ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ری سائیکل بن‘‘ میں پڑی ایک ڈیلیٹڈ ای میل کا جواب -بتول جون ۲۰۲۱ ”

’’ ڈیئر آمینا بنت فاتحی!
فیصلہ تو ہو چکا ہے …
ایک فیصلہ جو تم لے چکی ، ایک فیصلہ جو میں نے کیا ہے اور ایک فیصلہ جو اب پوری امت مسلمہ کو کرنا ہوگا ۔ سچ کہتی ہو ! انتظار کی اذیت لمحہ لمحہ کھاتی ہے لیکن ادراک کی دوری ایک لمحے میں سب کچھ ہڑپ کر جاتی ہے ،تم خوش قسمت ہو جو ادراک کی انگلی پکڑ کر چلی ، جبھی تو انگلیوں کے لمس میں پوشیدہ دھڑکن ہی تمہاری دھڑکن ہے جہاں فیصلوں کا ادراک ودیعت کر دیا گیا ہے ۔تم فقظ انتظار کا لمحہ جی رہی ہو لیکن ہمیں دیکھو جو ادراک سے دوری کا ایک لمحہ بیت رہے ہیں ،وہ ایک لمحہ جو زندگی سے دور ، ایک بد تر موت سے قریب کا ہے لیکن نہ میں مرنے کی خواہش رکھتا ہوں اور نہ ہی تمہیں یوں بے رحمی سے مر جانے کی اجازت دوں گا ۔
ٹھہرو! آمینا بنت فاتحی!
ٹھہرو! اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے اور مجھے اپنے گناہوں کی معافی کا کوئی ایک آخری لمحہ بھی میسر نہ آئے ، مجھے کھل کر بات کرنے دو…مجھے کہنے دو ، وہ سب جو میں تمہاری ای میل سے ضبط کیے بیٹھا رہا ، بس ہاتھ پہ ہاتھ دھرے کسی معجزے کا منتظر رہا حالانکہ جانتا بھی ہوں کہ نہ تو یہ زمانہ معجزوں کی تاب والا ہے اورنہ ہی ہم لوگ معجزوں کے لائق ہیں ۔ تمہاری ای میل نے پہلی ہی نظر کو ننگا کر کے نمکین پانیوں کے بیچ ڈوبنے کے لیے چھوڑ دیا تھا لیکن بے حس زمانے کی کالک نے ہمارے لہو کی رنگت کے ساتھ ساتھ حرارت پر بھی ایک سیاہ چادر ڈال رکھی ہے ۔ مجھے اعتراف کر لینے دو کہ میں نمکین پانیوں میں غوطے کھاتا اور لمحہ لمحہ ڈوبتا رہا لیکن زندگی کے لیے ہاتھ پیر چلانا بھول گیا تھا ۔ شاید ! موت کو منزل بھی مان لیتا جو ایک نادیدہ قوت مجھے ری سائیکل بن میں پڑی تمہاری ڈیلیٹڈ ای میل پر پڑنے والی نظر پر بے اختیار مائو س پیڈ کی رائٹ کلک پر موجود ری سٹور کا بٹن نہ دبوا دیتی ۔ یہ ایک رائٹ کلک کسی طور بھی مائوس پیڈ کی نہیں بلکہ میری زندگی کی رائٹ کلک تھی جس نے ڈوبتے لمحوں میں زندگی لوٹانے کی صورت بنا دی ۔
شاید! پہلی بار موت کی منزل سے زندگی لوٹ رہی تھی …
ڈیئر آمینا ! تم نے فقط ایک ای میل نہیں لکھی بلکہ ہر لمحہ بد تر موت کے قریب ہوتی زندگی کی ہر ڈوبتی سانس کے منہ پر رکھ کر ’’ ریسکیو اینڈ ریسسٹیشن بریدنگ ‘‘ کی ایک ایسی عملی کوشش کی ہے جس نے نہ صرف ڈوبتی سانس کی جان بچانے کی تدبیر بنا دی بلکہ بچ جانے والی سانسوں کی بحالی کے لیے صورت پیغام بھی دے ڈالی ہے ، تم نے وہی کیا جو ناہید بنت ابو الحسن نے ہند کے ساحل پر بے کس و نا چار کیا تھا ۔ ایک خط لکھا تھا ، ہاں ! فقط ایک خط… لہو سے لکھا گیا ایک خط … جسے ناہید بنت ابو الحسن نے اپنے ناتواں بدن سے نچوڑ کر قلم کا ڈوبا بنایا اور اپنے سر کی چادر کا ایک ٹکڑا کاٹ کر قرطاس کیا تھا ، یہی نہیں زبیر نے جانے کتنی مصیبتیں جھیل کر منزل تک پہنچایا تھا لیکن جب منزل پر پہنچا تو زمین کا نقشہ بدل دیا تھا ۔ ایسا ہی ایک لمحہ، ایسی ہی ایک تحریر تھی جس نے حجاج بن یوسف اور محمد بن قاسم کو کپکپا کر رکھ دیا تھا۔
اگر حجاج بن یوسف کا خون جما نہیں تو میرا خط سود مند ہوگا …
یہی کہا تھا … تم نے بھی تو کہیں پر پڑھا ہوگا، ہاں ! ناہید بنت ابو الحسن نے اپنے قاصد زبیر سے یہی کہا تھا کہ اگر حجاج بن یوسف کا خون جم نہیں گیا تو میرا خط سود مند ثابت ہو گا ، یہی ہؤا تھا جب حجاج نے

لہو زدہ تحریر کی چند سطریں پڑھیں تو برداشت نہیں کر پایا تھا ، باقی کا خط محمد بن قاسم نے پڑھا جس میں لفظ لفظ لہو کی خوشبو بھی تھی اور رگوں میں دوڑتے گرم لہو کو جوش دلانے کا سامان بھی تھا ۔ سنو گی ! ناہید بنت ابو الحسن نے اپنے لہو سے کیا لکھا تھا، سنو!
میں ابو الحسن کی بیٹی ہوں …
مجھے امید قوی ہے کہ شاۂ بصرہ ، ایک بیٹی کی چادر کا ٹکڑا اور لہو دیکھ کر اپنی غیور سپاہ کو گھوڑوں پر زینیں ڈالنے کا حکم سنا دیا ہوگا لیکن کہیں حجاج بن یوسف کا خون سرد پڑ چکا ہے تو پھر شاید میری تحریر بے سود مند ثابت ہو گی ، ہمارے ساتھی ایک ایسے سنگدل قزاق کی قید میں ہیں جس کے دل میں رحم کیا ، جسم میں دل ہی نہیں ہے ۔یہاں دور تک قیدیوں کی چیخوں پر دستک دینے والا کوئی نہیں لیکن کیا ان قیدیوں کے کانوں میں بھی سیسہ گھول کر ڈال دیا جائے کہ جو مجاہدین اسلام کے لشکر میں سبک رفتار گھوڑوں کی ٹاپوں کے منظر ٹھہرے ہیں ۔ ہمیں موت کا ڈر نہیں ! البتہ مرتے ہوئے افسوس رہے گا جو کہ ترکستان و افریقہ کے بنددروازوں کو روندنے والے سبک رفتار لشکری اپنی قوم کے بے بس لوگوں کی مدد کو نہ پہنچ پائے تھے ۔ وہی لشکر جنہوں نے روم و ایران کے سر کش شاہوں کے تخت تاراج کیے ، کیا سندھ کے ایک مغرور راجہ کا سر قلم کرنے نہیں آ سکتے تھے ۔ اے حجاج ! اگر زندہ ہو تو مد د کو پہنچو ! فقط تمہاری بیٹی !
آمینا ! تم نے لفظ لفظ ٹھیک پڑھا ہے ، یہی لکھا تھا …
جانتی ہو ناں ! تب سپاہیوں کو کوچ کا حکم ہؤا تھا ۔ ایک سترہ سالہ نوجوان نے قدم بڑھایا تھا اور اپنے پیچھے لبیک کی آوازیں سنیں تھیں۔ یہ آوازیں سندھ کے ساحلوں اور راجہ کے زندان میںمنتظر کانوں نے بھی سنی تھیں۔ تبھی ناہید بنت ابو الحسن نے’’ حریہ مبارک‘‘ کی صدائوں بیچ سندھ کے ساحل پر شکرانے کے نفل پڑھے اور شیرینی بانٹی تھی ۔ مجھے کہنے دو ، میرے ضبط کا بندھن ٹوٹ چکا ہے ، میرا تپتا ہؤا جسم لہو اگلنے کی تیاری میں ہے ۔ مجھے کہنے دو کہ تم نے فاطمہ بنت عبد اللہ کی تاریخ دہرائی ہے وہی فاطمہ جو پانی کا گلاس اٹھانے کی عمر میں بھرامشکیزہ لے کر میدان جنگ میںنکل پڑی تھی ۔ جو حاکم تھی نہ حاکم کی بیٹی، جو سالار تھی نہ کسی سالار کی لڑکی تھی لیکن بزدل دشمن کی کئی تلواروں کی چمک اسی کے لہو سے بنی تھی ۔ تمہاری طرح ایک چھوٹے سے ملک لیبیا ( طرابلس الغرب) کی شہزادی جس کے خون میں برا عصہ جیسے جنگجو قبیلے کا جوش اور رنگ تھا ۔ 1912ء میں جب عیسائیوں کی ایک طاقتور ترین ریاست اٹلی نے حملہ کیا تو مقابل ہر عمر کا نمائندہ تھا ، بچے ، بڑے ، بوڑھے ، مردو زن سبھی تو موجود تھے ۔ گھمسان کا رن پڑا اور اٹلی کی سپاہ کا پلڑا بھاری رہا لیکن مقابل سپاہیوں نے پیٹھ پر ایک بھی گولی نہیں کھائی تھی ۔ تبھی میدان جنگ میں گر تے سپاہیوںنے ایک ننھی بچی کو کمزور کمر پر مشکیزہ لادے زخمیوں کی جانب بڑھتے دیکھا ۔ اطالوی فوجیوں کے منہ بند اور بندوقوں کے دہانے کھلے رہ گئے ، کئی گولیوں نے جہاں مشکیزے کا پانی بہادیا وہاں معصوم فاطمہ بنت عبد اللہ کے جسم سے لہو بھی نچوڑ دیا ، فاطمہ ایک زخمی سپاہی کے سینے پر اپنے مشکیزے کے ساتھ شہید ہو گئی اور ایک مردہ تاریخ کو ہمیشہ کے لیے زند ہ کر گئی۔
ڈئیر آمینا بنت فاتحی ! تم اسی تاریخ کا نیا جنم ہو…
ایسا نہیں کہ ہمارے پاس وقت نہیں ہے ، ہاں ! یہ کہو کہ احساس نہیں ہے ۔ یہ ایک سوچی سمجھی کہانی کا پلاٹ ہے جس میں کہانی کار ، کہانی کی نہیں اپنی مرضی کے کرداروں کی زندگی بچانے کی فکر میں ہے ۔ ہونا تو یہی چاہیے تھا کہ کہانی کار اپنی ذاتی پسند و نا پسند سے ہٹ کر کہانی کو بہائو پر بہنے دیتا لیکن یہاں ایک بڑی کہانی کا چھوٹا کہانی کار مکرو فریب کے جال میں اپنی پسند کا کردار الگ ہونے کی کوشش میں باقی سب کرداروں کو آپس میں الجھا رہاہے۔ یہ شام کی ہی بات نہیں … ذرا نظر اٹھا کر دیکھو تو ساری طرف ایک کردار بچانے کے لیے پوری کہانی بدلی جا رہی ہے ، ایسی کوشش میں باقی سارے کردار باہم الجھائے جا رہے ہیں یا سرے سے ان کا کردار ہی ختم کیے جانے کی کوشش برتی جا رہی ہے ۔ یاد رکھنا کہ شام میں بھی خوشیوں بھرا نیا سال ضرور آئے گا ، ہاں !اور یہ جو نئے سال کو منانے کی تیاری کرتے ہیں ناں! یہ اپنے آپ چھپانے کی کوشش کرتے ہیں ، کیا سمجھتی ہو یہ خوش ہوتے ہیں … نہیں خوشی کا ڈھونگ رچاتے ہیں ، بھلا خود غرض چہروںپرفطری خوشی کہاں

ہوتی ہے ۔ ’’ نیو یارک ٹائمز اسکوائر ‘‘ میں جمع ہونے والے لوگ زمین کو نہیں زمین پر موجود حقائق کو چھپانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ ’’ آک لینڈ سکائی ٹائور ‘‘ سے آسمان کو آنکڑے ڈالنے والی روشنیوں کی راسیں کمزوروں کے گرد کسی جاتی ہیں ۔’’ برج خلیفہ‘‘ نہیں ! تیل کا سمندر لوٹنے کی تیاریاں کی جاتی ہیں ۔ ہاں ! یہ ٹھیک کہا کہ ’’ ویٹی کن سٹی‘‘ میں اجتماعی دعا کی تیاریاں بام عروج کو پہنچ رہی ہوں گی لیکن یہ دعائیں کلیسا کی دیواروں میں محدود ہو کر رہ جاتی ہیں البتہ شام و عراق میں بچھائی جانے والی جائے نمازوں پر جنازوں کی صورت ایک کھلی حقیقت ہے ۔
ٹھیک کہا ! وقت کسی کا نہیں اور نہ ہی کسی کا ہو سکتا ہے …
شام میں اترنے والی گہری اور تاریک رات کا سفر جلد ختم ہو گا ، شام میں ٹھہرے قافلوں کی نوحہ گری گونج جلد ہی رحمتوں کی برسات لے کر آئے گی ، حلب و دمشق میں اجتماعی جنازوں کی روایت بہت جلد ختم ہونے والی ہے ۔ یہ سوچنا چھوڑ دو کہ تمہارے پاس بھی وقت نہیں ہوگا ، میں کہتا ہوں وقت بھی ہوگا اور تم وقت کی انگلی پکڑ کر چلنے والوں کی رہبر ی بھی کرو گی ۔ بے شک وقت ظالم ہے لیکن تب تک کہ جب تک وقت کی ننگی آنکھ میں آنکھ ڈال کر نہ دیکھا جائے ، جو لوگ اور جو قومیں وقت کی برہنہ آنکھ میں آنکھ ڈال کر چلنا سیکھ لیتی ہیں ، وقت ان کی مٹھی میں ہوتا ہے ، وہی کرتا ہے جو وہ کہتے ہیں ۔ ٹھیک کہتی ہو:
“He who has his hand in the water is not like him who has his hand in the fire”لیکن جب احساس ہونے لگ جائے تو سب کچھ مشترک ہو جاتا ہے جیسے تمہارا اور ہمارا فیصلہ …!
سچ کی زبان کڑوی سہی لیکن پر اثر ہوتی ہے …
دنیا کی رنگا رنگی پر ہر طرف کیمروں کی آنکھیں لگی ہیں جبھی تو سب کچھ کیمرے کی آنکھ سے دیکھا جاتا ہے ۔ میں نے بھی تو کیمرے کی آنکھ میں رکھی چند تصویروں سے شام کا نقشہ کھینچا تھا جہاں بغاوتی ٹولوں کی آواز گونجتی تھی البتہ آواز پر لبیک کہنے والوں کی تصویروں پر فیڈ ٹریٹمنٹ سے چھپا لیا جاتا ہے ، یہ بتانے کی نہیں سمجھانے کی بات ہے کہ کس نے کس کے مفاد پر شام میں رات اتاری، یہ کہ انقلاب عرب کے نام پر جمہوری و غیر جمہوری یا حکومتی یا غیر حکومتی معاملہ نہیں رہا ہے اور روس کے جنگی جہاز بشارالاسد حکومت بچانے نہیں آتے بلکہ اپنی ’’ میڈیٹرینین نیول بیس ‘‘ کی حفاظت کی ذمہ داری پوری کرنے آتے ہیں۔
’’ تم اس لڑائی کا نام جاننا چاہتی ہو ناں !‘‘
میں تم سے پوچھ رہا ہوں۔
’’ تمہیں جیت ہار کا معیار دیکھنا ہے ناں !‘‘
میں بتائے دیتا ہوں ۔
کہانی کے بہائو پر دیکھو… کیا دیکھ رہی ہو ، یہی ناں کہ شامی حکومت ایک طرف روس ، ایران ، حزب اللہ اور عراق و افغانستان سے بھرتی کیے شیعہ جنگجوئوں کی مدد سے اپنی حکومت بچانے کی کوشش میں ہے ، دوسری طرف باغی ، ترک و گلف کے ساتھ اجتماعی قبریں کھود رہے ہیں جبکہ ایک تیسری طرف آئی ایس آئی ایس کے عَلَم تلے لا دینیت ولاقانونیت کی خلافت بنانے کی خواہش رکھی جا رہی ہے ، یہ بھی نہیں ! بلکہ ایک اور چوتھی قوت بھی اپنے مقاصد کے لیے خون و آگ کے دریائوں سے گزرنے کو تیار کھڑی ہے جو کسی کے بھی ساتھ نہیں اور سب ہی ساتھ بھی ہیں ۔ کیا تم بھی وہی دیکھ رہی ہو جو میں دیکھ رہا ہوں … ہاں ! وہی ایک کہانی کا سکرپٹ جس میں ایک کردار باقی سب کرداروں کو ختم کرنے پر تلا ہؤا ہے۔
ڈئیر آمینا !
تم نے فیصلہ کر دیا ہے …
اب وقت نے اپنا مرہم دھرنا ہے ، محمت، تمہارے اکیلے رہ جانے پر افسردہ ہؤا ہوگا لیکن تمہارے ساتھ رہنے میں خوش بھی نہیں تھا ، ورنہ جب تم نہیں جا سکتی تھیں تو وہ بھی رک سکتا تھا ناں! تمہاری والدہ ، دنیا کی ہر ماں کے جیسے ایک درویش رہی ہے جس نے تمہیں دھڑکن کی رفتار میں جنم لینے والے فیصلوں کا ادراک بھی دیا اور محفوظ بھی کیا ہے ۔ یہی تو میں بھی سمجھا ہوں :
“Every knot has someone to undo it”ہاں ! ہر پریشانی اور مصیبت کا ایک حل ہوتا ہے جودرپیش حالات کے بیچ سے نکل

آتا ہے ۔ یہ نہ سمجھو کہ کہانی کار نے کرداروں کو دیکھنے کی صلاحیت بھی سلب کرلی ہے ، ایک کردار مضبوط سہی لیکن باقی کردار بھی اپنی لائنیں بھولے نہیں بلکہ جب اور جہاں ان کی انٹری ہوتی ہے وہاں کہانی میں ایک نیا موڑ آتا ہے ۔
کہانی کا ہر موڑ چونکا دینے والا ہو تو کہانی زندہ رہتی ہے …
یہ تمہاری اور تمہارے شام کی بات نہیں رہی بلکہ بات پوری دنیا میں پھیل چکی ہے ۔ یہاں رنگ ، نسل ، خطہ اور مذہب نہیں رہا بلکہ ایک ہی نسل اپنی نسل اور ایک ہی مذہب اپنے ہم مذہب پرستوں کو کاٹ رہا ہے ، تم نے وہ فلم تو دیکھی ہو گی نہیں دیکھی تو شاید سنا ضرور ہو گا جس میں اپنی جان بچانے کے لیے اپنی ہی جان گنوانی پڑتی ہے اور آخری سانس تک یہی لگتا ہے کہ موت سے لڑا جا رہا ہے جبکہ حقیقت میں زندگی سے لڑا جا رہا ہوتا ہے ۔ ہم بھی زندگی سے لڑ رہے ہیں لیکن ابھی زندہ ہیں ، دیکھو نا ! اسلامک سربراہی کانفرنس تسلسل سے ہو رہی ہیں ، کئی اسلامی ملکوں نے مل کر ایک بڑی مضبوط فوج بنائی ہے ، ایک ایسی فوج جوناہید بن ابو الحسن کی آواز پر لبیک کہے گی اور فاطمہ بنت عبد اللہ کی طرح تم یا تم ایسی بہت سی بچیاں اپنے سپاہیوں کے لیے پانی کے مشکیزے لے کر میدان میں آئیں گی ۔ جانتی ہو اچھی بات کیا ہے … یہ کہ سب کو کہانی کار اور کہانی کے انجام کا علم ہے ۔
آمینا بنت فاتحی!
ایک فیصلہ تم نے کیا تھا اور سچ کہوں تو تمہارے فیصلے کی لفظ لفظ کی سچائی نے یقینا مجھے ایسے بہت سوں کو جینے کی ایک نئی امید بخشی ہے ، دھڑکن میںرکھے فیصلوں کے ادراک کی سمجھ بخشی اور سلجھائو پر کھڑے رہنے کا حوصلہ دیا ہے ۔ ایک فیصلہ ہم نے کیا ہے ، ہاں ! ہمارا فیصلہ ! ہم سوشل میڈیا پر ایک میسج ڈال کر اتنا وائرل کریں گے کہ پل بھر میں لاکھوں ویوز ہوں گے ، یہ سلسلہ اس وقت تک نہیں رکے گا جب تک کہ وہی میسج واپس پہلے والے تک نہیں آجائے گا ۔ ہم نے تمہارا ساتھ دینے کا سوچ لیا ہے ۔
تم بھی ہمارا ساتھ دو گی ناں !
نواب زنگین خان ‘‘
ٹیبل پر رکھے لیپ ٹاپ کی کھلی سکرین پر مرکوز آنکھوں میں جمع ہونے والے نمکین پانی میں ایک تصویر غوطے کھا رہی تھی جبکہ کی بورڈ پر حرکت کرتی انگلیوں نے فیصلے کی تائید میں شفٹنگ کچھ زیادہ تیز کردی ، سکرین کے دائیں نچلے خانے میں ہلکے نیلے رنگ پر نوکِ سناں رکھی تو ای میل ہوا میں نکل گئی ، چند لمحوں میں گھمن گھیری سے ای میل سینڈ کا میسج نکل کر بول پڑا ۔
اگلے چند منٹوں میں معصوم نیلی آنکھوں والی آمینا بنت فاتحی کی تصویر لاکھوں لائکس سمیٹ چکی تھی ۔
(فنون 141)
٭٭٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x