ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

اک ستارہ تھی میں 4 – بتول جنوری ۲۰۲۳

پون کا باغیچہ سانس لے رہا ہے ۔ بہاروں کو آواز دے رہا ہے ۔مگر پون کی اپنی زندگی میں یادوں کی خزاں کا موسم ہے ۔ ایک بچہ اسے اظفر کی یاد دلا دیتا ہے ۔ اظفر جوکبھی بہت ضروری تھا مگر اب محض گزرا ہؤا وقت ہے ماریہ واپس جا چکی ہے ۔ بی بی اور پون دونوں ہی اس کی کمی شدت سے محسوس کر رہی ہیں ۔ گھر کی مرمت کے دوران بی بی کی کچھ پرانی کتابیں ملتی ہیں ۔ جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ بی بی ایک پڑھی لکھی خاتون ہونے کے باوجود ایک سادہ اور عام عورت کی زندگی گزار رہی ہیں ۔ پون نے قرآن پڑھنا شروع کر دیا ہے ۔ اور وہ اس بات پہ بہت خوش ہے

’’ اچھا تو تم نے وہ کتابیں دیکھ لی ہیں ۔ مجھے کتابیں پڑھنا بہت زیادہ پسندہے۔ خاص طور پر اردو انگریزی ادب لیکن میں نے انہیں جان بوجھ کر ڈبے میں بند کر کے نظروں سے اوجھل کردیا ہے کیونکہ اب میں صرف اس زندگی کا نصاب پڑھنا چاہتی ہوں جو ہمیشہ رہنے والی ہے ، جو میری آنکھیں بند ہونے کے بعد شروع ہو گی اور مجھے ہمیشہ گزارنی ہے ۔ یہ کتابیں مجھے بہت پسند تھیں اور ہیںبھی … میں ان میں کھو کر رہ جاتی ہوں ۔ مگر اب زندگی کی مہلت کم ہے … اسی لیے چاہتی ہوں یہ مجھے نظر نہ آئیں اور نہ مجھے میرے مقصد سے ہٹائیں اور وہ مقصد ایک ہی ہے … آخری امتحان کی تیاری !‘‘
وہ بول رہی تھیں اور پون کو یوں لگ رہا تھا وہ آج پہلی بار اُن سے مل رہی ہے ۔ کس قدر عظیم تھیں وہ ! انہوں نے اپنے نفس کو شکست دے ڈالی تھی ۔ پون نے سنا تھا ان کے شوہر ایک بہت عام سے انسان تھے اور سرکاری ملازم تھے ۔ مگر شاید انھیں اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا کہ اُن کا شوہر ملازم ہے یا مزدور اُن کے لیے ایمان اہم تھا انسان ہم تھے اُن کی ڈگریاں اُن کے عہدے نہیں۔
’’ آپ نے کبھی میرے متعلق کچھ نہیں پوچھا‘‘ آج وہ لگے ہاتھوں اپنی یہ حیرانی بھی دور کر لینا چاہتی تھی۔
’’کیا سوال نہ کرنا بھی آپ کے نصاب میں شامل ہے ؟‘‘
’’ہاں اصل میں قرآن ہمیں یہی سکھاتا ہے کہ تجسس نہ کرو ،کسی کی ٹوہ میں نہ رہو۔ جب میں گائوں آئی تو میں نے دیکھا یہاں ہر کوئی دوسرے پر گھات لگا کر بیٹھا ہؤا ہے دوسروں کے پیچھے پڑا ہے ۔ اُن کے عیب اور راز جاننا چاہتا ہے ۔ تب میں نے سمجھا کہ یہاں ضرورت ہے اور کہیں نہیں ہے ، تو سب سے پہلے میں نے اس آیت کو خود پر نافذ کیا اور پھر دوسروں کے سامنے رکھا ۔ تو اب جب بھی میرے اندر سوال اٹھتا ہے تو پھر میں اپنی زبان کو وہیں روک لیتی ہوں ۔ یہ قرآن کا اثر ہے ‘‘۔وہ سادگی سے بولی تھیں ۔
’’ تو کیا قرآن اتنا اثر کرتا ہے دلوں پر ؟‘‘ وہ حیران تھی۔
’’ ہماری تمہاری سوچ سے بھی زیادہ … یہ تو دلوںکی دنیا ہی بدل کر رکھ دیتا ہے … سوائے اُن دلوں کے جو مہر زدہ ہوں، جنھیں ہدایت کی ضرورت ہی نہ ہو ‘‘۔
تو کیا وہ بھی مہر زدہ تھا ؟ بی بی کی بات سن کر اُس کا دھیان اظفر کی طرف گیا تھا ۔ اُسے بھی تو ہدایت کی بجائے دولت چاہیے تھی اسی لیے تو سب کچھ اُس نے اس قدر آسانی سے چھوڑ دیا تھا اور نفس کا غلام بن گیا تھا اس نے اپنی روح شیطان کو بیچ دی تھی۔
حمیرا کی شادی طے پا گئی تھی ۔ وہ جانا تو نہیں چاہتی تھی مگر اُس کے اصرار کے سامنے ہار ماننا ہی پڑی۔ وہ جانے کو تیار کھڑی تھی جب بی بی

کمرے میں آگئی ۔
’’اچھی لگ رہی ہو یہ بھی پہن لو ‘‘ انہوں نے ایک مخملی ڈبیا اس کی طرف بڑھائی۔
اس نے کھول کر دیکھا ۔ سونے کے چھوٹے چھوٹے بُندے تھے سفید نگوں والے ۔ آخر بی بی کو کیسے پتہ چلا اُسے سفید نگوںوالا زیور پسند ہے ۔ وہ حیران تھی۔
’’ یہ تو بہت خوبصورت ہے ‘‘۔اُس نے دل سے تعریف کی ۔
’’ اچھا تمھیں پسند آئے تو پھر جلدی سے انہیں پہن لو ‘‘۔
’’ ارے نہیں بی بی یہ بہت قیمتی ہیں ۔ اگر شادی میں گم ہو گئے تو میں کہاں سے لوٹائوں گی آپ کو ‘‘ وہ ڈبیہ ان کی طرف بڑھاتے ہوئے بولی۔
’’ تو تمھیں لوٹانے کو کون کہہ رہا ہے یہ تمہارے ہی ہیں ۔ ویسے بھی میری نظر میں تو یہ صرف پیلی دھات ہی ہے ۔ مجھے میری بہن نے دیے تھے سوچا تھا ماریہ کو دوں گی مگر اب یہ تمہارے لیے ہیں ‘‘۔ وہ ڈبیہ واپس اُس کے ہاتھ پر رکھ چکی تھیں۔
’’ اگر یہ ماریہ کے لیے ہیں پھر تو میں بالکل نہیں لے سکتی ‘‘ اس نے صاف انکار کیا ۔
’’ میری نظر میں تو تم اور ماریہ ایک جیسی ہی ہو۔ اب انھیں جلدی سے پہن لو تمھیں دیر ہو رہی ہے ‘‘۔
’’بی بی !‘‘
وہ روتی ہوئی اُن کے گلے لگ گئی تھی ۔ اُسے کیا معلوم تھا جب سب اس کا ساتھ چھوڑ جائیں گے تب سینکڑوں میل دور ایسی انمول محبت کا خزانہ اس کا منتظر ہو گا ۔ وہ اس کی ماں بھی تھیں بہن بھی تھیں اور سہیلی بھی ۔ وہ آنسو پونچھتے ہوئے باہر آگئی۔
اُن کی محبت کا قرض بڑھتا جا رہا تھا ساتھ ساتھ اُس کے دل کا بوجھ بھی ۔ ایک احساس جرم تھا جو دل کو کچو کے لگاتا تھا ۔ وہ اب مزید اُن سے نہیں چھپ سکتی تھی نہ ہی چھپنا چاہتی تھی۔ تو کیا سب کچھ انھیں بتا دینا چاہیے ؟ سب کچھ ۔ وہ کون تھی ، یہاں کیوں تھی ۔ کس مقصد کے تحت تھی ؟ یہ نہ ہو یہی چیزیں کل کو اُن کے لیے مسئلہ بن جائیں اور انھیں خبر تک نہ ہو۔
لیکن اگر سب کچھ جاننے کے بعد اُن کی نگاہیں بدل گئیں تو ؟ بس یہی وہ خوف تھا جو آج تک اُسے حقیقت بتانے سے روکتا آیا تھا ۔ وہ سب کچھ بتا کر اپنی آخری پناہ گاہ کھونا نہیں چاہتی تھی ، لیکن شاید اب وہ وقت آگیا تھا ۔ وہ سوچ رہی تھی اُسے سب کچھ بتانا ہی ہوگا ۔ وہ انھیں مزید اندھیرے میں نہیں رکھے گی مزید دھوکہ نہیں دے گی ، یہی ٹھیک رہے گا۔
وہ شادی میں جتنی دیر بیٹھی رہی تھی اسی اُدھیڑ بُن میں مصروف رہی تھی ، اس بات سے بے خبر کہ کوئی بہت دیر سے اُسے دیکھے جا رہا تھا۔
وہ بڑی دیر سے کسی کی نظروں کے حصار میں تھی ۔ حمیرا کی بارات لاہور سے آئی تھی اور دولہا کے سارے دوست شتر بے مہار حمیرا کے گھر کو خالہ جی کا گھر سمجھتے ہوئے ادھر اُدھر گھوم پھر رہے تھے ۔ تب اچانک اس کی نظر پون پر پڑی تھی ۔ وہ بھی دولہا کے دوستوں میں شامل تھا اور اُسے یہاں دیکھ کر بہت بُری طرح سے چونکا تھا ۔ وہ ہر جگہ اُس کے ہونے کی توقع کر سکتا تھا مگر یہ تو آخری جگہ تھی جہاں اس کی موجودگی ممکن تھی ۔
اچھا تو یہ یہاں چھپی ہوئی ہے ! وہ دل ہی دل میں مسکرایا تھا ، اور ہم نے اسے سارے جہان میں ڈھونڈ لیا ۔
’’ یہ لڑکی کون ہے ؟‘‘
اُس نے ساتھ بیٹھے لڑکے سے جو اس سے کافی دیر سے باتیں کر رہا تھا اوراسی گائوں کا رہنے والا تھا سر سری سے انداز میں پوچھا تھا ۔
’’ یہ ؟‘‘ اُس نے یہ پر کافی زور دیا ’’ یہ تو ہمارے گائوں کے سکول میں پڑھاتی ہے ، استانی ہے یہاں پر … عجیب سا نام ہے پونم یا پھر …‘‘ اس نے ذہن پر زور ڈالا ۔
’’ پون؟‘‘ وہ آہستہ سے بولا تھا ۔
’’ ہاں بالکل یہی نام ہے ۔ بچوں کو پڑھانے کا بڑا شوق ہے ۔ خود گھروں سے بلا بلا کر لاتی ہے ۔ شکر ہے میں بڑا ہو چکا ہوں ‘‘ وہ مسکراتے ہوئے بولا تھا ’’ ورنہ میں بھی سکول میں بیٹھا اب پ پڑھ رہا ہوتا ۔ ویسے کیا آپ پہچانتے ہیں اسے ؟‘‘

’’ نہیں ‘‘ اس نے مختصر جواب دیا تھا ۔
حالانکہ حقیقت تو یہ تھی وہ اسے اندھیرے میں بھی پہچان سکتا تھا ۔ ایک زمانے تک سوتے جاگتے صرف اسی کو تو دیکھا تھا اس نے، اسی کو تو سوچا تھا اس نے ۔ اب بھی وہ سوچتا تو اسی کے متعلق تھا مگر سوچنے کا انداز بدل گیا تھا۔ شادی میں سے اُس کی دلچسپی ختم ہو کر رہ گئی تھی ۔ اب اُس کا دھیان کہیں اور تھا ۔ کہاں بتائے ؟ کس کو بتائے ؟ کہ وہ جسے سارے زمانے میں ڈھونڈ لیا تھا وہ یہاں چھپی بیٹھی تھی۔ کیا خود جا کر پکڑ لے اور ایک ہی بار سارے بدلے لے لے ؟ یا پھر اس کے ماں باپ کو بتائے وہ خود ہی سارے حساب برابر کرلیں ؟
نہیں ! اس نے اپنے ہی خیال کی نفی کی ۔ وہ ہیں تو اس کے ماں باپ ، ہو سکتا ہے انھیں اس پر رحم آجائے اور وہ اس کے ساتھ وہ کچھ نہ کریں جس کی وہ مستحق ہے ۔ تو پھر کیوں نہ اس گائوں والوں کو اس کی اصلیت کی خبر دے دی جائے کہ وہ یہاں کس طرح انھیں بے وقوف بنا رہی ہے ۔
نہیں یہ بھی صحیح نہیں ، اس نے دل میں سوچا ۔ وہ کسی فیصلے تک نہیں پہنچ پا رہا تھا ۔ کیوں نہ اس کی خبر وہاں دی جائے جہاں جانے کے بعد اس کی کبھی کوئی خبر نہ آئے ۔ اس کو ایسے شکنجے میں کس دیا جائے جس سے وہ مرتے دم تک جان نہ چھڑا سکے ۔ صرف موت ہی اس کو رہائی دلائے ۔
اپنے اس خیال پر اس کے ہونٹوں پر ایک مسکراہٹ آچکی تھی۔ اُسے معلوم ہو چکا تھا اس کی اطلاع اسے کہاں دینی تھی۔
٭…٭…٭
وہ اس ارادے کے ساتھ شادی سے گھر لوٹی تھی کہ جاتے ہی بی بی کو سب کچھ بتا دے گی مگر وہ گھر پر ہی نہیں تھیں ۔ شام کے قریب ان کی واپسی ہوئی تھی ۔ وہ بہت تھکی ہوئی لگ رہی تھیں ۔ اذان کے بعد اُن کا نمازوں اور نوافل کا معمول تھا اور پھر وہ سو جاتی تھیں ۔ پھر جو بات اسے بتانا تھی وہ ایسی نہیں تھی کہ بس کھڑے کھڑے بتا کر فارغ ہو جاتی اُسے مناسب موقع اور ماحول کا انتظار کرنا تھا جہاں وہ سکون سے اپنی بات کہہ سکے ، اپنے خیالات اور اُن کے نتیجے میں کیے جانے والے غیر معمولی فیصلوں کا جواز پیش کر سکے ۔ سو اس نے فیصلہ کیا تھا وہ صبح بات کرے گی یا پھر سکول سے واپس آکر۔
صبح اس کی آنکھ بہت دیر سے کھلی ۔ سکول جانے کی جلدی تھی وہ اب بھی کچھ نہیں بتا سکتی تھی ۔
’’ میں کچھ دنوں تک ماریہ سے ملنے جائوں گی ‘‘ انہوں نے ناشتہ کرتی پون کو اطلاع دی تھی۔
’’ اس کا مطلب ہے آپ کو بیٹی بہت یاد آ رہی ہے ‘‘اُس نے چائے کا گھونٹ بھرا ’’ اچھا میں اس کے لیے بازار سے کچھ چیزیں لائی تھی وہ آپ نے ضرور لے کر جانی ہیں ۔ میں نکال کر سامنے رکھ دوں گی تاکہ جب بھی آپ جائیں لے جانا نہ بھولیں ۔ مجھے ذرا جلدی ہے میں چلتی ہوں ‘‘۔ وہ انھیں خدا حافظ کہہ کر باہر آگئی۔
اس کی کلاس دن دگنی رات چوگنی ترقی کر رہی تھی ۔ بچے مس پون کو بہت پسند کرتے تھے کیونکہ وہ نہ ڈانٹتی تھی نہ مارتی تھی ۔ کہانیاں بھی سناتی تھی ان کے ساتھ کھیلتی بھی تھی ۔ گائوں کی دکان سے اکثر ان کے لیے چپس ، ٹافیاں بھی لے آتی ، کبھی کبھی انھیں سکول سے باہر بھی لے جاتی ۔ پون کو بھی یہ بچے بڑے عزیز تھے ۔ اُسے یاد تھا سکول میں جن اساتذہ نے اس کے ساتھ پیار محبت کا سلوک کیا تھا ، ہمدردی اور توجہ سے پڑھایا تھا وہ آج بھی اس کے دل و دماغ میں چاند ستاروں کی طرح چمکتے تھے ۔ وہ بھی اپنے شاگردوں کے دماغ میں اچھی یاد بن کر رہنا چاہتی تھی۔اسی لیے وہ بچوں سے ہمیشہ پیار محبت سے پیش آتی ۔ اُن کی خواہشات اور جذبات کا خیال رکھتی تھی۔
اُس کا آخری پیریڈ چل رہا تھا جب صائمہ اس کی کولیگ تیز قدموں سے چلتی پھولے سانسوں کے ساتھ اس کے پاس پہنچی تھی۔
’’ کیا ہؤا ؟ ‘‘ پون اس کا چہرہ دیکھ کر ہی گھبرا گئی تھی ۔ اس کے ہاتھ میں موبائل بھی تھا ۔
’’ پون تمھیں کچھ پتہ چلا ؟‘‘ اس کا سانس ابھی تک اسی طرح چل رہا تھا ۔
’’ کیا … تم کچھ کہو گی تو پتہ چلے گا ناں ‘‘مگر اس کا دل پہلے ہی

زور زور سے دھڑکنا شروع ہو گیا تھا ۔
’’ ابھی میرے گھر سے فون آیا تھا ‘‘ وہ رُک رُک کربول رہی تھی ’’بی بی کی بیٹی ماریہ فوت ہو گئی ہے ‘‘۔
’’ کیا ؟‘‘ اس نے بڑی مضبوطی سے میز کا کونہ پکڑا تھا ورنہ اسے یقین تھا وہ گرنے والی ہے اور پھر تھوڑی دیر بعد وہ کرسی پر واقعی گر سی گئی تھی۔
’’یہ کیسے ہو گیا …‘‘ وہ جیسے اپنے آپ سے بول رہی تھی ’’ بی بی تو مر جائیں گی ‘‘ اُسے لگا وہ اپنے آپ سے سر گوشی کر رہی ہے ۔ اس کی آواز آنسوئوں میں ڈوب چکی تھی ۔
’’آج صبح اس کے ہاں بیٹا پیدا ہؤا تھا مگر ماں بیٹا دونوںنہیں بچ سکے ‘‘۔
مس صائمہ کچھ اور بھی بتا رہی تھی مگر اس کی آنکھیں جیسے پتھر کی ہو گئی تھیں اور اُن میں ایک ہی تصویر ثبت ہو کر رہ گئی تھی ۔ ہنستی کھلکھلاتی ماریہ کی تصویر ۔ تم ایسا کیسے کر سکتی ہو ؟ و ہ اس سے مخاطب تھی ، تم اپنی اس ہنسی کو منوں مٹی تلے کیسے چھپا سکتی ہو ؟ تم اپنی ماں سے جو تمھیں یاد کر کرکے جیتی ہیں اتنی دور کیسے جا سکتی ہو ؟ تم اکیلے اتنا بڑا فیصلہ کیسے کر سکتی ہو ؟ ابھی تو زندگی تمہارے لیے رنگوں پھولوں اور بہاروں کی کہانی تھی یہ کہانی شروع ہوتے ہی ختم کیسے ہو گئی ؟ کاش تمہاری جگہ میں چلی جاتی ، کیونکہ میری زندگی تو کبھی شروع ہی نہیں ہو سکی ۔
وہ ہاتھ ٹھوڑی کے نیچے رکھے کہنی میز پر ٹکائے بے حس و حرکت بیٹھی تھی ۔ اتنا اُسے معلوم تھا اُس کے آنسو اس کا پورا چہرہ اُس کا ہاتھ اس کا بازو کہنی تک بھگو چکے ہیں۔ اُس نے بڑی مشکل سے چہرے کے ساتھ چپکا ہؤا ہاتھ ہٹایا تھا اور پھر پرس اٹھا کر نیم جان قدموں سے گھر کی طرف چل پڑی تھی ۔
وہ جیسے ہی دروازہ کھول کر گھر کے اندر داخل ہوئی تھی بی بی اسے سامنے ہی کچھ عورتوں کے ساتھ بیٹھی نظر آگئی تھیں ۔ وہ تیزی سے آگے بڑھ کر اُن سے لپٹ گئی تھی ۔ اس کے آنسو ان کا کندھا بھگو رہے تھے مگر اسے لگ رہا تھا کہ کچھ ہے جو عجیب ہے ، مختلف ہے یا کچھ غیر موجود ہے ، اس کا تو خیال تھا جب وہ گھر پہنچے گی تو بی بی بے چاری غم سے نڈھال کسی کونے میں بے ہوش پڑی ہوں گی یا پھر رو رو کر پاگل ہو رہی ہوں گی مگر اس کی توقع کے برعکس یہاں تو ایسا کچھ بھی نہیں تھا ۔ نہ ماتم نہ شکوہ نہ شکایت … ایسے موقعوں کے جتنے بھی روایتی لوازمات تھے ان میں سے یہاں کوئی ایک بھی موجود نہ تھا ۔
’’ بیٹا تم تھکی ہوئی ہو تمھیں بھوک بھی لگ رہی ہو گی جائو جا کرکچھ کھا لو ‘‘۔
وہ اپنے خیالوں سے بی بی کی آواز پر چونکی تھی اور پھر ایک جھٹکے سے اُن سے الگ ہوئی تھی۔ آج ان کی اکلوتی بیٹی مر گئی تھی اور ان کو آج بھی اس کے کھانے کی فکر پڑی تھی ۔ کیا ان کو ماریہ کے جانے کا کوئی دکھ نہیں تھا ؟اس کی آنکھوں میں شدید حیرت تھی۔
’’ بیٹے یہ سب امتحان کے پرچے ہیں اور ہمیں ہر قیمت پر انہیں پاس کرنا ہے ۔ سب سے بڑا نقصان اللہ کی ناراضگی ہے باقی تو سب نقصان پورے ہو جائیں گے ‘‘۔
وہ اس کی حیرتوں کا بڑے سکون سے جواب دے رہی تھیں جیسے اس کو تسلی دے رہی ہوں ۔مگر اس نے دیکھا ان کی آنکھیں سرخ لال ہو رہی تھی ۔
’’ میں اپنے ہوش و حواس کیوں کھوئوں ۔ میرے اللہ نے مجھے پہلے ہی بتا دیا تھا جو آیا ہے اُسے جانا بھی ہے ، ہر نفس کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے اور میں اس بات پر ایمان لائی تھی۔ اب چیخ چلا کر اپنے ہی ایمان کو کیسے جھٹلا دوں ۔ مجھے اس کی جدائی کا بہت دکھ ہے میں اس دنیا میں اب اسے کبھی نہیں دیکھ سکوں گی ‘‘ ان کی آواز تھوڑی دیر کو بھر اگئی تھی ۔’’ مگر اچھی خبر یہ ہے کہ ہم دوسری دنیا میں ضرور ملیں گے اور وہاں ہم کبھی جدا نہیں ہوں گے ۔ ماں باپ کو جب پتہ چلتا ہے ناں کہ ان کی دور بیاہ کر جانے والی بیٹی خوش ہے تو وہ اسی میں خوش ہو جاتے ہیں۔ جدائی انھیں پریشان نہیں کرتی ۔ اسی طرح مجھے یہ بات سکون دے رہی ہے کہ وہ اللہ کی جناب میں چلی گئی ہے جہاں وہ ہمیشہ خوش رہے گی ۔ اب کوئی غم اسے پریشان نہیں کرے گا ۔ مجھے اس بات کا یقین ہے اور یہی یقین مجھے غم زدہ نہیں

ہونے دے گا ‘‘۔
دوسروں کو صبر کی تلقین کرنا کتنا آسان ہوتا ہے ، وہ سوچ رہی تھی ۔ مگر جب کلیجہ ٹکڑے ٹکڑے ہو کر حلق میں آرُکے اور آنکھوں سے خون ابلنے کو تیار ہو تب صبر کیسے کرتے ہیں یہ بی بی نے کر کے دکھایا تھااور اس کا دعویٰ تھا کہ وہ ان کو اندر باہر سے جان گئی ہے ۔ وہ تھکے قدموں سے پیچھے ہٹ کر دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھ گئی۔
مگر وہ زندگی کے ہر نئے موڑ پر اسے پہلے سے زیادہ حیران کر دیتی تھیں ۔ وہ کسی بھی معاملے میں اعلیٰ سے کم پر راضی ہی نہیں تھیں ۔ ماریہ کا ہنستا مسکراتا چہرہ بار بار اس کی آنکھوں کے سامنے آ رہا تھا ۔ اس کا جی چاہ رہا تھا وہ چیخیں مار مار کر روئے مگر ماریہ کی ماں صبر کر رہی تھیں ، اچھا صبر ! وہ اس طرح رو رو کر ان کے صبر کو کسی آزمائش میں نہیں ڈالنا چاہتی تھی۔ اس نے کچھ عرصہ پہلے ایک حدیث پڑھی تھی جس کا مفہوم کچھ یوں تھا کہ صبر وہی ہوتا ہے جو بری خبر ملنے پر فوراً کیا جائے ۔ چیخنے چلانے شکوے شکایتیں کرنے کے بعد ہونے والی تھکاوٹ اور اس کے نتیجے میں اختیار کی جانے والی خاموشی صبر نہیں اور اس نے صبر کا اصل مفہوم آج بی بی کو دیکھ کر پایا تھا ورنہ و ہ بے خبر ہی رہتی ۔
گائوں کی خواتین سے بی بی کا صحن بھرتا جا رہا تھا ۔ وہ ہر ایک کو اسی پرانے معمول کے مطابق مل رہی تھیں۔حال احوال پوچھ رہی تھیں ۔ کسی کو کرسی پر کسی کو چار پائی پر نہایت عزت سے بٹھا رہی تھیں ۔ ان کا حوصلہ اور صبر تو پہاڑ سے زیادہ اونچا تھا ۔ تھوڑی دیر بعد ان کا بھانجا انھیں لینے آچکا تھا ۔ جاتے ہوئے بھی انھیں اسی کی فکر تھی ۔ سلمیٰ کو ساتھ سلانے کی تاکید کی تھی انہوں نے۔ میں تین دن بعد آجائوں گی وہ جاتے جاتے بولی تھیں۔
پھروہ بہت دیر تک یونہی بے حس و حرکت بیٹھی رہی تھی جو دکھائی دے رہا تھا وہ سمجھ نہیں آ رہا تھا اور جو سمجھ آ رہا تھا اس پر یقین نہیں آ رہا تھا ۔ مصیبت کی اس سخت ترین گھڑی میں بی بی نے جس اعلیٰ کردار کا مظاہرہ کیا تھا وہ اس سے پہلے اس نے کہاں دیکھا تھا اسے اب بار باریوں کیوں لگتا تھا کہ وہ بی بی کے پاس آئی نہیں تھی بھیجی گئی تھی ۔ زندگی کے جو سبق وہ یہاں پڑھ رہی تھی وہ اعلیٰ سے اعلیٰ یونیورسٹی بھی نہیں پڑھا سکتی تھی ۔ سچ ہے ایمان کا سبق یونیورسٹیاں نہیں بی بی جیسے لوگ پڑھاتے ہیں۔
سب خواتین ایک ایک کر کے رخصت ہو گئی تھیں۔ اب وہ مکمل طور پر تنہا تھی وہ آہستہ آہستہ چلتی کمرے میں آگئی ۔ سامنے ہی وہ شاپر رکھا تھا جس میں وہ ماریہ کے لیے چیزیں خرید کر لائی تھی ۔ ایک بہت خوبصورت ریڈی میڈ جوڑا تھا چمڑے کا ہینڈ بیگ تھا اورایک سرخ سویٹر ۔ اسے معلوم تھا وہ اس کی سرخ و سفید رنگت پر بہت اچھا لگے گا مگر اس کا کیا کیا جائے کہ اس نے سرخ کی بجائے سفید رنگ پسند کرلیا تھا اور اس کے ساتھ ہی اس کے رُکے آنسودوبارہ سے جاری ہو گئے تھے ۔ اس کی سسکیاں آہوں میں اور آہیں چیخوں میں کب تبدیل ہوئیں اسے پتہ ہی نہ چل سکا ۔ اسے معلوم تھا یہ صرف ماریہ کا غم نہیں ہے جو آنکھوں کے راستے بہہ نکلا ہے ۔ بہت سارے اور غم بھی جانے کب سے منتظر تھے کہ انھیں رویا جائے آج ان کا انتظار ختم ہو گیا تھا وہ سارے بچھڑے ہوئوں کو آج رونا چاہتی تھی کیونکہ آج اسے کوئی دیکھنے اور روکنے والا نہیں تھا اور آج سے پہلے اسے چیخ چیخ کر یوں رونے کا موقع بھی تو نہیں ملا تھا ۔ سو وہ اس موقع کا خوب فائدہ اٹھا رہی تھی۔
تیسرے دن کی شام تک بی بی واپس آگئی تھیں ۔ وہ بہت تھکی ہوئی اور نڈھال لگ رہی تھیں ۔ وہ ان سے ماریہ کے متعلق بہت سی باتیں کرنا چاہتی تھی ، بہت کچھ پوچھنا چاہتی تھی مگر اسے معلوم تھا آج کے دن اس سے متعلق ہر بات ہر سوال انھیں تکلیف دے گا ۔ رات وہ دیر تک بستر پر کروٹیں بدلتی رہی تھی ۔ وہ بات جو وہ بہت دنوں سے انھیں بتانا چاہ رہی تھی آج پھراُسے تنگ کر رہی تھی۔انھیں بتانا بہت ضروری تھا اس سے پہلے کہ وہ یہ بات کسی اور کے منہ سے سنیں ۔ کل صبح وہ انھیں سب کچھ بتا دے گی ، وہ ایک فیصلہ کر کے مطمئن ہو گئی تھی اور پھر کچھ دیر بعد سو بھی گئی تھی۔
صبح صحن سے آتی بچوں کی آواز پر ہی اس کی آنکھ کھلی تھی ۔
’’ ارے تم اٹھ گئیں ‘‘ بی بی اسے دیکھتے ہی بولی تھی ’’ چلو میں تمہارے لیے ناشتہ بناتی ہوں ‘‘۔
’’ ارے آپ تکلیف نہ کریں ‘‘ وہ کہتی رہ گئی ۔

مگر بی بی اُن لوگوں میں سے تھیں جو پیش کش کرتے ہی اس پر عمل بھی کر ڈالتے ہیں پھر ابھی وہ ناشتہ کر ہی رہی تھی کہ سلمیٰ بھی کتابیں اٹھائے آگئی۔ وہ اسے بھی پڑھا رہی تھی اور ساتھ میں بی بی کی آواز بھی سن رہی تھی ۔ وہ بچوں کو کسی نئی آیت کا ترجمہ یاد کرا رہی تھیں ۔ اس نے دلچسپی سے سنا وہ کہہ رہی تھیں لاتقنطوامن رحمۃ اللہ( اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا ) ۔
اب وہ ان لوگوں کی کہانیاں سنا رہی تھیں جو اللہ کی رحمت پر یقین کرتے تھے کبھی مایوس نہیں ہوئے اور کامیاب ہوگئے ۔ وہ یہ سب غور سے سن رہی تھی جب دروازہ بہت زور سے بجا تھا ۔
’’ جائو سلمیٰ لگتا ہے تمہاری سہیلیاں بھی آگئیں پڑھنے کے لیے … دروازہ کھولو‘‘۔
سلمیٰ تیزی سے دروازے کی طرف بڑھی اور پھر اس سے بھی زیادہ تیزی سے واپس بھی آئی تھی۔ وہ سخت گھبرائی ہوئی تھی ۔
’’ بی بی دروازے پر تو پولیس کھڑی ہے ‘‘ اس کی آواز سر گوشی سے کچھ ہی بلند تھی ۔
’’ کیا ؟ پولیس ؟‘‘ انہوں نے اسے حیرت سے دیکھا تھا ’’ پولیس کا یہاں کیا کام ‘‘۔
وہ چپل پائوں میں اُڑستی چادر سے چہرہ ڈھانپتی دروازے کی طرف بڑھی تھیں ۔ پون بھی ان کے پیچھے ہی دروازے کی طرف آئی تھی مگر مردہ قدموں اور تیزی سے دھڑکتے دل کے ساتھ ۔ تو کیا اس کی آزمائش کا وقت آچکا تھا ؟
’’ جی آپ کو کس سے ملنا ہے ؟‘‘ بی بی دروازے کی اوٹ سے پوچھ رہی تھیں ۔
’’ پون مہر کون ہے ؟‘‘ جواب میں لیڈی کانسٹیبل کی کرخت آواز آئی تھی۔
’’ جی میں ہوں‘‘ وہ بی بی کے پیچھے سے نکل کر دروازے کے سامنے آگئی تھی ۔
’’ ہمارے ساتھ چلو ہم تمھیں جاسوسی کے الزام میں گرفتار کر رہے ہیں‘‘۔
(جاری ہے )٭

 

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x