ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ٹانگے والا خیر منگد – بتول مارچ ۲۰۲۲

رشیدہ نے باورچی خانے کے ساتھ بنی پڑچھتی پر تام چینی کے برتن ٹکائے ۔ صحن میں جلدی جلدی جھاڑو دی باقی دیگچیاں دھونے کا ارادہ چھوڑ دیا ۔ کمر سیدھی کر کے دل ہی دل میںکہا باقی برتن اماںہاجرہ پھوپھی کے گھر سے آکر خود ھو لے گی ۔رشیدہ نے باہر نکلنے سے پہلے صحن اور باورچی خانے کی طرف ایک تنقیدی نظر ڈالی۔’’ کام سارا نبیڑ تو لیا ہے‘‘۔
اماںنے کہا تھا خبر دار کام ختم کیے بغیر گھر سے باہر قدم نکالا۔
نوسالہ رشیدہ کا دل تو مامی صغراںکے ہاں ہی اٹکا رہتا تھا ۔ نیا نیا ٹیلی ویژن آیا تھا ۔ ماما پچھلے ماہ پورے ایک ماہ رہ کر واپس سعودیہ گیا تھا ، چلتی پھرتی تصویریں دیکھتے رشیدہ گم ہو جاتی ۔ جیسے اس کی روح اسکرین میںاتر گئی ہو اور جسم سامنے سن بیٹھااُسے تکے جا رہا ہے۔
اسکرین پر وہ گانا سنا جو مسافروں کو ادھر سے اُدھر لے جاتے ہوئے اس نے پہلی دفعہ ملنگا ٹانگے والے کو گاتے سنا تھا ۔ اسکرین پر سنا تو رشیدہ کی زبان پر چڑھ گیا ۔ مسعود رانا نے جیسے یہ گانا سارے ٹانگے والوںکے لیے ہی گایا تھا ۔ ٹانگہ چلاتے ہوئے ٹانگے والے گاتے تو دیہات کی کچی پکی سڑکوں پر فضائوں میںرس سا گھل جاتا ۔رشیدہ بھی گھر کے کاموںکے دوران اُسے دہراتی ۔ ابا تو مسکراتا لیکن اماںپائوںسے جوتی اتار لیتی۔
ٹانگے والا خیر منگدا… ٹانگہ لہور دا ہووے تے بھاویں جھنگ دا
ٹانگے والا خیر منگداآآآ
اماں کی جوتی سے ڈر کر رشیدہ کی آواز گھٹ جاتی لیکن زیر لب وہ پھر بھی مزے سے دوہراتی مسکراتی لطف لیتی ۔چند سال اور گزرے تو جب ڈرامے دیکھتی تو ایک ہیرو کا تصور اس کے ذہن میں ہیولا سا بنانے لگا تھا شکل میں وہ کبھی کسی ہیرو سے ملتا کبھی کسی سے لیکن وہ جو بھی ہوتا اسے ٹانگے کی سیر ضرور کراتا اور ساتھ یہ گانا گاتادوسری دفعہ مصرعے دہراتے ہوئے وہ خود بھی اس کی آواز سے آواز ملاتی ۔ خیالوںمیں اس کے ساتھ سبز کھیتوں کے درمیان کچی سڑک پر آنچل اڑاتی چلی چلی جاتی …جیسے جیسے بڑی ہوتی گئی اکلوتی ہونے کے باوجود اماںکی سختیاںبڑی تھیں ذرا جو گالوں پر لالی لگانے دیں ۔ بالوں میںبھر کے تیل ڈالتی اور کس کے چھوٹی باندھتی۔ بال کاٹنے کا رشیدہ کو بڑاشوق تھا۔ آمنہ آجاتی اس کی سہیلی تو سب سے پہلے وہ اسے آئینے کے سامنے کھڑا کر کے قینچی ہاتھ میںلیتی۔ مینوکی اماںکی طرف سے توکوئی سختی نہیں تھی ۔ رشیدہ اس کے بالوں کے ساتھ اپنے شوق نکالتی ۔ الٹے سیدھے کاٹتی بالوں کو چمکیلے پن سے سجا دیتی وہ خوش ہو جاتی۔
نی شیدی تو مینوکے بالوںکا ستیا ناس کر دیتی ہے ۔
اماں جو کافی دیر سے کان آنکھ سے اس کے انداز دیکھ رہی ہوتیں کہتیں اماں اتنا اچھا لگ رہا ہے ۔مینو کی اماں تو کچھ نہیں کہتی ۔مجھے بھی اپنے بال کاٹنے دے نا… رشیدہ ٹھنک کر کہتی لیکن بھلا اماںکہاں ماننے والی۔
وہ قہر بھری نگاہوں سے اسے گھورتی… اور رشیدہ چپ کی چپ رہ جاتی… پھر سارے شوق خیالوںہی خیالوںمیں پورے کرتی اُسے سب سے زیادہ مزہ ہی اپنے ہیرو کے ساتھ ٹانگے پر بیٹھ کر گھومنے میں آتا خاص طور سے اُس وقت جب وہ اس کے ساتھ مل کرگاتی’’ ٹانگے والا خیر منگداآ آآ۔
کچھ سال گزرے تو وہ ایک دم سے لمبی ہوئی اباماں کو سب کاموں میںضروری اب یہ لگنے لگا تھا کہ کوئی اچھا سا رشتہ رشیدہ کے لیے ڈھونڈ لیں ۔ اماں کے نزدیک اچھے رشتے کا معیار کیا تھا ۔ اُسے وہ جانتی تھیں یا اللہ … کوئی نظر میں جچتاہی نہ تھا ۔خیراں ماسی نے آگے پیچھے کئی رشتے دکھائے جان پہچان کے تھے۔ ایک تو دو محلے چھوڑ کر چا چا کرمو کا بیٹا تھا۔سگا چچا نہ تھا دور پار کا رشتے کا تھا ، خاندان کا تو تھا لیکن اماں نے سب سے پہلے اس کے رنگ پر اعتراض کیا پھر اس کا قد جو باقی بھائیوںسے چھوٹا رہ گیا تھا۔
اماں کا منہ بنا دیکھ کر کچھ دن بعد خیراں ماسی اگلے گائوںکے ایک جان پہچان والا گھر کا رشتہ لائی لڑکا درزی تھا اور یہ بھی بات اماں کو پسند نہیںآئی تھی … درزی اور وہ بھی لڑکیوں والا درزی…
نہیں بھئی وہ لڑکیوں کادرزی ہے کبھی اگر کوئی عورتوںکے کپڑے سلانے لاتا ہے تو منع نہیںکرتا ۔
بس یہ بات ہے کون روز گار کو منع کرتا ہے۔ماسی خیراںنے سمجھایا۔
نہ بھئی اُس کے پاس تو عورتیںبھی آتی ہوں گی ۔ لو جی یہ رشتہ بھی گیا ۔ اس کے بعد بھی کئی رشتے لے کر خیراںماسی آئی اماں کو سمجھایا … لیکن اماںکی وہ ہی اچھا سارشتہ لانے کی رٹ ختم نہیںہوئی ۔ اماں اچھا رشتہ کیساہو؟ یہ سوال اور اس کا جواب کوئی صاف نہیںبتاتا تھا یہاںتک کہ خود اماںکو بھی اس بارے میں یقینی طور پر کوئی علم نہ تھا ۔
البتہ رحیمے بابا کا بیٹا چار سال بعد ولایت سے آیا اور رحیمے کو اس کی شادی کی فکر اماںکے پاس لے آئی تو رشیدہ کے لیے انہیںوہ خوب جچا اور رشیدہ کا بیاہ قادر سے کردیا ۔حالانکہ قادر نے پہلے ہی یہ بات بتا دی تھی کہ وہ ایک ماہ بعد واپس چلا جائے گا اور پھر اپنی سہولت سے رشیدہ کو اپنے پاس بلا لے گا ۔
قادر کو اپنی سہولت سے رشیدہ کو بلانے میں دو سال لگے ۔دوسری رخصتی پر اماںکے آنسو نہ رکتے تھے لیکن چہرے پر مسکراہٹ تھی رشیدہ نے صحن کی دیوار میںلگے دھندلے آئینے میںدیکھا وقت کی ساری دھول کے باوجود رخصتی کا منظر صاف تھا ۔ ابا نے سر پر ہاتھ رکھا اماں نے گلے لگا کرپیار کیا ۔ آنکھوںکے بہتے آنسو دوپٹے سے صاف کرتے ہوئے دعا دی ’’ اللہ خوش رکھے شادو آباد رکھے‘‘۔
رشیدہ اپنی چادر سنبھالتے ہوئے قادر کے ساتھ رینٹ اے کار کی سفید بڑی سی گاڑی میں بیٹھ گئی …اور پھر قادر کے ساتھ ولایت چلی گئی تو جیسے واپسی کا راستہ ہی بھول گئی ۔
آج کتنے برسوں بعد واپس آئی تھی یہ تو اُسے بھی یاد نہ تھا وہ تو اماں ،ابا کے انتقال پر بھی نہیںآ سکی تھی ۔ قادر سے رو رو کر گائوںبھیجنے کی التجائیں کرتی رہ گئی۔
تجھے پتہ ہے گائوں جانے کا خرچہ کتنا ہے ؟ کہاں سے آئے گا ؟ قادر یہ ہی کہتا۔
یہ چھوٹا سا فلیٹ جو ہم نے لیا ہے ابھی اس کا ایک کونہ بھی اپنا نہیں ہؤا… نہ بھئی ہم اس کوبیچ بھی نہیں سکتے۔
قادر نے رشیدہ کے ذہن میںپیدا ہونے والے خیال کو روندا۔
کوئی حل ہے ہی نہیں چلو اب سو جائو صبح صبح کام کے لیے نکلنا ہے قادر نے رشیدہ کو تھپکا۔
قادر نے رشیدہ سے شادی سے قبل ہی اس بارے میں سوچ کر رکھا تھا کہ رشیدہ کو کہاں کام پر لگانا ہے ۔
کچھ دن تو اسے ولایت کے طور طریقے سکھانے میںلگے پھر قریب ہی پیکنگ کا کام مل گیا ۔ قادر لیکن مطمئن نہ تھا ۔ خیر ابھی ذرا مانوس ہو جائے یہاں کے ماحول سے تو پھر بہتر جگہ لگائوںگا ۔ اس نے اپنے دل کو سمجھایا۔
زندگی کا دائرہ ایک مشینی انداز میں گھومنے لگا صبح اٹھ کر رشیدہ گھر صاف کرتی ناشتہ بناتی اور پھر اپنے کام پر چلی جاتی۔
مثل مشہور ہے کہ انسان تین دن کے بعد ہر چیز کا عادی ہونے لگتا ہے بات درست ہے ۔ رشیدہ کو شروع میں بہت عجیب لگا۔ ا شا ر و ں میںباتیں کہ کوئی بات نہیں کر سکتی تھی پھر پتہ چلا کہ کوئی نہ کوئی اردو سمجھنے والا مل ہی جاتا ہے ۔
علاقہ بھی ایسٹ لندن کا تھا۔ انفرڈ میں پاکستانیوں کی اکثریت تھی۔ اس کو جلد چند سہیلیاںمل گئیں جنہوں نے اس کی بہت سارے معاملات میںقادر سے بہتر انداز میں راہنمائی کی۔
صبح اٹھنے کی عادت اس کو تھی لہٰذا صبح اٹھ کر کام کرنا اسے مشکل نہ لگا سب سے پہلے ناشتہ بناتی گھر صاف کر کے وہ کام کے لیے نکل جاتی۔
قادر رات کو کب واپس آتا اس کو پتہ بھی نہیں چلتا۔
وہ کرتا کیا ہے اسے تو یہ بھی یہاںآکر پتہ چلا گائوں میں تو وہ باہر ہے اسے ہی کافی سمجھا گیا تھا خود اماں بھی اس بات پر مطمئن ہو گئی تھی۔
ابا نے ایک دو بار پوچھا لیکن نہ اماں نے اس بات کو اہمیت دی نہ قادر نے ہی کوئی بات صاف بتائی۔ اس کا کہنا تھا، اپنا کاروبار ہے ۔
رشیدہ کویہاں آکر پتہ چلا کہ قادر ٹیکسی چلاتا ہے ۔ اس نے سوچا کہ چلو ٹیکسی ٹانگے سے زیادہ اچھی ہے اب قادر سے کہہ کر ہفتے میں ایک دفعہ تو اس کے ساتھ پگ ڈنڈی پر نہ سہی سڑکوں سڑکوں گھومے گی مگر یہ خواہش پوری ہونے میںعرصہ لگا ۔ انداز بھی کچھ فرق تھا ۔
قادر نے اس کے ساتھ لندن کی ڈبل ڈیکر بس میں ایک چھٹی کے دن سفر کیا۔ انتخاب بھی ایک ایسی بس کا کیا جس کے اوپر کے حصے پر چھت نہیں تھی۔ وہاں بیٹھ کر لندن کو دیکھنا بڑے مزے کا کام تھا۔
رشیدہ نے خوب لطف لیا ۔ وہ لوگ ٹیوب ( انڈر گرائونڈ ریل) سے لیکسٹرگئے وہاںسے بس کا ٹکٹ لیا ۔ در اصل اس اسٹاپ سے بس تقریباً پورے لندن سے گزرتی تھی۔ ٹاور آف لندن لندن آئی دریائے ٹیمز پر بنے مشہور پل کو دیکھا اورپھر برمنگھم پیلس کے پاس بس سے اتر گئے ۔
ساتھ لایا ہؤا برگر اور چپس کھائے اور ٹہلتے ہوئے واپسی کے لیے ٹیوب میںبیٹھ گئے۔
یہ پہلی اورواحد تفریح تھی ۔ پھر بھی رشیدہ دل میں مطمئن تھی ۔ ہاں بھئی کہاں گائوں اور کہاں لندن … البتہ یہ بات تھی کہ بس کام کام اور بس کام۔ رشیدہ ایک کولہو کے بیل کی طرح ایک نئے ملک نئے شہر کی نئی جگہ جُتی تھی ۔ باتوں کو سمجھنے میں اسے کچھ وقت لگا تھا ۔ ایک تو ان پڑھ تھی۔ اوپر سے گائوںکی سیدھی سادھی لڑکی… قادر کی بات پر یقین کرتی کچھ سوال جواب کرنے کی ہمت بھی ایک عرصے کے بعد آئی ۔ لیکن کیا سوال کیا جواب اسے نظر آ ہی رہا تھا کہ یہاں ہر شخص انتہائی جلدی میں ہے۔ پیسہ کمانا ہر ایک کا مشترکہ مقصد …یہ سب بھی ٹھیک تھا لیکن یہ پیسہ جوقادر اور وہ کمارہے تھے وہ آخر جا کہاںرہا تھا۔
رشیدہ جیسے ہی یہ سوال اٹھاتی … قادر اس کو گھر گاڑی سمیت بہت چیزوں کی قسطیں گنوا دیتا جو دیتے دیتے بقول اس کے جیب خالی ہو جاتی۔
چند سالوں میں رشیدہ کی چند ہندوستانی اور پاکستانی عورتوں سے گہری دوستی ہو گئی ۔ اب وہ قادر کی منتیں کرنے کی بجائے خود ہی ان سہیلیوں کے ساتھ گھومنے کا پروگرام بنا لیتی۔پیکاڈلی تو ان کا پسندیدہ مقام تھا جہاں بیٹھ کر وہ لوگ کھاتی پیتی باتیں کرتیں ایک دوسرے کے بارے جانتیں بلکہ دنیا کو بھی ایک دوسرے کے ذریعے سے جاننے کی کوشش کرتیں۔ سب پیچھے اپنے خاندان اور میکے کو یاد کرتیں ۔ وہاں کی کہانیاں سناتیں ۔ ہر ایک کی ایک الگ داستان تھی۔
سنیتا جین مذہب سے تھی ۔پریتی ہندو تھی جس کا شوہر ڈاکٹر تھا لیکن اب اس نے ڈاکٹر کی پریکٹس چھوڑ دی تھی کوئی قانونی سقم نکل آیا تھا اس کی ڈگری میں لہٰذا اب وہ بھی ٹیکسی چلاتا تھا ۔ پریتی نے ایک دن رشیدہ کو علیحدہ سے پیکاڈلی بلایا اور اس راز سے پردہ اٹھایا کہ قادر نے دوسری شادی پہلے سے ہی کی ہوئی تھی اور اس سے اس کے بچے بھی ہیں۔ قادر کا پورے دن میں اتنا لمباعرصہ گھر سے باہر رہنے کی وجہ یہ ہی ہے۔
رشیدہ حیران سی ہو کر پریتی کی شکل دیکھتی رہ گئی۔
اس طرح کیا دیکھ رہی ہو ؟ غلط نہیں کہہ رہی میرے میاں نے بتایا ہے ۔ وہ تو اس کی بیوی کا گھر بھی جانتا ہے ۔
رشیدہ کے دل کے اندر کیا کچھ ٹوٹا تھا ۔ یہ تو وہ خود بھی سمجھ نہیں پا رہی تھی ۔ ایک سکتے کی سی کیفیت میں وہ پیکاڈلی کی سیڑھیوں پر بیٹھی لوگوں کو آتا جاتا دیکھتی رہی ۔ پریتی کچھ دیر اس کے پاس بیٹھ کر اس کو ڈھارس دلاتی رہی پھر اسے بھی اپنی شام کی جاب پر جانا تھا سو چلی گئی۔
ہوا اتنی سرد نہیں تھی لیکن رشیدہ کوایک دم سردی لگنے لگی دن لمبا تھا شام کے سات بج رہے تھے لیکن سورج ابھی تک افق کے پار اترنے کو تیار نہ تھا۔
رشیدہ نے اپنے چہرے پر ہاتھ پھیرا تو پتہ چلا کہ آنسو بہہ رہے ہیں ورنہ اسے تو ان کے بہنے کا احساس ہی نہ ہؤا تھا۔
چل رشیدہ ہمت کر … قادر پہلے ہی کون ساتیرا تھا ۔ جو تو اس کے بٹ جانے کا غم کرے۔
اس نے آنکھوںکو مسلا اور کھڑی ہو گئی ۔ عموماً وہ ٹیوب سے نہیں جاتی تھی بس کا سفر اس کو پسند تھا لیکن نہ جانے کیا سوچ کر وہ انڈر گرائونڈ ریل کی خود کار سیڑھیوںپر کھڑی ہو گئی ۔ شاید وہ جلدی سے گھر جا کر آرام کرنا چاہتی تھی۔
رشیدہ بڑی بہادر ہو گئی ہو۔ کیسے آرام سے اتنے بڑے انکشاف کو سہہ گئی؟فلیٹ کا دروازہ کھولتے ہوئے اس نے اپنے آپ سے کہا ۔
مجبوری ہے بننا ہی پڑے گا کمزور کو یہ دنیا چٹ کر جاتی ہے ۔ رشیدہ نے ٹھنڈے پانی کا چھینٹا چہرے پر مارا اور خود سے کہا۔
کئی دن لگے پوری طرح سنبھلنے میں اس دوران رشیدہ نے قادر سے کوئی بات نہیں کی ۔ یوں بھی ان دونوں کا آمنا سامنا بہت کم ہوتا تھا۔قادر آتا تو رشیدہ سوئی ہوئی ہوتی اور جاتا تو رشیدہ کام پر نکل گئی ہوتی۔
قادر سے کیسے اور کیا کہا جائے ؟ رشیدہ نے اپنی سہیلیوں سے مشورہ کیا اس کی ساری مسلم سہیلیاں اس بارے میں متفق تھیں کہ گولی مارو دوسری بیوی کو اگر قادر تمہارے ساتھ کچھ وقت گزارتاہے محبت سے بات کرتا ہے تو بس اس کو کافی سمجھویہاں تو یوں بھی عورت کو جوتے کی طرح بدلا جاتا ہے ۔ یہ ہی کام عورت بھی مرد کے معاملے میں کرتی ہے لیکن تم اور ہم مشرق کی بیٹیاں ہیں ۔ وفا ہماری گھٹی میں ہوتی ہے ۔
شازی نے دھیرے سے سب کے دل کی بات کی ۔ یہ الگ بات ہے کہ خود وہ تین شوہر بھگت کر چوتھے کے ساتھ رہ رہی تھی ۔سب کی نظریں اس کے کہے جملے پر اس کی طرف اٹھیں۔
مجھے تو تینوں شوہر دغا باز ملے۔اس نے جلدی سے وضاحت کی۔
رشیدہ ایک کام تو ضرور ہی کر لینا ۔
شہناز عرف ناز نے بیگ سے آئینہ نکالتے ہوئے کہا ۔سب اس کی طرف متوجہ تھیں لیکن فی الحال وہ پہلے اپنی لپ اسٹک ٹھیک کرنا چاہتی تھی ۔ آئینے میں اطمینان سے لپ اسٹک لگانے اور مطمئن ہونے کے بعد اس نے سب پر ایک نظر ڈالی۔ سب انتہائی توجہ سے اسے دیکھ رہی تھیں ۔
اپنے گھر اور گاڑی کے لیگل کاغذات دیکھو سب کس کے نام ہے؟
ناز نے سب کی توجہ کو مسکرا کر انجوائے کیا۔
رشیدہ نے ایک گائڈ لائن لے لی تھی۔ کاغذات کو اپنے نام کرنے کے لیے اس کو بڑے پاپڑ بیلنے پڑے لیکن قادر بالآخر تیار ہو گیا ۔ کیونکہ اس نے ڈھکے چھپے انداز میں قادر پر اپنے حقوق کا دعویٰ کر دیا تھا ۔ اس سے پہلے اپنے قانونی کاغذات نکاح نامہ اور دیگر ضروری ثبوت بھی اپنے پاس محفوظ کر لیے تھے۔
معاملہ سیدھی سڑک پر چلتا گیا ۔ قادر کو اس بات کا پتہ چل گیا تھا کہ رشیدہ اب بے خبر نہیں … اور خبر دار ہو کر بھی وہ اسی کے ساتھ ہی رہنا چاہتی ہے ۔ ماں باپ کے انتقال کے بعد تو وہ گائوںجانے کا نام بھی نہ لیتی تھی ۔ ایک لمبا عرصہ گزر گیا تھا۔
لیکن رشیدہ ٹانگے والا خیر منگدا… والا گانا نہیں بھولی تھی کبھی خوب مست ہو کر گنگناتی … اور قادر سے کہتی چل قادر مجھے ٹیکسی کی سیر تو کرا دے … لیکن وہ دن چھٹی کا دن ہوتا ۔
ایک دن اسی طرح مست ملنگ انداز میں قادر کی دوسری بیوی سے بھی مل آئی جوکشمیرن تھی… سرخ و سفید بچے بھی ایسے ہی تھے ۔ رشیدہ کو پسند آ گئی سادہ مزاج کی تھی ۔ رشیدہ کے اپنے بچے تو ہوئے نہ تھے ۔ اس نے ان کو ہی کلیجے سے لگا کر ممتا کی پیاس بجھائی ۔بچے اس کو پہچاننے لگے تھے ۔ ایک لحاظ سے کشمیرن نے بھی اس کو قبول کر لیا تھا ۔ وہاں تو یوں بھی دوسری عورت عام سی بات تھی۔ رشیدہ کا اب جب دل اداس ہوتا وہ کشمیرن کے گھر آجاتی بچوں کے ساتھ بیٹھ کر اپنا غم بھول جاتی ۔
اس دن بھی وہ وہیں تھی جب خبر ملی کہ قادر کا ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے ۔ہسپتال پہنچ کر باقی خبر ملی کہ قادر اب اس دنیا میںنہیںوہ ہسپتال لاتے لاتے ہی آخری سانسیں لے چکا تھا۔
کشمیرن اور رشیدہ دونوںکا غم سانجھا تھا۔ گلے لگ کر خوب روئیں ۔ جانے والے جب جاتے ہیں تو یوں لگتا ہے کہ دنیا رُک گئی ہے لیکن دنیا رکتی نہیں چلتی رہتی ہے ۔ قادر کے جانے کے بعد بھی دنیا چلتی رہی ۔ رشیدہ دوبارہ کام پر جانے لگی اور کشمیرن بچوں کے ساتھ قادر کو بھولنے کی کوشش میں لگ گئی۔ زندگی چل پڑی ساتھ خرچے بھی چل پڑے رشیدہ کا دل قادر کے بچوں کے لیے فکر مند رہتا ۔وہ کشمیرن اور قادرکے بچوں کا دھیان رکھتی ۔ ان کی تعلیم کے لیے اسی طرح فکر کرتی جیسے قادر کرتا تھا۔
ایک دن کشمیرن کو اس نے بتایا کہ وہ پاکستان جا رہی ہے اپنے گائوں… اپنے ماں باپ کے گھر …
واپس آئو گی نا؟
کشمیرن نے آس بھری نظروں سے اُسے دیکھا ۔ہاں آئوں گی۔ وطن سے ایک دفعہ اپنی جڑیں نکالنے والے کی جڑ دوبارہ وہاں لگنی مشکل ہوتی ہے ۔
رشیدہ دھیرے سے مسکرائی… ساتھ آنکھ سے ایک آنسو گال پر ڈھلک آیا۔
چند دن میںہی واپسی کے لیے اس نے ٹکٹ خرید لیا۔ گائوں پہنچ کر جب مامی صغراں اور ہاجرہ پھوپھو کے ہاںسے فارغ ہوئی تو ان کے ساتھ اپنے گھر کے بند کواڑ کھول کر داخل ہوئی ۔ سوکھے پتے صحن میں بکھرے تھے کمروں میں ہر شیشے پر دھول تھی ۔پڑچھتی پر بیکار سے چند برتن پڑے تھے ۔ باورچی خانے کا چولہا کب کا ٹھنڈا تھا ۔
لیکن رشیدہ کو تو کچھ اور ہی منظر نظر آرہا تھا! مٹی کی ہانڈی میںسالن بھونتی اماں لکڑی کی ڈوئی پر سالن نکال کر ہتھیلی پر ڈال کر نمک چکھ رہی تھی… دھوئیںاور تپش سے اماں کے ماتھے پر پسینے کے ڈھلکتے قطرے بھی نظر آرہے تھے کیونکہ ساتھ دوسرے چولھے پر روٹیوں کے لیے توا چڑھا تھا۔
رشیدہ بے خیالی میںصحن کی دیوار پر لگے آئینے کو دیکھنے لگی جہاں رخصتی کا منظر صاف تھا۔
پھوپھو ہاجرہ نے رشیدہ کے کندھے پر ہاتھ رکھا، گم سم رشیدہ چونک گئی ۔ باورچی خانہ ٹھنڈا پڑا تھا … اور آئینہ دھول سے اٹا۔
محبت سے گلے لگا کر ہاجرہ پھوپھو اور مامی صغراں نے دلاسادیا تو رشیدہ کی آنکھوں کے برسوں کے بند ٹوٹ گئے۔ وہ دل بھر کر روئی … پہلی دفعہ اس کو پتہ چلا کہ رونے کا کوئی اورفائدہ ہو یا نہ ہو دل ضرور ہلکا ہو جاتا ہے۔ اس نے دونوںکو غور سے دیکھا۔ اماں اگر زندہ ہوتی تو ان کی طرح نظر آتی کمزور اور بوڑھی بوڑھی سی… لیکن وہ اماں جو اس کے خیالوں میں زندہ تھی وہ صحت مند اور خوب تگڑی تھی ۔ وہ دھیرے سے مسکرا دی چلو اچھا ہؤا اماں کو ضعیفی کی حالت میں دیکھنا اور پھر اُن کو چھوڑ کر جانا کتنا مشکل ہوتا۔اس نے سوچا۔
واپسی میں گلی میں کھیلتے بچوںکو دیکھ کر کئی بچوں سے اس نے پوچھا اسکول نہیں جاتے ؟
سب ہی نے نفی میںسر ہلایا۔
صغراںمامی بولیں اسکول دوسرے گائوں میں ہے ۔
اچھا گائوں میں اسکول نہیں ہے؟اس نے اچنبھے سے کہا ۔
نہیں! ہاجرہ پھوپھو بولیں ۔
پھر اماں کا گھر اسکول بنے گا، بے ساختہ اس کی زبان سے نکلا۔
٭…٭…٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x