ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

رم جھم لاج – نوردسمبر ۲۰۲۰

شام کی چائے تک بیگم خدیجہ واپس آچکی تھیں جب کہ آسیہ بیگم اپنے شوہر کی تیمار داری کے لیے ہسپتال میں ہی رُک گئی تھیں ۔پانچوں بچے دادی جان کے ارد گرد جمع ہو گئے۔
’’خدا کا شکر ہے کہ ہارون کو ہوش آگیا ہے اور آپریشن بھی کامیاب ہوا ہے۔ دایاں بازو ٹوٹا ہے ۔ خدا کرے گا جلد صحیح ہو جائے گا ۔ بس پھر …‘‘ دادی جان نے بات نا مکمل چھوڑ دی ۔
’’ پھر کیا دادی جان ؟‘‘
’’ کیا بات ہے دادی جان ! سچ سچ بتائیں ۔ آپ ضرور کچھ چھپا رہی ہیں ۔‘‘
’’ کہاں کہاں چوٹ لگی ہے ہمارے ابا کو ؟‘‘۔
بچے سوال پر سوال کرنے لگے۔
’’ بچو! سچ یہ ہے کہ ہارون کا دایاں ہاتھ بری طرح زخمی ہوا ہے ۔‘‘ دادی جان نے گہری سانس لی۔
بچوں کے ذہن میں طرح طرح کے خیالات آنے شروع ہو گئے ۔ دائیاں ہاتھ!اس سے ابا سرجری کرتے ہیں ۔ اگر ابا سرجری نہ کریں گے تو پھر کیا کریں گے ؟ ان کو تو سرجری کر کے لوگوں کے کام آنا بہت پسند ہے اور اگر سرجری نہیں کریں گے تو کمائیں گے کیسے ؟
’’ آمنہ بیٹی، ہم بہت تھک گئے ہیں ! ذرا ہمیں چائے تو بنا دو۔ ‘‘ دادی جان نے کرسی کی پشت سے ٹیک لگاتے ہوئے کہا ۔
’’ دادی جان ! مجھ سے تو چائے نہیں بنے گی ۔ یہ جو کچھ ہوا ، سب میرا قصور ہے ۔ میں اپنے آپ کو کبھی معاف نہیں کر سکتی ۔ مجھے آج پتا چلا ہے کہ میں کتنی بری ہوں ۔ اب میں کیا کروں ؟‘‘ اور اس نے پھر زور زور سے رونا شروع کردیا۔
مومو نے دادی جان کو چائے بنا کر دی ۔ پھر نماز پڑھ کر رات کے کھانے کی تیاری میں لگ گئی ۔ جو یریہ اور جنید بھی نماز پڑھ کر باغ میں کام کرنے چلے گئے۔
’’ اچھا ہے یہ تینوں اپنے آپ کو مصروف رکھ رہے ہیں ۔ آمنہ کو بھی کام کاج میں مصروف ہو جانا چاہیے۔ اور یہ ابراہیم کیوں اتنا چپ ہے ؟ بیمار نہ ہونے والا ہو۔ پہلے ہی رم جھم لاج میں کافی مصیبت آئی ہوتی ہے ۔ نہ جانے کس کی نظر لگ گئی ہے میرے ہارون کو۔ ‘‘ دادی جان سوچوں میں گم تھیں کہ فون کی گھنٹی بجی ۔انھوں نے چونک کر فون کی طرف دیکھا اور ریسیور اٹھا کر کان سے لگایا۔
’’ ہاں ‘‘ بتائو آسیہ… ہارون اب کیسا ہے ؟ خدا کا شکر ہے … نہیں نہیں بھئی ۔ ہم اپنی بہن کے گھر نہیں جارہے ۔ ابھی ہم یہیں رُکیں گے ۔ ہاں، ہاں ہم بچوں اور گھرکو سنبھال لیں گے ۔ تم سکون سے ہارون کے پاس رہو۔ بچوں کی فکر نہ کرو… ہاں ، آیا ہوتی تو بہت آسانی ہو جاتی مگر کیا کریں ۔ خیر ، ہم سب کام دیکھ لیں گے … تم ہارون کا خیال رکھو۔ خدا حافظ۔‘‘

٭…٭…٭

ڈاکٹر ہارون کے حادثے کو دو دن گزر گئے تھے ۔ بیگم خدیجہ اپنی طاقت سے بڑھ کر گھر اور بچوں کو سنبھالنے کی کوشش کر رہی تھیں،مگر بچوں کی ماں کے گھر پر نہ ہونے سے گھر گھر ہی نہیں لگ رہا تھا ۔ بہت ادھورا ، بہت ویران ،جیسے گھر نہ ہو مسافر خانہ ہو ۔ مومو تو گھر کے کاموں میں مصروف رہتی مگر آمنہ کے آنسو ہی نہیں خشک ہو رہے تھے ۔ اس کے چہرے پر زردیاں کھنڈ گئی تھیں۔
’’ اب بس بھی کروآمنہ! تمھارے رونے سے کسی کو فائدہ نہیں پہنچ رہا ،بلکہ ہارون تمھیں اس میں دیکھے گا توگھبرا جائے گا ۔‘‘ دادی جان نے اس کے مسلسل رونے سے پریشان ہو کر کہا۔
’’ دادی جان ! آپ سمجھ نہیں رہیں ۔ میں نے ابا پر ظاہر کیا کہ میں ان سے محبت نہیں کرتی، حالاں کہ میں ان سے محبت کرتی ہوں ۔ اگر میں نے ان کو ڈرامے پر آنے کے لیے کہا ہوتا تو ان کاحادثہ نہ ہوا ہوتا ۔ وہ بھی صحیح سلامت ہمارے ساتھ رم جھم لاج میں بیٹھے ہوتے ۔ میں کتنی بری ہوں ۔ میں اپنے آپ کو معاف نہیں کر سکتی ۔‘‘ اس نے سسکتے ہوئے کہا۔
’’ ہم سمجھ سکتے ہیں کہ تم کو کیسا لگ رہا ہے ۔ تم نے خود غرضی اور کٹھور پن کا مظاہرہ کیا اور اب پچھتا رہی ہو ۔ پشیمان ہو ۔ مگر اب آنسو پونچھو، منہ ہاتھ دھو اور گھر کے کام میں حصہ لو۔ مومو آخر کتنی طرف دیکھے۔ خود تمھیں بھی بہتر محسوس ہوگا ۔‘‘دادی جان نے اُسے سمجھانے کی کوشش کی۔
’’ دادی جان ! آپ کیسی باتیں کر رہی ہیں ۔ مجھے ابا کے حادثے کا سب سے زیادہ غم ہے۔ اس دکھ میں میں کیسے جویریہ اور جنید کی طرح باغ میں کام کروں یا مومو کی طرح برتن دھوئوں؟ آپ میرے جذبات کو نہیں سمجھ سکتیں ۔ مجھ سے کچھ نہیں کیا جائے گا ۔‘‘ آمنہ نے تیوری پر بل ڈال کر کہا ۔
اب کی بار مومو کو غصہ آگیا ۔ اس نے تیز لہجے میں کہا ۔’’ آمنہ باجی ! کیا مجھے ابا کے حادثے کا افسوس نہیں ہے ؟ کیا مجھے ان سے محبت نہیں ہے ؟ لیکن اگر میں ہر وقت بیٹھ کر روتی ہی رہوں گی تو گھر کا کام کیسے ہوگا ؟ مجھے بھی جب ابا کا خیال آتا ہے تو دل چاہتا ہے پھوٹ پھوٹ کر روئوں، مگر اب جب ابا بھی نہیں ہیں اور امی بھی ہسپتال میں ہیں ، دادی جان کا ہاتھ بٹانا ہمارا فرض ہے ۔ میں نے بھی اپنے آنسو بڑی مشکل سے روک کر خود کو کام میں مصروف کیا ہے تاکہ گھر کا نظام درہم برہم نہ ہو ۔ تم کیوں نہیں گھر کے کاموںمیں مدد کر سکتی ؟ آج تم جا کر ہفتے بھر کا سودا سلف لے آئو۔‘‘
’’ کیا ؟ میں جائوں؟ میرا منہ رو رو کر سوج گیا ہے ۔ میری آنکھیں لال ہو رہی ہیں ۔ میں تو اس حالت میں گھر سے باہر نہیں نکل سکتی ۔ تمھیں میرے دکھ اور تکلیف کا کوئی اندازہ نہیں ۔ میرا ذرا احساس نہیں۔ تم کتنی بے رحم ہو کہ مجھے اس حالت میں بازار جانے کے لیے کہہ رہی ہو ۔‘‘ آمنہ کا پارا چڑھنے لگا۔
مومو کے جواب دینے سے پہلے ہی فون کی گھنٹی بج اٹھی ۔ وہ فوراً فون کی طرف لپکی کہ شاید امی کا فون ہو اور وہ کہیں کہ اب ابا کی طبیعت بہتر ہے اور وہ گھر آ رہے ہیں ۔ دادی جان نے سکھ کا سانس لیاکہ بہنوں کی لڑائی بڑھنے نہیں پائی۔
یہ ڈاکٹر ہارون کے کسی دوست کا فون تھا ۔ صبح شام لوگ فون کر کے ان کی خیریت معلوم کر رہے تھے ۔مومو سب کے پیغامات ایک کاپی میں لکھ رہی تھی تاکہ بعد میں اپنے والد کو دکھا سکے ۔ اسے فخر تھا کہ اس کے والد کے اتنے زیادہ چاہنے والے ہیں۔
اتنے میں فون کی گھنٹی دوبارہ بجی۔ اس دفعہ ابراہیم کے لیے فون تھا ۔’’ مجھے ابراہیم ہارون سے بات کرنی ہے ۔ میں اس کے اسکول کا ہیڈ ماسٹر ہوں۔‘‘
’’ ہیڈ ماسٹر صاحب ، آپ؟… جی اچھا،میں ابراہیم کو فون دیتی ہوں ۔‘‘ مومو نے ابراہیم کو ریسیور پکڑ ایا اور خود باورچی خانے میں چلی گئی۔ ابراہیم کی ٹانگیں کانپ رہی تھیں اور ہاتھوں پر پسینا آ رہا تھا ہیڈ ماسٹر صاحب کے فون کا صرف ایک ہی مقصد ہو سکتا تھا۔
’’ھ…ھ…ہیلو؟‘‘ اس کے منہ سے بہ مشکل نکلا۔
’’ جی ابراہیم آپ کو آج دوپہر ڈھائی بجے میرے آفس آنا ہے، سن لیا آپ نے ؟ ٹھیک ڈھائی بجے ۔ سمجھ میں آگیا ۔‘‘
’’ج… ج…جی سر!‘‘ اس کی آواز کپکپا رہی تھی۔
’’ مجھے یقین ہے کہ آپ اچھی طرح جانتے ہوں گے کہ میں آپ سے کیوں ملنا چاہتا ہوں۔‘‘یہ کہہ کر انھوں نے فون بند کر دیا ۔ابراہیم کے ہاتھ سے ریسیور گر گیا اور وہ وہیں زمین پر بیٹھ گیا ۔اتنے میں مومو کمرہ ٹھیک کرنے کے لیے اندر آئی۔
’’ کیا ہوا ابراہیم؟خیریت تو ہے ؟ ہیڈ ماسٹر صاحب نے کیوں فون کیا تھا ؟‘‘ اس نے پریشان ہو کر سوال کیا۔
ایک لمحے کے لیے ابراہیم کے دل میں خیال آیا کہ وہ رحم دل مومو کو سب بتا دے مگر پھر اس کے منہ سے نکلا ’’ کچھ نہیں … وہ … بس ایسے ہی، کچھ اسکول کا کام تھا ۔‘‘ اسے خود ہی جا کر ہیڈ ماسٹر سے ملنا پڑے گا ۔
کاش! ابا گھر ہوتے تو ابراہیم ان کو سب کچھ سچ سچ بتا دیتا اور ان کو ساتھ لے کرجاتا ،وہ یقینا اچھے طریقے سے معاملے کو سنبھال لیتے۔ امی بھی تو نہ تھیں ۔ دادی جان اس کو ضرور صحیح مشورہ دیتیں مگر ان سے اس معاملے پر بات کرنے کی جرأت ابراہیم میں نہ تھی ۔
’’ہو سکتا ہے کہ ہیڈ ماسٹر کی ڈانٹ اور سزا کے بعد معاملہ ختم ہوجائے اورگھر والوں میں سے کسی کو پتا ہی نہ چلے ۔‘‘ اس نے سوچا۔
دوپہر کے کھانے پر ابراہیم دو لقمے سے زیادہ نہ کھا سکا ۔
’’ کیا بات ہے ابراہیم بیٹے ؟ ہم کچھ دن سے دیکھ رہے ہیں کہ تم پریشان ہو۔ نہ مذاق کرتے ہو نہ زیادہ بولتے ہو اور آج تو کھانا بھی نہیں کھا رہے حالاں کہ مومو نے تمھارا پسندیدہ شلجم گوشت بنایا ہے ۔‘‘ دادی اماں نے سوالیہ نظروں سے اُسے دیکھا۔
’’ نہیں نہیں دادی جان ! سب ٹھیک ہے ۔ بس ابا کی وجہ سے فکر مند ہوں اور آج کچھ بھوک بھی نہیں ہے ۔ ‘‘ اس نے بات بنائی۔
’’ بس بیٹے دعا کرو، خدا ہمارے ہارون کو جلدی صحت یاب کرے ۔ جائو، تھوڑا قیلولہ کر لو۔ تمھاری طبیعت بہتر ہو جائے گی ۔‘‘ مگر ابراہیم کو قیلولہ کرنے کے بجائے ہیڈ ماسٹر کے آفس جانا تھا۔

(جاری ہے)

٭…٭…٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x