر ایک این جی او کے لیے بطور ہیلتھ ایجوکیٹر کام کرتی تھی ۔ یہ بہترین ادارہ پاکستان اور کئی دوسرے ممالک میں قرآن و سنت کی تعلیمات کو عوام الناس تک پہنچانے میں سرگرم عمل ہے۔ کام کے دوران مجھے خواتین کے کئی ایک اسکولزاور کمیونٹی سینٹرز میں اپنی ٹیم کے ساتھ مختلف ورکشاپس کرانے کا موقع ملا۔ یہ ورکشاپس خواتین کے روزمرہ مسائل سے متعلق ہوتے تھےاو ر اکثر ان کے موضوعات ہمارے شرکا ہی منتخب کرتے تھے۔ انہیں میں ایک موضوع جس کی سب سے زیادہ فرمائش ہوتی تھی وہ ،’غصے پر قابو پانا سیکھنا ‘تھا۔ دراصل یہ ہم سب ہی کی ضرورت کا موضوع تھا۔ اور آج بھی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم سب ہی کو اس پر بات کرنے کی ضرورت ہے۔
ہر ورکشاپ میں شرکا ءسے میں دو سوال پوچھتی تھی۔میرا پہلا سوال ہوتا تھا کہ ’’کون یہاں ایسا ہے جسے غصہ نہیں آتا ؟ ‘‘شرکاء میں سے کوئی بھی اس کا جواب ’’ہاں‘‘میں نہ دیتا ۔ دوسرا سوال کہ ’’ کون ہے جسے غصہ بہت آتا ہے؟‘‘ اس سوال کے جواب میں کافی ہاتھ اٹھے ہوتے۔ ان سوالات کا مقصد صرف یہ آگہی پیدا کرنا ہوتا کہ غصہ ایک فطری جذبہ ہےجس سے بہتر انداز میں نمٹنا ہر ایک کی ضرورت ہے۔
غصہ کیا ہے؟
ڈاکٹر اسپیل برجر ایک امریکی محقق اور کلینکل سائکولوجسٹ ہیں۔وہ غصے کے موضوع پر کافی کچھ شائع کر چکے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ غصہ ایک اہم اورفطری انسانی جذبہ ہے ۔ یہ ایک ایسی جذباتی کیفیت یا حالت کا نام ہےجس کی شدت بدلتی رہتی ہے۔ یعنی انسان کو مختلف حالات، واقعات اور اوقات میں غصہ بھی مختلف نوعیت کا آتاہے۔ کسی کی بات بری لگنے پر بھڑک اٹھنا ، چیخنا، چلانا، دوسروں کو برا بھلا کہنا اور جھگڑنا یہ سب غصے کی نشانیاں ہیں ۔ اکثر لوگ اس جذباتی کیفیت کو بہتر انداز میں ڈیل نہیںں کر پاتے اسی لیے نقصان اٹھاتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ کہ اکثر گھروں میں اس قسم کی تربیت کا فقدان ہے جس میں غصے کا درست انداز میں اظہارکرنا یا ڈیل کرنا سکھایا گیا ہو۔ اس سلسلے میں ایک خوشخبری یہ ہے کہ غصہ اکثر اوقات معمولی چڑچڑے پن سے شروع ہو کر شدید غیض و غضب تک پہنچتا ہے لہٰذا اگر انسان اس کے آغاز میں ایک شعوری کوشش کرے تو وہ اپنے غصیلے پن پر وقت کے ساتھ ساتھ قابو پا سکتا ہے۔ یعنی اسے اب بھی غصہ تو آئے گا مگر اب وہ اپنے غصے کا آقا ہو گا نہ کہ اس کا غلام !
غصے کی وجوہات
طبی تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ غصے کی کئی وجوہات ہیں جن میں سے چند عمومی وجوہات کا ذکر یہاں کیا گیا ہے۔ پہلی بات کہ کچھ لوگوں میں غصہ موروثی طور پر پایا جاتا ہے۔ یعنی یہ ان کے آباؤاجداد کی جینز سے ان میں شفٹ ہوجاتا ہے۔ اگرچہ ہم نہ تو اپنی جینز بدل سکتے ہیں نہ ہی اپنے آباؤاجداد۔ اس کے باوجود ہم غصے پر قا بو پاسکتے ہیں۔ مگر اس میں پڑتی ہے محنت زیادہ !
غصے کی دوسری وجہ کسی بھی گھر کا ماحول ہوتا ہے ۔ کچھ گھروں میں غصہ کرنا ایک عام سی بات ہوتی ہے۔ اس خاندان کے لوگ چھوٹی چھوٹی باتوں پر چیختے چلاتے ہیں اور ناراض ہو جاتے ہیں ۔ اس طرح وہاں افراد ِ خانہ خاص طور پر بچے یہ رویہ سیکھتے ہیں اور اسے اپنالیتے ہیں۔ تیسری وجہ کچھ علاقوں یا قوموں کا کلچر ہوتا ہے جس میں بات بے بات لوگ غصے سے کام لیتے ہیں ۔ کہیں مردوں کا غصہ کرنا مردانگی کی نشانی سمجھا جاتا ہے یا اسے نارمل جانا جاتا ہے بلکہ کہیں تو ایسے مردوں کو بزدل سمجھا جاتا ہے جو غصہ نہ کریں حالانکہ حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آپؐ نے فرمایا ، ’’پہلوان وہ نہیں ہے جو کشتی لڑنے میں غالب آجائے بلکہ اصل پہلوان وہ ہے جو غصے کی حالت میں خود پر قابو پائے‘‘ (بخاری )۔ ان کے علاوہ بھوک ، نیند کی کمی، تھکاوٹ ، کسی قسم کی بیماری اور کام کی زیادتی بھی چند اہم وجوہات ہیں۔ علاوہ ازیں حدیث کے مطابق انسان کو مشتعل کرنے کی ایک بڑی وجہ شیطان ہے اور ہمیں شاید ہی اس کاخیال آتا ہو ۔
غصے میں اپنی حالت کا جائزہ لینا شروع کریں
اگر آپ غصے کی حالت میں اپنا جائزہ لیں گے تو آپ کو معلوم ہوسکے گا کہ آپ کو کہاں اور کس عادت پر کام کرنا ہے یہ خود شناسی آپ کو اپنے شدید جذبات کو کنٹرول کرنے میں بہت مدد گار ہوگی۔مثلاً آپ غصے میں چیختے ہیں، چلاتے ہیں، مار پٹائی کرتے ہیں،کسی کا غصہ دوسرے پر اتارتے ہیں (جیسا کہ اکثرماؤں کا آسان نشانہ معصوم بچے ہوتے ہیں) یاوقتی طور پر آپ ایسا نہیں کرسکتے مگر اس کو دل میں پال لیتے ہیں ۔تو دونوں ہی صورتوں میں نقصان آپ کا اور آپ کے پیاروں کا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ آپ یہ جان سکیں کہ آپ کواپنی کن منفی عادات پر کام کرکے انہیںمثبت عادات میں بدلنے کی ضرورت ہے۔ عادات نہ تو ایک دن میں بنتی ہیں اور نہ ہی بدلتی ہیں بلکہ یہ عمل گزرتے وقت کے ساتھ ہوگا اس لیے مسلسل کوشش کی ضرورت رہتی ہے۔
غصے سے پیدا ہونے والے مسائل
اس منفی عادت پر قابو پانے کے انداز/طریقےسیکھنا ہم سب کےلیے ضروری ہے ۔بصورت دیگر انسان کوکئی مسائل کا سامنا ہو گا جن میں سے چند ایک درج ذیل ہیں۔
صحت کے مسائل
طبی ماہرین کے مطابق اکثر اوقات شدید غصہ کرنا انسان کی صحت کے لیے بے حد نقصان دہ ہے۔ کیونکہ ایسی حالت میں جسم سے ایسے ہارمونز خارج ہوتے ہیں جو صحت کے لیے نقصان دہ ہیں ۔غصیلے لوگ اکثر سر اور پیٹ کے درد کی شکایت کرتے ہیں ،ڈیپریشن ، ہائی بلڈ پریشر ، ذیابیطس، دل کی بیماریوںمثلاً ہارٹ اٹیک اور فالج کا شکار ہو جاتے ہیں۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ غصیلے لوگ کئی ایک مالی مسائل کا شکار ہوتے ہیں۔ اکثر ان کا جارحانہ رویہ ان کی جاب ختم کرنے کی وجہ بنتا ہے ۔ اور اس طرح وہ یا تو اپنی صحت سے غافل رہتے ہیں یا انہیںں اچھی خوراک اور علاج معالجہ کےلیے مالی مسائل درپیش ہوتے ہیں۔ اکثر غیض و غضب کی حالت میں لوگ کچھ ایسا کرلیتے ہیں کہ انہیں جیل جانا پڑتا ہے یا وہ اپنی اور دوسروں کی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں ۔
دیگر مسائل
مالی اور جسمانی مسائل کے علاوہ غصیلے لو گ کئی ایک سماجی اور معاشی مسائل میں گھرے رہتے ہیں کیونکہ عمومی طور پر لوگ ان کی صحبت ناپسند کرتے ہیں اور ان سے دور رہنا چاہتے ہیں۔ لوگوں کا یہ رویہ انہیںں مایوسی اور تنہائی کی دلدل میں دھکیل دیتا ہے۔ آپس کے تعلقات میں اکثر خرابی کی وجہ غصہ ہی ہوتا ہے اور ایسے میں رشتہ داروں اور دوست احباب سےجھگڑے، قطع رحمی، قطع تعلقی جیسے بڑے گناہ سرزد ہو سکتے ہیں۔خاندانوں میں طلاق کی بڑی وجہ بھی اکثر اوقات غصہ ہوتا ہے اس لیے یہ ضروری ہے کہ ہم اپنی زندگی کا ایسا لائحہ عمل تشکیل دیں کہ جس میں ہم اپنے غصے پر بہتر انداز میں قابو پانے کے قابل ہوں اور اس طرح اپنی دنیا اور آخرت د ونوں ہی سنوار سکیں۔
غصے پر قابو پانے کے لیےتجاویز
یوں تو غصے کے موضوع پر پچھلی چند دہائیوں میں کافی تحقیق ہوئی ہے اور کئی ایک اچھی کتابیں بھی موجود ہیں۔ماہرین ِ نفسیات میں خاص طور پر میں نے ڈاکٹر اسپیل برجرکی تحقیق سے استفادہ کیا ہے۔ وہ غصے پر قابو پانے کے تین اہم طریقے بتاتے ہیں ۔ ان کے مطابق ان تینوں طریقوں میں بھی تیسرا طریقہ سب سے اہم اور کارگر ہے۔ باقی محققین کا بھی ا س پر اتفاق ہے ۔ حیرت انگیز طور پر ان طریقوں میں بتائے گئے کام وہی ہیں جن سے نبیؐ نے آج سے 1400 سال پہلے ہمیں آگاہ کیا ،الحمدللہ۔ یہ اللہ کا خاص کرم ہے کہ جو کام کی باتیں دنیا لاکھوں ڈالر خرچ کر کے سیکھ رہی ہے ہمیں ہمارے نبیؐ نے کئی سال پہلے مفت بتا دیں اب اگر ہم ان پر عمل نہ کریں تو اس سے بڑھ کر کسی کےلیے بدنصیبی کی بات کیا ہوسکتی ہے۔ ذیل میں ان تینوں طریقوں کا ذکر قرآن و سنت اور ماہرینِ نفسیات کی تعلیمات کی روشنی میں کیا گیا ہے۔
1 )جذبات کا اظہار کرنا
اگر آپ کو کسی بات پر غصہ ہے تواس کا اظہار احتیاط سے کریں۔ یعنی اپنا اور دوسرے کا احترام کرتے ہوئے بات کریں ۔الزام تراشی یا غلط الفاظ کے چناؤ سے پرہیز کریں ۔سنی سنائی باتوں کو بغیر تحقیق کیے نہ مانیں ۔ قرآن ہمیں باتوں کی تحقیق کر لینے کا درس دیتا ہے ۔ جیسا کہ قرآن مجید میں ہے،’’ اے ایمان والو اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو تحقیق کر لیا کرو، کہیں ایسا نہ ہو کہ تم کسی گروہ کو نادانستہ نقصان پہنچا بیٹھو اور پھر اپنے کیے پر پشیمان ہو‘‘(الحجرات:6)۔ سنی سنائی باتوں پر عمل کرنے سے ایسی غلطیوں کا ارتکاب ہوسکتا ہے جن پر بعد میں پچھتانا پڑتا ہے لیکن وقت گزر چکا ہوتا ہے اور کئی مرتبہ اس نقصان کا ازالہ ممکن نہیںں ہوتا۔
2 ) جذبات دبا لینا
اپنے جذبات کا اظہار کرنے کے بجائے انہیںں وقتی طور پر دبا لینا چاہیے تاکہ حالات مزید نہ بگڑیں۔ ڈاکٹر برجر کے مطابق غیض و غضب کی حالت میں انسان کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں متاثر ہوتی ہیں اور وہ منفی ردعمل اپناتا ہے جو کہ برے نتائج لاتا ہے۔لیکن یاد رہے کہ کبھی کبھار تو غصہ دبا لینا کارآمد ہوسکتا ہے مگر اس کو عادت بنانا انسان کی اپنی صحت کے لیے بے حد نقصان دہ ہے اور وہ شدید ڈپریشن یا کئی دوسرے امراض میں مبتلا ہو سکتا ہے۔ لہٰذا ایسے وقت میں خود کو کسی مثبت کام میں مشغول کریں اور بعد میں اپنے جذبات کا بہتر انداز میں اظہار کریں۔
3)پرسکون رہنا
یہ طریقہ مشکل ترین لیکن بہترین ہے اور انسان کو اسی کواپنانے کی ضرورت ہے۔ چونکہ پرسکون رہنے کے لیے جو بھی باتیں ہیں وہ ہمیں قرآن و سنت میں واضح طور پر ملتی ہیں اور دلچسپ بات یہ ہے کہ آج ماہرینِ نفسیات کی اکثریت بھی اسی طرزِ عمل کو اپنانے کا مشورہ دیتی نظر آتی ہے۔لہٰذا ان احکامات کا تفصیلی جائزہ لیتےہیں۔ ان تجاویز کو اپنی سہولت کے مطابق یہاں دو بڑی اقسام میں بیان کیا گیا ہےتاکہ انہیںسمجھنے اور ان پر عمل کرنے میں آسانی ہو۔ پہلی قسم میں وہ اقدام آتے ہیں جنہیں غیض و غضب کی حالت میں فوری طور پر کرنے کی ضرورت ہے جبکہ دوسری قسم میں کچھ ایسی عادات اپنانے کی پریکٹس کرنی ہے جن سے غصے میں عمومی طور پر کمی رہے ۔
غضب کی حالت میں فوری کرنے کے کام( جیسے کہ فرسٹ ایڈ دینا)
٭خاموش رہیں
سب سے پہلی اور اہم بات کہ جب غصہ آئے تو خاموش ہوجائیں۔ یہ کہنے میں بہت آسان مگر کرنے میں بے حد مشکل امر ہے۔ ا س ایک عادت سے آپ غصے کے خلاف آدھی جنگ جیت لینگے۔ سنت سے ہمیں یہی معلوم ہوتا ہے کہ آپ ؐ شدید غصے میں خاموش ہوجاتے تھے۔ آپ ؐکا فرمان ہے، ’’ تم میں سے جب کسی کو غصہ آئے تو خاموش ہو جائے‘‘ (رواہ احمد)ایسی حالت میں خاموشی آپ کو سوچنے سمجھنے کا وقت دے گی اور آپ جذبات کی رو میں بہہ کر کچھ ایسا نہ کہیں یا کریں گے کہ بعد میں پچھتانا پڑے۔ خاموشی آپ کو بدکلامی اور بد اخلاقی سے بچائے گی بصورتِ دیگر انسان اللہ کی ناراضگی مول لے کر اپنی دنیا و آخرت برباد کرسکتا ہے۔ ماہرین ایسے وقت میں ایک سے دس تک گنتی گننے کا مشورہ بھی دیتے ہیں۔
٭اپنی پوزیشن بدلیں یا آرام دہ حالت اختیار کریں ۔
ایسا کرنے سے آپ فوری طور پر حالات کو قابو کرنے کے قابل ہوں گے۔ آپ ؐ نے فرمایا کہ ’’جب تم میں سے کو ئی غصے میں ہواو ر وہ کھڑا ہو تو بیٹھ جائے، اگر غصہ جاتا رہے تو خیر ورنہ لیٹ جائے‘‘(ابو داؤد) ۔ آپ کا اس طرح پوزیشن بدلنا آپ کو ریلکس کرے گا ۔ اس کے علاوہ آپ اس جگہ سے ہٹ کےکسی دوسری جگہ چلے جائیں تاکہ اس کیفیت کو مزید بڑھنے سے روکا جا سکے۔
٭ پانی کا استعمال
غصے میں پانی کا استعمال آپ پر جادوئی اثر کرے گا۔ آپ ؐ کا فرمان ہے کہ’’ غضب شیطان سے ہے اور شیطان آگ کی مخلوق ہے اور آگ کو پانی سے بجھایا جاتا ہے، جب تم میں سے کوئی غضب میں آئے تو وضو کرے‘‘ (ابو داؤد)۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ ایسی حالت میں پانی پینا ، ہاتھ، چہرہ اور پاؤں دھونا یا غسل کرنا بہت فائدہ مند ہوتا ہے کیونکہ غصے کی حالت میں انسان کا درجہ حرارت بڑھ جاتا ہے اور پانی اسے نارمل کرتا ہے۔ آپ وضو کرلیں اور اس کے ساتھ ہی پانی پی کر کوئی ایسا کام شروع کر دیں جس میں پانی کا استعمال ہو مثلا ً برتن ، کپڑے یا گاڑی دھونا۔
٭گہرے گہرے سانس لیں
کچھ ماہرین کے مطابق گہرے سانس لینا بھی ایک بہترین عمل ہے۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ ناک سے ایک گہرا سانس لیں اسے پانچ سے سات سیکنڈ کےلیے روکیں اور پھر منہ سے آہستہ آہستہ نکال دیں۔ گہرے سانس لینا آپ کی توجہ کو مسئلے سے چند سیکنڈ کےلیے ہٹا دے گا اور آکسیجن کی زیادہ مقدار آپ کو پرسکون رہنے میں مدد دے گی۔ اس ورزش کو اپنی روٹین میں شامل کریں ۔ اکثر کامیاب لوگ روزانہ مراقبہ/ یوگا کی قسم کی ورزش کرتے ہیں جس میں وہ اپنی سانس کو بہتر یا گہرے انداز میں لینے کی پریکٹس کرتے ہیں یہ عمل انہیںں اپنے جذبات پر قابو پا نے میں اور دن بھر کے مسائل سے نمٹنے میں مدد دیتا ہے۔ اطمینان اور سکون سے پڑھی گئی نماز اس ضمن میں سب سے بہترین ہے۔ لہٰذا آپ اس عمل کو اپنی کسی بھی دو یا زیادہ نمازوں کے ساتھ باندھ لیں ،مثلاًجب آپ نماز کے بعد اپنی جگہ پر بیٹھے تسبیحات کر رہے ہیں اسی دوران 5 سے 7 مرتبہ گہرے گہرے سانس لیں۔ اپنے بچوں کو بھی اس کی عادت ڈالیں۔ یہ بہت فائدہ مند ورزش ہے اور اس کے بے پناہ فوائد ہیں ۔
٭ کوئی پرسکون لفظ یا جملہ دہرائیں
غصے کے وقت انسان شیطان کے شکنجے میں ہوتا ہے اسی لیے آپؐ نے ایسے وقت میں کثرت سے تعوذ پڑھنے کا حکم دیا تاکہ انسان اللہ کی پناہ میں آجائے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے،’’ اے نبی ؐ نرمی و درگزر کا طریقہ اختیار کرو، معروف کی تلقین کیے جاؤ اور جاہلوں سے نہ الجھو اگر کبھی شیطان تمہیں اکسائے تو اللہ کی پناہ مانگو‘‘ (7: 200) ۔ اس ایک آیت میں اللہ تعالیٰ کئی ایسے احکامات دے رہے ہیں کہ اگر ان پر عمل کیا جائے تو یقیناً انسان اول تو جھگڑے اور غصے سے بچے گا۔ اور دوسرا اگر ایسی صورتِ حال پیش آ بھی جائے تو درگزر سے کام لیتے ہوئے ، بغیر الجھے آگے بڑھ جائے ۔ تعوذ پڑھنے کے علاوہ کوئی تسبیح کریں یااستغفار پڑھیں۔ یعنی جو بھی فوری طور پر ذہن میں آئے پڑھ لیں۔ اس کی آپ کو عام حالات میں عادت ڈالنی ہو گی۔ نارمل حالات میں آپ خود کو تیار کریں کہ غصے یا پریشانی کی حالت میں آپ کیا پڑھیں گے ۔ آپ غصے کے آغاز میں بھی اس کی پریکٹس کرسکتے ہیں۔ ایک دو مرتبہ ایسا کرنے سے آپ کو فوراً یاد آجائے گا ۔
٭ہلکی پھلکی ورزش کریں
محققین کے مطابق غیض و غضب کی حالت میں کوئی بھی ہلکی پھلکی ورزش بہت فائدہ مند ہے چاہے وہ چہل قدمی ہو یا کوئی اور ہلکی ورزش۔ نماز ایک مکمل ورزش ہے اور اس کا ادا کرنا بے حد فائدہ مند ہےاگر فرض نماز کا وقت نہیںں ہے تو نوافل ادا کیے جاسکتے ہیں ۔ کیونکہ نبیؐ کی یہ سنت رہی ہے کہ مشکل یا پریشانی کے وقت آپ ؐنماز کی طرف متوجہ ہوجاتے۔ اگرنماز پڑھنا آپ کے لیے اس وقت ممکن نہ ہو تو کسی جسمانی کام میں مصروف ہو جائیں۔
٭ کوئی اچھی کتاب پڑھیں
کسی اچھی کتاب کا پڑھنا بھی پرحکمت ہے اور ہم مسلمانوں کے لیے قرآن دنیا کی سب سے بہترین کتاب ہے ۔ خود اللہ تعالیٰ نے اسے مومنین کے لیے شفا کہا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے، ’’اور ہم نے قرآن نازل کیا جو تمام مومنین کے لیے شفا اور رحمت ہے‘‘ ( بنی اسرائیل: 82)۔ لہٰذا ایسی شدید حالت میں اس کا پڑھنا باعث ثواب تو ہوگا ہی لیکن اس کے ساتھ ہی شفا بخش بھی ہو گا ۔
٭اپنےبہترین دوست سے بات کریں
اکثر غصے میں انسان کسی نہ کسی سے بات کرتا ہے اور آجکل موبائل فون نے تو اس کام کو اور بھی آسان بنا دیا ہے۔ لوگ غصے کے وقت کسی نہ کسی اپنے کو فون کر کے اپنے دل کی بات کرتے ہیں ۔ ایسا کرنا درست ہے لیکن کسی سے بات کرنے سے پہلے اللہ سے چند سیکنڈکے لیے باتیں کریں کیونکہ اس سے بڑھ کرکوئی بھی انسان کا خیر خواہ نہیںاس لیے اس سے باتیں کریں۔ جی بالکل اسی طرح جیسے آپ اپنے کسی قریبی عزیز یا دوست سے باتیں کرتے ہیں۔ دوسرے انسان سے باتیں کرتے ہوئے شاید آپ جھوٹ بول جائیں یا غیبت کر بیٹھیں جو کہ بذاتِ خود گناہِ کبیرہ ہیں۔ لیکن اللہ سے باتیں کرتے ہوئے آپ ان گناہوں سے بھی بچیں گے اور بغیر کسی خوف و پریشانی کے اپنے دل کی بات کریں گے۔ ساتھ ہی اپنے لیے دعائیں مانگیں ۔کیونکہ اللہ تعالیٰ ہماری سنتا ہے ۔ جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے، ’’جب میرےبندے میرے بارے میں آپ سے سوال کریں تو آپ کہہ دیں کہ میں بہت ہی قریب ہوں ہر پکارنے والے کی پکار کو جب بھی وہ مجھے پکارے قبول کرتا ہوں ‘‘۔ اس لیے لوگوں کو بھی چاہیے وہ میری بات مان لیا کریں اور مجھ پر ایمان رکھیں یہی ان کی بھلائی کا باعث ہے (186:2)۔ اس کے بعد بھی اگر آپ کو ضرورت ہو تو دوسروں سے بات کی جاسکتی ہے خاص طور پر ان سے جو اس سلسلے میں آپ کی مدد کر سکتے ہوں۔
ب)مستقل کرنے کے کام،(ریگیولر ٹریٹمنٹ )
یعنی غصے کے جن کو بوتل میں بند رکھنا ہے
اس زمرے میں زندگی کو بہتر انداز میں گزارنے کے طریقے سیکھنا یا انپر عمل کرنا آتا ہے۔یعنی ‘پرہیز علاج سے بہتر ہے کے مقولے پر کام کرنا۔اس کے لیے ضروری ہے کہ آپ اپنی زندگی کا جائزہ لیں اور معلوم کریں کہ اپنی غیض و غضب کی عادت کو بدلنے کے لیے آپ کوکونسے کام چھوڑنے اور کیا اسکلزسیکھنے کی ضرورت ہے۔اس سلسلے میں چند آئیڈیاز درج ذیل ہیں۔
٭اپنی زندگی میں نظم و ضبط پیدا کریں
اس سلسلے میں سب سے پہلے اپنے وقت کو بہتر انداز میں استعمال کرنا سیکھنا ہے۔ دراصل غصے کی ایک اہم وجہ بہت سے کاموں کا جمع ہونا بھی ہے۔ جب ہم ٹال مٹول سے کام لیتے ہیں اور کاموں کو مقررہ وقت پر انجام نہیںں دیتے تو وہ بڑھتے چلے جاتے ہیں اب ہمارے حصے کا کام ہمیں ہی کرنا ہے لہٰذا آج کا کام آج کرنے کی عادت کو پختگی سے اپنالیں۔ اگر آپ کو اس قسم کا کوئی کورس یا ٹرینگ کرنے کا موقع مل سکے تو ضرور اسے حاصل کریں۔ آپ اپنے اہم کاموں کی منصوبہ بندی کر سکتے ہیں اس کا طریقہ یہ ہے کہ انہیں اپنی ڈائری میں رات کو یا صبح سویرے لکھ لیں اور دن میں چیک کریں ۔ یہ پریکٹس آپ کو غیر ضروری اسٹریس سے بھی بچائے گی اور کسی اہم کام کے رہ جانے کا خدشہ بھی نہ ہوگا۔ وقت کا صحیح استعمال سیکھ کر آپ اپنے کاموں کو وقت پر مکمل کر سکیں گے اور ایک بڑے مسئلے سے بچ سکیں گے۔
٭مسائل کو بہتر اندازمیں حل کرنا سیکھیں
اگر ممکن ہو تو پرابلم سولونگ اسکلز سیکھنے کے کے لیے کوئی ٹرینگ پروگرام اٹینڈ کرنا مفید ہے اور یہ آپ کے وقت اور پیسے کا بہترین استعمال ہوگا کیونکہ اس سےآپ اپنے روزمرہ کے مسائل کو بہتر انداز میں حل کرنے کے قابل ہوں گے او رآپ کی خوداعتمادی میں اضافہ ہوگا۔ علاوہ ازین اگر آپ کو اس سلسلے میں کسی کی مدد چاہیے تو ضرور مدد طلب کریں اس میں شرمانے کی ضرورت نہیں۔ دوسری صورت میں روزانہ کے بڑھتے مسائل آپ کو پریشان کریں گے اور غصے کی وجہ بنیں گے لہٰذا ان پر پہلے ہی قابو پائیں۔
اپنی صحت کاخیال رکھیں۔ اچھی صحت ایک بھرپور زندگی گزار نے کا لازمی جز ہے اور اس کا حصول حفظانِ صحت کے اصولوں کے مطابق زندگی گزارنے میں ہے۔ صحت کے لیے ضروری ہے کہ متوازن غذا لیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں کئی مقامات پر حلال اور طیب کھانے کا ذکر کیا ہے(البقرہ: 168)۔ کام اور آرام میں بیلنس رکھیں اور بھرپور نیند لیں۔ ایسی تمام عادات جو آپ کی جسمانی، ذہنی ، جذباتی اور روحانی صحت کو بگاڑنےوالی ہوں انہیں پہچانیں اور ان پر قابو پائیں مثلاً خود سے منفی باتیں کرنا یا نشہ آور اشیا کا استعمال وغیرہ۔
٭صبر و شکر سے کام لیں
یہ دو سنہری عادات ہیں۔ قرآن و سنت میں ان کی بڑی تاکید آئی ہے۔ کچھ چیزوں پر آپ کو صبر سے کام لینا ہوگا مثلاً آپ اپنے گھر والوں یا رشتہ داروں کو بدل نہیںں سکتے، انہیں کے ساتھ زندگی گزارنی ہے تو ان سے تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے کبھی صبر سے کام لینا ضروری ہے اور کبھی ان سے پہنچنے والے فوائد پر شکر ادا کریں۔ اس کے ساتھ ہی جب دل میں تنگی یا تکلیف محسوس ہو تو اللہ کی دی ہوئی بہت سی نعمتوں کو یاد کریں۔ یہ عمل آپ روزانہ کرنے کی اگر عادت ڈال لیں تو مشکل وقت میں فوراً اس پر عمل ہو سکے گا۔ آپ چاہیں تو کسی بھی نماز کے بعد دعا اور تسبیحات کے ساتھ ساتھ اللہ کی دی ہوئی بہت سی نعمتوں کو یاد کر کے ان کا شکر ادا کرسکتے ہیں۔ فجر یا عشاء کے بعد یہ عمل کرنا بہترین ہے اور اکثر کامیاب لوگ ان دو وقتوں میں شکرگزاری کا عمل روزانہ دہراتے ہیں۔
معاف کردیں، جانے دیں ۔اگر آپ غور کریں تو عموماًہم اپنے قریبی لوگوں ہی سے الجھتے ہیں چاہے وہ اپنے قریبی رشتہ دار ہوں، پڑوسی ، دوست احباب یا کولیگز ہوں۔ یعنی ہمارے غیض و غضب کا نشانہ ہمارے پیارے ہی ہوتے ہیں۔ جن سے تعلقات خراب کرنے کا سب سے بڑا نقصان ہمیں ہی برداشت کرنا پڑتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ اپنی خاطر دوسروں کو معاف کر دیں اور درگزر سے کام لیں ۔دوسروں کو معاف کرنے کی قرآن و حدیث میں بڑی تلقین ہے ۔ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں سے محبت کرتا ہے۔ فرمانِ الٰہی ہے،’’ یہ وہ لوگ ہیں جو فراخی اور تنگی میں خرچ کرتے ہیں اور غصہ ضبط کرنے والے اور لوگوں سے (ان کی غلطیوں پر) درگزر کرنے والے ہیں۔ اور اللہ احسان کرنے والوں سے محبت فرماتا ہے‘‘( آل عمران: 134)۔ ایک اور جگہ فرمایا،’’اور جو لوگ کبیرہ گناہوں اور بے حیائی کے کاموں سے پرہیز کرتے ہیں اور جب انہیںں غصّہ آتا ہے تو معاف کر دیتے ہیں‘‘(الشوریٰ: 37)۔ہر انسان خطاکار ہے اسی لیے دوسروں کو معاف کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہمیں بھی معافی مل سکے۔ الله تعا لیٰ نے اپنے بندوں کو مخا طب کر کے فرمایا کہ :”لوگوں کے ساتھ معافی اور عفوو درگز والا معاملہ کرو،کیا تم یہ پسند نہیںں کرتے ہو کہ اللہ تمہیں معاف کرے “(النور:۲۲)۔اسی طرح یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ، ’’ اورمعاف کرنا تقویٰ کے بہت زیادہ قریب ہے “(البقرہ:۲۳۷) ۔
حدیث سے بھی ایسے کئی واقعات معلوم ہوتے ہیں۔ نبی ؐ نے کبھی اپنے دشمنوں کی طرف سے پہنچائی گئی تکلیف کا بدلہ نہ لیا بلکہ معاف کر دیااوردرگزر سے کام لیا ۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ ؐسے عرض کیا گیا کہ ،”مشرکینِ مکہ کے لیے بددعا فرمائیں“۔آپ نے فرمایا:”مجھے رحمت بنا کر بھیجاگیا ہے نہ کہ زحمت “۔آپ ؐنے جب قوم کے لیے دعا فرمائی تو عرض کیا ،’’اے اللہ!میری قوم کو معاف فرما دے کہ یہ جانتی نہیںں ہے‘‘(مسلم)۔ فتح مکہ کے موقعے پر آپ ؐ نے اپنے جانی دشمنوں کو نہ صرف معاف کردیا بلکہ ان سے احسان کا معاملہ کیا ۔ آپ ؐ نے اپنے اصحاب کو بھی اس کی تلقین کی۔ ، حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ”میں اس شخص کے لیے جنت کے اندر ایک گھر کا ضامن ہوں جو لڑائی جھگڑا ترک کر دے، اگرچہ وہ حق پر ہو، اور جنت کے بیچوں بیچ ایک گھر کا اس شخص کے لیے جو جھوٹ بولنا چھوڑ دے اگرچہ وہ ہنسی مذاق ہی میں ہو، اور جنت کی بلندی میں ایک گھر کا اس شخص کے لیے جو خوش خلق ہو“ (ابوداؤد)۔سیدنا ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ’’میں غلام کی پٹائی کر رہا تھا کہ میں نےاپنے پیچھے سے آواز سنی ۔اے ابومسعود، تمہیں علم ہونا چاہیے کہ تم اس پر جتنی قدرت رکھتے ہو اللہ تعالیٰ اس سے زیادہ تم پر قدرت رکھتا ہے -میں نے پیچھے مُڑ کر دیکھا تو وہ رسول اکرمؐ تھے- میں نےعرض کی یا رسول اللہ ؐیہ اللہ کی رضا کےلیے آزاد ہے، آپ ؐ نے فرمایا،اگر تم یہ نہ کرتے تو تمہیں دوزخ کی آگ جلاتی یا فرمایا کہ تمہیں دوزخ کی آگ چھوتی‘‘(مسلم)۔
دراصل معاف کرنا انسان کی اپنی ذات کے لیے نفع بخش ہے۔ اور غصہ یا معاف نہ کرنا خود اپنےلیے سب سے زیادہ نقصان دہ ہے۔ اور اکثر لوگ اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ برائن ٹریسی اپنی کتاب ‘جیسے خیالات ویسی زندگی، میں لکھتے ہیں کہ ،’’ معاف نہ کرنے میں ایک بڑا خطرہ یہ بھی ہے کہ آپ کی زندگی پر برے اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ معاف نہ کرنے سے آپ کی زندگی کی نشونما رک سکتی ہے۔ معاف نہ کرنے سے بہت سی خواتین اور حضرات اپنی زندگیوں کو تباہ کرلیتے ہیں۔ ایسا صرف اس لیے ہوتا ہے کہ آپ کا غصہ بڑھتا جاتا ہے اور آپ کی ذہنی صلاحیتیں متاثر ہونے لگتی ہیں۔ جو کسی کو معاف نہیںں کرتے وہ کبھی آزاد نہیں ہوتے‘‘(، صفحہ45 )۔ لہٰذا خود کو اور دوسروں کو معاف کریں اور اپنی زندگی میں آگے بڑھیں۔
آخر میں یہ جان لیں کہ لوگ اہم ہیں۔اگر آپ غصے جیسی منفی عادت پر قابو پالیںگے تو یہ ایک خوبی آپ کی قسمت بدل دے گی اورآپ اپنے پیاروں کے ساتھ صحتمندانہ اور خوش و خرم زندگی بسر کر سکیں گے۔ اس طرح دنیا اور آخرت دونوں کی کامیابی آپ کےقدم چومے گی ۔ انشا اللہ۔
References:
Spielberger, C. D Reheiser, E. C, & Sydeman, S.J.(1995)Measuring the experience, expression, and control of ange. Issues in comprehensive pediatric nursing, 18)3)207-232.

فریدہ خالد

٭ ٭ ٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x