ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

معروف مصنفہ غزالہ عزیز صاحبہ سے ملاقات – بتول دسمبر ۲۰۲۰

نام: غزالہ عزیز ،قلمی نام ام ایمان ، کالم نگار ، افسانہ نگار ، ناول نگار، بچوں کی کہانیاں حریم ادب کراچی کی جنرل سیکرٹری ،کراچی پریس کلب اور آرٹس کونسل کی ممبر ،افسانوں کے دو مجموعے،’’ صبح تمنا ، پھولوں کی ٹوکری ‘‘ ناول ، مسافتیں ،پہاڑوںکے بیٹے سیرت صحابہ پر ایک کتاب ( غلام جو سردار بنے ) زیر طبع بچوں کی کہانیاں ، کالم کا مجموعہ افسانوں کا مجموعہ ، سیرت صحابیات اہل بیت ۔

 

سوال: اپنے گزرے ہوئے اور موجودہ وقت کے بارے میں کچھ آگاہی دیجیے۔
غزالہ عزیز: میں ایک متوسط اور پڑھے لکھے دین دارگھرانے سے تعلق رکھتی ہوں ۔ پانچ بہن بھائیوں کی سب سے چھوٹی بہن جس کو بچپن سے پیار ملا اور خوب ملا ۔ میرے والد دینی جماعت کے سرکردہ رکن تھے ۔ مولانا مودودیؒ کے ابتداسے ساتھ رہے انڈیا ہی سے ان کے رسالے ترجمان القرآن کے خریدار تھے ۔ لکھنئو شہر کے بڑے تاجروں میں شمار ہوتے تھے ۔ تجارت کے سلسلے میں سفر کرتے رہتے تھے ۔ پاکستان بننے کے چند سال بعد پاکستان آئے تاکہ تجارت اور کاروبار کا جائزہ لیں اس بات کو دیکھیں کہ یہاں کاروبار اور رہائش کس شہر میں کی جائے ۔
جب وہ واپس انڈیا پہنچے تو ان کے ہندو کاروباری حریفوں نے مخبری کر کے ان کے خلاف پرچہ کٹوا دیا ۔ کوتوالی میں کسی دوست کے ذریعے ان کو اطلاع ملی کہ گرفتاری کا آرڈر آنے والا ہے لہٰذا تم دو دن کے اندر شہر چھوڑ دو ۔ والد صاحب نے چلتا ہؤا کاروبار اپنے چھوٹے بھائیوں کے حوالے کر کے بیوی سمیت پاکستان کی راہ لی ۔ اس زمانے میں چھوٹی عمروں میں شادیاں ہو جایا کرتی تھیں ۔ والد کی شادی سے تقریباً دس سال پہلے ان کے والد یعنی ہمارے دادا کا اچانک انتقال ہو چکا تھا ۔ سب سے چھوٹے بھائی کی عمر اس وقت چند ماہ تھی ۔ والد صاحب نے نہ صرف بخوبی کاروبار سنبھالا بلکہ گھر اور بہن بھائیوں کی بھی دیکھ بھال کی ۔ دادی اماں انتہائی گھریلو اورسادہ خاتون تھیں محنت کر کے کاروبار سنبھال لیا تھا لیکن پاکستان آنے کے لیے سب کچھ چھوڑ دیا ۔
والد صاحب بتاتے تھے کہ اپنے والد کے انتقال کے بعد میں نے معمول بنا لیا تھا کہ ظہر کی نماز کے بعد دوپہر کا کھانا لکھنئو کے یتیم خانے میں یتیم بچوں کے ساتھ بیٹھ کر کھاتے۔ جہاں کھانے کا انتظام والد صاحب کی طرف سے ہوتا تھا اور کھانے کے بعد ہر بچہ کو ان کی طرف سے ایک پیسہ دیا جاتا ۔ یاد رہے کہ اس زمانے میں ایک پیسے کی اچھی خاصی قدر ہوتی تھی۔
بہر حال والد صاحب لکھنؤ سے جلدی میں کچھ رقم جودو ہزار سے کم ہی تھی لے کر نکلے کھو کھرا پار کی سرحد سے پاکستان میں داخل ہوئے وہ راستہ صحرائی تھا اور کوئی سواری نہ تھی ۔ پیدل کئی میل کا سفر کیا میرے والد اور والدہ دونوں کے پائوں میں آبلے پڑ گئے آخر کار جب کوئی سواری ملی توکراچی پہنچے اور یہاں رہائش اختیار کی۔
ساتھ لائے سرمایے سے دو دو کانیں خریدیں اور کاروبار شروع کیا رفتہ رفتہ حالات بہتر ہوتے گئے بڑی بہن مشعل پروین کے علاوہ کراچی میں ہی سب بہن بھائی پیدا ہوئے ۔ تعلیم حاصل کی شادیاں ہوئیں ۔ بڑی بہن مشعل پروین کی شادی معروف مصنف خرم مراد کے چھوٹے بھائی اسامہ مراد سے ہوئی ۔ باقی بہن بھائیوں کی شادیاں بھی دینی مزاج کے گھرانوںمیں ہوئیںمیرے شوہر عبد العزیز صاحب دینی گھرانے سے تعلق نہیں رکھتے تھے لیکن نہایت شریف اور عقل مند انسان تھے اللہ انہیں جنت نصیب فرمائے آج سے تقریباً پندرہ سال قبل 2005ء میں ان کا اچانک انتقال ہو گیا۔
میرے چھ بچوں میں سے ایک کے سوا سب اسکول میں تھے ۔ اب ماشاء اللہ صورت حال بدل چکی ہے ۔ یہ میرا گزرا ہؤا کل اور آج ہے … مستقبل کے بارے میں کون کچھ کہہ سکتا ہے … البتہ خواہشیں ہوتی ہیںاور میری خواہش بس دو ہیں کہ جب میں اللہ میاں کے پاس جائوں تو وہ مجھ سے راضی ہو اور دوسری میرے بچے میرے لیے بہترین صدقہ جاریہ بنیں ۔ اسی خواہش کے پیش نظر میں نے اپنے بچوں کو ہمیشہ حلال کھلانے کی کوششیں کی ہے۔
اس معاملے میں میرے شوہر بہت زیادہ حساس اور سمجھدار تھے۔سعودی ائیر لائن کے غیرعرب ملازمین میں پورے پاکستان میں ٹاپ پوزیشن پرتھے ۔ ایک ایک دن میں کروڑوں روپے کی ٹرانزیکشن کا معاملہ درپیش رہتا تھالیکن امانت داری پر کوئی انگلی نہیں اٹھا سکتا تھا ۔ اپنے کام کے سلسلے میں انہیں سعودی ائیر لائن کی طرف سے ڈھیروں ایوارڈ اور سر ٹیفکیٹ دیے گئے تھے۔
سوال:لکھنے کا رحجان کیسے پیدا ہؤا ؟
غزالہ عزیز: ہمارے ہاں بچوں کے رسالے آتے تھے ۔ جب پڑھنا نہیں آتا تھا تو بہن بھائیوں سے کہانیاں سننے کا بہت شوق تھا جب پڑھنا آگیا تو کہانیاں پڑھنا دن رات کا مشغلہ بن گیا ۔ آٹھویںجماعت میں بچوں کے رسالے ’’ نور ‘‘ میں پہلی تحریر شائع ہوئی ۔ پھر چھوٹی چھوٹی تحریریں لکھنا شروع کیں ۔ بڑوں کے لیے لکھنا خاصی دیر سے شروع کیا ، اس کی ایک وجہ شاید یہ بھی تھی کہ اسکول کی تعلیم مکمل کر کے کالج میں داخلہ لیا تو والدہ کا انتقال ہو گیا تھا ۔ یہ ایک بہت بڑا غم تھا میرے لیے۔اور ایک مشکل وقت تھا ۔
میرے خیال میں اگر گھر میں بچوں کے لیے اور بڑوں کے لیے رسالے مستقل لگوائے جائیں تو لکھنے کے شوق کے ساتھ ساتھ سمجھداری اور شعور میں بہت اضافہ ہوتا ہے ۔ آجکل سو روپے کا برگر بچوں کے لیے آسانی سے خرید لیا جاتا ہے لیکن سو روپے کا رسالہ نہیں خریدا جاتا جبکہ وہ ایک ماہ میںایک دفعہ خریدنا ہوتا ہے۔
سوال : آپ نے افسانہ نگاری کے علاوہ اور کون سی صنف میں طبع آزمائی کی ؟
غزالہ عزیز: سب سے پہلے تو کہانیاں لکھیں بچوں کے لیے جن میں تاریخی کہانیاں بھی شامل ہیں پھر بڑوں کے لیے افسانے لکھے ۔ ناولٹ بھی کئی لکھے اس کے علاوہ ایک ناول قسط وار لکھا جو بعد میں کتاب کی شکل میں ’’ مسافتیں ‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا ۔ صحابیات ؓ اور صحابہؓ کی زندگیوں پر بھی مضامین لکھے خاص طور سے غلام صحابہؓ پر ایک سیریز لکھی جو بعد میں کتاب کی صورت میں ’’ غلام بنے سردار‘‘ کے عنوان سے شائع ہوئی کالم لکھنا بھی میرا شوق ہے میرے کالم ایکسپریس ، نوائے وقت اور جسارت میں مستقل شائع ہوتے رہتے ہیں ۔ منتخب کالم کی کتاب ابھی زیر طبع ہے ۔
سوال: بحیثیت افسانہ نگار اور بحیثیت کالم نگار آپ دنیا کو کس نگاہ سے دیکھتی ہیں؟
غزالہ عزیز: افسانہ نگار اور کالم نگار دونوں انتہائی حساس دل کے مالک ہوتے ہیں لہٰذا ان کی نگاہ ہر معاملے میں انتہائی باریک بین ہوتی ہے ۔ وہ مسائل اور ان سے پیدا ہونے والے واقعات اور ان کے نتائج سب ہی پر گہری نظر رکھتے ہیں ۔ تصور کی آنکھ سے نتائج کے بارے میں پہلے ہی سے آگاہی رکھتے ہیں ۔ ایسے شخص کو اللہ نے بصیرت کی نگاہ بھی عطا کی ہوتی ہے ۔ لہٰذا اس کا قلم معاشرے کے دھندلے آئینے کو صاف کرنے کا کام کرتا ہے وہ بے لوث اخلاص اور درد دل کے ساتھ مسائل کی آگاہی ہی نہیں ان کا حل بھی لوگوں کے سامنے رکھتا ہے اور اتنے خوبصورت انداز سے رکھتا ہے کہ لوگ اسے نصیحت سمجھ کر بیزار نہیں ہوتے بلکہ مسائل کے حل کے بارے میں آگاہ ہوتے ہیں ۔ اپنے لیے بہتر عمل کی راہ چنتے ہیں راستے کی رکاوٹوں سے نمٹنے کے لیے بہتر اوردرست طریقہ اختیار کرنے کے لیے راہ نمائی لیتے ہیں کالم نگار کا حالات حاضرہ سیاسی معاملات اور بین الاقوامی صورت حال کے بارے میں گہری آگاہی رکھنا ضروری ہے اس کے مقابلے میں ایک افسانہ نگار کے لیے معاشرے کی صورت حال گھریلو سیاست انسانی نفسیات اور رشتوں کی باریکی کا جاننا ضروری ہے حقیقت تو یہ ہے نگاہ کا گہرا ہونا ضروری ہے اور سب سے گہری نظر اپنے آپ پر رکھنی چاہیے کہ آپ نے اپنے آپ کو پہچان لیا تو بڑا کام کیا ۔

آئینے میں اپنی صورت دیکھ کر
خود کو پہچانے تو پہچانے بہت

سوال: جب آپ کہانی کو الفاظ کا جامہ پہناتی ہیں تو کیا آغاز سے انجام تک ساری کہانی آپ کے ذہن میں واضح ہوتی ہے ؟ یا کہانی خود ہی آگے بڑھتی چلی جاتی ہے یا اختتام تک پہنچ کر کوئی دوسرا رخ اختیار کرلیتی ہے ؟
غزالہ عزیز: کہانی لکھنے سے پہلے ذہن میں اس کا پلاٹ تیار کرتی ہوں کئی دنوں بعض دفعہ کئی ہفتوں تک کہانی کوذہن میں پکانا پڑتا ہے ۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کہانی کا تانا بانا ذہن میں تشکیل پاتا ہے کبھی کردار اورمنظر بھی سوچ لیے جاتے ہیں۔ لکھتے ہوئے انجام کبھی ذہن میں ہوتا ہے اور کبھی نہیں لیکن وہ پیغام ذہن میں بالکل واضح ہوتا ہے جو میں اپنی کہانی کے ذریعے دینا چاہتی ہوں۔
سوال: کسی معاشرے میں قلم کار کا حقیقی منصب کیا ہے ؟ کیا وہ معاشرے کے بنائو اور بگاڑ میں کوئی کردارادا کرتا ہے ؟
غزالہ عزیز: قلم کار کا حقیقی منصب تو یہ ہے کہ وہ معاشرے کے بگاڑ کو اپنی تحریروں کے ذریعے سنوارنے کی کوشش کرے اس طرح کہ اس کی تحریر کی دلکشی اور خوبصورتی قاری کو پوری طرح اپنی گرفت میں لے لے اور پھر قلم کار اپنی کہانی کے کسی مقام پر قاری کو اایسا ذہنی جھٹکا دے کہ قاری کے اندر معاشرے کو درست کرنے کی تحریک پوری امنگ اور ارادے کے ساتھ اٹھ کھڑی ہو۔
تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ دنیا میں ہر انقلاب کی بنیاد میں کہیں کوئی قلم کار اور ادیب ضرورموجود تھا۔افسانے اور کہانیاں اگر نوجوانوں کے ذہن میں کسی آئیڈیل کی تحریک پیدا کریں اور وہ اس کی کھوج میں کہیں دو ر نکل جائیں اپنی زندگی کے خطر ناک فیصلے کرنے لگیں جس سے والدین اور خاندان کو صدمہ ہو … اس کے بجائے کیا یہ بہترنہیں ہے کہ ان کے ذہن میں تبدیلی کی لگن اور عمل کے میدانوں کی وسعت کا احساس پیدا کیا جائے۔
سوال: پاکستانی عورت کی طاقت کس چیز میں ہے ؟
غزالہ عزیز :پاکستانی عورت بہت مضبوط ہے ۔ وہ بیک وقت کئی محاذوں پر پوری محنت اوردیانتداری کے ساتھ مصروف عمل ہے اور کامیاب ہے ۔ پاکستانی عورت کی اصل طاقت اس کے خاندانی نظام میں ہے ۔ خاندانی نظام میں رشتوں کو آپس میں محبت خدمت اور قربانی کے ذریعے جوڑا جاتا ہے۔ مضبوطی اس طرح آتی ہے ۔ مرد اور عورت خاندان کے ستون ہیں آج معاشرے میں مرد کہیں ظالم ہے کہیں مظلوم بھی ہے ۔ یہ ہی عورت کا بھی حال ہے ۔ لیکن عورت ایک ماں کی صورت میں بے حد مضبوط کردار ادا کرتی ہے کل کا ظالم مرد آج کے بچے کی صورت میں اس کی گود میں ہوتا ہے لہٰذا ماں کی تربیت اور دعائیں بچوں کے لیے نہایت اہم ہیں جو انہیں کامیاب بناتی ہیں۔
سوال: اپنی زندگی کا نا قابل فراموش واقعہ سنائیے؟
غزالہ عزیز: میرے خیال میں لڑکیوں کی زندگی میں اہم ترین ناقابل فراموش واقعہ شادی ہوتا ہے ۔ میری زندگی میں بھی تھا ۔ جیسے پودا گملے سے نکال کر زمین میں لگانا ہوتا ہے ۔ میرے لیے کچھ یوں بھی مشکل تھا کہ مٹی اور ماحول موافق نہ تھا ۔ شکر ہے خدا کا کہ جس نے بہترین ماحول بنا دیا ۔ ذہنی ہم آہنگی عطا کی ۔ میری ساس مجھے بیٹیوں سے زیادہ چاہتی تھیں اللہ ان کی قبر کو نور سے بھر دے۔
پھر ساری لڑکیوں کی طرح میری بھی زندگی کے اہم واقعات شوہر سے ہی جڑے رہے ۔ ان کے ساتھ نگرنگر کی سیر کی اور پھر آخری سفر کے اختتام پر ڈاکٹر نے ان کی بیماری کی اطلاع دی۔ یہ ایسی روح فرسابات تھی کہ آج بھی دل لرزجاتا ہے ۔لیکن بات وہ ہی ہے کہ ہر ایک کا ایک وقت مقرر ہوتا ہے جس پر جانے والے کو جانا ہی ہوتا ہے ۔لہٰذا میرے عزیز از جاں شوہر چلے گئے لیکن سچ یہ ہے کہ

تمہارے حسن سے رہتی ہے ہمکنار نظر
تمہاری یاد سے دل ہم کلام رہتا ہے
اور
الفاظ و صوت و رنگ و تصور کے روپ میں
زندہ ہیں لوگ آج بھی مرنے کے باوجود

سوال: آپ آج کی لڑکیوں کو کوئی پیغام دینا چاہیں گی ؟
غزالہ عزیز : آج کی نوجوان نسل بہت سمجھدار ہے دل میں امنگ بھی ہے او رکچھ کر گزرنے کی خواہش بھی لیکن حالات اور دور فتنے والا ہے منزل سے بھٹکانے والے دیدہ در بھی ہیں اور دیدہ زیب بھی کہ
تلاش منزل کے مرحلوں میں یہ حادثہ اک عجیب دیکھا
فریب راہوں میں بیٹھ جاتا ہے صورت اعتبار بن کر
لہٰذا اپنی نوجوان نسل سے مجھے یہ کہنا ہے کہ جیسا کہ ایک مشہور قول ہے :
اپنے خیالات کی نگرانی کرو …کیونکہ وہ الفاظ بنتے ہیں
اپنے الفاظ کی نگرانی کرو …کیونکہ وہ عمل بنتے ہیں
اپنے عمل کی نگرانی کرو… کیونکہ وہ عادت بنتی ہے
اپنی عادات کی نگرانی کرو… کیونکہ اس سے کردار بنتا ہے
اپنے کردار کی نگرانی کرو… کیونکہ اس سے انجام بنتا ہے
سوال : آپ اپنے آپ کو آج کس مقام پر کھڑا دیکھتی ہیں ؟
غزالہ عزیز: مجھے اپنی کمزوری کا اعتراف ہے۔ مٹی کا ذرہ ہوں خطا کار ہوں مجھے اپنی بے خبری بے عملی کا بھی اعتراف ہے کہ :

تیری عظمتوں سے ہوں بے خبر
یہ میری نظر کا قصور ہے
تیری رہ گزر میں قدم قدم
کہیں عرش ہے کہیں طور ہے
یہ بجا ہے مالک بندگی
میری بندگی میں قصور ہے
یہ خطا ہے میری خطا مگر
تیرا نام بھی تو غفور ہے

٭…٭…٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x