ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

تبصرہ کتب – بتول مارچ ۲۰۲۳

چند یادیں چند باتیں ،بیاد احمد عمر مرغوب
مصنفہ :شگفتہ عمر
ناشر ،مکتبہ راحت الاسلام
کل قیمت 1600 روپے
رعایتی قیمت بمعہ ڈاک خرچ ،800روپے
ملنے کا پتہ ،مکان نمبر26, سٹریٹ 48,
F-8/4اسلام آباد
اس دنیا میں جو پیدا ہؤا اس کا کسی نہ کسی سے رشتہ موجود ہوتا ہے.ماں یا بہن بھائی،ماموں،پھوپھو یہاں تک کہ دادا،پردادا لگڑ دادا،سگڑدادا تک بتا دیے۔یہی نہیں،اس دنیا سے چلے جانے والوں کے لیے بھی رشتوں کے نام موجود ہیں شوہر مر جائے تو بیوی نہیں بیوہ،باپ مرجائے تو یتیم ،ماں مرجائے تو مسکین،بیوی مرجائے تو رنڈوا۔ہاں ایک اذیت اور تکلیف دہ مرحلہ ایسا آتا ہے کہ وہاں اظہار کے لیے کوئی نام نہیں یعنی اولاد دنیا سے رخصت ہو جائے تو اس کے لیے کوئی نام نہیں۔
شاید اس لیے کہ اس کی شدت کو نام نہیں دیا جا سکتا ۔اپنے جگر کا ٹکڑا،اپنا خون اپنی آنکھوں کی ٹھنڈک چلی جائے تو زندگی تو رہتی ہے لیکن محض سانسوں کی ڈوری!
ایسی ہی ایک ماں جس کو رب نے شادی کے سات سالوں کے بعد بیٹا دیا اور بیٹا گھر بھر کا ہی کیا سارے ننھیال ددھیال کی آنکھوں کا تارہ،سپر ایکٹو،فرمانبردار۔نوجوان نسل کے عام چلن کے مطابق جوانی سگریٹ،یا سوشل میڈیا کے نشے کی بجائے کتاب ہاتھ میں لے کر تفکر اور تدبر میں گزاری۔جس کے خواب علامہ اقبال کے شاہین کی سی اڑان اور انہی کے سے انداز میں فلسفے میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری بیرون ملک سے حاصل کرنا ہو ،جس کی نظر اپنی ذات،پسند نا پسند کی بجائے امت مسلمہ کی بیداری ہو،جو برانڈز کی دوڑ میں حیثیت رکھنے کے باوجود اس میں شامل نہ ہو،جس کے اچھے اخلاق کی گواہی اس کے گھر کے ملازم بھی دیں،جس کے کردار کی خوشبو اپنے پرائے سب کو اپنے ارد گرد جمع رکھے ،جس کا پیدا کرنے والے سے تعلق اولیاء جیسا ہو کہ عبادت اور مخلوق کی خدمت میں بہت آگے ہو،کیا اس جواں سال بیٹے کی اچانک وفات اس ماں کے اعصاب کے لیے قابل قبول ہوگی؟
جی،عام ماؤں اور دین پر پختگی سے عمل پیرا ماؤں کا فرق مجھے شگفتہ عمر کی اس کتاب سے پتہ چلا۔جس طرح ہمارے سلف صالحین فرما گئے کہ اولیاء کی ایک لمحہ کی صحبت کئی سالوں کی عبادت سے زیادہ بہتر ہوتی ہے۔یہ کتاب نہیں بلکہ ایک ولیہ کے جذبات ہیں جن پر رشک محسوس ہوتا ہے کہ اکلوتے جواں سال بیٹے کی وفات پر اپنے ایمان کی حفاظت کا سوچنا،اپنے دل کواس سوچ کے ساتھ تقویت دینا ’’اگر یہ دنیا میں نہ رہے گا تو اس سے پہلے اتنا عرصہ بھی تو نہیں تھا‘‘( شادی کے سات سال بعد پیدا ہؤا)۔
یہی کتاب ہے جس نے مجھے بتایا کہ آج کے دور میں جوانی اور صالحیت کو جمع کریں تو ایسے ہی بیٹے ہوتے ہیں جیسا ’احمد عمر‘ تھا!
کتاب بہت اچھی طباعت کے ساتھ بہت عمدہ صفحات پر مرتب کی گئی ہے اس کی خاصیت عمدہ صفحات کے ساتھ ’ایمان افروز‘ مواد ہے۔موت ایک حقیقت ہے اس کا وقت مقرر نہیں،کیا اس کو ہم ہر وقت ذہن نشین رکھتے ہیں؟نہیں ناں!لیکن شگفتہ عمر کے صاحبزادے کا موت پر اتنا پختہ یقین کہ آپریشن تھیٹر میں جانے سے قبل چار وصیت نامے لکھ کر دوست کو بطور امانت سپرد کرجائے!
ہے ہم میں سے کوئی ایسی ماں جس نے بچے کی تربیت میں اپنے اکلوتے ذہین فطین صاحب زادے کو واپسی کے سفر کے لیے تیار رہنے اور

ہے ہم میں سے کوئی ایسی ماں جس نے بچے کی تربیت میں اپنے اکلوتے ذہین فطین صاحب زادے کو واپسی کے سفر کے لیے تیار رہنے اور وصیت جیسے کام کی تلقین کی ہو؟پوری کتاب میں قریبی رشتے دار ہوں یا دوست احباب،ملازم ہوں یا اساتذہ،سب کی طرف سے ایسی گواہیاں موجود ہیں جو ہم جیسے غافلوں کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہیں۔
کتاب کو مختلف عنوانات کے تحت مرتب کیا گیا ہے جس کی وجہ سے’احمد عمر مرغوب‘ کی پیدائش سے وفات اور وفات کے بعد ضروری موضوعات پر سیر حاصل مواد موجود ہے۔
اقبال،رومی اور امام غزالی سمیت نامور ہستیوں کے فلسفہ حیات و ممات کے ساتھ’احمد عمر مرغوب‘کے تعزیتی ریفرنس کی کارروائی،آنے والوں کے تعزیتی کلمات،وصیت اور موت کے بعد برزخ کی زندگی پر مفصل مضامین بھی کتاب کی زینت ہیں\احمد عمر مرغوب کی زندگی کو بھی بہت دلچسپ عنوانات کے تحت شائع کیا گیا ہے مثلاً بچپن اور کھلونے Food Likes and dislikes,لباس، سپورٹس اور Entertainment رمضان وغیرہ۔
ان سب سے جو شخصیت سامنے آتی ہے وہ سادگی کا پیکر، دنیاداری سے بے نیاز،اپنے مشن سے devoted،ملنسار اور محنتی بچے کی ہے جس کے ذہن میں شروع سے دین کا تصور راسخ تھا ۔جوماں کےلیے وصیت نامے میں ’’آنکھیں آنسو بہاتی ہیں اور دل غمگیں ہے لیکن زبان سے وہی الفاظ ادا ہوں گے جو اللہ کو پسند ہیں،اے ابراہیم تیری جدائی سے ہم بہت غمگین ہیں‘‘والی حدیث صبر کی پہلی سیڑھی کے طور پر دے کر جاتا ہے۔
کتاب میں ایک انوکھا اور خوبصورت باب احمد عمر کے بارے میں خوابوں کے متعلق ہے جس میں اس کی جدائی سے قبل اور بعد میں دیکھے جانے والے حیران کن خواب درج ہیں جنہیں پڑھ کر روحانی دنیا کی طاقت پر اعتبار بڑھ جاتا ہے۔
احمد عمر مرغوب کے چچازاد،تایا زاد،خالہ زاد بہن بھائیوں نے تو جو لکھا سو لکھا،خالاؤں اور ماموؤں کے ساتھ ددھیال والوں کی تحریر بے نظیر ہے۔محترمہ شگفتہ عمر کے مطابق،ہم ماں بیٹے کے درمیان….جب وہ قانون کی ڈگری حاصل کرنے کے لیے سکاٹ لینڈ میں تھا….فون پر موضوع گفتگو تعلیمی سرگرمیاں ہی ہوتا،(کیونکہ وہ خود بھی کلیہ شریعیہ و قانون میں ایم فل کر رہی تھیں) وہ لکھتی ہیں:’اگر ہمارے درمیان مشترکہ دلچسپی کا یہ نیا عنوان نہ بنا ہوتا تو ہماری فون پر طویل گفتگو اور یادیں نہ ہوتیں کیونکہ روزمرہ کی معمولات پر بات کرنا احمد کو زیادہ پسند نہ تھا‘۔
کتاب میں اس کے دل کے والو میں نقص اور پاکستان کے عمومی ڈاکٹروں کے رویے کا بھی باب ہے جس میں اس کی زندگی کے آخری دنوں کی تکلیف دہ روداد دلوں کو زخمی کرتی ہے۔مستقبل کے ایک ہونہار نوجوان جس کا تعلق ایک اچھے اور معروف گھرانے سے ہے کی سرجری میں معالجوں کی لا پروائی اور غفلت انتہائی اذیت ناک ہے،اسے پڑھنے کے لیے بہت بڑا حوصلہ چاہیے۔بحیثیت مسلمان سب کا تقدیر پر ایمان ہی انتقامی کارروائیوں سے باز رکھنے کا سبب ہے وگرنہ،شاید ہی اس سے بڑا کوئی جرم ہو جس پر گرفت کی جا سکے۔
کتاب میں’احمد عمر مرغوب‘ کی بچپن کی شرارتوں کا تذکرہ اور حد درجہ ذہانت بہت حیران کرتی ہے ایک ماں کے لیے ہی نہیں،ایسے بچے کا صدمہ تو سات پشت دور کے رشتے کے لیے بھی ناقابل فراموش ہے۔
کتاب میں بہت سے تاثرات اور تحاریر انگریزی زبان میں دی گئی ہیں۔ موت کے متعلق قرآن مجید کی آیات اور احادیث سے تحقیق پر مبنی تحریر موجود ہے۔حسن ترتیب کے لیے کتاب کی اشاعت سے قبل اگر کسی صاحب کتاب سے مشاورت کی جاتی تو کچھ ردوبدل کا امکان تھا مثلاً بالکل آغاز میں اقبال امام غزالی اور رومی جیسے فلاسفر کی آراکی بجائے احمد عمر مرغوب کا شجرہ نسب،سن اور تاریخ کے ساتھ اس کی پیدائش سے انتقال تک درجہ بدرجہ سرگرمیاں،ایک صفحہ پر اس کی تصاویر اور مضامین دیے جاتے۔انگریزی اور اردو تحریروں کو الگ تھلگ دو حصوں میں تقسیم کیا جاتا یا پھر ان کی اشاعت دو کتب میں ہوتی۔ان سب کے باوجود کتاب صرف ایصال ثواب کے نقطہِ نظر سے ہی قیمتی نہیں بلکہ’بچے کی تربیت کے راہنما اصول اور وہ بچے جو رول ماڈل بنتے ہیں‘ کے لحاظ سے بھی ایک ماں کے لیے پڑھنا بہت ضروری ہے۔کتاب معلومات سے بھر پور ایک خزانہ ہے بالخصوص جن کے پیارے رخصت ہوچکے ہیں ان کے لیے ایصال ثواب کی مختلف صورتیں اور دعائیں بھی موجود ہیں ۔کتاب کے آخری حصہ میں حقیقت زندگی،مقصد زندگی،مدارج زندگی،موت لازم امر،مرحلہ قبر،آخرت،جنت اور جہنم کے تفصیلی اور محقق احوال پر مواد موجود ہے اس کے علاوہ احمد عمر کی تعلیمی سرگرمیوں پر ملنے والے سرٹیفکیٹ،اس کے کارڈز،ڈگریوں کی سکیننگ،اس کی آرٹ سے دلچسی کے تصویری ثبوت بھی موجود ہیں۔کتاب ان کے لیے بھی خزانہ ہے جو مرحوم کے متعلق جانتے ہیں اور ان کے لیے بھی جو انہیں نہیں جانتے کیونکہ اس کتاب میں ان کے حالات زندگی کے بارے میں پڑھنے کے بعد ہاتھ بے اختیار دعا کے لیے اٹھتے ہیں،آنکھوں سے پانی بہتا ہے اور جدائی پر دل غمگیں ہوتا ہے لیکن اللہ کی بنائی جنت میں دائمی راحتوں کے ساتھ رہنے کا بھی اسی کتاب کو پڑھنے کے بعد پختہ یقین ہوجاتا ہے۔

اللہ سب متعلقین کو سکینت عطا فرمائے اورہم سب کو بھی وہی صالحیت دے جو ان جیسے جوانوں کو فطرت نے پیدا ہوتے ہی تحفہ میں دی۔
اللھم اغفر لہ وارحمہ آمین٭

 

عورتیں

لوگ سچ کہتے ہیں
عورتیں بہت عجیب ہوتی ہیں
رات بھر پورا سوتی نہیں
تھوڑا تھوڑا جاگتی رہتی ہیں
نیند کی سیاہی میں
انگلی ڈبو کر
دن کا حساب لکھتی ہیں
ٹٹولتی رہتی ہیں
دروازوں کی کنڈیاں
بچوں کی چادر ،شوہر کا من
اور جب جاگتی ہیں
تو پورا نہیں جاگتیں
نیند میں ہی بھاگتی ہیں
سچ میں عورتیں بہت عجیب ہوتی ہیں
ہوا کی طرح گھومتی
کبھی گھر کبھی باہر
ٹفن میں روز رکھتی نئی نظمیں
گملوں میں روز بوتی امیدیں
پرانےعجیب سے گانے
گنگناتی چل دیتی ہیں
پھر نئے دِن کا مقابلہ کرنے
سب سے دور ہو کر بھی
سب کے قریب ہوتی ہیں
عورتیں سچ میں بہت عجیب ہوتی ہیں
کبھی کوئی خواب پورا نہیں دیکھتیں
بیچ میں ہی چھوڑ کر دیکھنے لگتی ہیں
چولہے پر چڑھا دودھ
کبھی کوئی کام پورا نہیں کرتیں
بیچ میں چھوڑ کرڈھونڈنے لگتی ہیں
موزے ،بچوں کی پینسل ،ربڑ ،جوتے
اپنے بچپن کی یادیں
سہیلیوں کی باتیں
بہنوںسے لڑائی اور ان کا ماننا
اور کچھ نہیں تو بس
ماں کو یاد کر کے رو دینا
ابّا کی گڑیاں لانی یاد آجاتیں
اورپرانے صندوق سے کچھ ادھوری یادیں ڈھونڈنا
کچھ ان کہی لفظوں کی کہانی
کھویا ہوا ورق ڈھونڈنا
برسات کو یاد کرنا
جب ہو جائے تو
بھاگتے رہنا کپڑے بھیگ نا جائیں
اچار ،پاپڑ خراب نا ہو جائیں
سچ میں عورتیں بہت عجیب ہوتی ہیں
خوشی کی امید پر
پوری زندگی بتا دیتی ہیں
ان گنت کھائیوں کے
پُل کو پاٹ دیتی ہیں
سچ میں عورتیں عجیب ہوتی ہیں!

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x