ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

جوڑی فٹ ہے – بتول فروری ۲۰۲۳

’’اچھا اب میں چلتا ہوں‘‘۔
گروسری کا سامان سلیب پر رکھ کر اسلم نے عائشہ سے اجازت چاہی۔
’’کھانا کھا کر چلے جاتے ‘‘عائشہ پیچھے آتے ہوئے بولی ۔
یہ دعوت زبانی تھی اس کے روکنے میں اصرار نہیں تھا اور نہ ہی اسلم کو کسی صورت رکنا تھا ۔اسلم گیٹ تک پہنچ کر مڑا ،خاص عائشہ کے سندھی اسٹائل میں اس کے سر پر ہاتھ دھرا اور اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے کہا ۔
’’کچھ اصول جو ہمارے درمیان طے ہوئے تھے پکے یاد ہیں نا؟‘‘
’’ جی یاد ہیں۔ جس دن آپ کو کھانے پر روکا تھا وہ دن اصولوں کو بھولنے بھی نہیں دے گا۔ توبہ! آپ کو کھانے پر نپٹانا شہر بھر کو نپٹانے کے برابر ہے، شہلا باجی کی ہمت ہے‘‘۔
اسلم نے چھوٹا سا قہقہ لگایا اوربچوں کو پیار دے کر دہلیز پار کر گیا۔
٭٭٭
شہلا ایک وسیع طول و عرض کی خاص آرڈر پر بنی کرسی پر براجمان تھیں۔ ان کے برابر والی کرسی پر اسلم کھانے میں مصروف تھے۔شہلا کی طرف سے ملازمہ کو ہدایات جاری تھیں ۔گندمی رنگ ،سادہ چٹیا، کان میں گولڈ کے بڑے بھاری بالے، دو موٹی گولڈ کی چین، ایک ایک کنگن ہاتھ میں پھنسا ہؤا، ناک میں ہیرے کی لونگ ،دو سوٹس کو ملا کر بنایا برانڈڈ سوٹ زیب تن کیے پرکشش پر نور چہرہ… شوہر کی پلیٹ میں ان کا من پسند کھانا ڈالتی جاتیں۔ شوہر صاحب محبت سے کبھی بیوی کو دیکھتے ،رغبت سے نوالہ چباتے، نلی ختم ہوئی تو معصوم بچے کی طرح بیوی کی طرف دیکھنے لگے۔ شہلا نے باؤل سے دوسری نلی نکال کر شوہر کو پیش کی۔
’’ السلام علیکم تایا ابو… تائی امی! کشف کی شوخ اچانک آواز کانوں کو سنائی دی۔
’’ وعلیکم السلام !کیاپھر تمھاری اماں نے وہ بنا لیا جو تمھیں نہیں کھانا؟‘‘
’’ ہاں نا! خوب سارا سبزہ گھاس پھیلا کر بیٹھی تھیں مکس سبزی بنانے کا عزم لیے… اور کٹنگ میں میری شمولیت کو لازمی قرار دے چکی تھیں۔ چکمہ دے کر بھاگ آئی اپنی تائی امی کے پاس‘‘ کشف شرارت سے ہنسی۔
اس کے بات کہنے تک تائی امی اس کے لیے کھانا نکال چکی تھیں ۔ تایا ابو کھانے سے فارغ ہوکر اپنے کمرے میں جاچکے تھے۔ کشف بڑے بڑے نوالے بنائے جائے، ساتھ تبصرے جاری۔
’’ ویسے تائی امی! کیا شوہر اس نخریلے مزاج کا نام ہے؟‘‘ اشارہ تایابو کی طرف تھا ’’ایک انسان دوسرے انسان کے اتنے نخرے کیونکر اٹھا سکتا ہے۔ مجھ سے کسی کے اتنے نخرے نہ اٹھائے جائیں گے‘‘ تازہ منگنی شدہ تھی ’’اگر ہوا اس طرح کا مزاج، دنوں میں درست کردوں گی‘‘ آزاد اظہار کے بعد تائی امی کی گھوری کی پرواکیے بغیر پلیٹ پر جھکی تھی کہ اچانک سر پر چپت رسید کی گئی۔
’’ تائی امی نے تو تایا کے صدقے سب کے نخرے اٹھائے ہیں‘‘۔
’’ہمارے ناز نخرے ختم تو سب کے ناز ختم… یہ سب تایا کے دم سے ہے‘‘ تایا ابو کا اشارہ اس کی مٹن پائے سے بھری پلیٹ کی طرف تھا۔
کشف مسکرا دی اور تایا کی بات پر سو فیصد ایمان لائی اور اپنے خوش رو ہینڈسم تایا ابو کو محبت سے کمرے میں جاتا دیکھنے لگی۔ یہ ناز آپ

ہمیشہ اٹھوائیں، کشف کے دل نے دعا دی۔
لیکن وہ دعا کی قبولیت کا وقت نہیں تھا ۔تایا ابو کو سر آنکھوں پر بٹھانے والی تائی امی منوں مٹی تلے جا سوئیں۔
تدفین کے بعد جب تایا ابو سامنے آئے تو دل تڑپ گیا۔ آج ان کے حسن و جمال میں سوگواریاور حزن تھا،دکھ سے نڈھال کچھ کمر بھی جھکی تھی۔ پھپھو بھائی کو حوصلہ دینے آگے بڑھیں اور خود حوصلے کا یارا نہ رہا۔
’’بھابھی کتنی خاموشی سے چلی گئیں۔ کتنی فکر تھی انھیں اپنے آخری غسل کفنانے اور تدفین کی اور دیکھیں پتہ ہی نہیں چلا ہر مرحلہ آسانی سے طے ہوگیا۔‘‘
’’مہرو جب آج کا سورج نکلا تھا۔ تو بالکل نارمل دن تھا ،کہیں سے بھی نہیں لگا کہ انہونی ہوگی۔ ہمیشہ کی طرح مجھے خود ناشتا کروایا بلکہ دوپہر کا بھی کھانا تیار کر کے گئیں۔ پتہ تھا ناں! میں اس کے علاوہ کسی کے ہاتھ کا کھانا نہیں کھاتا۔ کتنی فکر تھی اسے میری! لیکن کیا بس آج تک کی تھی؟ اب کیا ہوگا؟ میں اور میرے بچے کیسے جئیں گے؟‘‘
ہم سب کزنز غم سے چیخیں مار کر تایا ابو سے لپٹ گئے۔ پھپھو نے دنیا کی بے ثباتی پر بات کی، احادیث سے تسلی دی۔ ہم سنتے رہے، دعائیں پڑھتے رہے،دل کا غم آنکھ کے رستے بہاتے رہے۔
٭٭٭
بات اگر نئی نہیں تو بہت پرانی بھی نہیں تھی۔ 1985 کا زمانہ تھا۔ذوالفقار راجپوت شہر کی سیاسی بارسوخ شخصیت اپنے انیس سالہ بیٹے کے رشتے کی تلاش میں سر گرداں تھے۔محترم کی زوجہ محترمہ چھوٹی بیٹی کی پیدائش پر چھےچھوٹے بچوں کو چھوڑ کر وفات پاگئیں۔ اس وقت سب سے بڑے بیٹے کی عمر پندرہ سال تھی۔ ذوالفقار صاحب نے بچوں کے لیے دوسری شادی کی، لیکن کامیاب نہ ہوئی۔ بچے زیادہ تر اپنی پھپھو کے پاس ہوتے یا وہ گھر سے فراغت پا کر کچھ وقت بھائی کے گھر کو دے جاتیں۔ چند سال آگے بڑھے تو ارادہ باندھا کہ بڑے انیس سالہ بیٹے ہی کو بیاہ دیں۔ اللہ نے چاہا تو اچھی عورت کا سکھ نصیب ہوجائے گا۔ ایک ساہو کار جو دوسرے شہر کا رہائشی تھا، کاروباری ملاقات پر اس سے اس بابت ذکر کیا۔اتفاقیہ وہ بھی عنقریب بیٹی کی شادی کا ارادہ لیے ہوئے تھے، یوں مردوں ہی کے درمیان بالا بالا ہی رشتہ طے ہوگیا۔ ان کے ہاں شادی کے لیے ایک ہی خاندان کی قید نہیں تھی، لیکن راجپوت برادری ہونا ضروری تھی۔ یہ وہ زمانہ تھا۔ راجپوت برادری کی رشتے داریاں مرد ہی طے کرتے تھے۔ رشتوں کے سودے صرف نسب، اشراف کی بنیاد پر طے کیا جاتے تھے۔رشتے کے معاملات خواتین کے ہاتھ میں نہیں تھے، اور نہ ہی ایک سو لڑکیاں رد کر کے بہو لانے کا رواج تھا۔ برادری کے بزرگوں کا کہنا تھاجب سے ان معاملات میں خواتین کا دخل ہؤا ہے، رشتے طے ہونے کا عمل پیچیدہ ہوگیا ہے۔ ذوالفقار صاحب کی زوجہ تو حیات نہیں تھیں،لیکن اکلوتی پھپھو بھی بھتیجے کی ہونے والی دلہن بارات کے دن سے پہلے نہ دیکھ سکیں۔ذوالفقار صاحب بس ایک ہی دفعہ گھر کی خاتون کو بارات کے ساتھ لے گئے۔
ذوالفقار صاحب بڑی برادری اور وسیع حلقہ احباب رکھتے تھے۔ کئی بسیں کھڑی کر دیں، لوگ دھڑا دھڑ باراتی کی حیثیت سے سوار ہونے لگےگویااجتماع عام میں جارہے ہوں۔ دلہن کے والد کا اصرار تھابارات روایتی دھوم دھڑکے سے نکلے۔یہاں سے بھی بری میں خوب سونا چڑھایا گیا۔ دلہن کے والدین کے لیے بہترین بریوہ جس میں ڈرائی فروٹ ہؤا کرتا تھا لے کر چلے۔دلہن والوں نے تواضع بکرا مُسَّلَم ،میٹھے میں کئی اقسام کی مٹھائی ،شیرا اور پیتل کے لوٹوں میں موجود اصلی گھی سے کی ۔دلہن کی پھپھی ساس دلہن کی رونمائی پر بھائی کی وجہ سے چُپکی رہیں۔
دلہن اپنے ساتھ خوب جہیز اور وزن لائیں۔ اصل ساس نہیں لیکن دادی ساس حیات تھیں۔ دھان پان سی تھیں،ریسیو کرنے آگے آئیں مگر کر نہ سکیں ہائے اوئی کر کے رہ گئیں۔
اگر چہ جوڑی پر حیف حیرانی اور چہ میگوئیاں ہوئیں۔ دادی ساس تو حسین پوتے کے لیے علانیہ معترض ہوئیں۔لیکن صبح جو دلہا میاں کو دانت نکوستے دیکھا تو ہر اعتراض اپنی راہ ہو لیا۔
دلہن نے گھر بھر کی بھاری ذمہ داری بھاری وجود کے ساتھ سنبھال لی۔ جو کام مشکل ہوئے شوہر سسر نے حل نکال دئیے۔ کھانا

پکانے کا اسٹول بنوا دیا، کپڑے دھوتے وقت پھسکڑا مار کر بیٹھنا پڑتا، لیکن کام سب کیے جاتیں۔مرد حضرات کو گھر کی عورت کا سکھ نصیب ہؤا۔ایک ایک کر کے دیورانیاں گھر آنگن میں اترتی رہیں۔ کنبے میں اضافہ ہوتا رہا۔ ملازم بھی رکھ لیے گئے۔ لیکن تائی امی سپیرئیر حیثیت سے سب کی خدمت کرتی گئیں، اپنا بڑا پن قائم کرتی گئیں۔گھر بھر کے بچے فرمائشی پروگرام تائی امی کے حضور رکھتے۔لوگ تایا ابو سے کہتے آپ مطمئن ہیں؟ تایا ابو کہتے کیا لگتا ہے؟ لوگوں کو جو لگتا تھا وہ دیکھ کر خاموش ہوجاتے۔اللہ نے یکے بعد دیگر دو دو جوڑی میں چار بچوں سے بھی نوازا۔ لیکن وقت کے ساتھ تائی امی کا موروثی مرض بڑھااور وہ کئی ایک کاموں میں غیر فعال ہوئیں۔آخر صرف کچن تک محدود رہ گئیں۔
کچھ عرصے بعد خاندان ایک اڑتی پڑتی مگر چونکا دینے والی خبر کا سامع بنا۔لیکن جب ارد گرد کے لوگوں نے تائی امی کو اس ذکر سے تکلیف دینے کی کوشش کی تو سارا سسرال کھڑا ہوگیا میاں اسلم سے سوالوں کے جواب مانگنے!پورا خاندان اپنے ہی فرد کے خلاف ہوگیا۔تائی امی آڑے آئیں، ہنگامی میٹنگ بلوائی اور کہا۔
’’میری اجازت سے ہؤا ہے۔آپ لوگ صبا کے والد سے ناراضگی ختم کریں۔ میری زندگی میں وہ میری جگہ پر نہیں آئیں گی، نہ میرا ان سے سامنا ہوگا،میری بس یہی ایک شرط تھی۔‘‘
دوسری طرف میاں اسلم نے نئی بیگم سے کہا۔
’’ہر حق برابر ملے گالیکن کچھ پابندیاں مجھ پر نہ لگانا، میں کھانا ہمیشہ شہلا کے پاس کھاؤں گا۔‘‘دوسری بیگم زمانے کی ستائی تھیں۔ جو ملا تھا توقع سے زیادہ تھا، راضی برضا ہوئیں۔یوں زندگی رواں دواں رہی۔ اس پرسکون جھیل میں پتھر شہلا کی جدائی کا تھا۔
٭٭٭
عریبہ کے بھائی کا ولیمہ تھا۔ کشف سہیلیوں کے ساتھ مہمانوں کے لیے رکھی گئی نشست پر بیٹھی تھی۔سب دوستوں کا آتے جاتے لوگوں پر تبصرے کا دل پسند مشغلہ جاری تھا۔یہ ان ہے، یہ آؤٹ، گفتگو کے درمیان ہی عریبہ کے بھائی بھابھی کی انٹری کا غلغلہ اٹھا۔
’’اللہ ! جلدی فراغت ملے ان مراحل سے اور کھلے کھانا۔ یہ انٹریاں اچھا امتحان لیتی ہیں۔‘‘ کشف نے خالی پیٹ پر ہاتھ دھر کر بھوک کی شدت کو ظاہر کیا۔
’’صبر کروبے صبری! مجھے تو یہ سب بہت اچھا لگتا ہے۔‘‘
’ہاں بہت…اچھا لگتا ہے سب کے سامنے اتناچھچھور پن!‘‘کشف افشین کی بے موقع صبر کی تلقین پرطنزیہ بولی’’کوئی طریقہ ہے مہمان کا اتنا امتحان لینا۔‘‘
’’ اف! چھوڑو… وہاں دیکھو، اتنی خوبصورت بھابھی پسند کرتے ہوئے عریبہ کو اپنے بھائی کو ذہن میں رکھنا تھا۔‘‘
’’ ششش !سن لے گی عریبہ‘‘۔
’’ اور سنو ! بہت قابل ہے اس کا بھائی… ایسے ہی حسین بنو نہیں ملی۔‘‘فائزہ نے آہستگی سے کہا۔
’’ٹھیک ہے تو پھر عریبہ جو فارمولا استعمال کر کے خود نکھری ہے، وہی اپنے بھائی جان کو بھی دے دیتی۔‘‘ زبردست قہقہہ پڑا لیکن اس کی سماعتوں کو ناگوار گزرا۔ خوب ہنس لینے کے بعد افشین نے اس کا چہرہ دیکھ کر آواز میں تاسف بھر کر کہا !’’مانو نہ مانو جوڑی بالکل اَن فٹ ہے۔‘‘
یہ جملہ تو اجنبی نہیں تھا۔ کئی ایک شادیوں میں سہیلیوں کے ساتھ، کزنز کے ساتھ، جوڑیوں پر تبصرہ کر کے وہ خود اس کی ادائی کر چکی تھی۔
لیکن ایک اَن فٹ جوڑی کو خوبصورت نباہ سے اس نے مکمل فٹ جوڑی بنتے دیکھا تھا۔
’’افشین تبصرہ محفوظ رکھو۔ یہ وقت بتائے گاجوڑی فٹ ہے یا نہیں۔ ظاہر سے کچھ پتہ نہیں چلتا کونسی جوڑی فٹ ہے۔ کبھی کبھی حسین ترین پسند کی شادی کرنے والے جوڑے کچھ وقت میں شادی ٹوٹنے سے ان فٹ جوڑی میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔ رشتوں کا نبھاؤ بتاتا ہے فٹ ہے یا ان فٹ۔‘‘ فائزہ نے سوچ سوچ کر بولتی کشف کو غور سے سنا اور ہاں میں ہاں ملائی۔
اتنی ہی دیر میں عریبہ بوفے کی طرف بلانے آئی۔
’’دوستو ! کھانا تناول فرمائیں۔‘‘

سب اٹھ کر جانے لگیں اور کشف بھوک بھول کر موبائل گیلری میں تصاویر اسکرول کرتے ہوئے اس ایک مکمل فٹ جوڑی کو سوچنے لگی۔
٭٭٭
میاں اسلم صبح اٹھے تو ذہن بالکل خالی تھا کہ کہاں ہیں۔ پھر آہستہ آہستہ سب کچھ یاد آنے لگا اور وہ جیسے خود سے ہم کلام ہوگئے۔
’’آج کی رات کتنی بھاری تھی! میری دو شادی شدہ بیٹیاں پورا دن اپنی ماں کو رو کر اپنے بچوں کے ساتھ گھر کے کسی کونے کسی کمرے میں تھیں جب کہ میں بولایا پھر رہا تھا۔شہلا کے خاص ،آرڈر پر بنے بیڈ پر بیٹھا اور دل پکڑ کر اٹھ گیا۔ شہلا کے استعمال کے اکثر فرنیچر خاص آرڈر پر ہی تیار ہوئے تھے۔ شادی کے چند سال بعد اس کا میکے کا سفر بھی ناممکن ہوگیا۔ اگر کبھی لے جانے کی کوشش کی تو گاڑی ہی معذور ہوجاتی۔لوگ اس کے وجود کو تعجب سے دیکھتے ! مجھے دیکھتے تو حیرت دو چند ہی ہوجاتی !زمانے نے ہماری جوڑی کو دیکھ کر ہمیشہ یہی کمنٹ دیا ۔
کتنی ان فٹ جوڑی ہے!
لیکن میں کہتا ہوں، جوڑی فٹ ہونا اور کیسے ہوتا ہے؟
شہلا کا وجود میرے لیے بابرکت ثابت ہؤا۔ اللہ نے مجھے اس سے اولاد دی مال میں فراوانی دی۔ اس کی مدد سے اپنے پورے خاندان کو ساتھ لے کر چلا۔ ہمارے گھر میں کوئی عورت نہیں تھی ۔وہ جب آئی تو سب کو سمیٹا پروان چڑھایا۔ بغیر عورت کے ہم سب بھائی عجیب ہوگئے تھے۔ نہ گھر کا کوئی انتظام تھا نہ حسن و تہذیب، میرے گھر کو اسی جیسی کی ضرورت تھی۔وہ ذوالفقار راجپوت کی بڑی ذمہ دار بہو اور میری ہر پل دم شناس بیوی کی حیثیت سے 180 کلو وزن کے ساتھ بالکل فٹ تھی۔ میری اس کی راج ہنس کی جوڑی تھی۔وہ جوڑے جو حسن میں برابر ٹکر کے ہوتے ہیں، ہم ان سے کہیں زیادہ آسودہ حال تھے۔ چاہتی تو اپنی بے پایاں محبت کے عوض میری دوسری شادی پر پورے خاندان کو میرے خلاف کرتیں۔ لیکن وہ تو ہر حال میں نبھانے والی خاتون تھیں، اور میں بھی تو ہر صورت نباہ کرنے والا شوہر تھا۔ میں اپنی بیوی کے ظاہر پر نہیں گیا۔ اسے دیکھ کررد نہیں کیا۔ اور اس بات نے اسے موقع دیا کہ اس کی بھرپور شخصیت اپنی اصل خوبیوں کے ساتھ کارفرما ہو۔ پھر اس نے اپنے اخلاق و کردار سے مجھے کیا سب کوجیت لیا۔ دوسری شادی ناگزیر وجوہات کی بناپر کی، لیکن شہلاکا ہر حق ادا کیا۔
توجوڑی صرف ایک صورت ان فٹ ہوتی ہے ،جب نبھاؤ نہ ہو!‘‘
٭٭٭
کشف تایا ابو تائی امی کا چچا کی شادی کا فوٹو سہیلیوں کو دکھانے لگی جس میں سہرا بندی کے وقت تائی امی صوفے پر بیٹھی تھیں اور اسی صوفے پر شوہر نامدار اور دیور صوفے پر سکڑے ہوئے تھے۔ دونوں میاں بیوی محبت سے ایک دوسرے کی طرف دیکھ رہے تھے۔ کھانے کے بعد اس نے سہیلیوں کو اپنے گھر کی جوڑی کی کہانی سنائی۔
’’ہم انسانوں کی رائے ناقص ہے ۔اوپر والا جب جوڑی بناتا ہے تو فٹ ہی بناتا ہے۔ جو نبھا نہیں کر پاتے ،جوڑی ٹوٹ جاتی ہے۔ چاہے ہر چیز میں ایک دوسرے سے مطابقت رکھیں۔‘‘
’’تو پھر ہم سب مل کر اسٹیج والی جوڑی کو کمنٹس دیتے ہیں‘‘۔
ہتھیلی کی اوک بنا کر وہ سب شرارت سے قدرے اونچا سا ایک ساتھ بولیں۔
’’جوڑی بالکل فٹ ہے!‘‘
٭٭٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x