ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

سیاستدان-بتول جنوری ۲۰۲۱

’’مجھے آج اپنا اے ٹی ایم کارڈ ڈھونڈتے ہوئے کسی کی گم شدہ رقم ملی ہے ۔جس کسی کی بھی ہو نشانی بتا کے لے سکتا ہے‘‘بابا جان نے کھانا کھانے کے بعد رومال سے ہاتھ صاف کرتے ہوئے سرسری سے لہجہ میں کہا۔
سب سے پہلے دادی جان کے کان کھڑے ہوئے۔
’’اے شہاب الدین میری کچھ ر قم نہیں مل رہی دو تین دن سے ‘‘ دادی جان نے بیان نامکمل ہی رکھا ۔
’’اماں بی آپ تو کہتی ہیں میں ساری رقم ہاتھ کے ہاتھ غریب غربا میں بانٹ دیتی ہوںدنیا سے چل چلاؤ کا وقت ہے تو بندہ خالی ہاتھ ہی جائے ‘‘چھوٹے چچا کمال الدین بولے ۔
’’اےسو ضرورت جیتی جان کو پڑ سکتی ہے تو بس تم سب جو پیسے پکڑاتے ہو اس سے ہی کچھ رکھ لیتی ہوں آخر کل نہلانے دھلانے والی کو بھی دینا ہوگی ناں ۔ مفت میں تو کوئی غسل دینے سے رہا‘‘اماں بی نے ناک سے مکھی اڑا ئی۔
’’مگر آپ رقم دینے کے لیے کیا کفن سے منہ نکال کے بتائیں گی کہاں رکھی ہوئی ہے ‘‘چھ ساڑھے چھ سالہ ظہیر الدین بولا ۔
’’آئے نوج ۔کفن سلواکے رکھا ہے تو بیچ میں رقم کا لفافہ بھی رکھا ہے اس میں ڈال دوں گی ‘‘اماں بی ہنوز اپنے موقف پر قائم تھیں۔
’’چلیے چھوڑیے اماں بی یہ بتائیے رقم کتنی تھی جو گم گئی ہے‘‘ شہاب الدین نے پوچھا ۔
’’رقم ……میرا خیال ہے اوں ں ں…..کوئی دس بارہ ہزار تو ہوگی ‘‘
اماں بی نے کہا ۔
’’دس بارہ ہزار واہ آپ تو بہت مالدار ہیں پھر ‘‘بابا جان نے مسکرا کر دادی جان یعنی اپنی اماں بی کو دیکھا ۔
’’مگر صد افسوس مجھے جو رقم ملی ہے وہ لفافے میں ہے اور دس بارہ ہزار روپے نہیں ہے ‘‘۔
’’لفافے میں ہے اوہ لفافے میں تو میں نے جمع کر کے رکھی تھی نیلے رنگ کا لفافہ ہے ناں ؟ ‘‘بابا جان نے اب ماما جان کی طرف توجہ کی \۔
’’رنگ تو ابھی نہیں بتانا مناسب ہاں رقم کتنی ہے یہ پوچھ سکتا ہوں بھلا ؟ ‘‘
’’رقم ؟ ‘‘ماما جان کے حلق میں ایک دم مٹھی بھر ریت پھنسی ’’رقم بس ہے کچھ جمع جتھہ‘‘گول مول سا جواب آیا ۔
’’لیکن کل سہہ پہر پانچ بجے تک تو آپ کے پاس بازار جاتے ہوئے ایک دھیلا بھی نہیں تھا آپ بار بار کہہ رہی تھیں کہ میرے پاس ایک روپیہ بھی نہیں ہے تو مجھ سے ادھار لے کے گئی تھیں دو ہزار روپیہ ‘‘باباجان نے جاندار نظر سے انہیں گھورا ۔
’’افوہ بتایے ناں نیلا لفافہ ہے ناں ہائے وہ تو میں نے کمیٹی۔ کی رقم ڈالی ہے تو رات دیر سے کمیٹی نکلی تو میں نے جلدی میں آپ کےتکیے کے نیچے لفافہ رکھ دیا تھا یہ وہی لفافہ اب آپ کے ہتھے چڑھ گیا بد قسمتی سے ‘‘ماما جان کا صدمہ سے برلا حال ہوگیا ۔
ابا جان نے تکیے کے نیچے ہاتھ مار کے دو چار منٹ کی تگ و دو سے نیلا لفافہ نکال کر ماما جان کے حوالے کر دیا اور مسکراتے ہوئے کہا ’’بیگم یہ نیلا لفافہ تو آپ کا خفیہ بھید تھا جو اتفاق سے آپ نے ہی پردہ فاش کردیا البتہ میرے پاس جو لفافہ ہے وہ نیلا نہیں ہاں سچ کمیٹی کی رقم کتنی ہے ‘‘۔
’’اسی ہزار روپے ‘‘
ماما جان نے جھنجھلا کر کہا۔بھانڈہ پھوٹ گیا تھا بس اب نکمی سی کوشش تھی کہ مقدر نہ پھوٹنے پائے۔
’’اس…..اسی ہزار روپے ؟ واہ واہ یعنی یہ وہ خزانہ جو قدرت نہ بھید دیتی تو سب کی نظروں سے اوجھل ہی رہتا ۔ویسے آپس کی بات ہے آپ کا تکیہ کلام ہے کہ میرے پاس تو ایک روپیہ بھی نہیںتو یہ کمیٹی کی رقم کہاں سے میسر ہوتی رہی ؟ ‘‘بابا جان نے ٹھنڈے ٹھار لہجہ میں ماما جان کی کلاس لی۔
’’آپ بھی بس بال کی کھال اتارے ہیں سو پچاس تو ادھر ادھر سے نکل ہی آتے ہیں روز کے سودا سلف سے….. وہاں سے نہ مل سکیں تو آپ کی جیب مبارک سے ‘‘۔
سب کا ایک با جماعت قہقہہ فضا میں گونج اٹھا ۔
’’ہاں تو کوئی اور امیدوار ہے اس گمشدہ خزانے کا یا لاوارث سمجھ کے میں ہی رکھ لوں ‘‘بابا جان نے اب ماما جان کی جان بخشی کی اور باقی اہل خانہ کی طرف متوجہ ہوئے۔
’’جی بھائی جان اگر ان کے نہیں ثابت ہو سکے تو یقینی طور پر میرے ہوں گے کالج یونیورسٹی کے چکروں میں اکثر رقم کو ادھر ادھر رکھ کے بھول جاتا ہوں‘‘چھوٹے چچا بولے ۔
’’ہاں یہ بھی ممکن ہے مگر میاں رقم تو نشانی بتانے پر ہی ملے گی اگر بالکل درست نہیں معلوم تو اندازہ سے ہی بتا دیں نیلے نوٹ ہرے لال نوٹ کتنے ہیں ‘‘بابا جان نے کہا ۔
’’نیلے تو شاید دو تین ہی ہوں ،ہرے بھی پانچ سات ۔میں گنتا تھوڑا ہی ہوں فیس سے یا سودا سلف سے بچنے والے بس جمع کرتا رہتا ہوں‘‘ ۔
بابا جان قہقہہ لگا کے ہنسے اور ایک پچاس کا کڑکڑاتا نوٹ سب کے سامنے لہرایا ۔
’’یہ پچاس روپے ملے ہیں مجھے….اب کہو کس کی مالیت ہیں؟‘‘
’’پچاس روپے؟‘‘
’’صرف پچاس!!‘‘
’’ہائے اللہ ان پچاس روپوں کے لیے صبح سے سب کو اکٹھا کیا ہؤا تھا ‘‘،دادی جان سخت اشتعال میں تھیں اور ماما جان کے بس میں نہیں تھا کہ کیا کرڈالیں ۔
بابا جان کھل کرہنسے ’’یہ تو آپ سب کے اثاثوں کی جانچ پڑتال کے لیے بلکہ خفیہ اثاثوں کو جاننے کے لیے ضروری تھا ۔ اب آپ میں سے جو بھی صادق اور امین ثابت ہؤا ہے وہ انعام میں یہ پچاس روپے لے سکتا ہےباقی یہ کہ ہم سب بندہ بشر ہیں بالعموم حکمرانوں کی طرح خزانہ خالی کا رونا روتے ہیں لیکن اللہ کے فضل سے خزانے موجود ہوتے ہیں جیسا کہ اماں بی ،بیگم اور کمال کے خزانے ۔ ایسے مت کہا کریں یہ ناشکری قوم میں شمار ہوتا ہے اور آپ کو یہ بھی معلوم ہے ناشکری قوم کا انجام کیا ہؤا تھا ۔ کیوں سچ کہا ناں میں نے ؟ ‘‘
بابا جان کے سوال پر ساری ناشکری قوم سر جھکا کے بیٹھی تھی کہ اگر ہلکی سی ہوا بھی چکے تو سجدہ میں گر جائے۔

٭ ٭ ٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x