ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

محشر خیال – بتول مئی ۲۰۲۲

قانتہ رابعہ۔گوجرہ
ماہ مارچ کا بتول ملا۔ لوگ جرعہ جرعہ کر کے زہر غم پیتے ہیں، ہم نقطہ نقطہ اور سطر سطر کرکے بتول کا مطالعہ کرتے ہیں۔
کھولتے ہی فہرست پر نظر ڈالی ،اداریہ دیکھا، نظریں بے تابی سے اس خبر کو ڈھونڈ رہی تھیں جو اہل قلم اہل ِعلم و دانش کے لیے بے حد خوشی کا باعث ہونا تھی اور جس کے لیے طویل صبر آزما مراحل سے گزرنا پڑتا ہے…..لیکن افسوس خبر نہیں تھی، نہ ہی سرورق پر یا اندر کے صفحات میں مدیرہ کے نام کی تختی میں ردو بدل کیا گیا تھا۔ ایک پرانی مگر معمولی سی مصنفہ بلکہ قاریہ ہونے کے ناطے مجھے احتجاج کا پورا حق ہے ۔لوگ اس سعادت کے لیے ترستے ہیں اللہ نے آپ کو ڈاکٹریٹ کی ڈگری سے نوازا شکر الحمد للّٰہ یہ اللہ کا فضل اور احسان ہے کہ بتول کی ادارت جیسے بھاری بھرکم اور مشقت طلب کام کے دوران آپ نے علم کی سکہ رائج الوقت سب سے بڑی سند حاصل کی۔ میں اپنی طرف سے اور سب قارئین کی طرف سے آپ کواور ماہنامہ چمن بتول کی ادارت کو مبارکباد پیش کرتی ہوں،بلا شبہ یہ میرے رب کا فضل ہے جسے چاہے عطا فرمائے۔لوگ تو ڈاکٹروں کے پاس سے گزر کر ڈاکٹر کہلواتے ہیں آپ نے پتہ نہیں کیوں اس خبر سے قارئین کو بے خبر رکھا ۔
یادش بخیر کبھی وہ زمانہ بھی بتول پر گزرا ہے کہ بتول کے آخری صفحات میں ’’خبرے خوش نظرے‘‘کے عنوان سے ایک کالم شائع ہوتا تھا جس میں دنیا بھر کی اچھی خبریں جمع کرکے قارئین کو خوش کیا جاتا تھا ۔فی زمانہ تو دل خوش کن خبریں ویسے ہی عنقا ہیں تو اتنی اچھی خبر نہ دینا باعث حیرت ہے ۔آپ سے مؤدبانہ گزارش ہے کہ اگلے ماہ سے ڈاکٹر صائمہ اسماء کے نام کی تختی سرورق پر جلی حروف میں ہونی چاہیے۔
روبینہ قریشی میری فیس بک فرینڈ ہیں انہیں میں نے پرنٹ میڈیا کے لیے لکھنے پر آمادہ کیا ۔الحمد للّٰہ انہوں نے میری درخواست قبول کی ۔ان شاءاللہ بتول کے لکھنے والوں میں خوشگوار اضافہ ہوگا۔ان سب لکھاریوں سے جو فیس بک پر ماشاءاللہ وسیع حلقہ احباب رکھتے ہیں ان سے التماس ہے کہ جو تحریر فیس بک پر دے چکے ہوں وہ نہ دیں بلکہ نئی تحریر دیا کریں بعد میں بھلے فیس بک پر دے دیں۔
میری پسندیدہ صنف ادب سفر نامہ میں میری پسندیدہ سفر نامہ نویس ڈاکٹر فائقہ اویس کا ملایا کا سفر نامہ حسبِ سابق بہترین رہا، بہت مزہ آیا لیکن اس مزے کے حصول کے لیے دس مرتبہ آنکھوں میں ڈراپس ڈالنا پڑے ،کئی مرتبہ آنکھیں بند کیں تاکہ آنکھوں میں درد نہ ہو۔
باقی تحریریں بھی ان شاءاللہ بہترین ہوں گی۔ اللہ لکھنے والوں پڑھنے والوں اور پڑھانے کے اسباب مہیا کرنے والوں کو عافیت میں رکھے۔ اگر کوئی انجمن محبان بتول کا کاغذی وجود بھی ہوتا تو اس کی طرف سے آپ کی پی ایچ ڈی کے اعزاز میں ایک شاندار تقریب کا انعقاد فرض ہوتا ۔بہرحال بہت دعائیں۔
٭آپ کی محبت کے لیےبے حد ممنون ہوں۔ گزشتہ سال جولائی کے شمارے میں اداریے کے نیچے یہ خبر دی گئی تھی کہ مدیرہ بتول نے اپنے تحقیقی مقالے کا کامیاب دفاع کیا ہے۔ سرکاری طور پہ اعتراف کی سند تبھی مل جاتی ہے۔ اس کے بعد کانووکیشن ایک رسمی کارروائی ہے البتہ اس میں کوئی شک نہیں کہ ڈگری ہاتھ میں آنا اہم موقع ہے۔ نام کے ساتھ بطور محقق یا پیشہ ورانہ جہاں ضرورت ہوتی ہے ڈاکٹر کا اضافہ کردیتی ہوں ۔ ادبی حیثیت میں نام کے ساتھ ڈاکٹر لکھنے کی روایت عمومی طور پہ نہیں پائی جاتی اس لیے بتول میں گریز کیا۔ بہر حال آپ کی محبت، قدردانی اور دعاؤں کا ایک بار پھر بے حد شکریہ، سلامت رہیں۔آپ سب کی محبتیں میرا اصل اعزاز ہیں (ص۔ا)٭

 

پروفیسر خواجہ مسعود۔ راولپنڈی
’’ چمن بتول‘‘اپریل2022ء کا شمارہ سامنے ہے ۔ چیری بلاسم کے خوبصورت سفید عنابی پھولوں اورشفاف پانیوں کی آبشار سے مزیّن ٹائٹل دل کو بھا گیا۔
’’ ابتدا تیرے نام سے ‘‘ آسیہ راشد صاحبہ کافکر انگیز اداریہ آپ نے اللہ تعالیٰ کے پیارے مہمان ’’ رمضان المبارک‘‘ کی فیوض و برکات کا تذکرہ بڑے خوبصورت انداز میں کیا ہے۔ آپ کے جملے قابلِ غور ہیں ’’جب تک دلوں کی سیاہی دُور نہیں ہو گی نہ تو کوئی عمل قبول ہوگااور نہ ہی کوئی دعا ۔ اپنے باطن کو چمکائیں تاکہ یہ جسمانی مشقت ہماری روحانی بلندیوں کا موجب بن سکے ‘‘۔
گزشتہ دنوں ملک میں جو سیاسی ابتری رہی اس پر بھی آپ نے بے لاگ تبصرہ کیا ہے ۔ آپ کے جملے زبردست ہیں ’’ اس ساری خراب صورت حال کا علاج تو یہی ہے کہ عوام اپنے حکمران منتخب کرتے وقت ذاتی مفاد، لالچ، برادری کو نظر انداز کر کے خوداپنے فائدے اور ملک کے مستقبل کی خاطر نیک اور با کردار ، با صلاحیت نمائندوں کو ووٹ دیں جو ملک کی تخلیق کے مقصد کو پورا کرنے کا ارادہ بھی رکھتے ہوں اور قابلیت بھی‘‘۔
’’ علم روشنی ہے‘‘( ڈاکٹر میمونہ حمزہ ) ڈاکٹر صاحبہ نے اپنے اس بصیرت افروز مضمون میں بتایا کہ علم کائنات کے اسرار کھولنے اور ان تک رسائی کا وسیلہ ہے ۔ علم حقیقی وہ راستہ ہے جو دل و دماغ کو منور کرتا ہے ۔
’’عہد نبوی ؐ میں نظام ِ تعلیم ‘‘( نجمہ راجہ یاسین) مضمون میں وضاحت کے ساتھ بتایا گیا ہے کہ اسلام نے تو ابتدا سے ہی تعلیم و تربیت پر بہت زور دیا ہے ۔ جیسے کہ حدیث مبارکہ میں ارشاد ہے ، علم حاصل کرو، مہد سے لحدتک، اصحاب صفہ ایک مثال ہے کہ تشنگانِ علم ایک مخصوص چبوترے پر بیٹھ کر تعلیم و تربیت حاصل کرتے تھے ۔ عام تعلیم کے ساتھ ساتھ طب، مختلف فنون مثلاً گھڑ سواری تیر اندازی شمشیر زنی اور کشتی کے مقابلے بھی کرائے جاتے تھے ۔
’’ ہجرت سے میثاقِ مدینہ تک ‘‘( ڈاکٹر ممتاز عمر ) اس مضمون میں واضح کیا گیا ہے کہ ہجرت مدینہ تاریخ اسلام میں نہایت اہم حیثیت رکھتی ہے ۔ اس ہجرت کے بعد ہی اسلام پھلا پھولا اور اسلام کی روشنی عرب کے طول و عرض میں پھیلنے لگی ۔ ایک مثالی اسلامی معاشرے کی بنیاد مدینہ میں ہی رکھی گئی۔
’’ کلام ِ اقبال کے عوامی افق‘‘ ( مشکور حسین یاد) مضمون واضح کرتا ہے کہ علامہ اقبال اپنی شاعری کے ذریعہ ایک وحدتِ اسلامی قائم کرنے پر یقین رکھتے تھے جو ملک و قوم کی حدود سے بالا تر ہو ۔ اقبال نے مومن کا مثالی کردار اپنی شاعری میں پیش کیا ہے ۔آپ نے مسلمانِ ہند کو خودی ، خودداری اور عمل پیہم کا سبق دیا ۔ مسلمان نوجوانوں کو اسلام کی عظمتِ رفتہ یاد دلائی اور ان کے دلوں میں آزادی کی تڑپ پیدا کی ۔ اقبال نے اپنی مشہور نظم ’’مسجد قرطبہ‘‘ میں اسلام کی عظمت رفتہ کو یاد کر کے اشک بہائے۔
؎ آہ کہ صدیوں سے ہےتیری فضا بے اذاں
’’کشمکش‘‘ بنتِ مجتبیٰ مینا کی موجودہ دنیا کی بڑی طاقتوں کا اصل چہرہ عیاں کرتی ایک زبردست نظم ۔ ہم سب کے لیے ایک لمحہ فکریہ۔
امن و امان کی خاطر یہ جنگ کر رہے ہیں
بھوکوں پہ رحم کھا کر خود پیٹ بھر رہے ہیں
انسانیت مٹا کر انساں بنائیں گے یہ
تاریکیاں بڑھا کر شمع جلائیں گے یہ
حبیب الرحمٰن صاحب کی مشکل زمین میں لکھی ہوئی غزل سے ایک منتخب شعر:
وہ آ کے مرے دل میں ہے کون ذرا جھانکیں
دل چیر کے جائیں گے دکھلانے نہیں ہم بھی

’’ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے ‘‘ آمنہ رمیضا زاہدی کی خوبصورت نظم سے چند سطریں:
کوئی کانٹوں بھری جھاڑی کہیں دامن سے الجھی ہے
پرانے زخم سے بیتے دنوں کی یاد رِستی ہے
کئی خوابوں کی ننھی کرچیاں آنکھوں میں چبھتی ہیں

’’ معنی ِ مراد ‘‘ دل کی کیفیت کا اظہار کرتی ( قانتہ رابعہ صاحبہ) کی ایک خوبصورت کہانی ۔ یہ جملے خوبصورت’ درختوں ، چرند، پرند سب کو ایک نئی زندگی مل گئی تھی اور نیلم ۔ نیلم کی آنکھوں سے جھرنے بہہ رہے تھے ۔ باہر کی بارش نے اس کے اندر کو بھی صاف شفاف کر دیا تھا ‘‘۔
’’ رواج کی شکست‘‘( دانش یار ) دیہاتی پس منظر اور زمیندارانہ کلچر کی عکاسی کرتی ہوئی ایک دلچسپ کہانی ۔ سادہ لوح دیہاتی مقدمے بازی میں خطیر رقم ضائع کردیتے ہیں اور سالہا سال مقدمے بھگتتے رہتے ہیں ۔ ایسے لگتا ہے دانش یار صاحب نے دیہاتی کلچر کو قریب سے دیکھا ہے ۔
’’ نیا محلہ‘‘ ( مدیحۃ الرحمٰن) ان نا سمجھ مائوں کی کہانی جو اپنے بیٹوں کوبہت اونچا سمجھ کر لڑکیوں کے رشتے ٹھکراتی رہتی ہیں لیکن بالآخرلڑکے خود ہی اپنی پسند کی اوٹ پٹانگ لڑکیاں بیاہ کر گھر لے آتے ہیں اور مائیں تکتی رہ جاتی ہیں ۔
’’ ملازم‘‘ ( نبیلہ شہزاد ) ایک سبق آموز کہانی کہ اگر خاتونِ خانہ گھر کے کام خوش اسلوبی سے کر لے تو یہ قسم قسم کی تنگ کرنے والی ’’ماسیوں‘‘ سے نجات پانے کا بہترین طریقہ ہے ۔ خاتون جنت حضرت فاطمہ ؓ زہرہ کی سیرت سے ہمیں یہی سبق ملتا ہے۔
’’ کیسا سچ‘‘( شاہدہ ناز قاضی) دیہاتی پس منظر میں لکھی گئی ایک خوبصورت دل پہ اثر چھوڑتی کہانی ہے ۔ یہ ایک وضع دار بوڑھی خاتون کی کہانی ہے جس نے زندگی میں اپنے دکھ کسی کو نہیں بتائے ۔ بلا شبہ شاہدہ ناز کی لکھی ہوئی یہ ایک شاہکار کہانی ہے۔
’’ ایک رات چوپال میں ‘‘ ( احمد ندیم قاسمی) سادہ لوح دیہاتیوں کی کہانی جو رات کو چوپال میں اکٹھے ہو کر ایک دوسرے سے اپنے دکھ سکھ شیئر کرتے ہیں او ر جنہیں سائنسی ایجادات پر یقین نہیں آتا تھا۔
’’ ماہِ رمضان میں قبولیت کی آرزو‘‘ ( افشاں نوید ) آپ نے بجا بتایا ہے کہ قبولیت کی فکر جتنی گہری ہو گی عمل اتنا ہی ریا کاری سے دور ہوگا ۔ نیت میں اخلاص شرط ہے ۔ ماہ رمضان میں کی گئی نیکیوں کا ثواب بے حد ہے لیکن ہمیں تشہیر سے بچنا چاہیے۔
’’ تقویٰ کیا ہے ‘‘ ( آسیہ عمران)آپ نے واضح کیا ہے کہ تقویٰ اختیار کرنے والا شخص اپنے ہاتھ ، زبان یا افعال سے کسی کو تکلیف نہیں دیتا۔ تقویٰ کا مقصد برائیوں سے بچ کے رہنا ہے ۔
’’ اردو زبان کا تدریجی سفر‘‘( الماس روحی) اردو دنیا کی تیسری بڑی زبان شمار ہوتی ہے ۔دکن میں اردو کی ترویج ہوئی پھر دلی اور لکھنؤ میں اس زبان نے عروج حاصل کیا غالب، ذوق ، میر ، مومن ، ولی دکنی ، امیر خسرو او ردیگر شعراء نے اردو میں کلاسیک شاعری کی ۔
’’ تربیت کہاں رہ گئی ‘‘ ( روبینہ قریشی) بچوں اور بچیوں کی تربیت کے لیے بڑے پیارے انداز میں سمجھایا گیا ہے کہ بچوں پر بے جا پابندیاں بھی نہ لگائیں لیکن ان کی مناسب نگرانی اور رہنمائی ضرور کریں خاص طور پہ نیٹ کے منفی استعمال سے روکیں ۔ یہ جملہ قابل غور ہے ’’ہمارے پاس جو سب سے زیادہ قیمتی چیز اپنی اولاد کو دینے کے لیے ہے وہ ہمارا وقت اور ہماری تربیت ہے ‘‘۔
’’ بزرگوں کی نگہداشت ‘‘( ڈاکٹر فلزہ آفاق) آپ نے بڑے اچھے انداز میں سمجھایا ہے کہ ہمیں بزرگوں کی نگہداشت اپنا فرض سمجھ کر کرنی چاہیے ۔
’’ چیلنجز کامیابی کی راہ گزر‘‘(فائزہ مشتاق) دنیا کی عظیم شخصیات کی زندگیوں پر نظر ڈالیں تو ان کی کامیابیوں کے پیچھے بھی دشوار گزار مراحل تھے جنہیں طے کر کے ہی وہ نامور بنے۔
’’ امی جان کی یاد میں ‘‘ ( فرحت طاہرہ جبیں ) آپ نے اپنی پیاری ،نیک دل اور پرہیز گار والدہ کی یادیں قارئین کے ساتھ شیئر کی ہیں۔ یہ جملے خوبصورت ہیں ’’ وہ سب کے لیے ایک گھنے سایہ دار درخت کی مانند تھیں جس کی ٹھنڈی اور گھنی چھائوں سے سب نے فیض اٹھایا‘‘۔
گوشہ تسنیم ’’ شکر گزاری‘‘ ڈاکٹر بشریٰ تسنیم صاحبہ کا بصیرت افروز کالم یاد دہانی کرواتا ہے کہ جب ہمارے ساتھ کوئی انسان احسان کرے تو ہمیں اس کا بھی شکر یہ ادا کرنا چاہیے۔
آخر میں پیارے چمن بتول ، ادارہ بتول اور قارئین کے لیے

 نیک خواہشات۔

٭ ٭ ٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x