ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

موسمِ وبا میںعمرہ کی روداد – بتول مارچ ۲۰۲۲

میں گھر کے کام کاج میں مصروف تھی جب ہماری پیاری سی پڑوسن کا نام ہمارے موبائل پر چمکا۔ ہم نے سرعت سے اسے کھولا تو ایک خوبصورت پیغام تھا:
عمرہ کرنا ہے آپ نے؟ میں نے آپ کی اگلے ہفتے کی بکنگ کروا دی ہے۔ نیچے بکنگ کی تفصیلات تھیںجس کے مطابق ۳۱ مارچ ۲۰۲۱ سے سفر کا آغاز کرنا تھا، اور یکم اپریل کو عمرہ ادائیگی تھی۔ لبیک اللھم لبیک!
میاں صاحب گھر آئے تو ان سے ذکر کیا۔ انہیں بھی علم نہیں تھا، مگر انہوں نے بھی کامل اطمینان کا اظہار کیا۔ اور ہم نے ہولے ہولے تیاری شروع کر دی۔ ہمیں بدھ کو علی الصبح روانہ ہونا تھا۔ پہلی رات مدینہ منورہ گزار کر اگلی صبح مکہ روانگی تھی۔ ہم دونوں، شاہد صاحب اور توصیف صاحب کی فیملیز ہمارے ساتھ تھیں۔ ہماری منی ہمیں تیاری کرتے ہوئے دیکھ کر کئی مرتبہ سوال کر چکی تھی:
’’اس مرتبہ پھر چھوڑ جائیں گی مجھے‘‘۔
اور ہم بے بسی سے اثبات میں سر ہلا دیتے۔ اس کی عمر ابھی اٹھارہ برس نہ ہوئی تھی، اس لیے اسے ابھی عمرہ کی سہولت بھی حاصل نہ ہوئی تھی، ہم نے قمری کیلنڈر کے جمع تفریق سے بھی اس کی عمر کا تخمینہ لگایا مگر اٹھارہ کا ہندسہ ابھی کچھ فاصلے پر ہی تھا۔ اسے چھوڑ کر جاتے ہوئے ہمارا دل بھی ڈول رہا تھا مگر آخر ہم اس کی خاطر کب تک صبر کرتے؟ خدا خدا کر کے تو وبا کے دنوں کی بندش کے بعد حرم کے راستے کھلے تھے۔ اور ہم اس معاملے میں کچھ سخت دل ہی بن گئے تھے۔ البتہ ہم منی کو ایک مرتبہ مدینہ لے گئے تھے۔ رختِ سفر باندھتے ہوئے ہم نے جتنی پسندیدہ چیزوں کی آفر کی منی نے ریجیکٹ کر دیں، گویا یہ بھی خاموش سا احتجاج تھا، مگر ہم نے توجہ اپنی تیاری کی جانب مرکوز رکھی۔ اور منی سے فقط یہی پوچھتے رہے:
’’ پھر کیا چھوڑ کر جاؤں آپ کے لیے؟ آئس کریم، کیک، چاکلیٹس…‘‘
مگر منی ہر بات کے جواب میں انکار میں سر ہلا دیتی’’بس کچھ نہیں چاہیے مجھے !‘‘
بدھ کی رات تیاری کرتے اور چھوٹی چھوٹی چیزیں رکھتے میں کافی لیٹ ہو چکی تھی۔ سب سامان بیرونی دروازے کے قریب لا رکھا تھا تاکہ صبح اٹھانے میں دقت نہ ہو اور کوئی چیز بھول نہ جائیں۔ میں بستر پر پہنچنے ہی والی تھی جب مجھے منی کے کمرے سے آواز سنائی دی:
’’ امی جان، میری بات سن جائیں ذرا ‘‘۔
آواز میں اتنی رقت اور درد تھا کہ میں بے اختیار ہی بات سننے بھاگی۔اس کے چہرے پر سخت بے چینی تھی، وہ بدقت بولی:
’’ میں نہیں جا سکتی مدینے … ؟میں مکہ میں ہوٹل میں رک جاؤں گی، مگر مجھے ساتھ تو لے جائیں نا‘‘۔
میں نے اس کا کندھا تھپکا اور نرمی سے کہا:
’’ آپ کا دل چاہ رہا ہے تو چلی چلو آپ بھی۔ لاؤ آپ کے کپڑے پیک کر دوں‘‘۔ وہ حیران رہ گئی۔
’’ نہیں باقی سب تنگ ہوں گے۔ گاڑی میں جگہ بھی کم ہے‘‘۔
میں نے اسے تسلی دلائی ’’کپڑے یوں ہی رکھ لو، استری ساتھ رکھ لیتے ہیں۔ اور گاڑی میں آپ ہمارے ساتھ بیٹھو گی، درمیان والی سیٹ پر۔ ہم تنگی برداشت کر لیں گے، اگر ہوئی تو !‘‘
وہ ہولے سے بولی:
’’ ابو جان سے پوچھ لیں‘‘۔
’’ وہ منع نہیں کریںگے۔ بس آپ تسلی سے سو جاؤ‘‘۔
صبح نمازِ فجر سے پہلے سات لوگوں کا قافلہ سیون سیٹر گاڑی میں سامان رکھ چکا تھا اور گاڑی فراٹے بھرتی مدینہ منورہ کی جانب عازمِ سفر تھی۔ منی کے اطمینان کی کیا کیفیت تھی ؟ یہ تو وہ جانے۔۔ ۔البتہ اماں ابا مطمئن تھے کہ اب انہیں پیچھے کی فکر نہیں کہ منی نے کھانا کھایا یا نہیں، اور کہیں اداس اور پریشان تو نہیں۔
رب کے راستے کے سفر تو منزلوں کو لپیٹتے ہوئے گزرتے ہیں۔اللہ کی یاد ہی ان سفروں کی سب سے بڑی یاد ہے۔ گاہے گاہے لوگ بھی آپ کا دامن پکڑ لیتے ہیں، کبھی کو ئی سرگوشی کرتا ہے، میرا پیغام یاد ہے نا۔ کسی کو اپنی دعائیں یاد آ جاتی ہیں۔ کسی کو سلام پہنچانا، اور کسی کو کچھ اور …
ہمارے اس سفر میں کتنے ہی لوگ اپنے اپنے مقام پر بیٹھے ہوئے بھی ہمارے ساتھ تھے۔ہم مدینہ کے راستے میں ہوتے تو وہ بھی درود شریف کی تسبیح پرولنے لگتے اور درد بھرا پیغام بلنک کرتا: ’’کتنے خوش قسمت ہیں آپ‘‘۔
اور ہمارا دل کہتا: اللہ کرے اجر کی جھولیاں سمیٹ کر لائیں۔
مدینہ شہرکا آغاز ’’لا الہ الّا اللہ محمدالرسول اللہ‘‘ کی بالائی تختی سے ہوتا ہے، جہاں روشنیوں سے کلمہ طیبہ جگمگاتا ہے۔ہم نے ظہر مسجد ِ نبوی میں ادا کی۔منی کے چہرے پر عجب اطمینان تھا۔’’ دیکھیں نا…یہاں تو نماز پڑھ لی ہے نا میں نے!‘‘ وہ سرشاری سے کہتی اور ہم بھی اسے دیکھ کر مزید خوش۔
قریب ہی ایک ہوٹل مل چکا تھا، اور ہم نے عصر کے بعد کچھ دیر آرام بھی کر لیا تھا۔ مغرب اور عشا میں ہم پھر روشنیوں اور ٹھنڈی ہواؤں میں مسجد ِ نبویؐ رحمتوں کے مزے لوٹ رہے تھے۔ مسجد میں اگرچہ فاصلے موجود تھے، اور ماسک کے بغیر داخلہ بھی ممکن نہ تھا، اور داخل ہونے والوں کا درجہ حرارت بھی مانیٹر کیا جا رہا تھا، مگر یہ سب بھی اب روٹین کا حصّہ لگتا ہے۔ خوشی اس بات کی تھی کہ منی کو بلا مزید تحقیق گزرنے دیا جا رہا تھا۔ ہم مسجد میں داخل ہونے سے پہلے ہی دیگر دعاؤں اور مناجات کے ساتھ بآوازِ بلند ’’اللھم حاسبنا حساباً یسیراً‘‘ بھی پڑھتے۔ اور ناکے سے گزرنے پر ہمیشہ سرشاری کے عالم میں اللہ تعالیٰ سے کہتے:
’’اللہ جی… جتنی آسانی سے یہاں سے گزر گئے ہیں، بغیر روک ٹوک کے ، تو اسی آسانی سے جنت میں بھی داخل کر دینا‘‘۔
نمازِ عشاء پڑھنے کے بعد عشائیے کا خیال آیا اور ساتھ ہی پیٹ میں چوہے دوڑنے لگے۔ سارا دن تو ہم نے گھر سے لائی گئی چائے، سنیکس اور گھر کے بیک کیے اورنج اور چاکلیٹ کیکس پر گزار دیا تھا۔ اب اچھا سا کھانا کھانے کی طلب تھی۔ مردانہ جانب سے کوچ کا اشارہ ملا تو ہم ’’اللھم انّی اسئلک من فضلک‘‘ پڑھتے مسجد سے باہر آئے۔ ہماری گاڑی کا رخ ’’طباق‘‘ کی جانب تھا جہاں اچھا سا کھانا مثل ابراہیمؑ خلیل ؑکے مہمانوں کے ہمارا منتظر تھا۔
نمازِ فجر سے پہلے ہم دوبارہ مسجد نبوی میں تھے۔ ایک دعا کرنے کو بہت دل چاہ رہا تھا، مگر ہم نے اپنے دل میں چھپا رکھی تھی۔ ہم خود بھی قانون کی پاسداری اور عملداری پر یقین رکھتے ہیں، اور ہماری منی اس معاملے میں ہم سے بھی دو ہاتھ آگے ہے، اس لیے ہم نے دل کو بھی سنبھال رکھا اور لب بھی خاموش رہے۔ ہم نے خاموشی سے ہوٹل تک کا راستہ پاٹا۔ کمرے میں داخل ہوئے تو والد صاحب نے منی کو مخاطب کیا:
’’منی آپ بھی احرام پہن لو‘‘۔
منی نے حیرت سے انہیں دیکھا، ایک ساتھ کئی سوالات آنکھوں میں لہرائے اور اس کے کچھ کہنے سے قبل ہی وہ بولے:
’’ بس کچھ نہ کہنا۔ میں نے اللہ تعالیٰ سے بہت دعا کی ہے، اور توصیف بھائی نے بھی یہی کہا ہے کہ منی کو احرام پہنا دیں۔اللہ تعالیٰ خیر کرے گا۔
ہم نے منی کا کندھا تھپتھپایا:
’’ ابوجان کہہ رہے ہیں نا۔ بس آپ مطمئن رہو۔ تیاری کر لو، اللہ تعالیٰ کوئی راستہ نکال دے گا۔ دیکھو بیٹا، ہم تو نہیں لا رہے تھے نا آپ کو ساتھ… رات گئے ایک خواہش آپ کے اپنے دل میں ابھری اور اس شدت سے ابھری کہ آپ مدینہ میں نماز پڑھو گی۔ اگرچہ آپ نے اگلی خواہش دل کے نہال خانوں میں چھپا لی مگر اللہ تو جانتا ہے نا اور اس لمحے ہمیں حضرت خالدؓ بن ولید اچانک ہی یاد آگئے، جب انہوں نے حضرت ابوبکر صدیقؓ کے حکم کے باوجود کہ کوئی مجاہد حج کے لیے نہیں جائے گا، خاموشی اور چپکے سے حج کر لیا تھا۔ حضرت عمرؓ بن خطاب کو اس حکم عدولی کا علم ہؤا تو انہوں نے حضرت ابو بکرؓ کو ان کی سرزنش کا کہا مگر حضرت ابوبکرؓ نے ان کے خلاف کوئی تادیبی کاروائی نہ کی تھی۔
ہم نے اشراق تک ہوٹل کو چھوڑا، اور پاکستانی ناشتا کرتے ہوئے میقات پہنچے۔ عمرہ کی ادائیگی کے لیے دورکعت پڑھ کرتلبیہ پڑھی اور مکہ مکرمہ کی جانب سفر شروع ہو گیا۔ہم کبھی تلبیہ اور کبھی دعاؤں میں مشغول ہو جاتے اور کبھی ارد گرد کی باتیں۔ حتیٰ کہ ہم صبح کی کیفیت اور اضطراب بھی بھول گئے، نہ کوئی خوف باقی رہا اور نہ تردد۔
یہ اللہ تعالیٰ کی مہربانی تھی کہ ہمارا ہوٹل اجیاد روڈ کے بالکل آغاز میں تھا، شاہ کے محل کے تقریباً سامنے۔ہم جب ہوٹل کے پاس پہنچے تو ظہر کی نماز جاری تھی، دل چاہتا کہ گاڑی کو قریب ہی پارک کریں اور نماز میں شامل ہو جائیں، مگر وہاں پارکنگ کی اجازت نہ تھی۔ بالکل قریب پہنچ کر ہمارا روٹ دائیں بائیں کر دیا جاتا، حتیٰ کہ اسی حسرت میں نماز مکمل ہو گئی۔ ہم گاڑی سے اترے اور ہوٹل میں چیک ان کروایا۔ کمرے میں پہنچ کر ایک مرتبہ پھر وضو کیا اور حرم کی جانب چلے۔ ہوٹل کی لابی سے ہی ’’توکلنا‘‘ ایپ پر اپنا سٹیٹس اپ ڈیٹ کیا۔ ہمارا عمرہ ادائیگی کا وقت شروع ہو چکا تھا۔ ہوٹل کی ٹی وی سکرین پر معتمرین طواف کرتے دکھائی دے رہے تھے۔ فاصلے کے ساتھ، لائنوں میں، اور جگہ جگہ اہلکار بھی موجود تھے، جو ہدایات بھی دے رہے تھے اور جہاں فاصلہ کم ہونے لگتا وہاں لوگوں کو ہاتھ کے اشارے سے فاصلہ بھی کروا رہے تھے۔
ہم نے لبیک اللھم لبیک کی سرگوشیوں میں باہر قدم نکالا، سامنے اللہ کا گھر تھا۔ ہم نے اللہ تعالیٰ سے گڑگڑا کر دعا کی:
ربّ یسر ولا تعسّر۔ اللہ جی آپ پر توکل کرتے ہوئے ہم منی کو بھی احرام پہنا لائے ہیں، اللہ جی آج بھی اسے ویسے ہی کسی کی نظروں میں آئے بغیر ہر رکاوٹ سے پار لگوا دیں جیسے آپ نے ہمارے پہلے حج کے موقع پر اسے ہمارا ہم سفر بنا دیا تھا (منی ہمارے حج کی ادائیگی کے دو ماہ بعد دنیا میں آئی تھی، اور اس نسبت سے ہم اسے بچپن میں ’’حاجی‘‘ بھی کہتے تھے)۔
ہم چھے لوگوں کی اکٹھی بکنگ ہوئی تھی، ہم گروپ کی صورت میں پہلے ناکے پر پہنچے، یہ اللہ کا کرم ہی تھا کہ ہمارے ایک مرد ساتھی کو اہلکار نے موبائل چیک کرتے ہوئے ذرا دیر لگا دی، ساتھ والے نے چھ کی گنتی کر کے ہمیں بھجوا دیا۔ جتنی دیر میں وہ پہنچے ہم اس سے اگلے پوائنٹ سے بھی نکل چکے تھے۔ اور اس کے بعد تو کسی نے کوئی سوال جواب ہی نہ کیا۔ ہم حرم میں داخل ہو چکے تھے۔ الحمد للہ!
ہم نے ظہر کی نماز ادا کی اور مطاف میں داخل ہو گئے۔ منی ہم دونوں کے بیچ میں قطار میں چل رہی تھی، اور جب بھی اس پر نگاہ پڑتی بے اختیار اللہ کا شکر زبان سے نکلتا اور دل اس کی رحمت پر جھوم جھوم جاتا۔ اور کبھی تو دل چاہتا کہ سب کو بتائیں زور سے، اللہ کی رحمت اور اس کی عطا کیسی ہوتی ہے۔ اور جس دروازے کو وہ کھول دے اسے بند کرنے والا کوئی نہیں۔ اور کبھی دل چاہتا کہ اس خوشی کو اپنے دل کے دبیز پردوں میں چھپا لیں، کسی کو خبر بھی نہ ہو کہ اللہ ہم پر کیسا مہربان ہو گیا تھا، اور اس نے کس طرح ہماری لاج رکھ لی تھی۔ وللہ الحمد، اور ہم کمزوروں کا سہارا تو اللہ ہی ہے، اور وہ کتنا مضبوط سہارا ہے۔
عمرہ کر کے ہم نے بیٹی سے کہا:
’’ چلو ، اب آپ تسلی سے پاکستان جانا، عمرہ تو ہو گیا ہے آپ کا۔نجانے کب دوبارہ آنے کا موقع ملے گا‘‘۔
ہم نے اپنی سفر کی غائبانہ ساتھی قانتہ کو اپنی خوشی میں شامل کیا:
’’عمرہ ہو گیا ہے ہمارا ۔ بلکہ منی کا بھی‘‘۔
اور ان کا جواب آیا: ’’کرونائی عمرہ کی روداد کی منتظر … آپ کی اپنی قانتہ‘‘۔
ہم نماز عصر پڑھ کر ہوٹل آئے، پھر مغرب کے لیے داخل ہوئے تو عشا بھی پڑھ لی۔ ہماری نمازوں کی بھی بکنگ تھی۔ صفوں میں فاصلہ بھی تھا، مگر امت کے دل جڑے ہوئے لگتے تھے، دل چاہتا کہ ایک آواز آئے کہ ’’صفیں درست کر لو اور فاصلہ پاٹ دو‘‘ تو ہم سب کندھے سے کندھا ملا کر نماز پڑھیں۔ حرم کے سب قالین اٹھائے جا چکے تھے۔ سب اپنی جائے نماز لاتے اور اسی پربیٹھ کر نماز ادا کرتے۔زم زم کے کولر بھی نہیں تھے، ہاں یہاں وہاں کندھوں پر پانی کے مشکیزے اٹھائے اہلکار صفوں میںآ کر پانی پلا رہے تھے۔
اگلے دن کی ہماری نمازوں کی بکنگ نہ تھی، لیکن ہم بغیر کسی پوچھ تاچھ کے اندر پہنچ گئے اور پورے اطمینان کے ساتھ تہجد اور پھر نمازِ فجر ادا کی۔قانتہ کا نام موبائل کی سکرین پر جگمگایا:
حرم کی ٹائلوں کو میرا پیغام: ’’جنہیں تم بھول بیٹھے ہو تمہیں وہ یاد کرتے ہیں‘‘۔
کچھ ہی دیر میں دوسرا پیغام: سیدنا ابراہیم علیہ السلام اور اماں ہاجرہ کو میرا سلام۔
اور ایسے پیغام کے بعد تو دل اور بھی شدت سے اپنے ان ساتھیوں کے لیے دعا میں مشغول ہو جاتا جو باہر بیٹھے تڑپ رہے ہیں، اور رسول اللہؐ کی سنت کو تازہ کرتے ہوئے رب کے حضور دعاؤں کا عطیہ پیش کرنے کی یاد دہانی کروا رہے ہیں۔
ہم نے موبائل کھول کر ان تمام بہنوں کی دعاؤں کو اللہ کے حضور پیش کیا، جنہوں نے ہم سے درخواست کی تھی، اور کتنے ہی دور و قریب کے وہ ساتھی جو نجانے کہاں سے کسی روشنی کی مانند ذہن کی سکرین پر نمودار ہو جاتے ہیں اور جن کے لیے دعا کیے بغیر آپ ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھ سکتے۔
ہم اللہ کے حضور حمد و ثنا پیش کرتے اور اس سرور کو دل میں اتارتے حرم سے باہر نکلے کہ ابھی جمعہ کی تیاری کر کے دوبارہ آنا تھا۔اللہ تعالیٰ سے واثق امید تھی کہ جمعہ میں بھی اندر داخلے کی اجازت مل جائے گی۔
جمعہ کی نماز ادا کر کے واپسی کا سفر شروع ہؤا۔ ہم مغرب کے بعد مدینہ پہنچ گئے، اور مغرب اور عشاء کی جمع بین الصلاتین مسجد نبوی میں ادا کی۔ اگلی صبح فجر کی ادائیگی کے بعد واپسی کا سفر شروع ہؤا، البتہ راستے میں مسجد قبا میں دو نفل ادا کیے جو ایک عمرہ کے برابر اجر رکھتے ہیں۔
آئبون تائبون عابدون، لربنا حامدون۔٭
٭٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x