ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

نشانِ خیر مینار پاکستان – بتول مارچ ۲۰۲۳

گزشتہ ماہ حریم ادب کی طرف سے ہمیں مختار مسعود صاحب کی کتاب’’ آوازدوست‘‘ کو پڑھ کراس کا خلاصہ لکھنے کا ٹارگٹ ملا۔یہ کتاب دو مضامین پر مشتمل ہے مینار پاکستان اور قحط الرجال۔
یہ خلاصہ اس کتاب کے پہلے حصے ’’ مینار پاکستان کا ہے۔ مختارمسعود اس کمیٹی میں شامل تھے جو مینار پاکستان کی تعمیر کے لیے بنائی گئی تھی ۔ بحیثیت عہدے دار وہ اس کمیٹی کی صدارت کرنے پر جو خوشی محسوس کرتے ہیں اس کا اظہار برنارڈشا کے اس مقولے سے کرتے ہیں کہ ’’ وہ مقام جہاں فرائض منصبی اور خواہش قلبی کی حدیں مل جائیں اسے خوش بختی کہتے ہیں‘‘۔
مصنف لکھتے ہیں کہ تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ مینار کی ابتدائی صورت دفاعی ضرورت کے پیشِ نظر وجود میں آئی، پھر اس کی علامتی حیثیت قائم ہوئی اس کے بعد یہ دین کا ستون بنا اور آخر کار نشانِ خیر کے طور پر بنایا جانے لگا ۔’’ مینار قرار داد پاکستان ‘‘ ان ساری حیثیتوںپر محیط ہے ۔ یہ نظر یاتی دفاع کی ضرورت ، تحریک آزادی کی علامت ، دین کی سرفرازی کا گواہ اور ہماری تاریخ کا نشان خیر ہے ۔
مینارکی مجلس تعمیر کی مشاورت میں پہلے اس کا نام ’’ یاد گار ‘‘ رکھا گیا پھر سب شرکا مصنف کی اس بات سے متفق ہوئے کہ یاد گار وہ نشانِ خیر ہوتا ہے جومرنے کے بعد باقی رہے ۔ جب یاد گار کاعام تصور موت اور فنا کے تصور سے جدا نہ پایا تو منصوبے سے یاد گار کا لفظ خارج کر کے اس کا نام ’’ مینار قراردادِ پاکستان ‘‘ رکھا گیا جو بعد میں مینار پاکستان کے نام سے معروف ہؤا۔ عمارت اپنی نسبت کی حیثیت سے منفرد ہے دنیا میں کسی قرارداد کو منظور کرنے کی یاد اس طرح نہیں سنائی گئی کہ جلسہ گاہ میں ایک مینار تعمیر کر دیا جائے ۔مینارِ پاکستان کے تناظر میں مصنف نے دنیا بھر کے میناروں کی تاریخ اور تفصیل بیان کیے ہیں اورمیناروں کی یہ اقسام بیان کی ہیں ۔
۱۔ دفاعی مینار
شروع میں اہل روم اور بازنطینیوں نے دفاعی مینار بنائے جوکوتاہ قد تھے پھر وقت کے ساتھ ساتھ جب آبادیاں بڑھیں اور جنگوں کی شدت میں اضافہ ہوتا گیا تو پھر مضبوط اوربلند قامت مینار بنائے جانے لگے ۔ آبنائے باسفورس ، فرانس اور وسط چین کی فصیلیں اورمینار اسی دور کی یاد گار ہیں۔
۲۔روشنی کے مینار
نشان راہ کے طور پر سمندر کے کنارے بنائے جانے والے مینار طوفانی علاقوں میں خطر ناک چٹانوں پر بنائے جاتے تھے اور ان میں رات کو روشنی کرنے والے کی زندگی جفا کشی اور تنہائی سے عبارت ہوتی تھی اگر طوفان آجاتا تو کئی دن اہل مینار کا رابطہ دنیا سے منقطع ہو جاتا مگر اب روشنی بجلی سے کی جاتی ہے اوراب ان میناروں کوکسی رکھوالے کی ضرورت نہیں ہے آتے جاتے راہ گیر بجلی کا بٹن دبا دیتے ہیں اس بارے میں مصنف کادل میں اتر جانے والا جملہ ہے۔
’’ آہستہ آہستہ پرانے بادہ کش اٹھتے جا رہے ہیں ‘‘
۳۔ عقوبت مینار
میناروں کی ایک قسم کسی کو عالم بالا تک پہنچانے کے لیے بھی تھی ۔ جب شیخ شہاب الدین نے محمد تغلق کو سلطان ِ عادل کہنے سے انکار کر دیا تو انہیں ایک مینار پر لے جا کر زمین پر پھینک دیا گیا ۔ نتیجہ ظاہر ہے ۔
اسی طرح لندن میں ’’ ٹاور آف لندن ‘‘ ہے جسے مصنف نے خود دیکھا ہے جو وہاں کوہِ نور ہیرا دیکھنے گئے تھے اور ہیرا دیکھ کر انہیں مایوسی ہوئی کہ خواہ مخواہ اس پتھر کے لیے نادر شاہ نے قتل عام کیا اور اپنی نئی ٹوپی

اسی طرح لندن میں ’’ ٹاور آف لندن ‘‘ ہے جسے مصنف نے خود دیکھا ہے جو وہاں کوہِ نور ہیرا دیکھنے گئے تھے اور ہیرا دیکھ کر انہیں مایوسی ہوئی کہ خواہ مخواہ اس پتھر کے لیے نادر شاہ نے قتل عام کیا اور اپنی نئی ٹوپی پرانی بوسیدہ پگڑی سے بدلی وہاں گائیڈ نے بتایاکہ مینار کے اس حصے کو بلڈی ٹاور Bloody towerکہتے ہیں کیوں کہ یہاں جلاد نے ملکہ این ، ملکہ کیتھرائن ، سر تھامس ، اور لیڈی جین گرے کے سر قلم کیے تھے۔
لیکن لندن میں مصنف کو بگ بن Big benکا گھنٹہ گھر پسند آیا جس کا گھڑیال بے حد سریلا ، رسیلا اور مد ہوش کن ہے جس کا سحر ہم دیسی لوگوں کو مد ہوش کر کے جکڑ لیتا ہے وہ خودفراموشی کا شکار ہو کر وطن سے دور ہوتے جاتے ہیں ۔
۴۔خمیدہ مینار
پیسامینار Pisaاور اس کے ساتھ دو اور جڑواں میناربولونہ Bolgnaاور ایسی نیلی Asinelli مینار ہیں جن کو مصنف چاہ کر بھی نہ دیکھ سکے ۔
۵۔ ریستوران مینار
سیاٹل seattleمیں ایک مینار اس لیے بنایا گیا کہ مینار کے گنبد میں ریستوران کھولا جائے جس میں آپ صرف ایک پیالی چائے پینے کے لیے قطب مینار سے دو گنی بلندی تک جا سکتے ہیں ۔ بلکہ جب تک آپ وہاں چائے پئیں گے ریستوران گھومتا رہے گا ۔
۶۔ دنیائے اسلام کے مینار
دنیائے اسلام کا سب سے پرانا مینار جو آج بھی موجود ہے ’’ مسجد بنو امیہ کا مینار‘‘ ہے جو دمشق میں ہے ۔ مصنف اس تیرہ سو سال پرانے مینار کو دیکھ کر حیرت زدہ رہ گئے ۔ یہ ہمارے اسلامی میناروں کا امام ہے ۔ اس کے پیچھے لا تعداد میناردست بستہ کھڑے ہیں اور ایک نیا مقتدی بھی آخری صف میں آکر شامل ہؤا ہے اس کو مینار پاکستان کہتے ہیں۔
انہی صفوں میں مغرب اسلام کے گول اور کثیر الزاویہ مینار بھی ہیں اور مشرق اسلام کے گول اور نوکدار مینار بھی موجود ہیں چند تزئین برجستہ اور چند تزئین پیوستہ کے نمونے ہیں ۔ قرطبہ میں عبد الرحمن اول کا مینار ہؤا کرتا تھا جس کا اب نام و نشان بھی نہیں ملتا ۔
مصنف کا کہنا ہے کہ :
مومن کے جہاں کی حد نہیں ہے
مومن کا جہاں ہر کہیں ہے
اقبال کے اس شعر کو سمجھنے کے لیے سیاحت ضروری ہے ، سیاحت کے شوقین افراد کو وسط ایشیا کے دور افتادہ علاقوں میں بھی کچھ وقت گزارنا چاہیے کیونکہ کبھی کاروانِ اسلام وہاں بھی خیمہ زن ہؤا تھا اور اس خیمے کی طنابیں جرقورغان ، سمر قند ، بخارا اور فہوہ کے ان میناروں سے باندھی گئی تھیں جو آج بھی وہاں موجود ہیں۔
جرقورغان میں ساڑھے آٹھ سو سال پرانا مینار ہے جو چھوٹے چھوٹے سولہ میناروں سے مل کر بنا ہے ۔ سمر قند میں بی بی خانم کا مینار ساڑھے پانچ سو سال پرانا ہے ۔ فہوۃ تو گویا میناروں کا شہر ہے ، جامع مسجد کا مینار ، مدرسہ قلی خان کا مینار ، خواجہ اسلام کا مینار سبھی فہوہ میں ہی ہیں ۔ بخارا کا مینار کلاں 1127ء میں بنا تھا اس کی فوقانی منزل پر غالب کاری کا خوبصورت نمونہ ہے اور اس سے ذرا بلندی پر کائی جمی ہے گھاس اگی ہوئی ہے ۔ مصنف نے کیاخوبصورت بات کی کہ ’’ کائی اور گھاس تو پستی کی علامتیں ہیں انہیں سر مینار دیکھا تو معلوم ہؤا کہ ہر بلندی پستی کی زد میں ہے ‘‘۔
اندلس میں مینار مٹ گئے ، وسط ایشیا میں ان پر کائی جم گئی کچھ مینار ایسے بھی ہیں جو مٹے تو نہیں گم ہو گئے ہیں ان میں غزہ کی جامع مسجد کا مینار، الخلیل کا مینار اور قطب مینار شامل ہیں ۔ مصنف ان میناروں کی بد حالی سے دلگرفتہ ہو کر وطن واپس آگئے جہاں انہیں منوڑہ کا روشنی مینار ، سکھر کے معصوم شاہ کا مینار، لائلپور کا گھنٹہ گھر مینار ، اور شیخوپورہ کا ہرن مینار ملے ۔
تزک جہانگیری میں لکھا ہے کہ بادشاہ نے حکم دیا کہ لاہور سے آگرہ تک ہر کوس کے فاصلے پر ایک مینار اور تین کوس کے فاصلے پر کنواںکھودا جائے گڑھی شاہو میں کوس مینار اسی سلسلے کی کڑی ہے ۔
بابر کے عہد سے اورنگ زیب کے دور تک مغل فن تعمیر بڑی ترقی کر گیا لاہور کی جامع مسجد بھی اسی دور کی ہے ۔ جس میں چار خوبصورت مینار ہیں جو سادگی اور صناعی کے لا جواب نمونے ہیں ۔ پختہ بنیاد مگر آرائش دنیا سے بلند عہد توحید ، حقانیت اور رفعت کی علامت ہیں ۔ برصغیر میں عالمگیر ی مسجد کے میناروں کے بعد جو پہلا مکمل مینار بنا وہ مینار پاکستان ہے ۔ مصنف لکھتے ہیں۔

’’ یوں تو مینار پاکستان اور مسجد آمنے سامنے ہیں مگر ان کے درمیان یہ ذرا سی مسافت ، جس میں سکھوں کا گوردوارہ اور فرنگیوں کا پڑائو شامل ہیں ، تین صدیوں پر محیط ہے ۔ میں مسجد کی سیڑھیوں پر بیٹھا ان تین صدیوں کا ماتم کر رہا تھا تو مسجد کے مینار نے جھک کر میرے کان میں راز کی بات کہہ دی ’’ کہ جب مسجدیں بے رونق اور مدرسے بے چراغ ہو جائیں جہاد کی جگہ جمود اور حق کی جگہ حکایت کو مل جائے ، ملک کے بجائے مفاد اورملت کی بجائے مصلحت عزیز ہو جائے اور جب مسلمانوں کو موت سے خوف آئے اور زندگی سے محبت ہو جائے تو صدیاں یوں ہی گم ہو جاتی ہیں ‘‘۔
مینار پاکستان کی تعمیر کے بعد ایک روز مجلس تعمیر کے ارکان کو مشاورت اور معائنے کے لیے مینار کی بالائی سطح پر جمع ہونا تھا تو مینار کی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے مصنف کوہر منزل پر تحریک پاکستان کا ایک سنگ میل نظر آیا مصنف کو یاد آیا کہ جب 1877ء میں لارڈ لٹن نے علی گڑھ میں ایم اے او کالج کی بنیاد رکھی تو مینار پاکستان کی بنیاد اسی روز رکھی گئی تھی ۔ ایک انگریز افسر مسڑ کین Keeneنے کہا کہ آج ہم نے جو کچھ دیکھا ہے یہ جہاں تک پیش گوئی ممکن ہے ایک وسیع اور اہم تحریک کی ابتدا ہے جو تاریخ میں جگہ پائے گی۔ مصنف کہتے ہیں کہ اس روز اس تقریب میں ہر تقریر دعائیہ تھی ہر دعا قبول ہو رہی تھی ایسا لگتا تھا کہ سر سید کے ہاتھوں وہ نیکی ہو رہی ہے جس کے اجر اور اثر کے بارے میں قرآن کہتا ہے کہ :
جیسے ایک دانہ بویا جائے اور اس سے سات بالیں نکلیں اور ہر بالی میں سودانے ہوں اس طرح اللہ جس کے عمل کو چاہتا ہے افزونی عطاکرتا ہے (سورہ بقرہ آیت282کچھ حصہ)
بعد ازاں وقت نے دکھایا کہ تحریک پاکستان کوقوت دینے والے نوجوانوں میں علی گڑھ کے طلبہ کی کثیر تعداد تھی یہ مسلمان طلبہ ہندوستان کے کونے کونے میں پھیل گئے ہر گھر پر دستک دی اور قائد اعظم کاپیغام پہنچایااور لوگوں نے بھی ان کی آواز پر لبیک کہا اور سب سر گرم ہوگئے یہاں تک کہ 1945 کے عام انتخابات میں مسلم لیگ کو شاندار کامیابی ہوئی ۔ جب تحریک کو طلباء کی وجہ سے تقویت ملی تو ایک طبقے نے شور مچانا شروع کردیا کہ مسلمان طلبا کا معیار تعلیم گر گیا ہے 1944ء میں بی اے ، ایم اے کا جو رزلٹ 65سے75فیصد ہوتا تھا وہ اب 1946ء میں 30سے 45فیصد رہ گیا ہے لیکن کسی نے یہ نہیں بتایا کہ مرکزی اسمبلی میں لیگ کا نتیجہ سو فیصد رہا اورپنجاب میں 86میں سے 75نشستیں مسلم لیگ نے حاصل کی تھیں ۔ اس ضمن میں خواجہ ناظم الدین کا واقعہ بیان کرتے ہیں انہوں نے اپنے لڑکے کوجو علی گڑھ میں پڑھتا تھا لکھا کہ ’’ تم کوچاہیے کہ تحریک پاکستان کے کام میں کوئی غفلت نہ ہو تم تو اگلے سال بھی امتحان میں بیٹھ سکتے ہو مگر قوم کا ایسا امتحان ہر سال نہیں آتا‘‘۔
عوام کا وہ امتحان جس کا خواجہ صاحب نے ذکر کیا تھا اس میں بہت سے پرچے تھے ایک پرچے کے حل کے لیے ایک روز لوگ جلوس کی صورت میں صبح سیکرٹریٹ کے سامنے جمع ہو گئے اور آدھے گھنٹے تک گیٹ کے سامنے سڑک پر نماز پڑھتے رہے آج اس راہ سے کتنی ہی گاڑیاں سیکرٹریٹ میں داخل ہوتی ہیں مگران میں بیٹھنے والوں میں کتنے ہیں جن کو یاد ہو کہ ان کی پچھلی نسل کو اس سڑک پر سجدہ کرنا پڑا تھا تاکہ موجودہ نسل اس کروفر کے ساتھ اس دفتر میں بیٹھ کر حکومت کر سکے غفلت نہ تو تاریخ معاف کرتی ہے اور نہ ہی شریعت اس لیے کیا عجب کہ آئندہ کسی نسل کو اسی سڑک پر سجدہ سہو کرنا پڑے ۔
مصنف کہتے ہیں کہ اس قرارداد کی مخالفت تین اطراف سے سامنے آئی ایک ہندو ،دوسرے انگریز ،تیسرے بعض مسلمان جن میں کچھ علما بھی شامل تھے ۔ ہندوئوں اورانگریزوںکی شدید مخالفانہ باتیں قائد اعظم نے بڑے تحمل سے سنیں اور کہا ۔
’’ ہم انگریزوں اور گاندھی جی کو اپنے پر حکومت نہیں کرنے دیں گے خواہ دونوں متحد ہو کر کوشش کریں یا تنہا کر کے دیکھ لیں ‘‘۔
مسلمان مخالفین میں وہ طبقہ بھی جنہیں جائیداد کے ساتھ ساتھ سیاست بھی وراثت میں ملتی ہے اور بد قسمتی سے بعض علما بھی ان میں شامل تھے ۔ ایک بار مسلمانوںنے مل کر فیصلہ کیا کہ قائد اعظم سے پوچھیں آخر وہ چاہتے کیا ہیں تو قائد اعظم نے فرمایا ۔
’’ مسلم لیگ میں شامل ہو جائو خود جان جائو گے کہ ہم کیا چاہتے

ہیں‘‘۔
یاد رکھنے والوں اورسبق لینے والوں کے لیے تو تحریک کی تاریخ واقعات سے بھری پڑی ہے یہ سب یاد کرتے ہوئے مصنف اپنے رفقاء کے ساتھ جب مینار کی بالائی منزل پر پہنچے تو اللہ تعالیٰ کا شکر اسی کے الفاظ میں یوں ادا کیا :
’’اور وہ لوگ غایت سرور و فرحت سے کہیں گے کہ اللہ کا لاکھ لاکھ احسان ہے کہ جس نے ہمیں اس مقام تک پہنچایا ورنہ ہماری یہاں تک کبھی رسائی نہ ہوتی اگر اللہ نہ چاہتا ‘‘۔ (آیت43سورہ7)
آخر میں تخت برطانیہ کی برصغیر سے رخصتی کا عبرت انگیز منظر بیان کیا ہے کہ جب برطانوی سپاہی غمگین و شکست خوردہ سے ہندوستان سے نکلے تو تاریخ نے صدالگائی ۔
مٰـلک الملک توتی الملک من تشائُ وتنزِع الملک ممن تشائُ
’’ملک کے مالک ؛ تو جسے چاہتا ہے ملک عطا کرتا ہے اورجس سے چاہتا ہے چھین لیتا ہے ‘‘۔
مینار کی بلندی پر کھڑے مصنف کو صاف ستھری فضائوں میں مینار پاکستان کی عظمت کا احساس ہونے لگا اور وہ سوچنے لگے کہ کیا مطلع ہمیشہ ایسے ہی صاف رہے گا تو ان کے دل سے صدا آئی اس مطلع کو صاف رکھنے کا نسخہ کیمیا تمہارے پاس ہے بس اس سے روگردانی نہ کرنا ۔
مگر اب لگتا ہے کہ قوم نے نسخہ کیمیا کو بھلا کر پس پشت ڈال دیا ہے کیونکہ قرارداد پاکستان کے بعد تو سات سالوں میں دعائیں قبول ہو گئیں اور پاکستان بن گیا مگر اور بہت سی دعائیں آج تک قبول نہیں ہوئیں جن میں سرِ فہرست کشمیر کی آزادی اور ملک کے قیام کے مقاصد پورے ہونے کی دعائیں ۔ ہماری دعائوں میں وہ پہلا سا اثر کیوں نہیںرہا وہ اخلاص کہاں گیا جو تحریک پاکستان کے وقت دعائوں کی قبولیت کاباعث بنا اقبال کہتے ہیں ۔
تیرے امیر مال مست، تیرے فقیر حال مست
بندہ ہے کوچہ گرد ابھی، خواجہ بلند بام ابھی
اس کتاب کو پڑھ کر بہت چیزیں سمجھ آئیں امید ہے جو لوگ پوری کتاب نہیں پڑھ سکتے وہ اس تلخیص سے کچھ نہ کچھ فائدہ اٹھائیں گے۔
٭…٭…٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x