ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

مستقبل کی سرحد پر – بتول فروری ۲۰۲۱

دو گھروں کے درمیان بے شک مجبوریوں کی دیواریں حائل تھیں لیکن اتنی اونچی بھی نہیں ہو گئی تھیں کہ کسی سہارے کھڑا ہو کر ان کے دوسری جانب جھانکا بھی نہیں جا سکتا ہو۔ اکثر دیوار کے اس پار کے گھر والے دیواروں پر کھڑے ہوکر بات چیت بھی کر لیا کرتے اور موقع ملے تو ایک دوسرے کی دیواریں ٹاپ کر بالمشافہ ملاقاتیں بھی ہوجایا کرتی تھیں۔ گزشتہ 70 برسوں سے یہ سلسلہ جاری تھا اور اس دوران دونوں جانب نہ جانے کتنے پھول سے چہرے عمر رسیدگی کا شکار ہو کر اپنی آخری منزل کی جانب روانہ ہو چکے تھے اور کتنی ہی کلیاں کھل کر گل و گلزار کا روپ دھارے مزید گل ہائے رنگا رنگ کی خوشبوئیں مہکاتی جا رہی تھیں ۔ پھرایک دن اچانک یہ ٹوٹی پھوٹی فصیلیں ناقابل عبور قلعے کی فصیلوں میں تبدیل ہو کر رہ گئیں اور وہ دو گھرانے جو دشمنوں سے آنکھیں بچا کر ایک دوسرے کے پیار کی خوشبو سے اپنی روحوں اور سانسوں کو مہکا لیا کرتے تھے، ایک دوسرے کی شکل تک دیکھنے سے محروم ہو کر رہ گئے۔
ایک شب ڈاکوؤں نے ہماری دیوار کے اْس جانب آباد میرے ہی بہن بھائیوں کے گھر پر ایسا شب خون مارا کہ ان کی آہ و بکا سے سارا ماحول چیخ و پکار میں تبدیل ہو کر رہ گیا اور ان میں سے جس جس نے بھی انسانیت کے ان ڈاکوؤں کے سامنے مداخلت کرنا چاہی، ان کے سینے یہ دیکھے بغیر کہ ان میں کتنی مائیں بہنیں ہیں اور کتنے خوبصورت جوان و سن رسیدہ سپوت ہیں، چھلنی کرکے رکھ دیے جن کے خون کے چھینٹے ہمارے دل و جگر پر بھی آ کر لگے۔ دیوار کے اِس جانب والے اس صورتِ حال پر مضطرب ہو کر اپنے ہمسایوں کے شورِ قیامت بلند ہونے پر مدد کے لیے باہر نکلے تو یہ دیکھ کر ان کے دل پھٹ کر رہ گئے کہ ان کے مدِ مقابل دو نہایت وسیع و بلند فصیلیں حائل ہیں۔ ایک اپنے ہی سپاہیوں کی جو نہ جانے کتنی مصلحتوں کی بنا پر اپنے ہی بھائیوں کی مدد کرنے سے قاصر تھے اور دوسری جانب ان سفاک قاتلوں اور درندوں کی جو ہمارے اپنوں کے لہو سے ہاتھ رنگنے کے لیے آئے تھے۔
ہر گزرنے والے دن کے ساتھ دوسری جانب آہ و بکا بلند سے بلند تر ہوتی جاتی تھی بلکہ روز درجنوں ماؤں بہنوں کی عصمت دری کے ساتھ ساتھ سپوتوں کے قتل کی وارداتوں میں اضافہ ہوتا جاتا تھا لیکن نہ تو ان کی مددکے لیے جانے کے خواہش مند ،درمیان میں حائل اپنوں کی فصیل میں کسی جگہ کوئی شگاف پاتے تھے اور نہ ہی دشمنوں کی صف کسی مقام سے ٹوٹ کر دے رہی تھی۔
کوئی مشکل مسلسل آزار جان بن جائے یا کوئی سختی بہت ہی عام ہو جائے انسان ان کی جانب سے اتنا ذکی الحس ہو جاتا ہے کہ مشکل مشکل اور سختی سختی نہیں رہتی۔ کچھ ایسی ہی کیفیت فصیلوں کے اِس جانب ہو کر رہ گئی تھی اور شاید فصیلوں کے دوسری جانب بھی ہماری بے حسی نے اتنی مایوسی پھیلا دی تھی کہ تمام تر قتل و غارت گری اور عصمت دری کے سانحات کے باوجود، زبانوں پر چپ کی مہر تھی۔کچھ ماہ اسی کیفیت میں گزرجانے کے بعد ہمسایوں سے دور ہوجانے کے زخم بھرنے لگتے، لیکن ابھی پوری طرح مندمل نہ ہوتے کہ کوئی نیا ظلم رقم کر دیا جاتا۔
ایک شب مجھے غیر محسوس اور نہایت دھیمی دھیمی دستک کی سر سراتی آواز نے بستر چھوڑنے پر مجبور کر دیا تھا۔ پہلے تو مجھے شک ہؤا کہ میرے گھر کے دروازے کے باہر کوئی بلی یا اسی طرح کا کوئی جانور ہے جو اپنے پنجے میرے گھر کے دروازے پر تیز کر رہا ہے لیکن حواس بحال ہونے پر لگا کہ دروازے کے باہر نہایت ہلکے انداز میں دی جانے والی تھپتھپاہٹ انسانی ہی ہے۔ میں نے وقت دیکھا تو گھڑی رات کے تین بجا رہی تھی۔میں حیران تھا کہ رات کے اس پہر آخر یہ کون ہے جو میرے گھر پر نہایت راز دارانہ انداز میں دستکیں دے رہا ہے۔ ایسا سناٹا جس میں دلوں کے دھڑکنے تک کی صدائیں سن لی جائیں، اس قسم کی احتیاط کہ آواز کا دائرہ پڑوس تک بھی نہ پھیل سکے، کوئی بہت ہی قریب کی جان پہچان والا یا کسی امداد کا طالب ہی کر سکتا ہے۔
میں بے اختیار دروازے کی جانب بڑھا اور ہلکے سے پوچھا، کون؟
جواب میں کھسر پھسر کے سے انداز میں جواب آیا کہ اگر آپ عبداللہ انکل ہیں تو دروازہ کھولیں۔
عبداللہ انکل، میں نے دل ہی دل میں اپنا نام دہرایا۔ آواز کسی جانے پہچانے نو جوان کی سی لگی۔ میں نے نہایت آہستگی کے ساتھ دروازہ کھولا تو ملگجے سے اندھیرے میں ایک نوجوان تیزی کے ساتھ اندر داخل ہؤا اور میرے دروازہ بند کرنے سے پہلے اس نے تیزی کے ساتھ درواہ بند کر دیا۔ مجھے حیرانی ہوئی کہ اتنی عجلت کے باوجود بھی دروازہ بند ہونے کی ہلکی سے بھی آہٹ نہ ہوئی۔
دروازہ بند کرنے کے بعد وہ عبداللہ انکل عبدللہ انکل کہہ کر مجھ سے چمٹ گیا۔ جب وہ میرے سینے سے لگا تب مجھے احساس ہؤا کہ اس کا بدن بڑی شدت سے کانپ رہا ہے۔ باہر ہلکی ہلکی خنکی ضرور تھی لیکن اتنی بھی نہیں جس کو ٹھنڈ کہا جا سکے۔ گویا یہ کپکپاہٹ سردی کی وجہ سے نہیں کسی غالب ڈر اور خوف کا نتیجہ تھی۔ اس ملگجے اندھیرے کے باوجود بھی میں اپنی وادی کے اس پار، فصیل کے دوسری طرف بسنے والے واقف کار رنجیت سنگھ کے بیٹے اجے کو پہچان چکا تھا۔ میں اسی طرح چمٹائے چمٹائے اسے اپنے کمرے میںلے کر آیا اور اسے ساتھ والے بستر پر لٹا دیا۔ فوری طور پر میں نے اسے مخاطب کرنا مناسب نہ سمجھا۔
پرسوں ہی کی تو بات تھی کہ وادی کی دوسری جانب سے اِس جانب شدید گولہ باری اور ہیوی مشین گنوں سے گولیوں کی برسات ہونے کی وجہ سے میرے آس پاس کے گھر والوں میں سے کچھ شہادتیں بھی ہوئی تھیں اور عورتوں بچوں سمیت کئی افراد زخمی بھی ہوئے تھے۔لکیر کے پار سے دشمن کی یہ گولہ باری معمول کی بات بن چکی تھی۔ حالات کی اس خطرناکی کی وجہ سے مجھ سمیت کئی گھروں کے خواتین، بزرگ اور بچے محفوظ مقامات کی جانب منتقل ہو گئے تھے۔ اس وقت میں اپنے گھر میں تنہا ہی تھا اس لیے کسی اور کے پریشان یا بے آرام ہونے کے کوئی امکانات نہیں تھے۔
جب میں نے محسوس کیا کہ نوجوان کافی حد تک پر سکون ہو چکا ہے تو میں نے اس سے ان مخدوش حالات میں بھی وادی کے اِس پار آجانے کا ماجرا پوچھا تو اس نے اپنے دائیں بائیں اس طرح دیکھا جیسے وہ اس بات کا یقین کرنا چاہتا ہو کہ کوئی اور تو اس کی بات نہیں سن لے گا۔
میں نے اس سے کہا کہ اجے تم ہر بات نہایت اعتماد کے ساتھ کھل کر بیان کر سکتے ہو۔ جس یقین کو لے کر تم میرے گھر تک آئے ہو، تمہارا وہ یقین انشا اللہ کبھی متزلزل نہیں ہوگا۔ بے شک حالات کی خرابی کی وجہ سے حفظ ما تقدم کے تحت میرے سب گھر والے دوسرے محفوظ مقام پر منتقل ہو چکے ہیں لیکن اگر وہ ہوتے بھی تو اس گھر کے سارے لوگ ایسے ہیں جن پر تمہارے والد رنجیت سنگھ اندھا اعتماد کرتے ہیں۔ ہم ایک ہی وادی کے دوعلیحدہ شدہ حصوں میں رہتے ہیں مگر ایک دوسرے سے تعلق نبھایا ہے۔
میری بات سن کر ایسا لگا جیسے اجے کا اعتماد مزید بحال ہو گیا۔ اس نے کچھ دیر بعد کہنا شروع کیا کہ انکل اب میرا نام اجے نہیں ہے۔ میں نے چوروں، اچکوں، ڈاکوؤں، قاتلوں اور مسلمان خواتین کے ساتھ بے حرمتی کرنے والے بھارتی درندوں کے سامنے تمام مسلمان کشمیریوں کے عزم و استقلال کو دیکھتے ہوئے اسلام قبول کرلیا ہے۔
یہ کہنے کے بعد وہ ابھی اور بھی کچھ کہنے والا تھا کہ بے ساختہ میرے منہ سے اللہ اکبر کا نعرہ بلند ہؤا اور میں نے فرطِ جذبات سے آنسو بہاتے اجے کو اپنے گلے سے لگالیا اور خود بھی خوشی کی شدت سے میری آنکھوں سے آنسوؤں کا ایک سیلاب امڈ آیا۔
جب جذبوں اور خوشیوں کا دو طرفہ سیلاب تھما تو اس نے کہا اب مجھے اجے سے نہیں حمزہ کے نام سے پکارا جائے۔ مزید کچھ دیر ٹھہرنے کے بعد اس نے کہا کہ مجھے مسلمان ہوئے ایک ہفتے سے زائد ہو چکا ہے۔ میں نے اپنے والدین سے اپنے مسلمان ہو جانے کو ایک لمحےکے لیے بھی پوشیدہ نہیں رکھا۔ جب ان کو میں نے صاف صاف بتا یا کہ آج سے میرا نام اجے نہیں، حمزہ پکارا جائے، کیونکہ میں اب اس دین میں داخل ہو چکا ہوں جس کو اللہ نے اپنے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سارے انسانوںکے لیے اتارا ہے تو یہ سن کر میرے والدین جیسے پتھر کے ہو گئے۔ مجھے ان کی آنکھوں میں گہرا دکھ تو ضرور نظر آیا لیکن اپنے لیے کسی قسم کے جارحانہ عزائم بالکل بھی نہیں دکھائی دیے۔ یہی حال اپنی چھوٹی بہن کا دیکھا لیکن وجے جو میرا بڑا بھائی ہے، اس کی جانب سے میرا دل شک کا شکار ہی رہا۔ ہو سکتا ہے یہ میرا وہم ہی رہا ہو لیکن کل صبح ہی صبح میرے والدین مجھے بیدار کرکے اپنے کمرے میں لے کر گئے اور کہا کہ تمہارے بڑے بھائی نے باہر والوں کو یہ خبر کردی ہے کہ تم مسلمان ہو چکے ہو۔ ہمیں ڈر ہے کہ سرکار تمہیں پکڑ کر نہ لے جائے اور ہم تمام زندگی تمہاری شکل بھی نہ دیکھ سکیں۔ پھر انھوں نے مجھے ایک محفوظ مقام کا پتہ بتاتے ہوئے کہا کہ تم اسی وقت وہاں منتقل ہو جاؤ لیکن یہ نہ سمجھ لینا کہ سرکار سے وہ مقام بہت دنوں تک محفوظ رہ سکتا ہے۔ ہمارے علاوہ تمہارے کسی بہن بھائی کو اس کا کوئی علم نہیں۔ سرکار تمہارے اس طرح غائب ہوجانے پر چین سے تو نہیں بیٹھے گی لیکن ہم دونوں نے اپنی عمر کی بے شمار بہاریں دیکھ لی ہیں اس لیے ہم نے عہد کیا ہے کہ جان سے بڑھ کر ہم تمہاری زندگی کی حفاظت کریں گے۔ یہ سن کر میں نے اپنے والدین سے بہت کہا کہ ایسی صورت میں صرف اپنی زندگی بچانےکے لیے میں آپ سب لوگوں کی زندگیاں کسی صورت خطرے میں نہیں ڈال سکتا۔ ویسے بھی اللہ تعالیٰ کی راہ میں مرجانا حیات جاوداں کا سبب ہؤا کرتا ہے۔ میں حالات کا مقابلہ کرونگا خواہ اپنے ایمان کو بچانے کے لیے مجھے جام شہادت بھی نوش کیوں نہ کرنا پڑ جائے۔ والدین نے سمجھا یا کہ ایسا کرنے کی صورت میں ہم سب کا مار دیا جانا زیادہ یقینی ہو جائے گا کیونکہ سرکار اور ہمارے دھرم والے ہمارے بار بار یقین دلانے کے باوجود بھی اس بات کا کبھی یقین نہیں کریں گے ہم سب اب تک اپنے ہی دھرم پر قائم ہیں لہٰذا تمہارا یہاں سے چلے جانا زیادہ بہتر ہے۔ ان کی بات میں وزن تھا اس لیے میں اپنے والدین کو آنسوؤں کی برسات میں چھوڑ کر ان کے بتائے ہوئے مقام کی جانب روانہ ہو گیا۔ جب میں گھر سے چلا تو میں نے اپنے دل میں یہ پختہ ارادہ کر لیا تھا کہ خواہ کچھ بھی ہو جائے میں ساری فصیلوں کو توڑتا ہؤا اپنے انکل (اس نے میری جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا) کے پاس نکل جاؤں گا۔
یہاں آکر جیسے وہ سانس لینےکے لیے رکا ہو۔ میں نے اس دوران اسے ذرا بھی نہیں ٹوکا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ میرے بیچ میں بولنے سے اس کی کہانی کا سلسلہ ٹوٹ جائے اور اس کے مجتمع خیالات کا شیرازہ بکھر کر رہ جائے۔ خاموشی کا سلسلہ بے شک طویل ہوتا جا رہا تھا لیکن مجھے اس کے انداز سے یہ ضرور پتہ چل رہا تھا کہ وہ اپنے ذہن میں ادھر ادھر بکھرے خیالات کو ترتیب دے رہا ہے۔
بالآخر اس نے کہا کہ بعض اوقات ایسا ہو تا ہے کہ دشمن کی دشمنی بھی سود مند ہو جایا کرتی ہے۔ میں جس جگہ پناہ لیے ہوئے تھا وہ کشمیر کی آزاد وادی کی سرحدوں سے دور نہیں تھی اور مجھے اس بات کا شدت سے احساس ہو رہا تھا کہ یہ مقام کسی وقت بھی درندوں کی نظر میں آ سکتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ میرا دل اللہ کے خوف کے علاوہ ہر خوف سے آزاد تھا۔ میں اپنی تمام تر توانائیاں اس بات پر صرف کر رہا تھا کہ وہ کون سےایسے راستے ہو سکتے ہیں جن سے گزر کریہاں پہنچ سکتا ہوں۔ مجھے دو طرفہ محافظوں کی نظروں سے بچنا تھا جو کہ ایک ایسی بات تھی جس کا ہو جانا ایک معجزے سے کم نہیں تھا۔
جب کوئی انسان اپنا سب کچھ اللہ کے سپرد کردے تو پھر اللہ ایسے ایسے اسباب پیدا کر دیتا ہے کہ کوئی ان کے متعلق گمان بھی نہیں کر سکتا۔ سارا دن گزار کر وہ پہلی رات تھی جب میں نے اپنی وادی سے آپ کی وادی پر چلائی جانے والی توپوں کے گولوں کے دھماکے اور خود کار ہتھیاروں سے برسائی جانے والی گولیوں کی تڑ تڑاہٹ سنی۔ جب ایسی صورت حال ہو تو محافظوں کی ساری توجہ اہداف کی جانب ہو جایا کرتی ہے۔ بس یہی موقع تھا جب کسی نے میرے کان میں یہ پھونکا ہو کہ اے حمزہ! جن خفیہ راستوں سے تونے وادی کے دوسری جانب جانے کا سوچا تھا، وہاں سے اللہ کا نام لے کر بلا خوف و خطر گزر جا، ہم تیری حفاظت کی ضمانت لیتے ہیں۔ میں حیران تھا کہ یہ الفاظ میرے کان میں گونج رہے تھے یا دل پر القا ہو رہے ہیں۔ گونجنے والے الفاظ کی آواز پر جب دھیان دیا تو مجھے یوں لگا جیسے میری والدہ مجھے یہ ہدایت فرما رہی ہوں۔
یہ الفاظ سن کر جیسے میرے جسم میں بجلی سی کوند گئی۔ میں اپنی پناہ گاہ سے باہر نکلا۔ مجھے گولیوں کے شرارے صاف دکھائی دے رہے تھے جو میرے سر پر سے گزر کر وادی کے اْس جانب جا رہے تھے۔ چند ہی سیکنڈ کے بعد جوابی فائروں نے جیسے مجھ سے یہ کہا ہو کہ حمزہ چلے آؤ ہم نے تمہاری حفاظتکے لیے حصار بنا دیا ہے۔ میں چند فرلانگ سفر کرنے کے بعد اپنی وادی سے گزر کر آپ کی وادی میں داخل ہو چکا تھا۔ آپ کو تو معلوم ہی ہے کہ آپ کی وادی، جو میری بھی وادی ہے، میرے اور میرے گھر والوںکے لیے کوئی اجنبی تو نہیں تھی اس لیے مجھے یہاں آکر اپنے لیے محفوظ پناہ گاہ تلاش کر لینا کوئی مشکل نہ تھا۔ اب مجھے آج کی رات کا انتظار تھا۔ میں دن کی روشنی میں اس لیے یہاں نہیں آنا چاہتا تھا کہ مجھے اور میرے خاندان والوں کو یہاں کا بچہ بچہ جانتا ہے۔ یہ پہچان نہ صرف میرے لیے بلکہ آپ کے تمام گھر والوں اور وادی کے باسیوںکے لیے مشکلات کا سبب بن سکتی تھی۔ ممکن تھا کہ میری حماقت کی وجہ سے بہت سارے انسان کسی بہت مشکل کا شکار ہو جاتے۔
میں اس کی ساری باتیں اتنے انہماک سے سن رہا تھا جیسے میں اس کے گھر سے اپنے گھر تک اسی کے ساتھ ساتھ ہی پناہ لیتا، حالات کا تجزیہ کرتا، سرحد کے اس جانب سے یہاں تک کا سارا سفر کرتا چلا آیا ہوں۔میں سوچ رہا تھا کہ اللہ کا شکر ہے اس نے اجے کو اس چھوٹی سی عمر میں بھی بڑی فراست سے نوازا ہے۔
مجھے محسوس ہؤا کہ اس نے اپنی جو بھی روداد سنانی تھی سنادی اور اب وہ اس بات کا منتظر ہے کہ میں اس کے متعلق کیا فیصلہ کرتا ہوں۔ ابھی میں کچھ کہنےکے لیے اپنا منہ کھولنے ہی والا تھا کہ قریب کی ایک مسجد سے فجر کی اذان بلند ہونا شروع ہوئی۔ ہم جو پیدائشی مسلمان ہیں، وہ اذانیں سن تو لیتے ہیں لیکن اس کی ایک ایک تکبیر کا نہ تو دہرانے کا خیال رکھتے ہیں اور نہ ہی اس کے مطالب کی گہرائیوں میں اتر نے کی جستجو کرتے ہیں۔ اذان کے بلند ہوتے ہی جب میری نظر اجے سے حمزہ بن جانے والے اپنے واقف رنجیت سنگھ کے بیٹے پر پڑی تو جیسے مجھے اپنی پہاڑ جیسی تمام عبادات رائی کے دانے سے بھی کہیں چھوٹی نظر آنے لگیں۔ اجے سے حمزہ بن جانے والا تو جیسے میرے پاس تھا ہی نہیں۔ وہ اپنے سارے ماحول سے کہیں دور مؤذن کے ادا ہونے والے سب الفاظ بآواز بلند دہراتا جا رہا تھا بلکہ ایسے محسوس ہو رہا تھا جیسے وہ ابھی مسجد کی جانب دوڑ لگا دے گا۔ مجھ پر تمام زندگی ایسی کوئی کیفیت کبھی طاری نہیں ہوئی تھی۔ جب اذان ختم ہوئی تو جیسے وہ نہ صرف واپس آگیا بلکہ یوں لگا جیسے وہ’ آؤ نماز کی طرف‘ کی پکار لگانے والے کی جانب لبیک لبیک کہتا دوڑتا چلا جائے گا۔ اس سب کے باوجود جیسے وہ اپنے دل پر پتھر رکھ کر ایسا کرنے سے باز رہا۔ یہ درست تھا کہ میرے آس پاس کے سارے لوگ ہی اس کو جانتے تھے اور اس کا پہچان لیا جانا بہت سارے شکوک اور مشکلات پیدا کرنے کا سبب بن سکتا تھا مگر اب ایک مسلمان ہوجانے والے مسلمان کا دفاع مجھ پر فرض ہو چکا تھا اس لیے میں ذہنی طور پر اس کے لیے سب کچھ کرنےکے لیے تیار تھا۔
میں نے چند لمحے کے بعد اس سے پوچھا کہ وہ یہاں آ تو گیا ہے لیکن اب اس کا مزید کیا خیال ہے۔ اس نے کہا کہ جیسا کہ آپ کے علم میں ہے، میرے والد کے ایک رشتے کے بھائی سیالکوٹ میں بھی رہتے ہیں کیا یہ ممکن نہیں کہ آپ مجھے وہاں چھوڑ آئیں؟
لیکن وہ سب تو تمہارے والد کے دھرم پر ہی قائم ہیں، میں نے اسے ٹوکا۔
جی ایسا ہی ہے، لیکن ایک تو یہ کہ وہ سب کے سب میرے والد کے دھرم والوں جیسے سخت نہیں، دوئم ان کی برادری کے کچھ مرد اور کچھ خواتین اسلام کی دعوت کو بھی قبول کر چکے ہیں۔ سیالکوٹ بہت گنجان آباد شہر ہے اس لیے کسی ایک آدھ اجنبی کا اضافہ باعث استعجاب بھی نہ ہوگا۔ میرا من بھی کہتا ہے کہ نہ صرف میں وہاں محفوظ رہ سکوں گا بلکہ مسلمانوں کی طرح عبادات بھی کر سکوں گا۔ پاکستان میں سکھ اقلیت وادی میں بسنے والے سکھوں سے کہیں زیادہ محفوظ اور آزاد سمجھی جاتی ہے اس لیے اس بات کا یقین ہے کہ مجھے وہاں تنگ نظری کی وجہ سے کوئی نقصان نہیں پہنچ سکے گا۔
اس کی بات میں وزن تھا اس لیے میں خاموش ہو رہا۔ میرے لیے اسے وادی سے سیالکوٹ لے جانا کوئی مشکل کام بھی نہیں تھا اس لیے میں نے حامی پھر لی۔
اس بات کو کوئی ایک سال کا عرصہ گزر گیا۔ میں اپنے روز مرہ کے امور میں مشغول ہو گیا۔ ویسے بھی میں جس جگہ تھا اس کا ٹیلیفونک اور انٹرنیٹ رابطہ وادی اور پاکستان کے دیگر علاقوں سے بہت مضبوط بھی نہیں تھا۔ کبھی کبھی ایک آدھ بھولا بھٹکا سگنل آجایا کرتا تھا وہ بھی کسی خاص بلندی کو چھولینے کے بعد۔ میں ویسے بھی اپنے آپ کو پرانے زمانے کے معدوم ہوتے آثار میں شمار کرنے لگا تھا اس لیے ایسے تمام ذوق و شوق کا عادی نہیں تھا۔ یہی سبب تھا جس کی وجہ سے بعد میں مجھے اجے سے حمزہ بن جانے والے کی کوئی خیر خیریت معلوم نہ ہو سکی۔
آج کل چند روز سے نہ جانے کیوں مجھے اجے سے حمزہ بن جانے والا نوجوان بہت یاد آ رہا تھا اور میں سوچ رہا تھا کہ یا تو خود سیالکوٹ جاکر یا کسی کو بھیج کر اس کا احوال معلوم کروں۔ میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ دروازے پر کسی نے دستک دی۔ پوچھنے پر معلوم ہؤا کہ کوئی پیامبر ہے۔ دروازہ کھولا تو ہماری ہی بستی کے ایک امام مسجد تھے۔ سلام دعا کے بعد کہنے لگے کہ میں رات ہی سیالکوٹ سے گھر پہنچا ہوں۔ پھر مجھے حمزہ کے رشتے کے اسی سکھ چچا کا نام بتا کر جن کے گھر میں حمزہ کو چھوڑ آیا تھا، فرمانے لگے کہ انھوں نے آپ کو اپنے گھر آنے کی دعوت دی ہے اور کہا ہے کہ آپ سے بہت ہی ضروری کام ہے۔ وادی میں آنے جانے والوں کو کون نہیں پہچانتا تھا۔ یہاں کے مولوی صاحب بھی ان سے خوب واقف تھے اور کیونکہ اعتماد کے انسان تھے اس لیے ان کے ذریعے یہ پیغام مجھ تک پہنچایا گیا۔
اگلے دن میں سیالکوٹ کے لیے روانہ ہؤا۔ گھر پہنچنے کے بعد انھوں نے مجھے یہ خوش خبری سنائی کہ حمزہ کے تمام گھر والے اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور حمزہ کی رات دن کی دعاؤں کے سبب مسلمان ہو چکے ہیں اور وادی کو خدا حافظ کہہ کر مشرقی پنجاب منتقل ہو چکے ہیں۔ ان کو یہ اطلاع دی جا چکی تھی کہ حمزہ ہمارے پاس ہے اس لیے ان کی خواہش ہے کہ کسی طرح حمزہ ان کے پاس آ جائے۔ حمزہ قانونی طریقے سے تو پاکستان آیا نہیں تھا اس لیے اب اس کامشرقی پنجاب جانا کافی خطرات کا سبب ہو سکتا ہے۔ کچھ توقف کے بعد کہنے لگے کہ اگر میں کوشش کروں تو وہاں جایا جا سکتا ہے لیکن حالات ایسے ہیں کہ میرا جانا مناسب نہیں لگتا۔ پاکستان میں بے شک میرے دھرم والے بہت محفوظ ہیں لیکن سر حد کے اس پار جانے کی کوشش یہاں کی سیکورٹی کو میری جانب سے مشکوک بنا سکتی ہے۔ اجے یعنی حمزہ مسلمان ہو چکا ہے اور اس کے والدین اور گھر والے بھی۔ آپ بھی مسلمان ہیں۔ اگر آپ کوئی راستہ نکال سکتے ہیں تو آپ اجے (حمزہ) کے لیے کوئی راہ ضرور نکالیں۔
میں نے فوری تو کوئی وعدہ نہیں کیا۔ وادی میں میری شہرت بہت اچھی تھی اور سکیورٹی کے ادارے مجھ پر بہت اعتماد کیا کرتے تھے اس لیے میں نے معاملہ ان کے سامنے رکھا۔ پہلے تو وہ کسی نوجوان اور پھر اس کی وجہ سے پورے خاندان کے مسلمان ہوجانے پر بہت ہی خوش ہوئے۔ پھر اطمینان دلایا کہ فی سبیل اللہ ایسا کیا جا سکتا ہے۔ اس کے لیے آپ کو خطرہ مول لینا ہوگا۔ ایک تو یہ کہ آپ اور حمزہ کے علاوہ اور کوئی بھی ساتھ نہ ہوگا۔ پھر یہ کہ سرحد کے دوسری جانب تحفظ فراہم کرنے کی ہمارے پاس کوئی ضمانت نہیں۔ میں نے کہا کہ جب اللہ کی خاطر ایک کام کرنا ہے تو پھر کرنا ہے۔
رات کی گہری تاریکی میں حمزہ اور میں خانہ بدوشوں کا روپ دھارے اپنے خچر پر میلے کچیلے خیمے اور گرد آلود ساز و سامان لیے سیالکوٹ کی پاکستانی سرحد کے اس پار جانے میں کامیاب ہو چکے تھے۔ ہم اس مقام کا تعین کر چکے تھے جہاں حمزہ کے والد رنجیت سنگھ جو اب میرے ہم نام یعنی عبداللہ ہو چکے تھے، حمزہ کے منتظر تھے اور اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ہم ان تک پہنچنے میں کامیاب بھی ہو چکے تھے۔ احتیاط کے پیش نظر ہم نہایت جذباتی ہونے کے باوجود بھی کوئی آواز نکالے بغیر ایک دوسرے سے گرم جوشی کے ساتھ بغل گیر ہوئے اور پھر فوراً ہی ایک دوسرے کو اشاروں اشاروں میں اللہ حافظ کہہ کر اپنی اپنی سر حدوں کی جانب مڑ گئے۔
میری خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا کیونکہ میں اپنے حال کی آخری حد پر اپنے بہترین مستقبل کواس کے اپنوں کے حوالے کر آیا تھا۔ مجھے یقین تھا کہ یہ سچا مردِ مومن اپنے کردار اور اپنی فہم و فراست سے کام لے کر نہ صرف اسلام کے فروغ کی بے مثال روایت قائم کر ے گا بلکہ مقبوضہ وادی کو بھی ظلم کے پنجوں سے چھڑائے گا۔
ابھی میں اپنی سر حد سے ذرا ہی دور رہ گیا تھا کہ مجھے لگا جیسے حمزہ چیخ چیخ کر کہہ رہا ہو کہ انکل بچیں انکل بچیں۔ میں نے رک کر اپنے پیچھے مڑ کر دیکھا لیکن مجھے پلٹنے میں دیر ہو چکی تھی۔ اُس جانب کے محافظوں کی چلائی جانے والی ایک سنسناتی گولی میری ران کی ہڈی کو چکنا چور کرتی ہوئی آر پار ہو چکی تھی۔ مجھے بس اتنا ہی یاد ہے کہ میں تکلیف کی شدت سے تاریکی میں ڈوبتا جا رہا تھا اور بالکل تاریک وادی میں گرنے سے چند لمحوں قبل اپنی سر حدوں کی جانب سے گولیوں کی جوابی تڑٹرا ہٹ سنائی دی۔ بھلا میرے سرحدی محافظ میری جانب سے غافل کیسے رہ سکتے تھے۔
آج میں صاحب فراش ہوں اور بالکل بھی چلنے پھرنے کے قابل نہیں لیکن میں بہت خوش اور مطمئن ہوں کہ میں اپنا حال قربان کر کے ایک روشن اور چمکتے دمکتے مستقبل کو اس کے اصل وارثوں تک پہنچانے میں کامیاب ہو چکا ہوں۔

حبیب الرحمن

٭ ٭ ٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x