ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

برف، ہوا اور بھوک – بتول فروری ۲۰۲۳

سرد ہوا کے ساتھ برفیلے جھکڑ….
دور تک سناٹا….
تین نفوس!
بھوک اور سردی سے نڈھال ،بجھے ہوئے سرد چولہے کے گرد ایسے بیٹھے تھے گویا وہاں سے انہیں کھانا مل ہی جائے گا۔
یہ پہاڑی کے دامن میں واقع ایک چھوٹی سی بستی تھی جہاں اکا دکا چھوٹے چھوٹے کچے گھر تھے۔ وگرنہ تو یہاں فاصلے سے بنے چار پانچ بنگلے تھے جو صرف برف باری کے زمانے میں ہی آباد ہوتے تھے۔ برف باری دیکھنے کے لیے بس باقی یہاں ان بنگلوں کے رکھوالے رہتے تھے یا کوئی انہی جیسے افراد جن کے روز گار قریبی ہوٹلوں سے وابستہ تھے اور یہ روزی بھی ہوائی روزی تھی، برف باری کے زمانے میں ملتی، اس کے علاوہ چولہے ٹھنڈے پڑے رہتے۔ اسی لیے برف باری کے دوران ان لوگوں کو خوب سے خوب اور زیادہ سے زیادہ جمع کرنے کی ہوس ہوتی اور دوران سیزن یہ خوب خوب کماتے، اتنا کماتے کہ جب سیزن ختم ہو جاتا تب بھی ان کی سیزن کی کمائی چلتی رہتی ۔
مگر نجانے کیوں اس بار تو سیزن بھی تھا مگر شناور خان کو کوئی خاطر خواہ کام نہیں مل سکا ۔جہاں جاتا نو ویکینسی کا جملہ منہ چڑا رہا ہوتا۔ ایسے تو کبھی نہ ہؤا تھا!سرد ہوا برف باری کی شدت خالی پیٹ اور ٹھنڈا چولہا ، ہوا کی سنسناتی آوازیں…. یہ سب اس پراسرار ماحول کو مزید پر اسرار بنانے کو کافی تھا۔قریبی علاقے میں واقع ہوٹل سے کھانے کی اشتہا انگیز خوشبوئیں انہیں بے چین کیے دے رہی تھیں ۔بغیر کسی توقف کے موسیقی کی تیز آواز بلند ہو رہی تھی۔ یہاں تین نفوس کی محفل سرد تھی اور آثار زندگی مفقود، وہاں سینکڑوں کا مجمع تھا اور زندگی اپنے جوبن پر تھی۔ فرق صرف ’’مال‘‘ کے ہونے نہ ہونے کا تھا وگرنہ تو آدمی وہ بھی تھے آدمی یہ بھی تھے…. انسانیت کا بھی فرق تھا شاید! وگرنہ انسان تو یہ بھی تھے اور انسان وہ بھی تھے ۔
سرد ہوا کے دوش پر جب اشتہا انگیز خوشبوئیں انہیں بے بس کر گئیں تو ان تین نفوس پر مشتمل گروہ کے سربراہ شناور خان نے فیصلہ کن انداز میں کہا:
’’میں دیکھتا ہوں ہوٹل سے کھانا مانگ کر لانے کی کوشش کرتا ہوں کوئی ترس کھا کر کچھ دے ہی دے گا اتنا تو ضائع کرتے ہیں تھوڑا ہمیں ہی دے دیں‘‘۔
یہ کہہ کر وہ باہر نکلنے لگا کہ اس کی اکلوتی بیٹی ماہ گل نے اس کی اونی چادر کے پلّو کو پکڑ کر روکا۔
’’بابا ادھر اس ٹھنڈ میں ہم مر جائیں گے ہمیں ساتھ لے چل ….کچھ ملا تو ہم بھی تیرے ساتھ ہی ہوں گے ناں ‘‘۔
ماہ گل کی بات پر اس کی ماں پری وش نے بھی اثبات میں سر ہلایا تو شناور خان نے دونوں کو ساتھ لیا اور ہوٹل کی طرف قدم بڑھادیے۔ ہوٹل کے اطراف میں کھڑے گارڈز نے انہیں دیکھ کر دور سے سیٹی بجا کر دور رہنے کا اشارہ کیا ۔ان کے حلیے دیکھ کر پہچان لیا گیا تھا کہ مانگ کر ہوٹل مالکان اور کسٹمرز کو تنگ کریں گے۔ ان کا تو روز کا یہی کام تھا۔
’’او جاؤ بابا جاؤ ادھر سے، مانگنے کا نہیں ہے یہاں….جاؤ جاکر کہیں نوکری موکری کرو ناں….مانگنے کا ڈھنگ چھوڑو ‘‘۔
گارڈ نے شناور خان کو آگے بڑھتے دیکھ کر دھکا دیا۔وہ ٹھوکر سےسنبھل کر لجاجت سے بولا۔
’’نوکری نہیں مل رہی بھائی،نوکری کروا کر ہی کچھ کھانے کو دے

’’نوکری نہیں مل رہی بھائی،نوکری کروا کر ہی کچھ کھانے کو دے دو‘‘۔
’’جاؤ جاؤ کہیں اور جا کر یہ ڈرامے کرو۔ یہاں فیکٹری لگی ہے جو تمہیں نوکری چاہیے ….چلو بھاگو ادھر سے‘‘۔
گارڈ نے دوبارہ اسے دھکے سے پیچھے ہٹایا تو شناور خان منہ کے بل زمین پر گر پڑا اور اس کے سر پر پتھر کی رگڑ لگنے سے خون کی پتلی سی لکیر ٹھوڑی تک آ پہنچی۔
’’بابا….بابا!‘‘
قدرے نیم تاریکی میں کھڑی ماہ گل اور پری وش بےتابانہ آگے بڑھیں، شناور خان کو اٹھا کر غصے سے گارڈ کو دیکھا اور کچھ کہنے کی کوشش ہی کی تھی کہ شناور خان نے سنبھل کر سختی سے ان دونوں کا ہاتھ دبوچا اور ان کو لے کر وہاں سے دور ہٹ گیا ۔
’’بابا اس کو کچھ بولا کیوں نہیں ؟مدد نہیں کرنی تھی نہ کرتا مگر دھکا کیوں دیا اس نے؟‘‘
ماہ گل کو بھوک کی شدت سے اور زیادہ غصہ آ رہا تھا ۔
’’نہیں میری بچی نہیں اس نے ٹھیک کیا ہے۔ وہ اس طرح مجھے ٹھوکر نہ مارتا تو مجھے کبھی بھی وہ زیادتی یاد نہ آتی جو میں نے پچھلے برس اسی طرح کی تھی کسی اور کے ساتھ….اب مجھے سمجھ آ گئی کہ ہر سال مجھے سیزن میں کام مل جاتا تھا اس مرتبہ کیوں سختی آ گئی۔ سب ہی کو کام مل گیا مجھے ہی…. میرے لیے ہی ….میری ہی باری میں جگہ ختم ہو رہی ہے….کہیں بھی کچھ بھی کام نہیں مل رہا‘‘۔
شناور خان سڑک کے کنارے واقع صنوبر کے درخت سے ٹیک لگا کر ڈھے سا گیا ۔بھوک اور سردی کی شدت اوپر سے سر پر لگی چوٹ نے اسے ادھ موا سا کر دیا تھا ۔سردی اتنی شدید تھی کہ جیسےتازہ خون بھی رگوں میں جم گیا تھا۔ اس کی آنکھوں میں اندھیرا گہرا ہوتا گیا۔ اسے دور سے ماہ گل اور پری وش کے چیخنے کی آوازیں آ رہی تھیں۔
’’بابا….بابا….شناور خاناں….اوشناور خان‘‘۔
مگر اس کا دماغ تاریکی میں ڈوبتا چلا گیا۔
٭
صبح کی نرم گرم گلابی اوس زدہ نورانی روشنی کھڑکی سے نظر آ رہی تھی مگر حیرت انگیز بات یہ تھی کہ شیشوں کے پار سے اتنی یخ بستہ نظر آتی صبح کے باوجود اسے ٹھنڈ نہیں لگ رہی تھی ۔اس نے ایک کراہ کے ساتھ حواس بحال کئے ۔
’’ماہ گل….پری ….پریا!‘‘
وہ حلق کے بل چیخنا چاہتا تھا مگر چیخ نہیں پایا۔
’’جی بابا جی! ہم ادھر ہی ہیں آپ کے پاس‘‘۔
وہ دونوں اس کے قریب آ گئیں۔ ان کے چہرے پر بھرے پیٹ کی طمانیت نظر آ رہی تھی۔ اسے یاد آیا وہ سب بھوکے تھے مگر اب اسے بھی اس طرح بھوک سے نقاہت محسوس نہیں ہو رہی تھی ۔
’’مگر کیوں؟ کیسے؟یہ نرم گرم بستر،یہ کمرہ؟ کیا تھا یہ سب؟‘‘
اس کی سوالیہ نگاہوں کے جواب میں اسے بتایا گیا کہ جب سڑک کنارے وہ بیہوش ہو گیا تھا تو ہوٹل میں گھوم کر واپس آتی ہوئی ایک فیملی نے ان دونوں بے یار و مددگار خواتین کو دیکھ کر مدد کی ،اپنے خرچ پر انتظامیہ سے کہہ کر انہیں سرونٹ ایریا میں اس کے ہوش میں آنے تک ایک متوسط سا کمرہ لے کر دیا اور ان کو کھانے پینے کی بہت سی چیزیں فراہم کیں جو ان دونوں نے کچھ کھا کر سنبھال رکھی تھیں۔ اس کو نیم بیہوشی کی حالت میں یخنی پلائی گئی جس سے یہ ہوش میں آنے کے قابل ہو سکا ۔
وہ اٹھ بیٹھا۔ ایسا کیسے ممکن ہے کہ اس کے اتنے بڑے گناہ کے باوجود بھی اس پر رحم کیا گیا جب کہ وہ رحم کے قابل بھی نہ تھا؟ ابھی کل رات ہی تو اسے احساس ہؤا تھا اور اس کے دل نے اتنی ندامت محسوس کرتے ہوئے معافی مانگی کہ لگا بس اس بار ندامت تلے دب کر اس کا دل بند ہی ہو جائے گا ۔
ابھی اس نے تفصیل پوچھنے کے لیے لب ہلائے ہی تھے کہ دروازے پر دستک دے کر کوئی اندر آ گیا۔ وہ اٹھ بیٹھا اور دروازے سے اندر آتے ہوئے ایک مرد اور خاتون کو دیکھ کر بستر سے ہی اٹھ کر کھڑا ہو گیا
’’سلام صاب‘‘ اس نے خاتون کو ساتھ دیکھ کر نگاہیں جھکائے جھکائے ہی سلام کیا۔

’’اب کیسی طبیعت ہے تمہاری؟ کھانا وانا کھایا تم نے؟ رات تمہاری حالت بہت خراب تھی ‘‘۔
اندر آنے والے صاحب کے پوچھنے پر وہ سمجھ گیا کہ ان کے محسن یہی لوگ ہیں۔ شناور فوراً آگے بڑھ کر ان صاحب کے ہاتھوں کو بوسہ دینے جھکا۔
’’ارے نہیں نہیں یہ نہ کرو ۔بس اتنا احسان کر دیا کرو کہ تمہارے شہر کی خوبصورتی دیکھنے کو جو پردیسی لوگ یہاں آتے ہیں ان کے ساتھ اگر اچھا نہیں کر سکتے کم از کم ان کے ساتھ انسانیت سوز سلوک نہ کیا کرو ‘‘۔
اس شخص کے لہجے میں نجانے کیا تھا کہ اس نے بے ساختہ سر اٹھا کر اسے دیکھا اور اس کے چہرے پر شناسائی کی لہر دوڑ گئی ۔ساتھ ہی عرق ندامت کے قطرے پیشانی پر نمودار ہوئے، نظر جھکی اور خجالت سے دونوں ہاتھوں کو جوڑ کر وہ پیچھے کھسک گیا۔
’’معاف کر دینا صاب جی! مجھے کل رات ہی اپنی غلطی کا احساس ہؤا تھا اور آج آپ سے سامنا بھی ہو گیا،صاب اللہ پاک بڑا مہربان ہے، بڑے بڑوں کی غلطیاں پکڑی نہیں جاتیں اور ہم جیسوں کی غلطی کا احساس کروا کر اس بندے کو بھی سامنے لے آیا جس کے مجرم ہیں۔ معاف کر دینا صاب میں نے اتنا برا سلوک کیا تھا، آپ کے علاوہ بھی بہت سے لوگوں کے ساتھ پھر بھی آپ نے مجھ پر احسان کیا مجھے بچایا،پناہ دی کھانے کو دیا صاب….‘‘
بار ندامت سے اس کی آواز رندھ گئی۔
’’نہیں بھئی ہم سب گناہ گار ہیں نجانے کہاں کہاں اور کس کس سے کس کے حق میں زیادتی کر بیٹھتے ہیں۔ ہم تو تمہارے بد ترین رویے کے باوجود رب کی رحمت سے بچ کر چلے گئے تھے اور آج دوبارہ ادھر آنے کے قابل ہو سکے مگر جو لوگ تم جیسے لوگوں کی یزیدیت کا شکار ہو کر پچھلے برس گاڑیوں میں ہی برف تلے دب کر ہمیشہ کے لیے جم گئے ،مر گئے، ان سے معافی کیسے مانگو گے! شدید برف باری میں جب راستے سجھائی نہیں دے رہے تھے کھانا ختم،پانی ختم آثار زندگی مفقود، ایسے میں تم سب مقامی لوگوں نے پیٹرول ہیرے کے داموں کر دیا ،ایک چائے کا کپ ہزار روپے کا ،کھانا، رہنے کے کمرے ہر ایک شے اس قدر مہنگی کردی اور دستیاب ہونے کے باوجود بھی اس لیے فراہم نہیں کی گئی کہ من مانے روپے نہیں مل رہے تھے ۔جو خرید سکے بچ گئے اور جو نہ خرید سکے مر گئے…. ٹھٹھر کر ….اپنی ہی گاڑیوں میں قبرستان بنا کر….بے بسی کی موت مر گئے۔ اور تم لوگ ناجائز منافع خوری کے زعم میں ان کا تماشا دیکھتے رہے‘‘۔
ان صاحب کا غصہ ان کے بلند اخلاق جیسا تھا ۔جتنا اخلاق سے شناور خان کی خدمت کی اسی طرح اپنے بھائی بندوں کی پچھلے برس کی بے بس موت انہیں غصہ دلا گئی۔
شناور خان ندامت سے گھٹنوں کے بل گر پڑا۔
’’بہت غلطی ہو گئی صاحب! بہت سے لوگوں کا خون ہے ہمارے ہاتھوں پر…. پھر بھی اللہ تعالیٰ نے ہمیں مہلت دی ۔آئندہ کبھی ایسا نہیں کریں گے۔ ہم اپنے علاقے میں آنے والوں کی ایسے ہی خدمت کریں گے کہ جیسے ہمیں آپ لوگ اپنے شہروں میں پناہ دیتے ہو۔صاحب اللہ بہت بے نیاز ہے، اس رب العالمین نے مجھے اس کے بعد سے کبھی نہ پوری روٹی نصیب فرمائی نہ ہی گھر کی چھت ہمارے لیے آرام دہ بن سکی۔ تم معاف کر دینا ہم کو پھر شاید اللہ بھی ہمیں معاف فرما دے‘‘۔
شناور خان نے ہاتھ جوڑ دیے۔ اس کی بیوی اور بیٹی ہکا بکا اسے دیکھ رہی تھیں مگر اب اسے صرف یہی فکر تھی کہ وہ معاف کردیا جائے۔
اور معافی؟
وہ تو اعمال کے سدھار کی متقاضی ہوتی ہے۔ اعمال کا سدھار بتاتا ہے کہ معافی قبول ہوئی یا رد۔
اتنے دن بعد اس کا دل ہلکا ہو&ٔا تھا ۔کمرے کے باہرایک نئی صبح نئے شناور خان کی منتظر تھی۔
٭٭٭

 

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x