ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

بھیگ نہ جانا کہیں – نور نومبر ۲۰۲۰

فائزہ کی ہنسی نہیں رک رہی تھی۔ اس کی آواز سن کر آمنہ بھی رسالہ چھوڑ کر وہیں چلی آئی اور فائزہ کی نگاہوں کا تعاقب کرتے ہوئے ہنسی کی و جہ جاننا چاہی۔ جیسے ہی نگاہ سامنے کے منظر پر پڑی، بے اختیار بول اٹھی۔
’’اللہ!!! تو یہ ہے ڈراپ سین! اف! کتنے دن تجسس میں مبتلا رہے ہم۔ ویسے حقائق اگر کچھ دن مزید پوشیدہ رہتے، میرے شرلاک ہومز بننے میں بس ذرا ہی کسر باقی تھی۔ سچ سچ بتاؤں تو میں اب تجسس سے زیادہ خوف کا شکار ہونے لگی تھی کہ کیا پتہ یہ کسی آسیب کی کارروائی ہو۔‘‘

٭…٭…٭

سکول سے اچانک ہی چھٹیاں ہو گئی تھیں۔ حتیٰ کہ نہم جماعت کے باقی رہ جانے والے پرچے تک ملتوی کر دیے گئے تھے۔ ایک نئی بیماری کووِڈ نائنٹین(کرونا) دسمبر میں چین سے شروع ہوئی اور پھرپورے یورپ کو اپنے شکنجے میں لیتے ہوئے ایشیا تک آ پہنچی۔ پاکستانی حکومت اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے پہلے سے تیار نہیں تھی، لہٰذا ایک دم ہی بوکھلا کر سارے تعلیمی ادارے بند کر دیے۔ بچوں کو چھٹیوں کا کام تک نہیں ملا تھا۔ فائزہ اور آمنہ نے کچھ دن تو نیند پوری کرنے میں گزارے پھر فارغ رہ کر بہت اکتا گئیں تو اپنی مدد آپ کے تحت مختلف سرگرمیاں ڈھونڈنا شروع کر دیں۔
باغبانی میں انہیں زیادہ دلچسپی نہیں تھی۔ تخلیقی لکھائی کا شوق آمنہ کو تھا جبکہ کھانے کی نئی تراکیب آزمانا فائزہ کا مشغلہ تھا۔ دونوں اپنے اپنے طور پر خود کو مصروف رکھنے کی کوشش کرتیں لیکن پھر بھی بہت سا وقت بچ جاتا۔ ایک دن صبح سویرے چھت پر چہل قدمی کرتے ہوئے فائزہ کو نیلے آسمان پر روئی کے گالوں جیسے بادل اتنے بھائے کہ اس نے اسی وقت اعلان کر دیا، آج میں ایک بہت ہی خوبصورت پینٹنگ بناؤں گی۔ آرٹ اینڈ کرافٹ ہمیشہ سے فائزہ کا شوق تھا لیکن جب سے نہم جماعت میں آئی تھی، پڑھائی کا بوجھ اتنا زیادہ ہو گیا تھا کہ وہ دوسرے سب شوق نہ چاہتے ہوئے بھی نظر انداز کر رہی تھی۔
آج اتنے مہینوں بعد رنگ اور برش نکالے تو بیشتر رنگ سوکھ چکے تھے، برش اکڑے ہوئے تھے۔ اسے رونا ہی تو آ گیا ۔لیکن وہ اتنی آسانی سے ہمت ہارنے والوں میں سے نہیں تھی۔ اس نے اپنے منصوبے میں کچھ تبدیلی کرتے ہوئے گوگل سے مدد لی۔ رنگ برنگے چارٹ اور کارڈ نکالے اور کام میں لگ گئی۔ ایک بڑا سا بادل سفید چارٹ کی مدد سے بنایا۔ پھر اس پر دو سفید گول دائرے چپکا دیے۔ یہ دائرے ابھرے ہوئے تھے کیونکہ ان کے نیچے کارڈ کی مدد سے پتلے چھلّے (ring) بنا کر چپکائے گئے تھے۔ سیاہ مارکر سے ایک لکیرایسے کھینچی کہ بادل مسکراتا ہوا نظر آتا۔
پھر اس نے رنگ برنگے کاغذ لیے۔ ایک رنگ کے کاغذ سے ایک ہی سائز کے چھ چھوٹے دائرے بنائے اور ہر دائرے کو دو بار یوں تہہ کیا کہ وہ چوتھائی دائرے (quarter circle ) کی طرح نظر آنے لگا۔ اب گوند کی مدد سے ان دائروں کو آپس میں یوں جوڑا کہ سب مل کر ایک چھتری کی طرح دکھنے لگے۔ آخری سروں کو جوڑتے وقت دھاگہ بندھا ٹوتھ پک بھی اندر رکھ دیا۔ اب دھاگے کو پکڑتے تو یوں لگتا اس کے ساتھ چھتری لٹک رہی ہے اور ٹوتھ پک چھتری کے دستے (handle) کا کام دیتا۔ فائزہ نے مختلف رنگوں کی ایسی کئی چھتریاں بنا کر بادل کے ساتھ لٹکا دیں۔ بے حد خوبصورت مسکراتا شرارتی بادل تیار تھا جو اپنے ساتھ رنگی برنگی چھتریاں لٹکائے ہوئے تھا۔ مکمّل کرنے کے بعد اس نے اسے اپنے کمرے میں دیوار پر لگا دیا۔
آمنہ سو کر اٹھی تو بادل اسے دیکھ کر مسکرا رہا تھا۔ وہ بھی مسکرا دی اور فائزہ سے کہنے لگی،
’’ایک دم زبردست بنا ہے! لیکن یہ بات سمجھ میں نہیں آ رہی کہ بادل تو خود برسا کرتے ہیں، چھتریاں ان کے کس کام کی؟ چھتریوں کی ضرورت تو انہیں ہوتی ہے جن پر یہ برستے ہیں۔‘‘
’’ہوں، نکتہ تو تم نے اچھا اٹھایا ہے، میری پڑھاکو بہن۔ ہو سکتا ہے بادل یہ چھتریاں اس لیے ساتھ لیے پھرتا ہے کہ جن غریبوں کے پاس بارش سے بچنے کے لیے کوئی چھتری نہ ہو، انہیں دے دے۔‘‘
’’یعنی تم اپنے بادل کو وہ نیک دل شہزادہ ثابت کرنا چاہتی ہو جس نے ابابیل کے ذریعے اپنے سب قیمتی پتھر ایک ایک کر کے غریبوں، بیماروں اور ضرورت مندوں میں بانٹ دیے تھے۔‘‘
’’ہونے کو کچھ بھی ہو سکتا ہے۔‘‘

٭…٭…٭

اگلی صبح وہ دونوں چھت پر واک کر کے نیچے آئیں۔ جیسے ہی کمرے میں داخل ہوئیں ،ان کا دل دھک سے رہ گیا۔ سامنے کی دیوارپرسجے بادل کی ایک چھتری غائب تھی۔
’’کس نے میرے بادل کا یہ حشر کیا ہے… مانو نہ مانو… یہ ضرور حارث ہو گا… پوچھتی ہوں ابھی اس سے…‘‘ فائزہ روہانسی ہو رہی تھی۔ جیسے ہی اس نے امی ابو کے کمرے کا رخ کیا، آمنہ نے اس کا دوپٹہ کھینچ کر روک دیا:
’’کیا ہو گیا ہے فائزہ،حارث تو سو رہا ہے۔‘‘
’’اب سو رہا ہے نا۔ یہ واردات اس نے یقینًا رات کو کی ہو گی۔ اسے چھتریاں اتنی پسند آئی تھیں کہ مجھ سے کہہ رہا تھاآپی، ایک مجھے دے دو۔ جب میں نے نہیں دی تو اس نے چرا لی۔‘‘
’’فائزہ، ہوش میں تو ہو۔ حارث کا ہاتھ اس بادل تک یونہی نہیں پہنچ سکتا اور دیکھو کمرے کی کوئی کرسی یا میز اپنی جگہ سے نہیں ہلی ہوئی اور پھر اس سے بھی اہم یہ کہ ابھی ایک گھنٹہ قبل جب ہم چھت پر گئے تھے، چھتریاں پوری تھیں۔‘‘
’’تو آؤ فرش پر دیکھتے ہیں۔ شاید گر گئی ہو اور ہوا سے ادھر ادھر کہیں فرنیچر کے نیچے چلی گئی ہو۔‘‘
’’کون سی ہوا، فائزہ؟ اے سی اور پنکھا ہم بند کر کے گئے تھے۔ ہاں، کھڑکی ضرور کھلی ہے لیکن باہر کوئی زیادہ ہوا تو نہیں چل رہی۔ خیر، تم فرنیچر کے نیچے چیک کر کے اپنی تسلی کر لو۔‘‘
چھتری نے نہ ملنا تھا، نہ ملی۔
اگلی صبح ان کی آنکھ دیر سے کھلی۔ واک تو رہ گئی تھی۔ نماز فجر قضاء پڑھ کر وہ دونوں باورچی خانے میں چلی گئیں۔ آج کل وہ امی کو تنگ کرنے کے بجائے اپنا ہلکا پھلکا ناشتہ خود ہی بناتی تھیں۔جانے سے قبل اے سی بند کر کے کمرے کا دروازہ اور کھڑکی کھول دی تاکہ تازہ ہوا کا گزر ہو جائے۔ ناشتہ کر کے چائے کے مگ اٹھائے وہ کمرے میں داخل ہوئیں تو سامنے والی دیوار کو گھورتی ہی رہ گئیں… چند لمحوں تک دونوں میں سے کوئی بھی کچھ نہ بول سکا۔ بالآخر فائزہ بولی…
’’آج اکٹھی دو چھتریاں غائب ہیں۔ کک… کک…کون ہمارے کمرے میں ہماری غیر موجودگی میں آتا ہے؟‘‘
’’یہ حارث تو کم از کم نہیں ہو سکتا۔ وہ تو کل بھی کہہ رہا تھا، آمنہ آپی، میں جھوٹ بولتا ہوں نہ چوری کرتا ہوں۔ اگر مجھے چھتری چاہیے ہو گی تو میں فائزہ آپی سے کہہ کر اور بنوا لوں گا۔ اور پھر اس وقت تو ہم دونوں کے علاوہ کوئی بھی اس جانب نہیں آیا۔‘‘
آمنہ نے جلدی سے حارث کی صفائی پیش کی۔
’’تم ٹھیک کہتی ہو، آمنہ، یہ کوئی اور چکر ہے۔ شاید چور اس کھڑکی سے داخل ہوتا ہو۔‘‘
فائزہ نے کھڑکی سے سر نکال کر جائزہ لینے کی کوشش کی۔ کھڑکی باغیچے کی جانب کھلتی تھی۔ یعنی چور کو کھڑکی کے راستے کمرے میں داخل ہونے سے قبل ان کے گھر میں داخل ہونا پڑتا تھا۔
’’اچھا، فی الحال تو میں اس بادل کو یہاں سے اتار رہی ہوں۔ نہ رہے گا بانس، نہ بجے گی بانسری۔‘‘
’’نہیں نہیں، فائزہ، یہ غضب نہ کرنا۔ اسے اتار لو گی تو ہم چور کو کیسے پکڑیں گے؟‘‘
’’چور کو ہم کسی بھی طرح نہیں پکڑ سکیں گے۔ وہ کافی سمارٹ معلوم ہوتا ہے۔‘‘
’’میرے پاس ایک طریقہ ہے۔ ہمیں نگرانی کرنا ہو گی۔ آئندہ ہم دونوں ایک ساتھ کمرے سے باہر نہیں نکلیں گی۔ کوئی ایک یہیں موجود رہے گا۔‘‘
’’چلو، یہ بھی کر کے دیکھ لیتے ہیں۔‘‘
ان کی انتہائی کوشش کے باوجود بھی ان سے چْوک ہو جاتی رہی اور اس طرح مزید دو چھتریاں اڑا لی گئیں۔ سات میں سے اب صرف دو باقی بچی تھیں۔
اگلے دو دنوں میں وہ بھی جاتی رہیں۔ فکر تو یہ لگ گئی تھی کہ جو چور آ کر یہ ننھی چھتریاں لے جا سکتا ہے، وہ مزید کوئی نقصان بھی کر سکتا ہے۔ لیکن سوال یہ بھی پیدا ہوتا تھا کہ یہ ننھی چھتریاں لے جانے والے کا مقصد کیا ہو سکتا ہے؟ چوری کسی مالی یا سیاسی فائدہ کے لیے کی جاتی ہے ورنہ کون اپنی جان خطرے میں ڈالتا ہے؟ ہو سکتا ہے اس عمل کا مقصد محض خوفزدہ کرنا اور اعصاب کا امتحان لینا ہو۔
شرارتی بادل کی ساری چھتریاں چھن گئی تھیں لیکن وہ اب بھی مسکراتا تھا گویا کہتا ہو، صرف پانا ہی زندگی نہیں، کھونا بھی زندگی کا حصہ ہے۔ میں بہت مضبوط ہوں، ہاروں گا نہیں۔ شاید یہ بادل کا حوصلہ ہی تھا جو غیر محسوس طریقے سے فائزہ اور آمنہ تک بھی منتقل ہو گیا تھا۔ وہ بھی چوری کے واقعے کو بھلا کر دوسری مصروفیات میں لگ گئی تھیں جن میں سے ایک بڑی مصروفیت پڑھائی کی تھی کیونکہ آن لائن کلاسز شروع کر دی گئی تھیں اور طالب علموں کو ہفتہ وار کام بھی ملنے لگا تھا۔

٭…٭…٭

یہ کم و بیش دو ہفتے بعد کی بات ہے۔ اس دن موسم بہت سہانا تھا۔ پہلے ہوا چلی، پھر گھنے بادل آئے اور پھر بارش برسنے لگی۔ گیلی مٹی کی خوشبو، بارش کی ٹپ ٹپ اور کھڑے ہوئے پانی میں بنتے مٹتے دائرے فائزہ کی کمزوری تھے۔ وہ آمنہ کو رسالہ پڑھتے چھوڑ کر، ٹیرس پر آ کھڑی ہوئی۔ بارش کی چادر ابھی اتنی دبیز نہیں ہوئی تھی کہ مناظر دھندلا جاتے۔
اچانک فائزہ کی نگاہ سامنے والے گھر کے روشن دان پر پڑی۔ یہ گھر ایک عرصے سے بند پڑا تھا۔ لیکن اب تو وہاں ایک پورا خاندان آ کر آباد ہو چکا تھا۔ پرندوں کا خاندان۔ ننھے ننھے چار بچے ماں کی نگرانی میں محاذ پر جانے والے سپاہیوں کی طرح تیار کھڑے، رنگ برنگی چھتریوں کو کسی ہتھیار کی مانند تھامے ہوئے تھے۔ بارش میں نہانے کی تیاری ہو رہی تھی یا شاید کوئی مہم درپیش تھی۔ اچک اچک کر دیکھنے کے باوجود فائزہ اور آمنہ کو بچوں کا باپ نظر نہیں آیا۔ شاید وہ باہر گیا تھا اور اب کہیں رک کر بارش کے تھمنے کا انتظار کر رہا تھا۔
چور یا شاید چورنی کا سراغ لگا لیا گیا تھا لیکن فائزہ اور آمنہ کو ان پر ذرا بھی غصہ نہیں آیا۔ آنے والے برسات کے موسم کے لیے بچوں کو تیار کرنا سب اچھے والدین کی ذمہ داری تھی اور ان خوبصورت پرندوں کی خوش ذوقی پر فائزہ کو بڑا رشک آیا۔ ان کا نام آمنہ کو پتہ تھا نہ فائزہ کو۔ انھوں نے تصاویر بنا لیں تاکہ گوگل کے ریورس امیج سرچ سے مدد لے کر ان پرندوں کے بارے میں مزید جان سکیں۔
فائزہ کو شہزارے کی طرح کسی ابابیل کا سہارا لینے کی ضرورت ہی پیش نہیں آئی تھی۔ چھتریوں کے خواہش مند خود آ کر چھتریاں لے گئے تھے۔

٭…٭…٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x