ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

العروس – بتول اگست ۲۰۲۱

سفید ستاروں سا لباس اس کے جسم پر سج سا گیا تھا۔حسن و نور بکھیرتا دمکتا چہرہ دیکھنے والی آنکھوں کو خیرہ کیے دیتا تھا۔ سفید ہی پھولوں کا زیور چہرے سے چھلکتی مسکراہٹ اور آنکھوں کی چمک اسے حوروں سا حسین بنا رہی تھی۔ ہر سُو بس خوشی ،رنگ اور خوشبو اور دور تک پھیلی چاندنی……بس ہر جانب حسن ہی حسن تھا ۔
اس کے بے حد اپنے اس کے ارد گرد اسے اپنی محبتوں کے حصار میں لیے آگے بڑھ رہے تھے۔کچھ ہی دور اس کے سامنے سنہرا چمکتا محل جیسے اس کےآنے کا منتظر تھا اور اس محل کے آگے اس کا شہزادہ جس سے وہ پچھلے چند سالوں سے منسوب تھی آج اسے اپنا بنانے کا عہد نبھانے کے لیے ہاتھ بڑھائے کھڑا تھا۔
’’انس….انس…..‘‘
اس نے اسے پکارنا چاہا مگر اس کی آواز جیسے اسی کے کانوں میں گونج کر رہ گئی……انس اس کی جانب دیکھ کر مسکرا تورہا تھا مگر آہستہ آہستہ وہ دھند میں غا ئب ہوتا چلا گیا ۔
’’انس… انس…..‘‘وہ چلائی۔
اور پھرشیما کی آنکھ کھل گئی۔اس کے سرہانے رکھا اس کا موبائل کسی کا پیغام آنے کی اطلاع دے رہا تھا ۔اس نے گہری سانس لے کر خواب کے اثر سے نکلنا چاہا۔ فون کی سکرین پر نظر ڈالی جس پر پیغام جگمگا رہا تھا۔
’’کتنے دن رہ گئے ہیں؟‘‘
شیما کے چہرے پر بے اختیار مسکراہٹ آگئی۔
’’بس چند دن!‘‘ اس نے جواب لکھا ۔
موبائل بند کر کے اس نے اپنے خشک ہوتے گلے کو پانی کے گھونٹ بھر کر تر کیا اور اپنے دیکھے ہوئے خواب کے بارے میں سوچنے لگی۔
٭ ٭ ٭
وہ بس اسی کے آنے کا منتظر تھا ۔تا حد نگاہ پھیلے بادلوں نے اس کی آنکھوں کے آگے سفید چادر سی تان دی تھی اور جیسے ہی بادل ہٹتا چاندنی اپنے پورے زور کے ساتھ اس کا ارد گرد روشن کر دیتی۔اسی لمحے اس کے سامنے سے بادل ہٹے اور اسے سامنے وہ آتی دکھائی دی ۔ وہ سفید لباس زیب تن کیے ان تمام دلہنوں سے زیادہ حسین تھی جو اس نے اپنی تمام زندگی میں دیکھی تھیں۔ وہ تنہا نہیں تھی اس کے ساتھ اس کے خاندان کے سبھی افراد تھے ۔وہ اس کی جانب دیکھ کر مسکرائی اور اپنا ہاتھ بڑھا دیا۔
انس کو ایسا لگا جیسے اس نے اسے پکارا ہو ….انس نے اپنا ہاتھ آگے بڑھا دیا اور پھر اس کے آگے بادل اور دھند ایک دم سے بڑھ گئی۔
’’شیما…..شیما……‘‘
وہ دونوں ہاتھوں سے بادلوں کو اپنے آگے سے ہٹانے کی کوشش کررہا تھا…..کمرے میں ٹھنڈ تھی ۔انس کی آنکھ ایک دم کھل گئی۔ اس خواب نے اسے پریشان کردیا تھا ۔اس نے موبائل اٹھایا اور شیما کو ایک پیغام بھیجا۔ اسے یقین تھا کہ وہ اس وقت گہری نیند میں ہوگی اور اس کا پیغام نہیں پڑھ سکے گی لیکن چند لمحوں کے بعد ہی موصول ہونے والا جواب اسے اندر تک مسحور کرگیا۔وہ حروف کو دیر تک دیکھتا رہا۔
’’بس چند دن!‘‘
٭ ٭ ٭
انس اور شیما کے رشتے کو طے ہوئے تقریباً ڈھائی سال ہو چکے تھے اور اب عید کے بعد ان کی شادی ہونا قرار پائی تھی ۔وہ دونوں منتظر تھے ایک پاکیزہ اور محترم رشتے کے۔ پچھلے دو ماہ سے انس کی توجہ کا محور صرف اس کا وہ اپارٹمنٹ تھا جسے وہ دن رات شیما کو خوش آمدید کہنے کے

لیے سجا رہا تھا، جبکہ شیما اپنی طب کی پڑھائی کے ساتھ ساتھ اس رمضان کو بھر پور انداز میں گزارنا چاہتی تھی۔اسے ان لمحات کا انتظار رہتا جب وہ اپنے خاندان کے ساتھ مسجدِ اقصٰی میں افطار و تراویح کے لیےجاتی اور واپسی کے راستے میں اپنی عزیز از جان خالہ زاد بہن حیا کے ساتھ خوب ساری باتیں کرتی واپس آتی ۔
ماہ رمضان اب تقریباً اپنے اختتام پر تھا ۔
ظالم اسرائیلی فوج نے مسجدِاقصیٰ پر چڑھائی کردی تھی۔مسجد نمازیوں سے بھری ہوئی تھی جن کا قصور صرف یہ تھا کہ وہ اپنے قبلہِ اوّل کو اپنے دلوں میں بسائے اور اپنی جبینوں سے سجائے ہوئے تھے ۔ جب ایک عالم نے انھیں تنہا چھوڑ دیا تھا انھوں نے اپنے وطن ، اپنے قبلے اور اپنی مسجد کو نہ چھوڑنے کا عزم کیا تھا۔یہ وہ لوگ تھے جو شاودت کو اپنی خوش بختی سمجھتے تھے اور مسجد کے تحفظ کو اپنا فرض۔
شیما کو بھی مسجد کا تقدس پامال کرکے نمازیوں کو ہراساں کرنے والے ان قابض یہودی فوجیوں کا وجود سخت ناگوار گزرتا تھا۔ہر گزرتا دن ارضِ فلسطین کے اصل باشندوں پر ان کے ظلم و ستم میں اضافہ ہی کر رہا تھا۔ کہاں کب کیا ہوجائے ان ظالموں سے کچھ بھی بعید نہ تھا۔
٭ ٭ ٭
عید الفطر گزرے ابھی چند دن ہی ہوئے تھے۔ یہ وہ خوشی ہے جسے رب نے منانے کا حکم دیا ہےاور اس تین منزلہ رہائشی عمارت کے مکین اسی سنت کی ادائیگی میں مصروف تھے۔اتنے سخت دنوں میں بھی انھوں نے مایوسی کو قریب نہ آنے دیا تھا۔کئی خاندان اپنے پیاروں سے ملنے آئے ہوئے تھے ۔ شیما کا دن بھی آج بہت مصروف گزرا اور اب تقریبًا رات کا ایک پہر گزر چکا تھا ، متواتر ہونے والے دھماکوں ،راکٹوں اور میزائلوں کی آوازیں اب تو جیسے معمول بن گئی تھیں لیکن آج نجانے کیوں یہ معمول کی آوازیں غیر معمولی محسوس ہورہی تھیں۔
وہ عشا کی نماز کے بعد سے مسلسل دعاؤں میں مشغول تھی کہ اسے موبائل بجنے کی آواز آئی ۔ دھماکوں کی آواز اب قریب سے سنائی دے رہی تھی۔اس نے انس کو حالات سے آگاہ کیا۔
’’ فوراً اپنا گھر چھوڑ کر باہر نکل آؤ ‘‘انس کا جواب متوقع تھا ۔
’’بھلا کوئی اپنا گھر بھی چھوڑتا ہے ؟‘‘ انس کو بھی معلوم تھا کہ یہی جواب ملے گا۔
’’ یہ گھر ، یہ زمین…..یہ مقدس زمین ہماری ہے انس…..ہم شہید تو ہو سکتے ہیں مگر ہم اس کو چھوڑ نہیں سکتے اور نہیں چھوڑیں گے‘‘۔
اس کی بات ٹھیک تھی، انس کیا کہتا! مگر وہ پریشان تھا۔
’’شکر ہے کچھ تو شور تھما ، آوازیں رک گئی ہیں …..اللہ کرے سب خیر ہو…..اب مجھے نیند آرہی ہے اور صبح کالج بھی لازمی جانا ہے۔ ہو سکتا ہے میں کچھ دن بہت مصروف رہوں ،اللہ حافظ‘‘۔
شیما کو اپنی دن بھر کی تھکن یاد آگئی اور وہ بلا تاخیر بستر میں جا گھسی۔
٭ ٭ ٭
دو دن ہو گئے اس کا شیما سے کوئی رابطہ نہیں ہو پا رہا تھا۔جس علاقے میں شیما کا گھر تھا اس کے اردگرد بمباری ہورہی تھی۔ آج اطلاع ملی کہ کئی رہائشی عمارتیں بھی اسرائیلی وحشیانہ بمباری کا نشانہ بنی ہیں تو انس بے اختیار پریشان ہو کر بھاگا ۔ کئی رکاوٹیں عبور کرتا مشکل سے متاثرہ علاقے تک پہنچا…..شیما کی بلڈنگ کا حال دیکھ کر اس کا دل بیٹھ گیا۔اس کی آنکھیں جو شیما کی مسکراہٹ اور حیرانی کی منتظر تھیں،بے اختیار نمکین پانی سے بھر گئی تھیں۔
اس نے اپنی آنکھوں کو رگڑا،اپنی بے بسی پر غصّہ کیا اور پھر دونوں ہاتھوں سے اس تین منزلہ بلڈنگ کے ملبے کو اٹھا کر پھینکنا شروع کردیا جس کے نیچے کہیں اس کی ہونے والی دلہن دبی پڑی تھی۔ امدادی کام شروع ہو چکا تھا۔کئی بڑی بڑی کرینیں ملبے کو اٹھا رہی تھیں۔ ایک افرا تفری تھی،آدھا دن گزر گیا تھا مگر زخمی اور نعشیں تھیں کہ ایک کے بعد ایک نکلی ہی چلی جارہی تھیں۔
’’شیما…..شیما…..‘‘
اس نے اسے کئی بار پکارا مگر وہ تو اپنے خاندان کے تیرہ افراد کےساتھ جنّت کی جانب جا چکی تھی۔

ملبہ ہاتھوں سے اٹھاتے اور ہٹاتےانس کی آنکھیں ،اس کے بال اس کا پورا جسم مٹی سے اَٹ چکا تھا کہ یکایک اس کے ہاتھ میں شیما کی میڈیکل کِٹ آئی اور اس کا دل جیسے کسی نے مٹھی میں جکڑ لیا ہو۔ یہ خواب نہیں تھا حقیقت تھی۔اس کی آنکھوں میں کرچیاں سی چبھنے لگیں اور کانوں میں شیما کی آواز گونجنے لگی۔
’’ انس یہ گھر یہ مقدس زمین ہماری ہے ،ہم شہید تو ہو سکتے ہیں مگر ہم اس کو چھوڑ نہیں سکتے اور نہیں چھوڑیں گے‘‘۔
اس نے شیما کی میڈیکل کِٹ کو سینے سے لگا رکھا تھا اورآنسوؤں سے تر چہرہ لیے شیما کو اس کی کامیابی پر مبارک باد دے رہا تھا۔
قبر پر مٹّی ڈالتے اس نے کئی بار اپنی دلہن سے جنّت میں ملنے کے وعدے کی تجدید کی اور مجاہد کی زندگی اور شہادت کی موت کی دعا مانگتے اپنے اس گھر کی جانب روانہ ہو گیا جسے اس نے بڑے چاؤ سے شیما کے لیے سجایا تھا۔
٭ ٭ ٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x