ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ابتدا تیرے نام سے – صائمہ اسما

ابتدا تیرے نام سے
قارئین کرام! سلام مسنون
تسبیحِ روزوشب کے دانے شمار کرتے کرتےسال خاتمے پر آلگا ہے۔ پاکستان کے لیے یہ ایک نہایت مشکل اور مایوس کن حالات سے پُرسال ثابت ہؤا ۔معاشی حالات کے اشاریے تیزی سے نیچے کی طرف گئے، مہنگائی میں ریکارڈ اضافہ ہؤا،سیاسی حقوق پامال کیے گئے، اظہارِ رائے پر قدغنیں لگیں۔قومی خزانے کے مجرموں کو چھوٹ دی گئی۔سیاسی منظرنامے کو ایک بار پھر ازسرنوتشکیل دیا گیا۔ اب انتخابات کی تاریخ کا اعلان ہو چکا ہے مگر بے یقینی کی کیفیت ہے۔انتخابات ہوئے بھی تو نتائج کے بارے میں اندازہ لگانا مشکل نہیں۔کراچی کے بلدیاتی انتخابات کی شکل میں ریہرسل ہوچکی ہے۔ دہشت گردی نے ایک بار پھر سر اٹھایا،بلوچستان میں کشیدگی بڑھی۔ عمومی لحاظ سے ملک بھر میں بے چینی اور اضطراب کا ماحول ،آنے والے وقت کے لیے بے شمارخدشات پائے جاتے ہیں۔ اللہ سے دعا ہے بہتری کی کوئی صورت پیدا ہو، آمین۔
چشم فلک نے یہ نظارہ بھی کب دیکھا تھا!
بلامبالغہ لاکھوں انسان فلسطین کے حق میں سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔ صیہونیت کامکروہ چہرہ کھل کر دنیا کے سامنے آیا ہے۔ خودہزاروں یہودی اسرائیل کے ظلم کے خلاف سڑکوں پہ ہیں۔مسلمانوں کے جہاد کو دہشت گردی ٹھہرا کربدنام کرنے کی کوشش اس بار زمیں بوس ہوگئی ہے۔ ٹوکیو سےکیلی فورنیا اورسٹاک ہوم سےسڈنی تک دنیا کا ہر کونہ اہلِ فلسطین کے حق میں گونج اٹھا ہے۔ کئی شہروں میں ان کی تاریخ کے سب سے بڑے مظاہرے ہوئے ہیں اور اسرائیل کو ناجائز جنم دینے والے انگلینڈ کا دارالحکومت لندن تو اسرائیل کے ظلم پراس قدرغضب ناک ہے کہ لندن کے پے در پےمظاہروں پروہاں کا صیہونی میڈیا چیخ اٹھا ہے۔
دنیا کے طول و عرض میں احتجاج کرنے والے ان مظاہرین نے وہ سب جھوٹ کا جال تارتار کردیا ہے جو امریکہ یورپ اور اس کے حواریوں نے بڑی محنت سے پچھلے تئیس سال میں بُنا تھا اور جس کے مطابق مسلمان جہادی تنظیمیں اورمزاحمت کی تحریکیں دہشت گرد تھیں ، یہودی مظلوم،اور اسرائیل پر کوئی بھی سوال اٹھانا یہود دشمنی ،یعنی اینٹی سیمی ٹزم ٹھہرا دیا گیا تھا۔اب حال یہ ہے کہ اسرائیل کے خلاف مظاہروں میں ہر جگہ یہودیوں کی بڑی تعداد شرکت کررہی ہے جن میں مذہبی، لبرل ہر طرح کے یہودی ہیں اور جو علی الاعلان خود کو اسرائیل کے انسانیت کے خلاف جرائم سے بری الذمہ قرار دے رہے ہیں۔اس کی وجہ سےپہلی بار دنیا کے سامنے یہودیت اور صیہونیت کا فرق واضح ہو کر سامنے آیا ہے۔ اب لوگ یہ ماننے کو تیار نہیں ہیں کہ فلسطین کی آزادی کا ساتھ دینا،اسرائیل کے مظالم کی مذمت کرنا، اسرائیل کے قبضے کو ناجائز کہنایہود دشمنی ہے۔کھل کر کہا جارہا ہے کہ ہولو کوسٹ کا بہانہ بنا کر امریکہ اور اس کے حواریوں نے اپنے استعماری عزائم کی خاطر اسرائیل کو زبردستی مشرقِ وسطیٰ کے قلب میں لابٹھایا ہے۔ اسرائیل کا یہودی مذہب سے کوئی تعلق نہیں ،یہ لامذہب یہودیوں کی پلاننگ ہے جو ایلومیناٹی اور شیطانی مذہب پر یقین رکھتے ہیں۔ جنگ عظیم دوم کے دوران ہٹلر کے مظالم کو انہوں نے خوب اپنی مظلومیت کے لیے استعمال کیا ،ساتھ ہی اس تمام ظلم کو بے قصور فلسطینیوں پر دہرا رہے ہیں۔ صیہونیت نیا نازی ازم کی اصطلاح متعارف ہوئی، اسرائیل کے جھنڈے میں ستارہِ داؤدی کی جگہ نازی جرمنوں کا نشان سواستیکا پہلی بارلگایا گیا،نیتن یاہو کے ساتھ ہٹلر کی تصویریں لگائی گئیں۔مغربی سرمایہ دارانہ استعماری صیہونی میڈیا جو انسانیت اور برابری کا راگ الاپتا ہے، اس کی منافقت بری طرح بے نقاب ہوئی۔
یہ غزہ کےبہادرعوام کے پختہ ایمان، اور ان کی قربانیوں کا صدقہ ہے۔ سچائی کو یہ خاص وصف ملا ہے کہ اس پہ قائم ہونے والوں کی کوشش اصل سے زیادہ نتیجہ خیز ہوتی ہے۔ اسی لیے زخموں سے اٹے،شہید ہوتے،سڑکوں ، خیموں ، ہسپتالوں کی راہداریوں، کیمپوں میں پناہ لیے فلسطینی اپنی ابتر حالت میں بھی دنیا کے آگے بہت سی حقیقتیں کھول رہے ہیں۔ تازہ معرکے کے دوران فلسطینی دنیا کی سب سے عظیم،بہادر، باعزت ،باوقار،ثابت قدم اورصابر قوم کی صورت سامنے آئے ہیں۔اب جبکہ مختصرسےوقفے کے بعداسرائیلی بمباری دوبارہ شروع ہوچکی ہے، فلسطینیوں کی قربانیوں اور شہادتوں کا سلسلہ پھر جاری ہوگیا ہے۔ امت مسلمہ کے حکمران خاموش دیکھ رہے ہیں۔ ان کے ملکوں کے عوام میں اضطراب کا لاوا پک رہا ہے مگر وہ اپنے اپنے مفادات کے اسیر ہیں۔فلسطینی آزاد ہیں ،قید تو مسلم امہ ہے، اور فلسطینی جنازے اٹھا کر بھی زندہ ہیں مگر امت مر گئی ہے۔
اگرچہ فلسطینی عوام اعلانِ بالفور ۱۹۱۷ سے لے کر اور خصوصاً ۱۹۴۸ میں اسرائیل کے قیام سے اب تک شدید آزمائشیں سہہ رہے ہیں،مگر دورِ حاضر میں ہونے والے اسرائیلی مظالم کو دیکھا جائے توحالیہ تنازع کے بعد مسئلہ فلسطین دنیا کی توجہ کا مرکزجس طرح بنا ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔ اس کی وجہ یقیناًمیڈیاپرآزاد رپورٹنگ کا موقع ملناہے جس کا استعمال اس بار حماس نے بھی خوب کیا ہے۔ ہر پراپیگنڈے کا ساتھ ساتھ توڑ کیا جارہا ہے اور دنیا کو حقیقت حال سے باخبر رکھا جارہا ہے۔اس وقت ہم سب کے لیے بہت ضروری ہے کہ اس موضوع پر اپنی معلومات میں اضافہ کریں، یہ مسئلہ ہے کیا، کب اور کیسے شروع ہؤا، اس میں مختلف زاویے کیا ہیں، مخالف نقطہِ نظر کے پاس کیا دلائل ہیں، فلسطین کے حق میں کیا دلائل ہیں، یہ سب کچھ مختلف مضامین اورکتابوں میں تو پہلے بھی موجود تھا، مگر اب آن لائن معلومات کی صورت ہمارے ہاتھوں میں موجود ہے۔ خود اہلِ مغرب میں ایسے باضمیر افراد موجود ہیں جو تاریخی حقائق کی روشنی میں اسرائیل کے ناجائز قیام کی قلعی کھول رہے ہیں۔ ایسی پوڈ کاسٹس ،وِلاگ،یو ٹیوب چینل اور لیکچرسیریز سن کر اپنے شبہات دور کرنا آج ہمارے لیے ضروری ہو گیا ہے تاکہ ہم خود واضح ہوں اور نوجوان نسل کے سامنے تمام دلائل ہمارے پاس موجود ہوں۔ گزشتہ شمارے کی طرح اس بار بھی ہم نے خاص مضمون اسی موضوع پر شامل کیا ہےجو بنیادی معلومات فراہم کررہا ہے۔
قائدِ اعظم محمد علی جناح کا یوم وفات اس مہینے میں ہے۔ وہ پاکستان کو ایک آزاد خود مختار، خوشحال ،اسلام کے اصولوں پر عمل پیرا جمہوری فلاحی ریاست دیکھنا چاہتے تھے جہاں آئین کی بالادستی ہو اور کوئی شخصیت یا ادارہ ماورائے آئین نہ ہو۔جہاں اسلام کے اصول ِ عدل و انصاف ،برابری اور ایمانداری رائج ہوں، بھائی چارہ اور امن و امان ہو، خودداری اور ہمسایہ ممالک سے اچھے تعلقات پر مبنی آزاد خارجہ پالیسی ہو۔اقوام عالم میں پاکستان باوقار مقام کا حامل ہو، امت مسلمہ کا ایک اہم اورفعال حصہ بنےبلکہ فطری طور پہ امت کارہنما بن کر ابھرے، امت کی تقدیر بنانے والا ہو۔بدقسمتی سے آزادی کے چھہتّر سال بعد بھی محسوس ہوتا ہے کہ ہم قائد کےاس وژن سے روز بروز دور ترہوتے جارہے ہیں۔
سلسلہ وار ناول ’’اک ستارہ تھی میں‘‘ کی آخری قسط پیش خدمت ہے۔ اسما اشرف منہاس نے اسے خوبی سے تخلیق کیا اور قارئینِ بتول کی نذر کیا۔ امید ہے جلد یہ کتابی صورت میں بھی آپ کے لیے دستیاب ہوگا۔
اگلے ماہ تک اجازت دیجیے بشرطِ زندگی۔
دعاگو، طالبہ دعا
صائمہ اسما

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x