ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ناچتے فوارے – نوردسمبر ۲۰۲۰

’’ ہائے ! ابھی اور کتنا چلنا ہے ؟‘‘ آپا نے فریاد کی۔
’’ میرا خیال ہے دو کلو میٹر اور ۔‘‘‘ بھائی نے کہا۔
’’ دو کلو میٹر ؟ میں تواب ایک ملی میٹر بھی نہیں چل سکتی ۔‘‘ آپا رونکھی ہو گئی ۔ میں نے حیرت سے آپا کی طرف دیکھا۔
’’ آپ چل کہاں رہی ہو ؟ متحرک راستے پر کھڑی ہو جوخودبہ خود آپ کو منزل کی طرف لیے جا رہا ہے ۔‘‘
’’ہاں ، توکھڑی توہوئی ہوں نا ’’ مسلسل‘‘ ۔ آپا نے ’’ مسلسل‘‘ پر زور دیا ۔‘‘ اور کبھی کبھی چلنا بھی تو پڑتا ہے ۔‘‘
’’پھر یہ بھی ہے کہ جب ہم میٹرو کے ’’ دبئی مال‘‘ اسٹیشن پر اترے تھے تو یہی خیال تھا کہ بس اب سیدھے مال ہی میںجا گھسیں گے۔ مگر اب تک ہم چلے جا رہے ہیں اورمال کا نام و نشان تک نہیں ۔‘‘ بھائی نے منہ بنا کر کہا۔
بات ٹھیک تھی ۔ ہم کم از کم دس پندرہ منٹ سے اس سرنگ نما راستے پرچل رہے تھے ۔کبھی بجلی سے چلنے والی بیلٹ پر کھڑے ہو جاتے اور کبھی بور ہوکر اس سے اتر جاتے اور زمین پر چلنے لگتے ۔ شیشے کی دیواروں سے باہر کی دنیا نظر آ رہی تھی ۔ شام کے سائے بڑھ رہے تھے۔ سڑکوں پر ٹریفک رواں تھی اور ہم ان کے اوپر سے گزر رہے تھے ۔بھانت بھانت کے لوگ ہمارے ساتھ چل رہے تھے اور ہم سب جا رہے تھے مشہور و معروف ’’ دبئی مال‘‘ کی طرف جس نے کئی بار دنیا کے بہترین مال کا ایوارڈ جیتا ہے ۔ خدا خدا کر کے انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئیں اور بالآخر ہم دبئی مال میںداخل ہوگئے۔
چار منزلوں پر مشتمل پانچ لاکھ دو ہزار مربع میٹر پر پھیلا ہوا رقبے کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا اور شاپنگ کی سہولت کے اعتبار سے دنیا کا چھبیسواں بڑا مال ۔ رنگ و نور کا ایک سیلاب تھا جو امڈا ہوا تھا ۔ جدھر نظر کریں دکانوں کی قطاریں تھیں جو انتہائی خوب صورتی سے سجی ہوئی تھیں۔ اسٹال تھے۔ کھانے پینے کے پوائنٹ اور ریستوران تھے۔ کافی دیر ہم چاروں منزلوں پر گھوم پھر رونق دیکھتے رہے آپا بار بار اعلان کر رہی تھی کہ وہ سخت تھک چکی ہے ۔ امی نے تنگ آکر کہا :
’’ ساری دنیا یہاںآرام سے گھوم رہی ہے ۔ خوش ہو رہی ہے ۔ لطف اٹھا رہی ہے اور ایک تمھارے وا ویلے نے ہمارا مزہ کر کرا کیا ہوا ہے ۔ تمھاری ٹانگوں میں کیوں جان نہیں ؟‘‘
یہ کہتے کہتے جو امی کی نظر آپا کے پائوں پر پڑی تو وہ حیرت اور غصے کے ملے جلے جذبات کے تحت چلا اٹھیں۔
’’ یہ تمھیں ہیل والی سینڈل پہن کر آنے کو کس عقل مند نے کہا تھا ۔ جو گرز کہاں ہیں ؟‘‘
’’ وہ تومیں پاکستان سے ہی نہیں لائی۔‘‘ آپا نے انکشاف کیا۔
’’ میں نے بار بار سامان میں رکھنے کو کہا تھا ۔ خیر ، اب بھگتو‘‘ امی خفا ہو گئیں۔ بہر حال اس کے بعد آپا چپکی ہو کر ہمارے ساتھ چلتی رہی۔
دکانوں کے علاوہ لوگوں کی دلچسپی کے لیے یہاں ایک بہت بڑا ایکویریم اور زیر آب چڑیا گھر ہے ۔ آپ ایک شیشے کی سرنگ میں چلتے ہوئے اس آبی دنیا سے اس طرح لطف اندوز ہوتے ہیں جیسے خود بھی پانی کے اندر ہوں۔
ایک بہت بڑا احاطہ آئس اسکیٹنگ کے لیے تھا ۔ گاڑیوں کے ذریعے یہاں برف لا کر ڈالی گئی تھی ۔ بچے اور بڑے مزے سے اسکیٹنگ کر رہے تھے ۔ مجھے بھی شوق چرایا۔ چناںچہ بابا نے مجھے ٹکٹ لے دیا اور میں بھی اسکیٹ پہن کر گویا کہ اکھاڑے میں کود پڑا۔ امی اور بابا ایک بنچ پر بیٹھ کر پہلے میرے دھڑام دھڑام گرنے کا ، اور پھر مہارت سے پورے احاطے میں چکراتے پھرنے کا تماشا دیکھنے لگے ۔ جبکہ آپا اور بھائی پھر ونڈو شاپنگ کرنے چلے گئے۔
اسکیٹنگ میں بڑا مزہ آ رہا تھا ۔ یوں جیسے فضا میں تیرتے جا رہے ہوں لیکن اس کے ساتھ ساتھ دوسروں سے ٹکرا نے سے بچنے اور پائوں رپٹنے کے خیال سے چوکنا بھی رہنا پڑرہا تھا ۔ وقت کیسے گزرا؟ ذرا پتہ نہیں چلا ۔ وہ تو امی نے ہاتھ جوڑ کر باہر بلایا کہ گھنٹا ہو گیا ہے اور ابھی ہم نے ناچتے فوارے، بھی دیکھنے جانا ہے ۔ آپا اور بھائی بھی ’’سکندر‘‘ کی طرح خالی ہاتھ لوٹ آئے تھے، چناں چہ اب ہمارا قافلہ تیر کے نشان دیکھتا ہوا اس طرف رواں دواں تھا جہاں ایک جھیل میں متعدد فوارے لگے تھے جو باری باری اس طرح اُچھلتے ، لہراتے ، گھومتے کبھی سمٹتے اور کبھی بکھرتے جیسے موسیقی کی دُھن پر رقص کر رہے ہوں ۔ جھیل کے کنارے ٹھٹ کے ٹھٹ لگے ہوئے تھے ۔ رنگ برنگی روشنیوں میں موتی بکھیرتے یہ فوارے اور بھی خوب صورت لگ رہے تھے ۔ پندرہ منٹ کا یہ شو دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا۔
کسی بھی جگہ سے واپسی کا سفر کافی مشکل ہوتا ہے اور یہاں سے واپسی تو اس لیے بھی سوہان روح تھی کہ گزشتہ کئی گھنٹوں سے ہم چل رہے تھے اور ابھی میٹرو تک پہنچنے کے لیے ہمیں وہ طویل سرنگ پار کرنا تھی۔ آپا نے میرے کان میں سر گوشی کی:
’’ ابھی کچھ دیر پہلے تک میں افسوس کر رہی تھی کہ یہاں سے کچھ بھی نہیں خریدا اور اب شکر کررہی ہوں کہ کچھ نہیں خریدا ورنہ اگر ہم نے سامان بھی اٹھایا ہوتا تو سو چو ہمارا کیا بنتا ۔‘‘
اس کے لیے زیادہ کچھ سوچنے کی ضرورت نہ تھی ۔ ہمارے ڈگمگاتے قدم ہماری خستہ حالی کا اعلان کر رہے تھے اور اب ہمیں اس سے زیادہ کسی چیز کی خواہش نہیں تھی کہ جلدی سے گھر پہنچیں اور بستر پر گر جائیں ۔ اس وقت کوئی ہم سے یہ بھی کہتا کہ مال میں مفت اشیاء بٹ رہی ہیں ، تب بھی ہم کہتے ، شکریہ ہمیں ’’سونا‘‘ زیادہ عزیز ہے۔

٭…٭…٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x