ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

اک آگ کا دریا تھا دو اعلانات یا ہوا کے تاز ہ جھونکے – بتول دسمبر۲۰۲۲

مہاجر کیمپ میں گمشدہ افراد کے اعلانات کا سلسلہ تقسیم کے کئی ماہ بعد تک جاری رہا۔سر شام لوگ ریڈیو کے قریب بیٹھ جاتے ۔اپنوں کی خبر سننے کے لیے پورا وجود کان بن جاتا ۔جب امید کے سارے در ایک ایک کر کے بند ہونے لگے تو اچانک ایک دن ریڈیو پاکستان سے بڑی امی کے والد صاحب کی سلامتی کی خبر نشر ہوئی۔ اعلان بار بار دہرایا جارہا تھا۔یہ اعلان کیا تھا، جدائی کے صدمات سےچور دلوں کے لیے مرہم اور ہوا کا تازہ جھونکا ثابت ہؤا اور امید بندھ گئی کہ شاید پورا گھرانہ ہی بچ گیا ہو۔
نانا جی نے ملاقات پر منیا کو گھر سے لے جانے کی ادھوری داستان کو وہیں سے جوڑتے ہوئے کرب انگیز لہجے میں کمال ضبط سے ٹھہر ٹھہر وہ ساری بپتا کہہ سنائی، جس کے بعد ہر سننے والے کے دل میں یہ خواہش ابھری کہ کاش یہ داستان ادھوری ہی رہتی!
انھوں نے بتایا کہ جب وہ سب لوگ بڑی امی کی بیٹی کی پیدائش پر مبارک باد دینے گھر آئے اور بڑی امی کی بہن یعنی اپنی سب سے چھوٹی بیٹی منیا کو ساتھ لے کر گھر کی جانب روانہ ہوئے تو راستے میں حالات کچھ غیر معمولی محسوس ہوئے ، ہندؤوں اور سکھوں کے حملے کے ارادے کی خبریں تو روز ہی آرہی تھیں، لوگ اپنے گھروں کی چھتوں اور منڈیروں سےحالات کی نزاکت کا جائزہ لے رہے تھے ۔یہی سوچ کر تیز تیز قدموں سے گھر پہنچے۔خیریت سے گھر پہنچنے پر رب کا شکر ادا کیا، اسی اثنا میں ہندو جتھوں کے گھیراؤ کی اطلاعات آنے لگیں۔علاقے میں افراتفری اور سراسیمگی کی لہر دوڑ گئی،لوگ گھروں کے دروازوں کے آگے بھاری سامان رکھ رہے تھے ۔بچوں، عورتوں اور لڑکیوں کو چھپایا جارہا تھا ۔ اپنے دفاع کے لیے ہر فرد ہتھیار بند تھااورہتھیار بھی کیا تھے، گھر میں موجود تلوار سے لے کر باورچی خانے میں موجود چھریاں،چاقو ، کانٹے تک کے ہتھیاروں سے لیس تھے سب۔
اچانک اس وحشت ناک ماحول میں ایک طویل صدا گونجی۔یہ صدا تو ہر روز دن میں کئی بار گونجتی تھی لیکن آج کچھ نیا تھا اس پکار میں ….اللہ کی کبریائی کا اعلان ….فلاح کی طرف بلانے کی اس نوید میں بڑا مضبوط عزم اور حوصلہ تھا آج !جب ایک سہمی ہوئی سرا سیمہ شام، سورج کی زرد کرنوں میں سمٹ رہی تھی،سیاہ رات کے پھیلتے سایوں کے بیچ مؤذن کی مسجد کی طرف بلاوے کی اس دعوت میں آج کسی کی ہمت نہ تھی کہ دروازہ کھول کر مسجد کا رخ کرتا ،موت کے منڈلاتے سایوں میں عافیت کی جگہ بند کواڑوں والے گھر ہی معلوم ہو رہے تھے۔ لیکن کم نگاہوں کی نگاہوں سے یہ بات پوشیدہ تھی کہ اللہ نے گوشہِ عافیت آج کہاں طے کررکھا ہے! جس کی مہلت عمل برقرار رکھنی تھی اسے چند لمحات قبل وہاں سے نکالنے کا حکم رب کائنات کی جانب سے صادر ہو گیا، نانا حافظ جی نے خاموشی سے نماز کے لیے وضو کیا اور حسب عادت رومال کندھے پر ڈالا تو گھر والے ان کے ارادے بھانپ کر حالات کی نزاکت کے پیش نظر انھیں روکنے لگے کیونکہ ان کی بینائی بھی کمزور تھی، اگرچہ وہ روزانہ کے راستوں کو با آسانی پہچان کر ایک جگہ سے دوسری جگہ آرام سے سفر کرتے تھے اور روز کے راستوں پر کسی کے محتاج نہیں تھے ۔سو وہ نماز باجماعت کی ادائیگی کے لیے مسجد جانے کے لیے تیار ہو گئے، ان کا یقین تھا کہ جو رات قبر میں آنی ہے وہ بستر پر نہیں آسکتی۔پیچھے رہ جانے والے روکتے رہ گئے، اور دور تک انھیں الوداعی نظر سے دیکھتے رہے لیکن گویا مشیت ایزدی ان کا ہاتھ تھام کر انھیں مسجد لے گئی جہاں انھوں نے چند نمازیوں کے ساتھ اطمینان سے نماز ادا کی ۔ان کا سکون اس لیے بھی تھا کہ وہ گھر میں پیچھے چار جوان اور مضبوط بیٹے چھوڑ کر آئے تھے جو گھر ، ماں اور بیٹی کی حفاظت کے لیے کافی تھے۔
اس بات کا ذکر ضروری ہے کہ اس مسجد سے ان کی الفت بڑی پرانی تھی ۔ یہ مسجد ان کے لیے زندگی کا پیغام لائی تھی، اللہ اور اس کی تقدیر پر ان کے ایمان کی پختہ بنیادیں یہیں سے استوار ہوئی تھیں ،گویا ان کی گھٹی میں مسجد سے محبت رچی بسی تھی۔ جب وہ ایک ننھا سا ناتواں وجود لے کر دنیا میں آئے تو ان کے والدین ان کا بے حس و حرکت جسم دیکھ کر زندگی سے مایوس ہو گئے تھے ، ایسا غنچہ جو کھلنے سے پہلے دھیرے دھیرے مرجھا رہا تھا ۔نیم وا آنکھیں زندگی کی رمق سے عاری محسوس ہوتی تھیں،اس ڈوبتی نبضوں کے ساتھ جاں بلب حیات کو سہارا کیسے ہو ؟ والدین ٹکٹکی باندھے سوچوں میں غلطاں وپیچاں تھے ،کسی نے مشورہ دیا کہ آخری سہارا اللہ کی ذات ہی ہے ، اسی کے گھر یعنی مسجد لے جائیں ۔ فجر کی نماز سے ذرا دیر پہلے مسجد کے احاطے میں اس دعا کے ساتھ اللہ کے گھر کی دہلیز پربچے کو رکھ کر ایک طرف بیٹھ گئے کہ اگر اس نے زندگی دینی ہے تو اپنے گھر میں ہی دے دے گا لیکن پھر بے چین والدین سے زیادہ دیر رہا نہ گیا اور نماز کے بعد وہ بچے کو وہاں سے اٹھانے آگئے مگر یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ بچہ امام صاحب کی گود میں لیٹا زندگی سے بھر پور سانسیں لے رہا تھا اور رو رو کر ہلکان ہو رہا تھا،امام صاحب اس کے لیے دعا اور دم میں مشغول تھے ،ساتھ روئی سے دودھ منہ میں ٹپکایاجارہا تھا،کان میں اذان اور اقامت کہی جارہی تھی۔والدین جو اپنے تئیں مایوس ہو چکے تھے وہ قدرت الٰہی کا کرشمہ اپنی آنکھوں سے دیکھ کر اللہ کے حضور سجدہ ریز ہو گئے ، وہ بندے کو مایوس نہیں کرتا۔یوں یہ مسجد ان کی پہلی جائے امان یا زندگی کی علامت ثابت ہوئی ، اور آج دوسری بار یہ مسجد اللہ کے حکم سے ان کی زندگی کی پناہ گاہ ثابت ہوئی تھی ۔
لیکن اس وقت وہ ان تمام سوچوں سے بے نیاز محلے پر بلوائیوں کے حملے کی دل دہلا دینے والی خبریں سن رہے تھے ۔ مسجد کو باہر سے تالے لگا دیے گئے تھے ۔ نمازی پنجرے میں قید پنچھی کی مانند پھڑپھڑا رہے تھے،گھر وں کو جانے والے سارے راستےمسدود ہو چکے تھے۔آن کی آن میں چند گلیاں پار گھروں اور مسجد کے درمیان آگ اور دھویں کی ایک لامتناہی دیوار حائل ہو گئی ، محصورین ِمسجد کے سامنے ان کے آباد گھروں سے لمحہ بہ لمحہ گھائل ہوتے پیاروں کی بے بس چیخ وپکار، دھوئیں کے اٹھتے مرغولے،اور اس پر مستزاد شیطانوں کے قہقہے اعصاب شل کر دینے کے لیے کافی تھے۔
جور وستم کا یہ بازار کامل تین روز تک گرم رہا ۔تین دن انسانیت منہ چھپائے سوتی رہی۔نمازی تین دن محض پانی پر گزارا کرتے رہے اور تین دن بعد ….جب مسجد کے بند کواڑوں کے تالے باہر سے کسی نے توڑ کر انھیں آزاد کیا تو بے تحاشا اپنے گھروں کی جانب دوڑے جہاں ان کے منتظرجلی ہوئی عمارتوں کے ڈھانچے تھے جو تھکن سے چور ستونوں پر کھڑے تین دن سے بلوائیوں کے زور دار حملوں کا مقابلہ کررہے تھےگویا ایک دوسرے کا سہارا بنے اب ایک دوسرے پر گر کر ڈھیر ہو رہے تھے۔حملہ آوروں کا قافلہ عورتوں ،بچوں، بزرگوں،جوانوں کے خون سے اپنی پیاس بجھاتا،پاکستان زندہ باد کے نعروں کی ضد باندھنے والوں کو عبرتناک سبق سکھاتا،انہیں نیزوں کی انیوں میں پروتا اپنی اگلی منزل کی جانب روانہ ہو چکا تھا،امی کے حافظ نانا جی تین روز تک لحظہ بہ لحظہ صورتحال کی خبریں سنتے، ایمان اور صبر کا دامن تھام کر اس حقیقت کو تسلیم کر چکے تھے کہ وہ اپنے پیچھے جن متفکر چہروں کو نماز کی جلدی میں ٹھیک سے الوداع بھی نہ کہہ پائے تھے ان سعید روحوں کو دراصل ان سے کہیں زیادہ جلدی تھی….اپنے خون سے سینچی تکمیل پاکستان کی قربانیوں کی تاریخ میں اپنے نامو ں کے اندراج کی…. جنت الفردوس میں شہادت کا اعلیٰ مقام حاصل کرنے کی !
حافظ جی بڑے نیک اللہ والے انسان تھے۔ غم کی اس ابتدا میں انھوں نے صبر جمیل کو اپنا شعار بنالیا تھا۔ پھر انھیں یہیں سے پاکستان جانے والے پناہ گزینوں کے کیمپ منتقل کر دیا گیاجہاں ہر چہرے پر لکھی درد کی الگ الگ تحریروں کا ایک ہی عنوان تھا۔یہاں ایسا کون تھا جو کسی کو انہونی سناتا ! ہر ایک کی طرح نانا جی بھی اپنے گھر والوں کے بارے میں جان کر ان تک پہنچنا چاہتے تھے لیکن جب محلے کو آگ لگانے کی خبر سنی تو صبر کی بھاری سل سینے پر رکھ کر سب کچھ اللہ کے حوالے کر کے اپنی خوابوں کی منزل پاکستان جانے کے لیے ہجرت کی نیت کر لی۔
پاکستان آئے تو پھر یہیں کے ہور ہے ،تنہا زندگی گزارنا آسان نہیں تھا اس لیے انھوں شادی کر لی۔ اللہ تعالیٰ نے دو بیٹے انھیں عطا کیےجنھیں دین کا علم دیااور حافظ قرآن بنایا ۔ نانا جی نے سو برس کی طویل عمر پائی ، آخری عمر تک چاق و چوبند رہے،دعوتی وتبلیغی سرگرمیوں کو اوڑھنا بچھونا بنا لیا،دور دراز کا سفر اکثر کرتے،بارہا ہندستان اپنے رہ جانے والے رشتہ داروں سے ملنے گئے اورہمیشہ اسی مسجد میں نماز ادا کرتے جو دو بار ان کے لیے زندگی کا پیغام لائی تھی۔سو سال کی عمر میں جب وہ آخری بار ہندستان گئے تو مقصد اپنے چھوٹے بیٹے کی شادی کرنا تھا۔دہلی پہنچتے ہی وہ اپنا مختصر ترین سامانِ سفر کسی کے حوالے کر کے گھر روانہ کرتے اور خود مسجد کا رخ کرتے ،فرض نماز ،سنتیں ، نوافل ادا کر کے اطمینان سے گھروں میں ملنے جاتے ۔
اس روز بھی منزل پر پہنچتے ہی اذان کے بلاوے پر مسجد کی طرف روانہ ہو گئے ، مسجد میں نماز کی امامت کروائی، دوران نماز ان کی طبیعت خراب ہونے لگی۔ فوری طور پر طبی امداد کے لیے لے جایا گیا لیکن اجل نے مزید مہلت نہ دی ، ان کی روح اللہ کے فیصلے کے آگے سرخرو ہو گئی ،کسی بھی طبی امداد سے قبل ہی وہ بڑے سکون کے ساتھ فانی دنیا سے دارالآخرت کی جانب کوچ کر گئے ۔ ان کی نماز جنازہ اسی مسجد میں ادا کی گئی جہاں سو برس قبل انھوں نے اپنے کان میں اذان اور اقامت سنی تھی، اور پورا خاندان ان کی غیر یقینی زندگی سے نئی زندگی کی جانب مائل ہونے پر سجدہ شکر بجالایا تھا۔ پھر اسی مسجد نے ان کو پناہ دی اور بلوائیوں کے حملے سے تین دن تک اللہ کی امان میں رکھا ۔الغرض گود سے گور تک یہ مسجد ان کی زندگی میں ایک حیران کن نسبت کے ساتھ جڑی ہوئی تھی کہ دم آخر ہزاروں میل کا سفر طے کر کے وہ اپنی اسی مسجد اور اپنے پیاروں کے محلے میں پہنچے اور وہیں سے ان کا بہت بڑا جنازہ آخری آرام گاہ لے جایا گیا۔
دوسرا اعلان
ریڈیو پاکستان پر دوسرا اعلان بڑی امی کی پھپھی کے بارے میں تھا،جو تین ماہ سے اسپتال میں زیر علاج تھیں ،جن کا گھر ان کے والد کے گھر کے بالکل برابر میں تھا ۔شدید زخمی حالت میں ہسپتال میں تین ماہ سے زیر علاج خاتون جسے وہ بہن سمجھ رہی تھیں ، اخبار میں جب ان کی تصویر بھی چھپ گئی تو معلوم ہوا وہ پھپھی تھیں!اور منیا اب کہاں ہو گی؟یہ سوال روگ ہی بنا رہا۔
پھپھی یہاں کیسے پہنچیں ؟ اس سوال کے جواب میں ایک طویل خاموشی کا قفل تھا جو بالآخر کئی ماہ بعد دھیرے دھیرے کھلتا گیا اور وہ جو جسمانی اور ذہنی طور پر برابر مضروب تھیں ،کتنے ہی دنوں بعد خود پر بیتے واقعات کی پرتیں کھولنے کے قابل ہوئیں ۔
ان کے شعور اور لاشعور کی دنیا اپنے گھر کے صحن میں سمٹ کر رہ گئی تھی جس میں وہ بلوائیوں کے حملے کے بعد تین دن محصور اور تمام واقعات کی عینی گواہ بھی تھیں، وہ اس حال میں ہسپتال لائی گئی تھیں کہ ایک بازو کا رشتہ جسم سے صرف چند انچ کھال کا تھا ،باقی باز و تلوارکے وار سے جسم سے جدا کر دیا گیا تھا۔ ڈاکٹر نے عارضی طور پر صرف کھال سے بازو کو جوڑ دیا تھا۔ انھیں گھر لے آئے اور کچھ یادداشت بحال ہونے کے بعد انھوں نے بتایا کہ ہندو اور سکھ کر پانیں لہراتے ہوئے دروازے توڑ کر اندر گھس آئے اور مسلے کا نعرہ لگاتے ہوئے پل پڑے۔ جب مردوں نے عورتوں اور بچوں کا دفاع کیا تو مردوں کو اذیت ناک طریقے سے شہید کر دیا گیا۔ ظالموں کے انتقام کی آگ ٹھنڈی نہ ہوتی اور وہ اگلے گھر میں یہی ظلم کی داستان دہرانے نکل کھڑے ہوتے، پھپھی کے گھر کی داستان بھی ایسی ہی تھی ، ان کے گھر میں آٹھ نو افراد تھے،ان کی آنکھوں کے سامنے سب ایک دوسرے کو بچانے کی جدو جہد میں ایک دوسرے پر ڈھیر ہورہے تھے،پورا صحن اپنوں کی لاشوں سے بھر گیا،وہ اپنے بچانے والوں کی لاشوں کے نیچے دبی ہوئی تھیں، بھرے پرے کنبے کے درمیان تنہا، پورا دن وہ اپنے پیاروں کی آہ و بکا سنتی رہیں، پہلے چیخیں، پھر آہیں پھر دبی دبی کراہیں اور ایک ایک کر کے دم توڑتے ان کے پیاروں کی آخری ہچکیاں اور پھر ایک گہرا سناٹا۔
وہ اکثر ایک کیفیت میں پہنچ کر خود کلامی کرتیں کہ یہ وقت تو رات کے کھانے کا تھا جب تمام اہلِ خانہ ان کے ہاتھ کی توے سے اتری گرم تازہ روٹی کھاتے ، ریڈیو پر قائد اعظم کے ولولہ انگیز بیانات سنتے ۔ مسلمانوں کے اس محلے میں اس موقع پر پاکستان زندہ باد کے نعرے ضرور لگائے جاتے اور بچے جوان،بوڑھے بیک آواز پاکستان کو اپنی آخری منزل قرار دینے کے عزم کا اظہار کرتے۔ لیکن آج چشم فلک ان کے اس عزم کی سچائی کا منظر دیکھ رہی تھی، دودھ پیتے بچے اس نعرے پر قربان ہو چکے تھے ۔
اس صحن میں پھپھی وہ واحد ہستی تھیں جن میں ابھی زندگی کی رمق باقی تھی اور دوسرا اس صحن میں وہ ٹپ ٹپ کرتا نلکا تھا ،جس کا قطرہ قطرہ ٹپکتا پانی انھیں زندگی کی طرف بلا رہا تھا۔ بمشکل تمام انھوں نے لاشوں میں دبا اپنا زخموں سے چور وجود نکالا ،اس وقت انھیں معلوم ہؤا ان کا بازو شہید ہو چکا ہے،لیکن برسوں پرانا جسم اس کا ساتھ چھوڑنے پر تیار نہیں تھا، بالکل ایسے ہی جیسے وہ اپنے خاندان اور جگر گوشوں کا ساتھ چھوڑنے پر تیار نہیں تھیں۔گھنٹوں اپنے ناتواں وجود کو گھسیٹتے ہوئے وہ چند قدم کے فاصلے پر موجود نل تک پہنچیں اور منہ کھول لیا۔ پانی نے حلق تر کیا تو سانسوں کی آمد کاسلسلہ بہتر ہو گیا۔ آج تیسرا دن تھا پورا محلہ بے گوروکفن لاشوں کا قبرستان بنا ہؤا تھا ۔لاشوں سے اٹھنے والے تعفن کے باعث سانس لینا محال تھا۔ تیسرے دن ایک ٹرک ان کے دروازے کے سامنے رکا اور لاشوں کو گھروں سے اٹھا کر ٹرک میں ڈالنے لگا۔ اس گھر کی باری آئی ،اس وقت پھپھی نیم بیہوش تھیں انہیں بھی ایک لاش جان کر ٹرک میں ڈالا جارہا تھا ایک کارندے کو ان میں سانسوں کا ردھم محسوس ہوا تو وہ چلا اٹھاکہ یہ زندہ ہے۔ فوری
طور پر انھیں وہاں سے نکال کر ہسپتال روانہ کیا گیا جہاں وہ تین ماہ زیر علاج رہیں ، اسی دوران ان کو کسی نے پہچان کر ان کا اعلان کروا دیا۔
پھپھی کبھی نارمل زندگی کی طرف لوٹ کر نہ آسکیں اور کچھ عرصہ بیمار رہنے کے بعد انتقال کر گئیں ۔
(باقی آئندہ)
٭ ٭ ٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x