ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

کاف کرونا قاف قانتہ – بتول دسمبر ۲۰۲۰

کرونا سے ڈرنا نہیںگھبرانا نہیں۔نزلہ زکام کھانسی کی قسم کو اب کرونا کہتے ہیں۔جو کرونا سے ڈرا وہ بھی پھنس کر شکارہؤااور جو ہنسی مذاق اڑاتا رہا وہ بھی کرونائی بنا ۔
آپ مبالغہ مت جانیے، تیس جمع تیس یعنی ساٹھ دن جو کرونا سے ڈر کر گھروں میں قید رہے ،سینی ٹائزر اور ماسک کو حفاظتی ضمانت سمجھتے رہے وہ محض کھڑکی سے باہر جھانکنے پر ہسپتال منتقل ہوئے۔
فلاںپرنسپل مرگیا، فلاں ہسپتال میں بیڈ ختم ہوگئے، وینٹی لیٹر منگوانا چاہئیں……
جیسے جملوں میں ذوالحج کے بعد اور ربیع الاوّل سے پہلے والے مہینے میں بالآخر کرونا نے بریک لیا ۔کرونا کے وقفے کی دیر تھی کہ جو پانچ چھ ماہ سروں پر چڑھ کے ناچتا تھا اب ایک دم ہی ذہنوں سے محو ہوگیا۔ کون سا کرونا اور کیسا کرونا! گرمیوں میں ہر سال دو سال بعد ٹائیفائڈ ہوتا ہے علامات بھی اسی کی تھیں اس لیے وجہ اور دھیان ٹائیفائڈ کی طرف ہی رہا ۔علاج معالجے کے باوجود حیرت اس بات پر تھی کہ کرونا کیا آیا ساری بیماریوں نے رنگ ڈھنگ بدل لیے۔عجیب واہیات قسم کا ٹائیفائڈ کہ دودن بخار میں سڑتے مرتے گزرتے، توبہ تائب ہوتے کچھ رجوع الی اللہ کا دھیان ہوتا ،اگلے چار دن اس طرح آتے جیسے کچھ ہوا ہی نہ تھا ۔ہاں تھکاوٹ بے پناہ تھی۔ایسے میں’’حیا مہم ‘‘درپیش تھی، لاہور حریم ادب جمع نشر واشاعت کا ڈھیروں کام۔سب کچھ پیچھے چھوڑ کے مہم میں جت گئی۔مگر جوں جوں مہم اختتام پذیر ہوتی جارہی تھی مرض بڑھتا جارہا تھا۔ اب بخار اعصابی کمزوری کا تھا ۔گردن اور پٹھوں میں شدید کھچاؤ ۔لکھ لکھ کے ہاتھوں کی انگلیوں نے جواب دے دیا۔ایسی کیفیت کبھی نہ ہوئی تھی کہ دائیں بائیں دیکھتی تو دیکھنا مشکل ۔
گھر والے مشورے دے دے کے تھک گئے ۔ خود بھی اپنی مرحومہ ماں کی باتوں کو دہراتی جو اکثر محاوروں کی زبان میں بولتی تھیں ۔ جب مجھے تحریکی کاموں میں جنونی ہؤا دیکھتیں تو اکثر کہتی تھیں۔بوہتا کھاندی تے تھوڑے توں وی جاندی۔یعنی ایک دم سے بوجھ لاد کےتو بعد میں تھوڑا سا کرنے سے بھی رہ جاؤگی،وغیرہ وغیرہ۔
مہم کے آخر تک پہنچ کے صحیح معنوں میں ’’چیں بول گئی ‘‘اور میں نے لکھاری شاگردوں کے سامنے ہاتھ جوڑے کہ بھلی لوکو!ہم بھی تو تھے شریف بلکہ حد درجہ شریف۔افسانہ مدیر کو بھیجتے پھر دس بارہ دن میں پہنچنے کی اطلاع آتی اور اگلے ماہ ویٹنگ لسٹ پر افسانہ رکھا جاتا ۔پھر کمپوز ہوتا اور خدا خدا کرکے تیسرے ماہ میں شائع ہوتا۔اب موبائل کی بہاریں ہیں۔ ادھر موضوعات دیے جاتے ہیں، کھٹ کھٹا کھٹ تحریر اگلے پچیس منٹ میں بھیج کے فرمائش آتی ہے کہ آنٹی یہ کل تک بلاگ شائع کروائیں۔ چوبیس گھنٹے کے اندر بلاگ شائع ہوتا ہے تو اگلا ٹپک پڑتا ہے ۔ ان لوگوں کو گروپ بند کرنے کی دھمکی دے کر ریسٹ پر بھیجا مگر مجھے ڈاکٹر کا پھر سے منہ دیکھنا پڑا ۔
آپ کو اعصابی کمزوری کے ساتھ نیند کی کمی کا بھی شدید مسئلہ ہے۔ آپ چوبیس گھنٹے میں کتنی نیند لیتی ہیں؟
اس نے سوال کی گولی چلائی۔
پانچ سوا پانچ گھنٹے،ہم نے منمناتے ہوئے کہا۔
آپ کو نیند بڑھانا ہوگی وگرنہ آپ سخت مشکل سے دوچار ہوں گی ۔
نہ تو ہماری نیند بڑھی اور نہ ہی درد میں افاقہ ہؤا ۔بقول شخصے، پٹھے بھی کھچاؤ کا شکار ہو کر الو کے پٹھے بن چکے تھے کہ فجر کی نماز سے پہلے ہی داماد کے نمبر سے وڈیو کال آئی۔
اللہ خیر کہتے ہوئے موبائل ہاتھ میں لیا اور دل دھک سے رہ گیا۔ داماد اور بیٹی دونوں بیٹے کو ٹھنڈے پانی کی پٹیاں کر رہے تھے۔کچھ پوچھنے کی ضرورت تھی نہ بتانے کی۔ہر چیز نظر آرہی تھی تین سالہ منی سی جان کو یوں بخار سے نڈھال دیکھ کے دل کٹ کر رہ گیا۔کوئی اوپرا دل تو نہیں تھا نانی کا دل تھا ۔ ساتھ میں مومنہ کی بھی ٹینشن، بیچاری چودہ گھنٹے ہسپتال میں ڈیوٹی دے کے واپس آئی تھی،یوں بچے کے ساتھ اسے جاگتا دیکھ کے میں بھی پریشان ہو گئی۔ شام تک چھوٹا نواسا ہر دم چہکنے مہکنے والا بھی ٹھنڈے پانی کی پٹیوں میں حالوں بے حال ہورہا تھا۔ میرا تو اندر ہی کٹ کر رہ گیا۔مومنہ سے کہا تم گوجرہ آجاؤ،ذروہ کے علاوہ داؤد بھی ہے ماشاءاللہ دونوں بھانجوں پر جان چھڑکتا ہے ۔
نہیں نہیں کرکے مومنہ نے دو دن گزار دیے،پھر دو چھٹیاں لے کے گوجرہ پہنچی۔بچے بہت کمزور ہوچکے تھے بخار بھی نہیں اترا تھا ۔ننھیال میں وقتی طور پر بہل تو گئےمگر اس وقتی وقفے میں مومنہ کو بخار اور جسم میں شدید درد ،فلو زکام کے علاؤہ کھانسی بھی آب و تاب سے رونق لگائے ہوئے تھی۔وہ بیچاری اتنی صبر والی بچی ہے کہ کبھی کسی تکلیف پر اسے نڈھال ہوتے نہیں دیکھا تھا مگر یہ تکلیف لگتا تھا ساری تکلیفوں کا مجموعہ ہے ۔ جسم میں شدید ناقابل برداشت درد ۔ڈاکٹر کے پاس جانے کا مشورہ دیتی تو تسلی دیتی کہ امی میں دوا لے رہی ہوں خود بھی تو ڈاکٹر ہوں ۔خیر ایسے ظالم وقت میں موقع کی مناسبت سے کئی لطیفے اور محاورے دماغ میں ناچنے کودنے لگے ۔جن کا لب لباب یہی تھا کہ اپنی صلاحیتوں سے مالا مال شخص خود کے لیے بے فائدہ ہے۔مومنہ کی حالت اتنی زیادہ بگڑ گئی کہ اس سے بولنا ہلنا کھانا پینا ناممکن ہوگیا۔میں اس کے شاید بازو دباتے ہوے پوچھ بیٹھی ،،مومنہ بیٹی کہاں درد ہورہا ہے ۔کہنے لگی امی سارے جسم میں ہی درد ہے ۔ اس کی کھانسی اور تیز بخار کرونا کا الارم بجا رہے تھے سو وہ رات گئے میاں کے ساتھ فیصل آباد چلی گئی کہ کرونا کا ٹیسٹ کرواؤں گی۔ چھٹی اسے مزید نہیں مل رہی تھی۔
اسے بیماری میں بھیج تو دیا مگر میں ٹینشن سے خود بیمار پڑ گئی بلکہ پچھلی بیماریوں نے بھی حملہ کردیا۔کمر میں شدید درد بس اضافی تھا ۔تین چار دن پیناڈول اور نزلہ زکام کے دیسی ٹوٹکے کرتے ہوئے گزرے مگر بخار تو تھرمامیٹر میں سو ایک سو ایک درجے تک کا ہی آتا رہا کمر درد کو ناپنے کا کوئی پیمانہ نہ تھا ۔ہلنا جلنا ناممکن ،ساتھ میں ذروہ کو بھی شدید بخار ، تیسرے چوتھے دن نزلہ۔نزلے کے بارے میں کہتے ہیں کہ ڈاکٹر کے پاس جائیں تو دو ہفتوں میں ٹھیک ہوتا ہے اور اگر ڈاکٹر کے پاس نہ جائیں تو پندرہ دن میں ۔یہ ہدایت پرے پھینکتے کلینک پہنچے ۔ خوب ٹھونک بجا کے ڈاکٹر نے چیک اپ کیا ادویات لکھیں اور نیکسٹ کی گھنٹی بجا دی۔
دوا شروع کی، بخار میںیہ فرق پڑا کہ پہلے سو ایک سو ایک تک رہتا تھا اب ایک سو دو ایک سو تین سے کم نہ ہورہا تھا ۔ کمر درد میں کمی تھی مگر خشک کھانسی زیادہ سے زیادہ ہوتی چلی گئی۔ہمارا ساتھ دینے کو سو بخار کے ساتھ داؤد بھی شہیدوں میں شامل ہوگیا ۔اب سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا خشک کھانسی اتنی تکلیف دہ اور اذیت ناک ہوسکتی ہے ۔ تین دن میں نے مدہوشی کی حالت میں گزارے اگر تکیے کے سہارے الٹا ہو کرلیٹی تھی تو سکون سیدھا ہوتی تو کھانسی حملہ کردیتی کھانس کھانس کر پسلیوں میں ناقابل برداشت درد اور کھانستے ہوئے سینے کو قابو کرنا پڑتا تھا ۔لگتا تھا پھیپھڑوں میں سوراخ ہونا شروع ہوگئے ہیں۔تین دن بولنے کی ہمت تھی نہ آنکھیں کھولنے کی۔ذہن میں اپنی امی سے لے کے ان سب کے ناموں کی لمبی فہرست تھی جن کا پھیپھڑوں کی بیماری سے انتقال ہوا تھا ۔ حالت یہ ہوگئی کہ وصیت کرنے کی کوشش کرتی مگر الفاظ کھانسی کے شور میں دب دبا جاتے۔
میاں صاحب کو قائل کرنا شروع کیا کہ ڈاکٹر کے پاس کے جائیں ۔مگر پروفیسروں کے اپنے خیالات اور نظریات ہوتے ہیں جن سے ان کو ہٹانا کوہ ہمالیہ کو جگہ سے ہٹانے کی مانند۔
دونوں بچے ابا کو جو اس وقت ابا کم اور پروفیسر زیادہ تھے قائل کرتے کہ امی کو ڈاکٹر کے پاس لے جائیں امی ٹھیک نہیں ہیں۔ابا کی دلیل سو دلیلوں پر بھاری تھی کہ ڈاکٹر نے مکمل چیک اپ کے بعد پانچ دن کی دوا دی ہے وہ تو مکمل ہوجائے۔
چوتھے دن جب میرے ناک اور منہ سے بھی گہرا خون احتجاجی مظاہرہ کرتے ہوئے باہر آیا توبچوں کے ابا حضور سے مؤدبانہ گزارش کی کہ اللہ آپ کا سایہ سر پر تا قیامت سلامت رکھے مگر حضور والا! اماں کا سایہ چھن گیا تو خون ناحق کس کی گردن پر ہوگا ،اور ساتھ میں ڈراوا بھی دیا کہ مظلوم کا خون بہت جلدی رنگ لاتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ دونوں ماں بیٹی سربراہ خانہ کے ہمراہ پھر کلینک پہنچے ۔ڈاکٹر نے آکسیجن ٹیسٹ ،سینے کے ایکسرے کے علاوہ بھی دو تین ٹیسٹ لکھ دیے۔ذروہ کو چونکہ خشک کھانسی نہیں تھی لہٰذا اسے سینے کے ایکسرے کی بجاے ٹیسٹوں کے ہی قابل سمجھا گیا۔لیبارٹری میں ٹیسٹوں کے لیے دونوں نے خون دیا۔پھر ڈیجیٹل ایکسرے کے لیے دوسرے لیب میں پہنچے جہاں سانس روکنا مشکلات میں سے بڑی مشکل ثابت ہوا۔بلکہ اب تک سب سے مشکل مرحلہ ہی وضو کے دوران ایک سیکنڈ کے لیے جب منہ دھوتی تو منہ بند ہونے سے پہلے سانس بند ہوجاتا ۔ ہر وضو میںیہ سانس کی بندش اگلے وضو تک یاد رہتی ۔کھانسی کا دورہ سانس کو اس قابل نہیں بنارہا تھا کہ چند لمحوں کے لیے اسے سینے میں قید رکھ کر ایکسرے لیے جائیں۔ خدا سے مدد مانگی،صدقہ ویسے ہی نکال کے آئی تھی۔ ایکسرے لیا تو رپورٹ گھنٹے کے بعد ملنے کی اطلاع تھی۔گھر سے نکلے بھی دو اڑھائی گھنٹے ہوچکے تھے ۔ بھوک اور نقاہت سے چکر آرہے تھے مگر کھانے کے نام پر شدید متلی ہوجاتی۔الٹیوں سے رہی سہی کسر بھی پوری ہوتی جارہی تھی۔صاحب نماز کے لیے مسجدگئے تو ہم ماں بیٹی گھومتے سروں کے ساتھ ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر خون پینے والی لیب سے باہر آئیں۔ دونوں کے ذہن میںیہ سوال ،کیا کھایا جائے؟
سامنے ڈیپارٹمنٹل اسٹور میں لیز پیپسی نمکو بسکٹ سب رد کرنے کے بعد دو قدم پر شاورما برگر بھی اشتہا میں خاص طلب بیدار نہ کرسکے۔ اس سے دو قدم پر شہر یار آئسکریم کارنر تھا، اندر داخل ہوئے میاں جی کو فون پر بتایا کہ ادھر ہی آجائیے۔اوپر والے فلور تک پہنچنا بھی بیماروں کے لیے کتنا مشکل ہوتا ہے یہ بھی پتہ چل گیا۔ویٹرکوملک شیک کے گلاس اور آئسکریم کا آرڈر دے کر ہم سانس بحال کرنے میں جت گئیں۔
اشتیاق صاحب بھی پہنچ چکے تھے ۔آئسکریم کھانے کے بعد کچھ ٹھنڈ سی پڑ گئی وگرنہ تو کھانے کے نام پر شاید دو دن سے فاقے کی سی کیفیت تھی۔
بل ادا کرنے کے بعد رپورٹس وصول کر کے پھر قبلہ ڈاکٹر صاحب کے کلینک پر پہنچے۔ذروہ کی آکسیجن اور ٹیسٹ الحمدللہ کلئیر تھے بس معمولی انفیکشن تھا جو اس نے اینٹی بائیوٹک لکھنے کے بعد درست ہونے کی پیشین گوئی کی۔ میرے ایکسرے اس نے روشنی والے سٹینڈ میں فکس کیے اور اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی۔ میری آنکھوں کے چراغوں میں ! اس کی آنکھوں کی چمک سے مجھے بیماری کی سمجھ بھی آگئی۔
آپ کی لنگز کی رپورٹ درست نہیں ہے یہ دیکھیں۔اس نے پھیپھڑوں کے نیچے والے پیچ پر انگلی رکھی۔
یہ وائٹ ہوچکا ہے اس کا مطلب ہے کہ آپ کا کرونا سمپٹمز ٹیسٹ پوزیٹو ہے ۔آپ کرونا کا ٹیسٹ بے شک نہ کروائیں۔ ایکدم مجھے یاد آیا مومنہ کی کرونا رپورٹ نیگیٹو ہے، مجھے بخار اس کی موجودگی میں شروع ہوا تو مجھے پوزیٹو کیسے ہوسکتا ہے ۔اور میں نے سوال داغ بھی دیا۔ڈاکٹر نے کہا۔
’’آپ کو کرونا نہیں ہے مگر علامتیں پوزیٹو ہیں اور یہ ضروری نہیں کہ ہر بندے کی کرونا کی علامتیں ایک جیسی ہوں۔ ہر ایک کا کرونا اس کی قوت مدافعت کے لحاظ سے ہوتا ہے۔ آپ بس یہ میڈیسن لیں کھانے پینے میں کھٹی چیز مت لیں اور دو باتوں کو ذہن نشین کرلیں۔ایک تو آپ نے دو ہفتے آئیسولیشن میں رہنا ہے اور دوسرا جونہی آپ کو سانس کی تکلیف ہو آپ فوری یہاں آجائیں اس میں بالکل کوتاہی نہ کریں۔ کھانسی جتنی بھی ہو اس کی ٹینشن نہ لیں۔ بس آئیسولیشن لازمی ہے ۔ادویات بھی بغیر ناغے کے لینا ہیں‘‘ ۔
گاڑی میں بیٹھتے ہوئے میں نے فاتحانہ نظروں سے میاں صاحب کو دیکھا۔یعنی میں نہ کہتی تھی کچھ ہے ۔اور دوسری وہ بار جس پر دل بلیوں اچھل رہا تھا۔
آئیسولیشن!!
آئیسولیشن کے نام پر میرے پاس چھ ماہ سے پڑھ پڑھ کے جو ذخیرہ تھا اس کا خلاصہ یہ تھا کہ بند کمرہ میں پورے پندرہ دن آپ اکیلے…..یعنی موجاں ای موجاں !دوسرا یہ کہ آپ ان پندرہ دنوں میں پورے بیڈ کیا پورے کمرے کے بلا شرکت غیرے مالک ہوں گے ۔واللہ اس کا تو ہم نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا ۔بالکل عطاء الحق قاسمی کے فرمان کی طرح کہ کنوارے ہونے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ بندہ بیڈ کی دونوں سائڈ سے اتر سکتا ہے ۔پھر تیسرے نمبر پر آپ کو بیٹھے بٹھائے کمرے میں تینوں وقت کا کھانا،پھل اور خشک میوہ جات یخنی سوپ پینے کو ملیں گے ۔کیا حسین دن ہوں گے !باورچی خانے نے جونک کی طرح مجھ سے لپٹ کر خون پینے کا حق ادا کیا۔ اب یعنی….. واقعی باورچی خانے میں قدم رکھے بغیر ہر چیز ملے گی۔ اس وقت تو یقین کریں کرونا زندہ باد کے نعروں کو بھی دل چاہ رہا تھا جو ہم نے نقصِ امن سے ڈرتے ہوے گلے میں ہی دفنا دیے۔ نمبر چار ان پندرہ دنوں میں کیا کریں گے ۔تزکیہ ،تصفیہ ،سے شروع ہوکے سب رشتہ داروں کو دوست احباب کو فون پر رابطہ ۔ اور لکھنا لکھانا ۔بتول میںمیمونہ حمزہ کے تنہائی والے مضمون کو ذہن میں تازہ کیا۔اور جب یہ سارا سوچ سوچ کے چہرہ گل و گلزار بن رہا تھا ایسے ہی دماغ میں ایک سوال کیڑے کی طرح کلبلانے لگا۔
یہ سب بند کمرے میںیعنی دشت تنہائی میں اے جان جہاں! تجھے کھانا پہنچائے گا کون؟
خیرہم نے اس منحوس خیال کو گولی ماری اور گاڑی سے اترتے ہی تیزی سے گھر کے اندر داخل ہوئے۔دوائیوں کا بھاری بھرکم تھیلا ہاتھ میں پکڑاا ور کمرے میں گھس گئے۔
داؤد کمرے میں آیا میں نے چیخ کر کہا ۔ ڈاکٹر نےآئیسولیشن بتایا ہے!
تو؟ وہ حیرت سے بولا ۔چار گھنٹے لگا کے آئی ہیں مجھے کھانا کون دے گا؟
کھانا؟ ہم ایک لمحہ کے لیے گڑبڑائے مگر فوری سنبھال کے بولے ۔ ابو سے پوچھو ۔
ابو بھی اندر داخل ہوئے ۔ہاں بھئی بھوک لگی ہے مجھے بھی۔کیا بناہے؟
مجھے ڈاکٹر نے آئیسولیشن کا کہا ہے،مجھے کیا پتہ ،میں نے فقرہ دہرایا۔
اچھا ایسے کرتے ہیںروٹی میں تندور سے لےآتا ہوں، ذروہ کو بھی بخار ہے ناں….سالن کا تم کچن میں جا کے بندوبست کر لو ۔وہاں کوئی نہیں جائے گا مکمل آئسولیشن ہوگی وہاں ۔میں ان دونوں کو منع کردیتا ہوں یہ نہیں جائیں گے وہاں ۔انہوں نے پروفیسرانہ حل پیش کیا اور روٹی لینے روانہ ہوئے ۔
خون کےاور صبر کے گھونٹ لیتے ہم نے سالن بنایا اور کمرے میں داخل ہوئے ۔ اتنے میںیہ بھی تندور سے روٹی لے آئے۔ ٹرے میں کھانا لے کے ذروہ کمرے میں آگئ۔
امی کھانا ۔اس نے اخبار بچھا کر کھانے کے برتن رکھے تو میں نے دلار سےکہا،تم برتن دروازے سے باہر رکھ دیا کرو میں خود ہی اٹھا لیا کروں گی۔
نہیں امی یہ سب کے برتن ہیں ،اس نے غبارے میں سوئی چبھوئی۔
کیوں؟ سب کے کیوں ؟تمہیں نہیں پتہ مجھے ڈاکٹر نے کیا بتایا ہے؟میں نے صدمہ سے کہا۔ افوہ مجھے بھی ایک سو ایک بخار ہے داؤد کو پورا سو ہے ۔کچھ نہیں ہوتا ۔بے نیازی سے کہتے ہوئے اس نے لقمہ توڑا۔
لقمہ بھی کیا توڑا ایک ادیبہ کے حساس دل کو توڑ دیا۔آہ تنہائی ! دروازے سے کھانے کی ٹرے اندر آنا……دروازے کے پیچھے سے پیغام رسانی……سارے خواب چکنا چور ہوئے۔
کھانے کے بعد میاں صاحب نے میٹرس بچھایااور لمبی جماہی لی۔
آپ سب کو کیا ہوگیا ہے؟ کیا پانچ ہزار روپیہ لگا کے بھی سمجھ نہیں آیا کہ مجھے الگ رہنا ہے ۔میری آواز غم اور غصہ سے پھٹ رہی تھی۔
افوہ۔ہم نے تو آپ کے بھلے کے لیے ہی سوچا تھا کہ رات کو کرونا کے مریضوں کی حالت زیادہ خراب ہوجاتی ہےایسے نہ ہو کہ بند کمرے میں شہادت کا رتبہ پائیں اور گھر والوں کو پتہ بھی نہ چلے ۔
آخر کرونا میں مرنے والے بھی تو شہید ہوتے ہیں۔یہ اس نے نہیں ہم نے اپنے آپ کو یاد دہانی کروائی تھی۔نیکی کا تو خیر اب کیا نام لینا۔وہ تو منہ میں کچھ بد بداتے اور میٹرس گھسیٹتے باہر نکل گئے۔رات میں طبیعت کافی خراب رہی الٹیاں بھی مسلسل آتی رہیں مگر میں چپ ہی رہی کہ کہیں’’حقِ آئیسولیشن‘‘ نہ مارا جائے ۔فجر کے وقت صاحب کمال مہربانی سے چائے کا کپ لےکے اندر داخل ہوئے ۔کچھ کہنے بتانے کے لیے منہ کھول کے بند کرلیا، کیا اب رٹو طوطے کی طرح ایک ہی فقرہ کہتی رہوں ۔بچوں نے مشترکہ اعلامیہ جاری کر دیا تھا کہ امی کو کرونا شرونا کچھ نہیں ہے اس لیے کوئی پرہیز نہیں ہوگا ۔ایک لمحہ کے لیے تنہائی کا خواب خواب ہی رہا ۔ایک دن چڑ کے دروازہ لاک کیا تو داؤد صاحب لان میں کھلنے والی کھڑکی سے اندر آ گئےاور فرمایا۔
پہلے سات دن خطرناک ہوتے ہیں وہ آپ کے ڈاکٹر کے پاس جانے سے دوسرے دن مکمل ہوگئے تھے اس لیے اب کوئی خطرہ نہیں۔
پھر ہم نے بھی دل کو سمجھا لیا آئیسولیشن ہی چاہیے ناں تو بس گھر میں ہی ہوگی ان پندرہ دنوں میں گھر سے نہیں نکلنا ۔یخنی اس لیے نہیں لے سکتے کہ نئی تحقیق کے مطابق یخنی کا فائدہ گرم پانی کے گلاس جتنا ہے۔ ڈرائی فروٹ اس لیے نہیں کھا سکتے کہ معدہ نازک مزاج ہو جاتا ہے منہ میں چھالے بن جاتے ہیں۔سو میں نے یہ پندرہ دن بغیر کسی قہوہ کے خواہ وہ سنا مکی ہی کیوں نہ ہو اور بغیریخنی سوپ ڈرائی فروٹس کے کھلم کھلا گھر میں دندناتے ہوئے گزارے ۔دنیا تو اک رونق میلے کا نام ہے اگر دنیا والے تنہا نہیں ہونے دیتے جمگھٹے میں دیکھنا چاہتے ہیں تو دعا کرو قبر میں بھی تنہائی نہ ملے ۔ وہ بھی رونق میلہ رہے رحمت اور کرم کی بارش کی پھوار سے مہکتا ۔دفع مارو آئیسولیشن کو، بس کرونا کے سکھائے سبق سیکھ لیے۔اور یہ کہ ہر کسی کو میمونہ حمزہ کی طرح دشتِ تنہائی میں ساڑھے تیرہ دن میسر ہو بھی نہیں سکتے!
کرونا اللہ کا بھید ہے۔ اگر ہونا ہے تو ہزار احتیاط کے ساتھ ہو کر رہے گا۔ نہیں ہونا پکھی واس یا جھگیوں میں رہنے والوں کو دیکھ لو ۔پھر یہ کہ کرونا نے مجھے اللہ کی اس نعمت کا احساس دلایا جو کبھی ذہن میں آ ہی نہ سکتی تھی کہ کھانسی میں بلغم آنا بھی بڑی نعمت ہے۔جب پھیپھڑوں کے زخم سے الٹا ہؤا جاتا تھا نہ سیدھا تو بس ہاتھ جوڑتی تھی کہ اک قطرہ بلغم ہی نمودار ہوجائے کھانسنے کی اس اذیت سے جان چھوٹے۔ پھر سمجھ میںیہ بھی آیا کہ وبا انسان کو بے بس ہی نہیں خوفزدہ کر دیتی ہے۔ کوئی اس کے پاس بیٹھنے والا دلجوئی کرنے والا نہیںہوتا۔اور یہ بھی کہ کرونا ہر کسی سے ایک سا سلوک نہیں کرتا نہ ہی اس کی علامتیں ایک جیسی ہوتی ہیںاورنہ ہی علاج۔مفت میں ایسے مشورے مت دیں جو کرونا سے بگڑ کر ملک الموت کا منہ دکھا دیں۔
ان سب عزیز ہستیوں کا تہہ دل سے شکریہ جنہوں نے سٹیٹس پر طبیعت کی خرابی کا پڑھنے کے بعد دعاؤں اور محبت بھرے پیغامات بھیجے۔ایسے پیغامات جینے کی طرف مائل کرتے ہیں۔رہی آئیسولیشن، دعا کیجیےیہ حسرت کبھی بھی پایہ تکمیل کو نہ پہنچے یہاں تک کہ قبرمیں بھی قرآن اور قرآن والے سے محبت چاروں اور ساتھی بن جائے آمین۔

٭ ٭ ٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x