ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

کلامِ اقبال کے عوامی افق – بتول اپریل ۲۰۲۲

شاعری میں اقبال کی وحدت نگاری
سماجی شیرازہ بندی کا ایک دشوار ترین لیکن بے حد سہانا عمل
کسی انسانی معاشرہ کے افراد کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کردینے کی تجویز کو آپ شیرازہ بندی کا نام دے سکتے ہیں ۔ اور جب یہ افراد جمع ہونے لگیں اور ان میں یگانگت پیدا ہونے کے لیے امکانات نظر آنے لگیں تو ان امکانات کو آگے بڑھانے کے لیے شاعری میں بیان کرنے کو آپ وحدت نگاری کا نام دے سکتے ہیں ۔ جی ہاں وحدت نگاری کی اصطلاح خاص میری وضع کردہ ہے اور یہ بات میں ابتدا ہی میں واضح کردوں کہ اس اصطلاح کا تعلق توحید سے براہِ راست بالکل نہیں ہے ۔ یوں اقبال کا کلام ہو اور آپ تو حید کی کوئی بات کردیں تو یہ کوئی عجیب بات بھی نہیں کہی جا سکتی…لیکن وحدت نگاری کا تعلق اگر قطعی طور پر عمرانیات سے قرار دیا جائے تو میں سمجھوں گا آپ نے میری بات سمجھ لی ہے ۔ لہٰذا وحدت نگاری کی اصطلاح میں نے یہاں اس لیے وضع کی ہے کہ ایک تو میں یہ ثابت کروں کہ کلام اقبال کا اصل تعلق ایک انسانی معاشرہ کے عام افراد سے ہے اور اس میں کسی قسم کے طبقاتی شعور کا کوئی براہ راست عمل دخل نہیں …دوسرے اقبال پوری عدل گستری اور انصاف کے ساتھ سمجھتا تھا کہ اگر آج کے جدید انسان کے مسائل کا کہیں حل موجود ہے تو وہ صرف اور صرف اسلام کے پاس ہے ۔ اسلام جس طرح انسان کے مسائل کا کہیں حل موجود ہے تو وہ صرف اور صرف اسلام کے پاس ہے ۔ اسلام جس طرح انسان کو خالصتاً انسان کی حیثیت سے دیکھتا ہے اس طرح نہ کوئی دوسرا مذہب دیکھتا ہے اور نہ کوئی دوسرا معاشرتی نظام۔ اس لیے اپنے مسلمان ہونے پر اقبال کو علم و بصیرت کے ساتھ نہایت روشن فکری کے حوالے سے یقین تھا ۔ اقبال نے اپنی شاعری کے ذریعے ایک ایسے کردار کودنیا کے لوگوں کے سامنے پیش کیا کہ اگر وہ اس کردار کو اپنا لیں تو کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ آج کے انسان کے جملہ مسائل کا حل نہ نکل آئے۔بظاہر میری یہ بات نقد و نظر کی زبان میں محسوس نہ ہوتی ہو کیونکہ اگر اس طرح جلدی سے انسانی مسائل حل ہونے لگیں تو پھر جھگڑا کس بات کا ہے ۔ لیکن میں سمجھتا ہوں یہاں اقبال نے جدید ترین عمرانیات کے اصولوں کو اپنے سامنے رکھا ہے اور بتایا ہے کہ جس طرح آج کا انسان بکھر کر رہ گیا ہے اس کو مجتمع کرنے کا صرف یہی حل نظر آتا ہے ۔
میں اس بات کو ایک واقعہ کے ذریعے سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں میرے دوست رائے منصب علی خاں ہیں ۔ ویسے تو یہ سیاست کے میدان کے مرد مجاہد ہیں لیکن چونکہ شعر و ادب سے بھی انہیں خاص تعلق ہے اور اسی خاص تعلق کے باعث وہ میرے دوست بھی بنے ایک دن مجھ سے کہنے لگے ’’ مشکور، میں جب بھی اقبال کو پڑھتا ہوں مجھے ایک عجیب ساخو شگواراحساس ہوتا ہے ‘‘۔ میں نے پوچھا ’’ فرمائیے وہ خوشگوار احساس کس طرح کا ہوتا ہے اور کس طرح ہوتا ہے ‘‘۔ کہنے لگے ’’ بس یوں لگتا ہے جیسے اقبال کے شعر پڑھ کر میں اپنے آپ میں اکٹھا اور مجتمع سا ہو گیا ہوں ۔
’’ یہ حالت پہلے نہیں ہوتی ؟‘‘
’’بالکل نہیں … غالباً زندگی کی گو نا گو مصروفیات اکثر مجھے بکھیرے رکھتی ہیں ‘‘۔
’’ کیا ایسا احساس آپ کو غالب اور میر پڑھ کر نہیں ہوتا؟‘‘
’’ برا نہ ماننا بالکل نہیں ‘‘۔
’’ میں برا کیوں مانوں گا ‘‘۔
’’ اس لیے کہ آپ غالب اور میر کے خاص مداح ہیں ‘‘۔
’’ نہیں جناب میں تو اقبال کا بھی خاص مداح ہوں ‘‘۔
’’ وہ تو میں دیکھ رہا ہوں ۔ پھر بھی چونکہ آپ کی ابھی تک کوئی کتاب اقبال پر نہیں آئی اس لیے میں نے اس جسارت کے ساتھ بات کی ہے ‘‘۔
’’ ہاں تو پھر اقبال کو پڑھ کر آپ اپنے آپ کو تو انا محسوس کرتے ہیں ‘‘۔
’’توانائی کی بات الگ ہے بلکہ توانائی سے بڑھ کر کوئی چیز وقوع میں آتی ہے‘‘۔
اصل میں رائے منصب علی اقبال کے ایک عام قاری کے طور پر بات کر رہے تھے اور میںچاہتا بھی یہی تھا کیونکہ میں نے خود بھی اکثر اسی طرح محسوس کیا ۔ اور پھر جب ڈاکٹر علی شریعتی کی ’’ ماواقبال‘‘ کو پڑھا تو اپنے اس تجربے کی صداقت پر مجھے مزید اعتماد حاصل ہؤا۔ ویسے جس زمانے میں اقبال اپنے مسلمان معاشرے کے ایک ایک فرد کو مجتمع کرنے کی سعی میں مصروف تھے اس وقت مسلمانوں کی حالت اسلام کے حوالے سے کس طرح کی تھی اس کا نقشہ خود ڈاکٹر علی شریعتی نے بہت عمدہ کھینچا ہے۔ میں ان کی یہ متعلقہ عبارت یہاں پیش کر رہا ہوں :
’’جس چیز نے مکتب اسلام کو انقلابی اعمال اور زندگزگی کی سر گرمیوں سے محروم کر دیا ہے وہ اسلامی ڈھانچے کا بکھر جانا ہے نہ کہ اس کا ختم ہو جانا … مکتب اسلام تو اپنی جگہ پر باقی ہے ( جس کے دھوکے میں آج بھی مسلمان اپنے آپ کو پکے مسلمان سمجھتے ہیں )مگر اس کے اجزاء آپس میں درہم برہم ہو گئے ہیں بالکل اسی طرح جیسے میں تو باقی رہوں مگر میرے ہاتھوں کو کاٹ کر ایک جگہ لے جایا جائے دوسری جگہ میرا سر جدا کرکے کہیں پہنچا دیا جائے ۔ میری آنکھیں کہیں اور میرے دل کو کہیں دماغ کہیں … میں یوں کلی طور پر موجود تو رہا ختم نہیں ہؤامیرے ٹکڑے ٹکڑے اعضاء کی لوگ تعظیم بھی کریں گے مگر میرے لیے یہ ممکن نہیں ہوگا کہ میرے اندر زندگی اور حرکت ہو ۔ کیونکہ میں صحیح معنی میں زندہ نہیں ہوں ‘‘۔
اور یہی وہ ہماری دینی صورتِ حال ہے جس کے لیے اقبال نے اپنی شاعری میں وحدت نگاری کا عمل شروع کیا اور ہمارے معاشرے کے ایک ایک فرد کو اپنی شاعری میں ایک نمونہ بنا کر پیش کیا ۔ اقبال کے کلام کو پڑھ کر قاری پر اس کے مطالعہ کا جو مجموعی اثر پڑتا ہے وہ یہی تو کردار کی جامعیت ہے جس کی وجہ سے وہ اپنے آپ کو مجتمع محسوس کرتا ہے… کلام اقبال کے مطالعہ سے ایک دفعہ تو قاری کو یوں لگتا ہے جیسے وہ جو کہیں الگ الگ بکھر سا گیا تھا یکا یک اکٹھا ہو گیا ہے … عمرانیات کے مطابق جو کام ایک معاشرے کے چند اعلیٰ حساس ، با شعور اور درد مند اہلِ دانش کرتے وہ کام بعض اوقات اقبال کا ایک شعر کر جاتا ہے ۔ کہتے ہیں کہ اقبال نے جو اپنی شاعری میں مومن کا کردار تخلیق کیا ہے وہ مثالی کردار ہے حالانکہ ایسی بات نہیں ہیں ۔ چونکہ ہم مسلمان اپنے دینی کردار سے غافل ہوگئے ہیں اس لیے ہمیں وہ باتیں مثالی نظر آتی ہیں جو ایک سیدھے سادے مسلمان کی روز مرہ زندگی میں عام دیکھنے میں آتی تھیں اور جو آج بھی روز مرہ زندگی میں عام نظر آنی چاہیں … ضرب کلیم کی ایک مشہور نظم ہے جس کا عنوان ’’ مردِ مسلمان‘‘ ہے اس عنوان کے ساتھ اقبال نے کوئی اور دوسری صفت نہیں لگائی۔ آپ نے ٹی وی پر یہ اکثر سنی ہو گی اور اس کی جامعیت کو محسوس کیا ہوگا۔
آپ اپنے طور پر اس نظم کو پڑھ کر ہزار کہتے رہیں اس میں اقبال نے ایک مسلمان کا کردار مثالی بنا کر پیش کیا ہے۔ ذرا غور کریں گے تو آپ کو محسوس ہوگا کہ ایسی بات نہیں ہے ۔ بات وہی ہے کہ ہم نے بطور مسلمان اپنے آپ کو بھلا دیا ہے ۔ اس نظم کے پہلے شعر کو لیجیے اس میں ایک مرد مسلمان کو اقبال نے اگر مومن کہا ہے تو آپ اس حقیقت کو کس طرح جھٹلا سکتے ہیں کہ آدمی دل سے مسلمان ہوگا تو سب سے پہلے وہ اللہ اور اس کے رسولؐ پر ایمان لائے گا لہٰذا مومن تو ہر مردِ مسلمان ہوتا ہے ۔ اب نظم کے پہلے شعر کو پیش کرتا ہوں ۔
ہر لحظہ ہے مومن کی نئی شان نئی آن
گفتار میں کردار میں اللہ کی برہان
جیسے ہی کوئی اللہ پر صدق دل سے ایمان لاتا ہے اسے اپنی زندگی کا ہر لمحہ ایک نئی شان اور ایک نئی آن لیے ہوئے اس وجہ سے نظر آتا ہے کہ اللہ پر یقین اور ایمان آدمی کے دل میں سے بہت سے توہمات کو چشم زدن میں دور کر دیتا ہے ۔ وہ سمجھتا ہے اب اس کی زندگی تھوڑی نہیں ہے اگر اس دنیا کی زندگی تھوڑی ہے تو دوسری دنیا کی زندگی کبھی ختم نہ ہونے والی ہے ۔اس احساس کے ساتھ وہ اپنی اس دنیا کی زندگی کو اپنے اس یقین کے زور پر زیادہ بہتر طریقے سے گزارنے کا رادہ کرتا ہے اور اس ارادے کے ساتھ ہی اس کے قول و فعل یعنی گفتار اور کردار میں ایک انقلاب آفریں کیفیت پیدا ہو جاتی ہے ۔ جو یقین کے باعث ایک دلیل اور برہان کی صورت میں سامنے آتی ہے ۔ یعنی یہ سب کچھ معمول کے مطابق ہوتا ہے۔
اب دوسرا شعرلیجیے:
قہاری و غفاری و قدوسی و جبروت
یہ چار عناصر ہوں تو بنتا ہے مسلمان
قہاری دشمنانِ خدا کو مغلوب کرنے کی طاقت ۔ غفاری ، قصور کرنے والوں کو معاف کرنے کی عادت قدوسی ، گناہوں سے پاک ہونے کی شان ۔ جبروت بزرگی و عظمت … مطلب یہ ہے کہ دشمن کو دبانے کی طاقت، دغا کرنے والوں کو معاف کرنے کی عادت ، گناہوں سے پاکیزگی اور عظمت و بزرگی یہ چار چیزیں اگر ایک شخص میں جمع ہو جائیں تو سمجھ لو کہ وہ صحیح معنی میں مسلمان ہے ۔
بظاہر یہ چار صفات بہت بڑی نظر آتی ہیں لیکن مسلمان یعنی وہ شخص جو اللہ کی بڑائی کو دل سے تسلیم کرتا ہے اس کے لیے ان چار صفات کو جذب کرنا کوئی بڑی بات نہیں رہ جاتی جو شخص اللہ کا قائل ہے سمجھ لو وہ زندگی کے کبھی نہ ختم ہونے کا قائل ہو جاتا ہے اور یوں ایسے شخص کے سامنے انسانی کردار کی عظمت ایک معمولی بات بن جاتی ہے … تیسرا شعر یوں ہے…
ہمسایۂ جبریلِ امیں بندۂ خاکی
ہے اس کا نشیمن نہ بخارا نہ بد خشاں
اللہ کی عظمت کے قائل بندے میں بہت سی عظمتیں خود بخود پیدا ہو جاتی ہیں اب وہی خاکی بندہ ہے مگر جبریل اس کا ہمسایہ بن جاتا ہے یعنی زندگی کی عام پستیوں سے وہ بلندی پر جاتاہے ۔ اور اس طرح اس کے لیے ساری دنیا اس کا نشیمن اس کا ٹھکانہ اور اس کا وطن بن جاتی ہے ۔ وطن کے عام تصور سے بلند ہونا آج کی ترقی یافتہ دنیا میں بھی آسان نظرنہیں آتا ۔ کیونکہ جتنا آدمی مادی طاقتوں پر حاوی ہوتا جا رہاہے اسی قدر لالچی بھی زیادہ ہوتا جا رہا ہے لیکن جو اللہ کا قائل ہوتا ہے اس کے لیے ساری دنیا کے لوگ اس کے بھائی بند ہیں اس کے لیے اپنے ہیں ۔ پھرجغرافیائی حدود کیا معنی رکھتے ہیں ۔ ساری دنیا اس کے لیے ایک ہو جا تی ہے ۔
چوتھا شعر ہے :
یہ راز کسی کو نہیں معلوم کہ مومن
قاری نظر آتا ہے حقیقت میں ہے قرآن
اللہ کو مان لینے سے یعنی مومن بن جانے سے آدمی کی پوری ذات اس کی ہر سانس اللہ اللہ پکارتی ہے تو گویا سارا قرآن اس کی ذات میں اتر جاتا ہے… قرآن کا اصل مطلب تو اللہ پر ایمان لانا ہی ہے اور جب کوئی اللہ پر ایمان لے آتا ہے تو وہ ایک طرح خود قرآن بن جاتا ہے ۔ لیکن یہ راز اسی وقت آدمی پر کھلتا ہے جب وہ صحیح معنی میں اللہ پر ایمان لے آتا ہے…اس سے پہلے وہ قرآن کو اور اپنی ذات کو الگ ہی خیال کرتا ہے…گویا اب یہاں بھی وحدت پیدا ہو جاتی ہے ۔
پانچواں شعر بھی لے لیجیے:
قدرت کے مقاصد کا عیار اس کے ارادے
دنیا میں بھی میزان قیامت میں بھی میزان
اور اس بندۂ مومن کے عزائم اور ارادے اس کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوتے کہ وہ خیر کی قدرت اور طاقت کو آگے بڑھائیں ۔ اب چونکہ نیکی اور خیر صرف اس دنیا تک محدود نہیں ہوتی اس لیے اس طرح کا بندہ دنیا میں بھی بڑے سوچ سمجھ کر اور ناپ تول کر قدم آگے بڑھاتا ہے اور آگے دوسری دنیا میں بھی اس کا یہ ناپ تول اسے آگے بڑھاتا چلا جاتا ہے۔
چھٹاشعریوں ہے :
جس سے جگرِ لالہ میں ٹھنڈک ہو وہ شبنم
دریائوں کے دل جس سے دہل جائیں وہ طوفان
اس شعر سے پہلے جو مومن کی شان بیان کی گئی تھی اس سے یہ احساس ہوتا تھا جیسے مومن کا کردار کچھ بہت ہی زیادہ خشک سا ہے لیکن ایسی بات نہیں اس شعر نے ہمیں یہ بتایا کہ مومن کے کردار میں اس قدر نرمی اور ملائمت ہوتی ہے کہ وہ پھولوں کی ذات میں بھی اوس کے قطروں کی طرح ٹھنڈک پہنچاتی ہے … مگر پھر وہی بات اس طراوت کے معنی ہلکے نہیں لینے چاہئیں ۔ مومن کے کردار کی تازگی طوفان بھی برپا کر سکتی ہے ۔اور اس سے اگلا شعر مومن کے کردار کو اس طرح پالش کرتا ہے کہ جس کو دیکھ کر نگاہیں خیرہ ہونے لگتی ہیں لیکن دلوں کو لطف بھی بہت حاصل ہوتا ہے ۔
فطرت کا سرودِ ازلی اس کے شب و روز
آہنگ میں یکتا صفتِ سورۂ رحمن
اس شعر میں ایک مسلمان کی زندگی کو جس طرح مجتمع کیا ہے جس طرح ایک مسلمان کے روز مرہ کے کردار کی تصویر کشی کی ہے اسے آپ عمرانیات کی رو سے کسی مثالی انسانی معاشرہ کا فرد کہیں تو مجھے کوئی اعتراض نہیں لیکن یہ مثالی فرد ایک مسلمان معاشرہ کا عام فرد ہوتا ہے بشرطیکہ معاشرہ واقعی مسلمان معاشرہ ہو ۔ ہاں تو اس زیر بحث شعر میں اقبال کہہ رہا ہے کہ ایک مرد سلطان کے رات دن ایک طرح سے زندگی کا ایک نغمہ ہوتے ہیں جو ازل سے گایا جا رہا ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ رات دن کوئی آج کی بات تو نہیں یہ تو صبح ازل چلے آ رہے ہیں ۔ اسی لیے ایک مردِ مسلمان کے کردار کا مدو جزر ایسا ہی ہے جیسا کہ سورۂ رحمن میں مختلف انعامات الٰہیہ کا ذکر کرتے ہوئے آخر میں پوچھا جاتا ہے تم کس کس نعمت کو جھٹلائو گے ۔ کس کس نعمت کا شکریہ ادا نہ کرو گے ۔
فَبِاَیِّ اٰلَائِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبَانْ
مطلب یہ ہے کہ جس طرح سورۂ رحمن میں مختلف انعامات ِ الٰہیہ کا ذکر کرنے کے بعد یہ آیت آتی ہے اور ہمیں ان نعمتوں کے یکجا ہونے کے احساس کے ساتھ ساتھ خود اپنے آپ میںہمیں یکجا ہونے کا احساس دلاتی ہے ۔ بس ایک مرد مسلمان کی زندگی اس طرح مجتمع ہوتی ہے ۔ اور ایک مسلمان کا اس طرح اپنی ذات میں اکٹھا ہونا ایسا زندگی افروز آہنگ یکتا ے کہ جس کی مثال اور کہیں نظر نہیں آتی۔ مجھے تو یوں نظر آتا ہے کہ اقبال کی تمام شاعری ( بانگ درا کی ابتدائی شاعری کو چھوڑ کر ) مسلمانوں کو مجتمع کرنے کی شاعری ہے ۔ مجتمع کرنے کی یہ لے فارسی کلام میں زیادہ پائی جاتی ہے ۔ جبکہ بانگ درا سے لے کر بال جبریل ضرب کلیم سے ارمغانِ حجاز تک پہنچتے پہنچتے اردو کلام میں بھی اس لے کی شدت صاف نظر آتی ہے ۔ اقبال مسلمانوں کو اور مسلمانوں کی معرفت دنیا کے انسانوں کو جس طرح مجتمع کرنے میں شب و روز مصروف رہے اور بڑی درد مندی کے ساتھ مصروف رہے یہ کوئی کہنے کی بات نہیں ۔ میں تو سمجھتا ہوں اقبال کا تمام کلام اس وحدت نگاری کا بین ثبوت ہے ۔ جس کی مثال ہمیں کسی دوسرے شاعرکے ہاں قعطی نظر نہیں آتی ۔ پھر مسلمانوں کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے میں جس دانش کا ہاتھ رہا اقبال اس کو بھی خوب سمجھتے تھے :
افرنگ زخود بے خبرت کرد وگرنہ
اے بندۂ مومن تو بشیری تو نذیری
افرنگ نے تجھے اپنے آپ سے بے خبر کر دیا ورنہ اے بندہـ مومن تو اپنی ذات میں پوری انسانیت کو خوشخبری دینے والا بھی ہے اور غلط قدم اٹھانے سے خبر دار کرنے والا بھی ۔مطلب یہ ہے کہ اقبال کو اچھی طرح معلوم تھا کہ مسلمانوں کو پارہ پارہ اور ٹکڑے ٹکڑے کرنے میں جس چیز کا سب سے بڑا ہاتھ ہے وہ مغرب کا فلسفہ و دانش ہے ۔ ورنہ مسلمان کی ذات میں زندگی کی مثبت اور منفی قوتیں اچھی طرح اکٹھی ہیں جن کے امتزاج سے ایک انسانیت افروز معاشرہ آسانی کے ساتھ وجود میں آ سکتا ہے ۔ لہٰذااس وقت دنیا کو جس کردار کی ضرورت ہے اور جو حق پر سچائی پر خود چلنے والا اور دوسروں کو چلانے والا ہے وہ اس طرح کا ہو سکتا ہے ۔
دنیا کو ہے اس مہدیٔ برحق کی ضرورت
ہو جس کی نگہ زلزلۂ عالم افکار
ساری بات غلط سوچ کی اور غلط افکار کی ہے جو آج کل بہت عام ہیں ۔ان کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی ضرورت ہے ۔آج کے عالم افکار میں زلزلہ لانا پوری انسانیت کو راہ پر لانے کے مترادف ہے اور اس کا مطلب یہ ہوگا کہ پوری انسانیت میں وحدت پیدا ہو جائے گی ۔لیکن آپ یہ سن کر شاید حیران ہوں کہ غلط قسم کے عالم افکار میں زلزلہ لانے والی چیز بھی عقل سے بڑھ کر محبت ہے۔ محبت کے بغیر آپ اپنی فکری صلاحیتوں کو بھی صحیح راہ پر نہیں لگا سکتے ۔غلط فکر کی بنیاد بھی اصل میں انسان کا لالچ اور ہوس ہے ۔ لالچ نہ ہو تو آدمی غلط نہیںسوچتا۔ سارا تفرقہ ہوس کا ہے اسی لیے اقبال للکار کر کہتے ہیں :
ہوس نے کردیا ہے ٹکڑے ٹکڑے نوع انساں کو
اخوت کا بیاں ہو جا محبت کی زباں ہو جا
آپ کو یہ معلوم ہی ہوگا کہ یہ شعر اقبال کی مشہور نظم ’’ طلوعِ اسلام‘‘ میں سے ہے لیکن دیکھ لیجیے اقبال کس طرح اسلام کو پوری انسانیت کی فلاح و بہبود کا ذریعہ سمجھتا ہے ۔ اور اسی بند کا یہ شعر بھی ہے جہاں اقبال کھل کر مسلمان کو انسانیت کا پیغام دے رہا ہے ۔
غبار آلودۂ رنگ و نسب ہیں بال و پر تیرے
تو اے مرغِ حرم اڑانے سے پہلے پرفشاں ہو جا
اڑنے سے پہلے پر فشاں ہو جا کا مطلب آپ سمجھتے ہیں نا ، یہ ہے کہ اے مسلمان تو جب ترقی کے لیے قدم اٹھائے تو تیرے ذہن میںپورے عالم انسانیت کا ارتقا ہونا چاہیے ، تجھے ترقی بھی کرنی ہے تو بڑی کشادہ نظری اور کشادہ قلبی کے ساتھ ۔ کشادہ نظری اور کشادہ قلبی مفاہیم پر غور کریں تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ قلب و نظر کی کشادگی سے ہماری مراد یہی ہے کہ ہمیں اپنے آپ کو ہر وقت مجتمع رکھنے کی ضرورت ہے ۔
کلامِ اقبال کو کہیں سے بھی پڑھنا شروع کر دیجیے ۔ وہ ہمیں قریب قریب اپنے ہر شعر میں اکٹھا ہونے کا، آپس میں مضبوط ہو جانے کا ، اپنی گو نا گوں طاقتوں کو جمع کرنے کا پیغام دیتا ہے ۔ یہ پیغام کبھی خودی کی شکل میں ہوتا ہے کبھی عشق کی شکل میں کبھی مسلسل حرکت میںرہنے کی صورت میں اور یہ عجیب بات ہے کہ اگر ہم ذرا توجہ سے کلام اقبال کا مطالعہ کریں تو ہم اپنے آپ کو مجتمع کر کے حقیقت مصطفیؐ کی بارگاہ میں پیش کرتے ہوئے محسوس کرتے ہیں ۔ اقبال کے شعر کا بلند لہجہ اس کا بلند آہنگ بھی ہمیں ایسا لگتا ہے جیسے ہمیں ہمارا کوئی بہت ہی ہمدرد دوست پکار پکار کر کہہ رہا ہے … ادھر آئواپنے آپ کو یکجا کرو … تم اس وقت بکھر گئے ہو تو کیا ہؤا… تم اپنے آپ کو معمولی سی تگ و دو سے متحد کر سکتے ہو … اور پھر لطف کی بات یہ ہے کہ اس آواز میں کوئی تحکم نہیں اور جب آپ اقبال سے کہتے ہیں آپ تو ہمارے بہت عظیم شاعر ہیں تو اقبال کی طرف سے نہایت نرم لہجے میں یہ آواز آتی ہے :
نغمہ کجا و من کجا سازِ سخن بہانہ ایست
سوئے قطار می کشم ناقہِ بے زمام را
وحدت نگاری کی اس سے عمدہ مثال آپ کو کہاں نظر آرہی ہے ۔ اگر ایسی بات ہے تو ضرور بتائیے ۔ ورنہ اس آواز پر لبیک کہنا یہ بھی تو ہمارے سماجی شعور کی دلیل قرار پاتا ہے ۔
مسجد ِ قرطبہ اور دختر دہقان
اقبال کی نظم مسجد قرطبہ کا ایک دلچسپ تجزیہ
یہ کس اردو ادب کے قاری کو معلوم نہیں کہ مسجد قرطبہ اقبال کی شاہکار نظموں میں سے ایک نظم ہے ۔ اس کا موضوع وہی دنیا کی سب سے بڑی مسجد ہے جو سپین میں قرطبہ کے مقام پر عبد الرحمن اول نے تعمیر کرانی شروع کی تھی اورجس کو اس کے جانشین ہشام نے تکمیل کو پہنچایا ۔ اس مسجد میں چودہ سو ستر1417 سنگ مرمر کے ستون ہیں ۔ اس کامینار 110فٹ بلند اور اس میں ایک زمانہ میں دس ہزار جھاڑ فانوس روشن ہوتے تھے ۔ جب مسلمانوں کا اقتدار ختم ہؤا تو عیسائیوں نے اس کی محراب کے سائے میں گرجا تعمیر کرا دیا ۔ علامہ اقبال کے زمانے میں بھی یہ مسجد اذان سے محروم تھی اوراب بھی محروم ہے ۔ مگر اس مسجد کا وجود آج بھی اپنی جگہ اہل قلب و نظر کے لیے دعوتِ صد نظارہ ہے بڑے بڑے فلسفیانہ حوالوں کے ساتھ۔
آپ جانتے ہیںاقبال کی اس نظم کا آغاز اس طرح ہوتا ہے :
سلسلۂ روز و شب، نقش گرِ حادثات
اور آپ کو یہ بھی معلوم ہوگا کہ سلسلۂ روز و شب سے یہاں وہی مراد ہے جس کو قرآن میں رات دن کا آنا جانا کہا ہے اوراہلِ نظر کے لیے اس میں بصیرت اورعبرت کی بہت سی نشانیاں ہیں ۔ رات دن کے آنے جانے ہی میں طرح طرح کے حادثات وقوع میں آتے ہیں زندگی اورموت کی حقیقت کا راز بھی اسی شب و روز کے آنے جانے میں پوشیدہ ہے ۔ لیکن اس دن رات کے آنے جانے میںکوئی پائیدار معنی اس وقت پیدا ہوتے ہیںجب کام کرنے والے کے ساتھ جذبہ عشق بھی موجود ہوتا ہے ۔ورنہ یہ تمام کام فنا ہو جانے والے ہیں۔ ایک طرح دیکھا جائے تو یہ آنا جانا نچلی سطح کی چیز ہے بلند ہو کرکوئی چیز ادھرادھر نہیںہوتی ۔دوام کی سطح پر آجاتی ہے۔
ہے مگر اس نقش میں رنگِ ثباتِ دوام
جس کو کیا ہو کسی مردِ خدا نے تمام
ایسا کیوں ہے ؟ اس لیے کہ مرد خدا کے کام میں عشق کا جذبہ شامل ہوتا ہے :
مردِ خدا کا عمل عشق سے صاحب فروغ
عشق ہے اصلِ حیات موت ہے اس پہ حرام
یہ کیسے ممکن ہے کہ عشق پر موت حرام ہے یعنی عشق کبھی مرتا نہیں ۔ کیوں؟ اس لیے کہ عشق ایک طاقت ہے … زمانے کی روخواہ کتنی بھی تیز کیوںنہ ہو عشق خود ایک سیل ہے سیل کو لیتا ہے تھام … اس طرح عشق کی وجہ سے ہر شے میں ایک استحکام اور مضبوطی پیدا ہو جاتی ہے ، اور تو اور :
عشق دم جبرئیل عشق دلِ مصطفیؐ
یہاں پہنچ کر قاری حیران ہوتا ہے کہ جذبہ عشق کی تو کوئی انتہا ہی نہیں ہے آخر یہ جذبہ ہے کیا چیز جو ایک خاک کے پتلے انسان کو یہاںتک پہنچا دیتا ہے ۔ کوئی اگر اس کاٹھوس ثبوت چاہتاہے تو وہ مسجد قرطبہ کو غور سے دیکھے۔
اے حرم قرطبہ عشق سے تیرا وجود
کیوں ؟ اس لیے کہ دنیا میںآئے دن بہت سی عمارتیں بنتی ہیں اور بن کرٹوٹ بھی جاتی ہیں لیکن مسجد قرطبہ کودیکھ کر احساس ہوتا ہے کہ یہ کبھی فنا نہ ہو گی … حالانکہ یہ بھی گارے اینٹ پتھر سے بنی ہے ۔
رنگ ہو یا خشت و سنگ چنگ ہو یا حرت وصوت
معجزۂ فن کی ہے خونِ جگر سے نمود
اقبال اس نظم میں بتانا یہ چاہتے ہیں کہ کوئی سا فن بھی کیوں نہ ہو نقاشی خطاطی موسیقی یا شعر و شاعری ان فنون میں جس چیز سے جان پڑتی ہے اور یہ زندہ جاوید ہوتے ہیں وہ انسان کا خون ہے محنت ہے لیکن اس محنت میں شوق ہونا چاہیے۔ محنت ایسی چیز ہے جو پتھر کو بھی دل بنا دیتی ہے ۔ ہاں وہی بات محنت لگن کے ساتھ ہونی چاہیے تب یوں ہوتا ہے کہ :
قطرۂ خونِ جگر سِل کو بناتا ہے دل
یہاں تک پہنچ کر قاری کو شاعر اقبال کی باتیں مسجد قرطبہ کے حوالے سے کچھ کچھ سمجھ میں آنے لگتی ہیں ۔ لیکن اس نظم میں حسبِ معمول اقبال کا کمال سخن اپنے عروج پر آ رہا ہے یعنی قاری اپنی ذات میں اور شاعر کی ذات میں کوئی فرق محسوس نہیں کرتا اسے ایسا لگتا ہے جیسے نظم میں شاعر نہیں خود قاری بول رہا ہے … اور بڑی وسعت کے ساتھ …
عرشِ معلی سے کم سینۂ آدم نہیں
اقبال مسجد قرطبہ میں بیٹھے ہیں یا مسجد قرطبہ ان کی آنکھوں کے سامنے ہے … بصیرت افروز کیف و سرور میں وہ ڈوبے ہوئے ہیں :
تیرا جلال و جمال مردِ خدا کی دلیل
اپنے تمام سرور و کیف کووہ حقائق میں ڈھال رہے ہیں دیکھیے کیا حقیقت افروز تشبیہ دے رہے ہیں مسجد قرطبہ سے مخاطب ہیں :
تیری بنا پائیدار تیرے ستوں بے شمار
شام کے صحرا میں ہو جیسے ہجوم نخیل
ستونوں کو کھجور کے درختوں سے تشبیہ اس جگہ نہ صرف خوبصورت محسوس ہو رہی ہے بلکہ شاعر کے تمام خیالات کو ایک طرح ٹھوس بنا کر سامنے لا رہی ہے ۔ پھر یکا یک اس تشبیہ کے بعد شاعر کو خیال آ رہا ہے مسجد کے حسن و جمال کو تو ایک مسلمان ہی سمجھ سکتا ہے یا مسجد کا خارجی حسن اگر کہیں رفعت حاصل کر سکتا ہے تو وہ مسلمان کا دل ہے ۔
ہے تہِ گردوں اگر حسن میں تیری نظیر
قلبِ مسلماں میں ہے اور نہیں ہے کہیں
یہ سب کچھ اپنی جگہ ٹھیک ہے لیکن اس وقت اس درد ناک حقیقت کا کیا جواب ہے :
آہ کہ صدیوں سے ہے تیری فضا بے اذاں
اس وقت اس صورتِ حال کا ایک ہی علاج ہے کہ یہ پوچھا جائے :
کونسی وادی میں ہے کون سی منزل میں ہے
عشقِ بلا خیز کا قافلہِ سخت جاں
مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کو اپنی حالت درست کرنے کے لیے عشق سے بھرپور ہو کر باہر نکلنے کی ضرورت ہے ۔ البتہ اقبال اس وقت جو مسلمانوں میں اپنی حالت کو سنوارنے کی ایک بے چینی محسوس کر رہے ہیں اس کا سہارا لے کر بڑے پر امید لہجے میں آواز لگا رہے ہیں …
دیکھیے اس بحر کی تہ سے اچھلتا ہے کیا
گنبدِ نیلوفری رنگ بدلتا ہے کیا
مگر اس پر امید لہجے کوایک طرح اقبال نے تقدیر پر بڑی مہارت اور لطافت کے ساتھ چھوڑا ہے ۔ محض ایک لفظ ’’ دیکھیے‘‘ سے ایک طرف امید کا دامن بھی ہاتھ سے نہیں جانے دیا دوسری طرف مشیت ایز دی کو بھی پیش نظر رکھا ہؤا ہے۔
مگر اس کے بعد جو اقبال نے اپنی اس عظیم نظم کو آخری بند میں ایک نہایت بلیغ موڑ دیا ۔بہت ہی لطیف ، بہت ہی نازک ، بہت ہی انوکھا اور یہ بند بھی اس نظم کا آخری بند ہے جس کے آغاز کے تین شعر ہیں جن کی طرف خصوصیت کے ساتھ میںقارئین کی توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں۔
اس قدر گہری بلند اور عارفانہ باتیں کرنے کے بعد اقبال نے یہ تین شعر کہے ہیں :
وادیٔ کہسار میں غرقِ شفق ہے سحاب
لعل بد خشاں کے ڈھیر چھوڑ گیا آفتاب
گویا شام کا منظر ہے یعنی یہ عظیم نظم ختم ہو رہی ہے ، مگر کس قدر خوبصورت منظر کو اپنے دامن میں لیے ہوئے ہے ۔ اس شعر کے بعد دوسرا شعر یہ آتا ہے اور کس سادگی بالغت کے ساتھ :
سادہ و پر سوزہے دختر دہقاں کا گیت
کشتیِ دل کے لیے سیل ہے عہد شباب
اس شعر کو پڑھ کر آپ یقینا یہ محسوس کر رہے ہوں گے کہ اس قدر عظیم نظم نے یہ کس طرح کا عجیب موڑ اختیار کیا ہے … کہاں تو بڑے ہی فلسفیانہ انداز ہیں ’’’ سلسلہ روز و شب‘‘ کی بات ہو رہی تھی ۔ اسے ’’ سوزِ ازل کی فغاں‘‘ کہا جا رہا تھا ۔ کہاں ’’ اول و آخر فنا باطن و ظاہر فنا ‘‘ کی خبر دی جا رہی تھی ۔ ’’ نقش کہن ہو کہ نو منزل آخر فنا‘‘ سے ہوشیار کیا جا رہا تھا ۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ یہ بھی بتایا جا رہا تھا ’’ ہے مگر اس نقش میں رنگ ثباتِ دوام‘‘…’’ جس کوکیا ہو کسی مردِ خدا نے تمام ‘‘ اور پھر مرد خدا کے عمل کو عشق سے صاحب فروغ بتایا جا رہا تھا ۔ یعنی ساری چمک دمک عشق کی ہے اور لفظ عشق کیا سامنے آیا گویا طرح طرح کے مطالب وو مفاہیم کے ابواب کھل رہے تھے ۔ عشق کی تقویم میں عصررواں کے سوا … اور زمانے بھی ہیں جن کا نہیں کوئی نام … اور پھر مسجد قرطبہ سے خطاب ہو رہا تھا اور کس ٹھاٹ سے ہو رہا تھا … اے حرمِ قرطبہ ! عشق سے تیرا وجود … اسی کے ساتھ یہ بھی واضح کیا جا رہا تھا تجھ سے ہوا آشکاربندۂ مومن کا راز پھر کردار مومن کو مزید واضح کیا جا رہا تھا … ہاتھ ہے اللہ کا بندۂ مومن کا ہاتھ … غالب و کار آفریں کار کشا کار ساز …
مگر آخری بند میں جیسا کہ ابھی ابھی اوپر عرض کیا گیا ہے کہ صرف ایک شعر میں شام کا منظر پیش کر کے یک لخت جو دوسرے شعر میں ایک نوجوان دختر دہقان کو سادہ لیکن پر سوز گیت گاتے ہوئے دکھایا گیا ہے اس کا کیا مطلب ہے ؟ کہیں اس سے شاعر کی یہ مراد تو نہیں کہ وہ ہم پر یہ واضح کرنا چاہتا ہے کہ جس جذبہ عشق کی بلند ترین صورتیں اس عظیم نظم میں پیش کی گئی ہیں اس کی عام صورت اسی طرح کی ہوتی ہے جس پر ہم کوئی خاص توجہ نہیں دیتے اور جسے ہم ایک عام سا جذبہ عشق سمجھتے ہیں اور جس کو صرف دو جسموں کی کشش پر معمول کیا جاتا ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ شاعر ہمیں یہ احساس دلانا چاہتا ہے کہ بڑے سے بڑے جذبہ عشق کو بھی ہم انسان کے جنسی جذبہ سے بیگانہ قرار نہ دیں انسان کا یہ جذبہ کتنا بھی پست ہو، اپنے اندر پھر بھی بے شمار بلندیاں رکھتا ہے … بلکہ اگر یوں کہا جائے تو زیادہ مناسب اور حقیقت سے قریب ہو گا کہ بلندیٔ معنی جسمانی جذبے کی نگہبان ہوتی ہے۔اور اقبال کی اس عظیم نظم مسجد قرطبہ میں یہ جذبہ دختر دہقان کی صورت میں تو بہت ہی سادگی اور معصومیت کے ساتھ ہمارے سامنے آیا ہے ۔
یہ جذبہ کس قدر معصوم کس قدر مظلوم ہوتا ہے آپ کو مسجد قرطبہ کے آخری بند کا یہ شعر یہاں واضح انداز میں بتا رہا ہے ۔ سادہ و پر سوز ہے دختر دہقاں کا گیت وہاں دوسرے مصرعے ہی میں اس جذبے کے برعکس کیفیت یعنی طوفانی کیفیت کا اظہار بھی بڑی بے ساختگی سے ہو رہا ہے ۔’’ کشتیِ دل کے لیے سیل ہے عہدِ شباب‘‘ یعنی اگر کسی دہقان کی نوجوان بیٹی اپنے محبوب کو یاد کر کے پر سوز آواز میں گنگنا رہی ہے تو اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ اس کی شخصیت عشق کی طوفانی کیفیات سے بے خبر ہے یا محروم ہے … نہیں جناب یہی لڑکی جو نہایت سادگی سے اپنے محبوب کو پر سوز آواز میں یاد کر رہی ہے اپنے دل میںجذبات کا ایک طوفان بھی لیے ہوئے ہے عام آدمی عموماً اپنے عاشقانہ جذبات کو اس طرح سنبھالے رہتا ہے اور خاص طور پر عورت تو اس طرح کے طوفان کو قابو میں رکھنے کی عادی ہوتی ہے کہ اس شعر میں یہ جذبہ سادگی کے ساتھ دختر دہقان کی صورت ہی میں ٹھوس ہو کر نمو دار نہیں ہؤا ہے ، نظم کے تمام فلسفیانہ اور عارفانہ افکار کو بھی اس نے ٹھوس صورت سے سر فراز فرما دیا ہے۔پڑھنا شروع کریں اور پھر اس آخری بند پر آئیں جو میں یہاں درج کر رہا ہوں۔
وادیٔ کہسار میں غرق شفق ہے سحاب
لعل بد خشاں کے ڈھیر چھوڑ گیا آفتاب
سادہ و پر سوز ہے دختر دہقاں کا گیت
کشتیِ دل کے لیے سیل ہے عہدِ شباب
کیا ان دو شعروں نے نظم کے پس منظر کو جو طرح طرح کے خیالات سے معمور تھا اب حقائق میں تبدیل نہیں کر دیا ہے ؟ اس نظم کا مزید کمالِ بلاغت یہ دیکھیے ان دوشعروں کے بعد جو تیسرا شعر آتا ہے وہ آپ کو مع مسجد قرطبہ سر زمین اندلس کے عین آغوش میں لا بٹھاتا ہے ۔ وہ تیسرا شعر یہ ہے :
آبِ روانِ کبیر تیرے کنارے کوئی
دیکھ رہا ہے کسی اور زمانے کا خواب
اقبال نے یہاں پھر ایک بار کمالِ ہنر مندی کے ساتھ اپنے جملہ خیالات کو اندلس کے دریائے کبیر کے کنارے لا کھڑا کیا ہے اور دریا کا چلتا ہؤا پانی اس بات کو پوری طرح واضح کر رہا ہے کہ اقبال کے خواب کس رفتار کے ساتھ مستقبل کی طرف رواں دواں ہیں ۔ اس وقت اقبال کے حضور میں ماہ وسال نہیں مستقبل کا پورا زمانہ دستہ بستہ حاضر ہے … اور اس منظر کی گواہ جی ہاں سب سے بڑی گواہ مسجد قرطبہ کے بعد وہی دختر دہقان ہے جو اپنے زمانے کے دل کی دھڑکن بن کر اقبال کا ساتھ دے رہی ہے اور کیا آپ کو یہ محسوس نہیں ہو رہا ہے کہ علامہ اقبال اپنی اسی عظیم نظم کے آخر ی دو شعر بھی دختر دہقاں کے سادہ و پر سوز لہجے میں آپ کی سماعت کے لیے عطا فرما رہے ہیں ۔ اس نظم کے آخری مشہورشعر یہ ہیں :
صورتِ شمشیر ہے دستِ قضا میں وہ قوم
کرتی ہے جو ہر زماں اپنے عمل کا حساب
اور یہ آخری شعر تو دختر دہقاں کمالِ محبت کمالِ پر سوزی کے ساتھ آپ کی خدمت میں پیش کر رہی ہے …
نقش ہیں سب نا تمام خونِ جگر کے بغیر
نغمہ ہے سودائے خام خونِ جگر کے بغیر
٭…٭…٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x