ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

محشر خیال – بتول اپریل ۲۰۲۲

ثریا بتول علوی۔لاہور
ماہنامہ’’ چمن بتول ‘‘ کے گزشتہ شمارے فروری2022ء میں ایک بہن شہناز رئوف کا ایک مضمون ’’ میرا مرکزِ محبت ، میرا ویلنٹائن نظر سے گزرا اس میں انہوں نے اپنے نیک صالح اور متقی شوہر کے کو میرا ’’ویلنٹائن ‘‘ کہہ کر خراجِ تحسین پیش کیا ہے۔
بلا شبہ مسلمان خواتین کو اللہ سبحانہ‘ تعالیٰ اور رسول پاک ؐ کے بعد اپنے شوہر سے ایسی ہی محبت اور وفا داری ہونی چاہیے جس کا ذکر انہوں نے اپنے مضمون میں کیا ہے کہ اسے ہی اپنا مرکزِ محبت بنایا جائے۔ یہ امر واقعہ ہے کہ تاریخ میں متعدد مسلمان خواتین نے اپنے شوہروں سے محبت و وفا داری کی عظیم مثالیں چھوڑی ہیں البتہ شوہر کے لیے لفظ’’ میرا ویلنٹائن ‘‘ کہنے پر میرے کچھ تحفظات ہیں۔
’’ ویلنٹائن ڈے ‘‘ ایک مغربی حیاباختہ تہوار ہے ، جس سے حیا سوز یادیں وابستہ ہیں خود مغرب کے سنجیدہ لوگ بھی ایسے تہوار منانا پسند نہیں کرتے جیسے خود یہودیوں ، عیسائیوں اور ہندوئوں نے مسترد کر دیا ہے ۔مگر بد قسمتی سے اس کو پاکستان میں رائج کرنے کی مہم زوروں پر ہے ۔ ہمارے معاشرے میں میڈیا کے ذریعے ،این جی اوز کے ذریعے اور انگلش میڈیم اداروں کے ذریعے اس کو قبولیت عالم دلوانے کی مذموم کوششیں ہو رہی ہیں بلکہ اب تو عام سکولوں میں بھی چھوٹے چھوٹے بچوں کو اس دن گلاب کے پھول سکول میں دوسروں کو پیش کرنے کا سبق سکھایا جاتا ہے ۔ ان سے باقاعدہ پوچھا جاتا ہے کہ تمہارا ویلنٹائن کون ہے ، اس کو یہ پھول پیش کرو۔ اپنے بہن ، بھائی ، بابا ، ماما کو یہ پھول پیش کر کے ان کو اپنا ویلنٹائن بنائو۔
گزارش ہے کہ ہمارا دین تو بڑا غیور ہے اس کی اپنی اصطلاحات ہیں ۔ یہ دوسروں سے اصطلاحات ادھار لینے کامحتاج نہیں ہے نہ ہی وہ دوسروں کی اصطلاحیں استعمال کرنے کی اجازت دینا ہے ۔ مثلاً قرآن پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
اے لوگو! جو ایمان لائے ہو ’’ رَاعَِنا‘‘ نہ کہا کرو ، بلکہ ’’ اُنْظُرْنَا‘‘ کہو اور توجہ سے بات سنو ۔ اور کافروں کے لیے تو عداب الیم ہے ۔ (ابقرۃ:104)
مراد یہ ہے کہ یہودی لفظ ’’ رَاعِنا‘‘ بولتے ہیں ۔ اس کے پس پردہ ان کے مخصوص مقاصد ہوتے ہیں ۔ لہٰذا مسلمانوں کو اس کی جگہ لفظ ’’ اُنظرنا‘‘ کہنا چاہیے تاکہ وہ اس کے پس پردہ مضمرات سے محفوظ رہیں ۔
اسی طرح اسلام کی ایک مخصوص اصطلاح ’ فلاح‘‘ ہے جبکہ اہلِ مغرب ’’ ترقی ‘‘ کا لفظ بولتے ہیں ۔ فلاح کا مفہوم روحانی آسودگی اور مادی ضروریات کی فراہمی اور خوشحالی ہے مگر ’’ ترقی‘‘ کامفہوم صرف مادی آسائشوں سے ہے ۔ دولت اورمادی آسائشیں خواہ کتنی زیادہ ہوں مگر اس میں روح کااطمینان و سکون اور دل کا سرور مفقود ہوتا ہے ۔
اسلام کو تو یہ بھی منظور نہیں ہے کہ محبت کے لیے لفظ’’ عشق‘‘ استعمال کیا جائے ۔ عربی زبان کی مشہور لغت میں ’’ القاموس‘‘ میں عشق کو جنون کی ایک قسم قرار دیا گیا ہے ۔ جوایک وقتی جذبہ ہے ۔ اس جنون میں مبتلا ہونے والا شخص بعض صورتوں یا لوگوںکواچھا سمجھ لینے سے از خود اپنے آپ پر یہ نشہ طاری کر لیتا ہے ۔
اس کے برعکس ’ محبوب‘‘ یا محبت کے قابل تو وہ ہستی یا شخصیت ہے جس کے فضائل اور کمالات اس کے ذاتی ہوتے ہیںاوریہ کمالات دائمی ہوتے ہیں خواہ اس سے کوئی محبت کرے یا نہ کرے ۔ پھر ’’معشوق‘‘ وہ ہے جسے کسی نے خود اچھا سمجھ لیا ہو ( خواہ اس میں کوئی خوبی ہو یا نہ ہو ) یہ معشوق صرف اپنے عاشق ہی کی نگاہ میں پسندیدہ ہوتا ہے اور یہ وقتی طور پر ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے کلام میں اور رسول پاک ؐ کی احادیث میں کہیں بھی لفظ’’ عشق‘‘ استعمال نہیں کیا گیا بلکہ ہر جگہ ’’ محبت‘‘ ہی کا لفظ استعمال ہؤا ہے ۔(مثلاً اللہ و رسول سے محبت، دین سے محبت ، والدین اور بہن بھائیوں سے محبت) اسی لیے ہمارے دین میں لفظ ’’ محبت ‘‘ کو فضائل محمودہ میں شمار کیا گیا ۔ اصطلاحات اپنے پیچھے اپنی پوری تہذیب لے کر آتی ہیں ۔ آغاز میں نیت بیشک اچھی ہو مگر بعد میں خود بخود اس سے غلظ مفہوم نکلنے لگتے ہیں ۔ خصوصاً جب کہ ذہن میں مرعوبیت بھی موجود ہو۔
اور یہ لفظ ’’ ویلنٹائن‘‘ آغاز ہی سے ایک اخلاق باختہ ، بیہودہ اور بے حیا شخص سے منسوب ہے ۔جب اس کو پاکیزہ اور پر خلوص محبت پر قیاس کیا جائے ، تو جانے نہ جانے میں دوسرے لوگ بھی اس کو پسندیدہ سمجھ کر اختیار کرنے لگ جائیں گے ۔ خصوصاً اس وقت جب اہل مغرب کی ذہنی مرعوبیت پہلے ہی دلوں میںموجود ہو تو معاملہ اور بھی سنجیدہ ہو جاتا ہے لہٰذا اہل فکر و دانش کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ ایسے رحجانات کی حوصلہ شکنی کریں ۔ حیات ہمارے ایمان کی محافظ ہے ۔ حیا کے بند پہلے ہی سینکڑوں انداز میں توڑے جا رہے ہیں تو پھر ان پر بند باندھنے کے لیے اور اپنی ملی و ملکی اقدار کو محفوظ کرنے اور رکھنے میں ہم میں سے ہر ایک کو اپنا اپنا حصہ ڈالنا ہوگا ۔
٭…٭…٭
پروفیسر خواجہ مسعود ۔ راولپنڈی
’’چمن بتول‘‘ مارچ 2022ء سامنے ہے ۔ ہلکے گلابی ، سبز اور سفید رنگوں سے مزیّن ٹائٹل یہ بتا رہے کہ ’’ چمن بتول‘‘ لوگوں میں (خاص طور پر خواتین میں ) پیار اور پاکیزگی پھیلا رہا ہے ، روشنی کا ایک منبع ہے ۔ یہ روشنی نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا کے بیشتر ممالک میں ہر ماہ اُجلی صبح کی طرح پھیل جاتی ہے ۔
’’ ابتدا تیرے نام سے ‘‘ بھارت میں ہندو توامذہبی انتہا پسندی پر آپ نے بجا طور پر لکھا ہے کہ مودی کے ہندو مذہبی جذبات پر مبنی اقتدار کا مطلب بھارت میں رہنے والوں کے لیے تباہی ہے ۔ مسکان کے واقعے نے ایک بار پھر پوری شدت سے دنیا کے سامنے واضح کیا ہے کہ بھارت کو ہندو انتہا پرستی اور دہشت گردی سے بچایا جائے ورنہ وہاں اقلیتوں پر بہت سخت وقت آنے والا ہے ۔ عورت مارچ کے حوالے سے ڈاکٹر صاحبہ کے فکر انگیز جملے ’’ عوام کے وسیع حلقوں میں یہ تشویش پائی جاتی ہے کہ یہ پاکستانی معاشرے کو انتشار کا شکار کرنے کا بیرونی ایجنڈا ہے ۔ اس کا عورتوں کے حقوق سے کوئی تعلق نہیں … پاکستانی عورت کے مسائل کا گہرا جائزہ لینے کی ضرورت ہے ۔‘‘
’’ اتباع نبیؐ اور معاشرے کی ترقی ‘‘ (مولانا عبد المتین)اس مضمون میں آپ نے بتایا ہے کہ رسول پاک ؐ کا مل اتباع ہمیں فہم دین کے حوالے سے بہت سی غلط فہمیوں سے بچا سکتا ہے ۔ آپؐ نے ہمیں ہر عمل میں اعتدال کا سبق دیا ۔ آپؐ کی مبارک محبت کی وجہ سے ایمان صحابہ ؓ کرام کے سینوں میں رچ بس گیا ۔
’’ طہارت کے مسائل قرآن و سنت کی روشنی میں ‘‘(فریدہ خالد) اس مضمون میں وضاحت کی گئی ہے کہ توبہ کے ذریعے آدمی اپنی روح کو پاک کرتا ہے اور پانی کے ذریعہ اپنے جسم کو ، اور اسلام میں روح کی پاکیزگی اور جسم و لباس کی صفائی ستھرائی دونوں اہم ہیں ۔ وضو سے انسان کے گناہ دھل جاتے ہیں ۔ اس مضمون میں وضو ، تیمم اور غسل کے مسائل تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں ۔خصوصاً خواتین کے لیے اس مضمون میں بہترین رہنمائی پیش کی گئی ہے ۔
’’ قراردادِ پاکستان اور مخالفین کے بے بنیاد الزامات‘‘ ( ڈاکٹر صفدر محمود)ڈاکٹر صاحب کے نزدیک ہماری تاریخ میں 1930 تا 1940 کی دہائی نہایت اہم ہے علامہ اقبال ؒ کے تصور پاکستان سے لے کر قرارداد پاکستان لاہور تک ۔ قیام پاکستان کی جدوجہد کے بارے میں ایک اہم تحقیقی مضمون ہے ۔ علامہ اقبال ، چوہدری رحمت علی، قائد اعظم اور دیگر اکابرین ملت کی انتھک کوششوں کا احوال ہے۔ڈاکٹر صاحب نے واضح کیا ہے کہ ہندوئوں کے متعصبانہ رویہ نے مسلمانوں کو اپنے لیے ایک الگ وطن کے مطالبے پر پختہ کیا ۔ آپ نے اس غلط فہمی کو دور کیا ہے کہ قرارداد پاکستان انگریزوں نے تیار کر کے قائداعظم کے حوالے کی تھی ۔ اس طرح آپ نے قرارداد پاکستان ، نظریہ پاکستان ، پاکستان کی قومی زبان اور قائد اعظم کی تقریب حلف برداری کے بارے میں شکوک و شبہات اور غلط تصورات کو دور کرنے کی کوشش کی ہے ۔
ام عبد منیب کے حمدیہ کلام سے ایک خوبصورت شعر:
جب دکھوں کی کالی چادر میری جاں پر تن گئی
یاد تیری نورِ رحمت میرے حق میں بن گئی
محمد نسیم قریشی کے نعتیہ کلام سے ایک منتخب شعر:
نور چہرے سے برستا ہے شہ بطحا کے
اک دیا ہے جو اندھیروں میں جلا رکھا ہے
حبیب الرحمن صاحب کی غزل کے دو خوبصورت اشعار:
آنا چاہیں تو ہیں دنیا میں ہزاروں رسمیں
ورنہ دل ڈھونڈ ہی لیتا ہے بہانے کتنے
جانے کب کون سے موسم میں مہکنے لگ جائیں
زخم تو زخم ہیں ہوجائیں پرانے کتنے
’’ محاذ کیسا یہ کھل رہا ہے ‘‘ اسماء صدیقہ کی خوبصورت نظم:
مگر جو دل کی نظر سے دیکھو
بصیرتوں کو ذرا ٹٹولو
ادائیں جتنی یہاں ہیں چنچل
وہیں پہ پلتا ہے جرم ہر پل
’’ آلے گجری‘‘ قانتہ رابعہ صاحبہ کی خوبصورت کہانی ہے ایک غریب لیکن غیرت مند خاتون جس نے سات بچوں کو پالنے کے لیے ساری زندگی جدوجہد کی ۔ بالآخر اُسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے انعام ہؤا اور اس کے دن پھر گئے ۔ یہ خوبصورت جملے قانتہ رابعہ صاحبہ کے قلم سے ہی نکل سکتے ہیں ’’ ستر ہزار ستاروں کا قافلہ اس کی آنکھوں میں اتر آیا تھا جس کی چمک سے صرف اس کا چہرہ گلنار نہیں تھا بلکہ سب تک اس کی روشنی پہنچ رہی تھی ۔ سب کی آنکھیں چندھیا رہی تھیں ۔‘‘
’’ٹانگے والا خیر منگدا‘‘ امِّ ایمان کی دلگداز ،پردیس چلے جانے والوں کا احوال سناتی کہانی ۔ وہاں دولت تو کماتے ہیں لیکن وطن کی یاد ہر دم ستاتی رہتی ہے ۔ اپنی مٹی کی خوشبو یاد آتی ہے۔
’’ مکدر دل‘‘( مہوش خولہ رائو ) یہ سبق سکھاتی کہانی کہ دوسروں کی خطائوں کو معاف کر دینا ایک عظیم کام ہے کہانی کے آخر میں یہ جملے بہت خوبصورت ہیں ۔’’ تکلیف دینے والے چلے گئے تو ہم نے ان کی یادوں کواپنے لیے تکلیف کا ذریعہ بنا لیا ، اس سے بہتر ہے کہ بھول کے ربڑسے یہ تحریر مٹائیں ، اپنی بہوئوں کو پاک صاف دل کی ساسیں دیں خودکو بھی تکلیف سے بچائیں اور خوش باش رہیں ‘‘۔
’’ مٹی کی چڑیا‘‘ ( شہر یار قاضی) ایک مٹی کی چڑیا ہوتی ہے اور ایک جیتی جاگتی چہچہاتی چڑیا ۔ مٹی کی چڑیا ٹوٹ جائے یا جیتی جاگتی چڑیا کو ٹھیس لگے تو درد تو ہوتا ہے ۔
’’ موسم وبا میں عمرہ کی رو داد ‘‘ ( ڈاکٹر میمونہ حمزہ) کرونا کے دنوں میں عمرہ کی ادائیگی کا دلچسپ احوال نیت نیک ہو ، ارادے صادق ہوں تو اللہ مدد کرتا ہے ۔ ابو ، امی کے ساتھ منی کو بھی عمرے کی سعادت نصیب ہو گئی یہ سب اللہ کی دین ہے۔۔
’’ ملا کا کی سیر ‘‘ ( ڈاکٹر فائقہ اویس) ملاکا اور ملائیشیا کی سیر کا دلچسپ احوال ۔ لیکن اس دفعہ ڈاکٹر صاحبہ نے ایک ہی قسط پر ٹرخا دیا ہے کم از کم تین چار قسطیں آتیں تو مزہ دوبالا ہو جاتا ۔
’’ بے مہر کرونا‘‘ پچھلے چند ماہ سے حبیب الرحمن صاحب کی کمی’’ چمن بتول‘‘ کی محفل میں محسوس ہوتی رہی ، چلیں اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ آپ صحت یاب ہو کر پھر اس محفل میں شامل ہو گئے ہیں ، اللہ ان کو سلامت رکھے ۔
’’ اسقبال رمضان‘‘( آسیہ عمران) رمضان المبارک ہمارے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک تحفہ ایک نعمت عظمیٰ جس کا استقبال خوشدلی سے کرنا چاہیے۔ بہت بر وقت یاد دہانی ہے ۔
’’ عورت کم زور ہے ‘‘ (نگہت فرمان) آپ نے سچ لکھا ہے کہ اگرچہ عورت کوصنف نازک کہا جاتا ہے لیکن یہی صنف نازک جب حق کی طرف سے باطل کے سامنے ڈٹ جائے تو عزم و حوصلہ بن کے اسے للکارتی ہے ۔ دربار یزید میں سیدہ زینب ؓ کا خطبہ شجاعت و عظمت کی ایک درخشاں مثال ہے ۔ حال ہی میں بھارت میں ایک نو عمر مسلمان لڑکی مسکان ہندوئوں کے سامنے نعرہ تکبیر بلند کر کے ڈٹ گئی۔
’’ دورہِ قرآن کے میری زندگی پر اثرات‘‘( فرحانہ اقبال ) قرآن پاک کو ترجمے کے ساتھ سمجھ کر پڑھنا واقعی ہماری زندگی میں انقلاب پیدا کردیتا ہے ۔ جیسا کہ فرحانہ صاحبہ بتاتی ہیں کہ دورہ قرآن نے ان کے اندر وسعت قلبی پیدا کردی، اپنا محاسبہ کرنے کارحجان پیدا ہؤا قرآن پاک کے مطالعہ نے ان کی زندگی بدل دی۔
’’ ساس کی آنکھ کا تارابنیے‘‘( نبیلہ شہزاد) ہلکے پھلکے انداز میں سمجھایاگیا ہے کہ بہوئیں اپنی ساسوں کا دل کیسے جیت سکتی ہیں ۔ دلچسپ نسخے بتائے ہیں آزمائش شرط ہے ۔
’’ بچوں کو وقت دیں ‘‘ ( روبینہ قریشی) اس تیزرفتاری کے دور میں ماں باپ بہت مصروف رہتے ہیں اپنے بچوں کو وقت نہیں دے پاتے اس طرح بچوں کی شخصیت میں بہت کمیاں رہ جاتی ہیں مضمون اس جانب توجہ دلانے کا خوبصورت انداز ہے ۔
’’ بتول میگزین‘‘ اے فخر دین ، تجھے مرحبا ، تجھے آفرین، بریرہ صدیقہ صاحبہ نے بھی بہادر مسکان کو خراج عقیدت پیش کیا ہے ۔ اس عظیم بیٹی کی عظمت کو سلام
’’ تقلید سے ناکارہ نہ کر‘‘ ( مہوش ریحان) اندھی تقلید کرنے کی بجائے غورو فکر پر ابھارنے والی مختصر تحریر ۔
’’ گوشہِ تسنیم’’ رومان پرور باتیں ‘‘ ڈاکٹر بشریٰ تسنیم صاحبہ اب کے ڈاکٹر صاحبہ نے رومان کے موضوع پر زبردست کالم لکھا ہے ۔ آپ نے رومان کے عام تصور کی بجائے اس کا وسیع تصور پیش کیا ہے کہ بچے ماں کی محبت اور اس کی اعلیٰ پرورش کی لگن بھی ایک رومان ہے ۔ کہیں اعلیٰ مقصد کو حاصل کرنے کی لگن ، جنت کے حصول کی کوشش، اللہ کی راہ میں شہادت کی تمنا بھی رومان ہے ۔ آپ نے بجا فرمایا کہ پوری کائنات میں محبت کی خوشبو سے رومانیت پیدا ہوتی ہے ۔
میں ڈاکٹرصاحبہ کابے حد ممنون ہوں کہ آپ نے میری خیریت دریافت کی ۔ بس مجھے آپ جیسی پر خلوص ، ہمدرد بہنوں کی دعائیں چاہئیں ۔ اللہ تعالیٰ آپ کو بھی صحت مند اور خوش و خرم رکھے ( آمین)
آخر میں ’’ ادارہ بتول‘‘ اور قارئین کے لیے نیک تمنائیں اور رمضان المبارک کی آمد مبارک۔
٭…٭…٭
رخسانہ شکیل۔ کراچی
ماہ فروری کا بتول 18 تا ریخ کو موصول ہؤا۔ سب سے پہلے اداریہ سے استفادہ کیا ۔ پھر پہلے اپنی پسندیدہ قانتہ رابعہ کا افسانہ پڑھا۔ شروع میں تو چہرے پر مسکراہٹ آئی لیکن آخر میں سوچ کے نئے در کھول گیا۔پھر شاہدہ ناز قاضی صاحبہ کا افسانہ پڑھا ۔کیا بتاؤں ایسا لگا جیسے ہمارے معاشرے کی ہو بہو تصویر ہو ۔بے شک آج ہمیں توبہ اور صرف توبہ کی ضرورت ہے۔
عالیہ حمید کی ( گواہی) سچی داستان سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ آج بھی جس کی لاٹھی اس کی بھینس کی بنیاد پر ہمارا نظام چل رہا ہے۔خاص مضمون کشمیر کی تاریخ سے متعلق قیمتی معلومات دے رہا ہے۔
شہلا خضر نے دیارِ غیر کی المناکی کو بڑے خوبصورت انداز میں بیان کیا۔ماسی جنتے پڑھ کر خیال آیا کہ آج کل ایسے لوگوں کی کمی سوشل میڈیا پوری کر رہا ہے۔انوار ربانی اور قول نبیؐ ہماری رہنمائی اور تربیت میں ہمارے ساتھ ہوتے ہیں۔
افشاں نوید کے بارے میں کیا کہا جائے جب اور جس موضوع پر بھی لکھتی ہیں روح کے تار ہلا دیتی ہیں۔( امت کی بیٹی) انھوں نے اپنی تحریر میں ایک نازک مسئلے کو بڑی خوبصورتی سے بیان کیا اور ہمیں یہ باور کرایا کہ جب نیت خالص ہو تو اس کے ثمرات ایسے بھی ہوتے ہیں۔
اتنا طویل تبصرہ پہلی بار لکھنے کی جسارت کی ہے۔خدا کرے میرا بتول یونہی امنگیں اور امیدیں بکھیرتا رہے آمین۔
(آپ کی طرح لکھ رہی ہوں ناراض نہ ہوئیے گا)دعاؤں کی طالب اور دعا گو
٭٭٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x