ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

گوشہ ِتسنیم – قیمتی سرمائے کی حفاظت – ڈاکٹر بشریٰ تسنیم

قوموں کی زندگی میں پیش آنے والے معرکے ہی دنیا کی تاریخ میں اچھا یا برا مقام بنا پاتے ہیں۔ اور اسی حوالے سے کوئی بھی قوم اپنے کردار کا تعین کرتی ہے۔
دنیا بھر کے تاریخی آثار ہر قوم کی کہانی بیان کرتے ہیں۔ اور ان سے عقل مند لوگ ہی عبرت، نصیحت اور سبق حاصل کرتے ہیں اور یہی لوگ حالاتِ حاضرہ میں قوم کے راہنما کہلائے جاتے ہیں۔
بحیثیت امتِ مسلمہ کے جسدِ واحد ہونے کا احساس وہ قیمتی سرمایہ ہے جس سے دنیا کی قیادت کی گئی اور اب بھی کی جا سکتی ہے۔
یہ احساس زندہ رکھنا ہی امتِ مسلمہ کے سارے دکھوں کا علاج ہے۔
سوال یہ ہے کہ یہ قیمتی سرمایہ اور میراث کیسے گنوا دیا؟ حقیقت یہ ہے کہ جب نفس پرستی اور بے لگام خواہشات نے دنیا کی زندگی میں مگن کر دیا تو پھر موت سے خوف آنے لگا اور یہی وہ بیماری ہے جس کی وجہ سے مسلمان کلمۂ حق سے ناآشنا ہوگئے اور ہر مسلمان ملت کے مقدر کا ستارہ نہ رہا۔
ہر مومن کا دل ایمان کی روشنی سے جگمگاتا ستارہ ہے۔ یہ مومنوں کے دل ہی ہیں جو امتِ مسلمہ کو کہکشاں بنا دیتے ہیں۔
یہ خوبصورت احساس صدیوں کے بعد دوبارہ زندہ کرنا ہی اہم کام ہے۔
ایک صدی کا عرصہ تو ہماری نگاہوں میں ہے۔ پوری امت پتنگوں کی مانند ہو گئی ہے کہیں قرار و ثبات نہیں۔ کہیں اتحاد واتفاق نہیں۔
دنیا کی تاریخ بتاتی ہے کہ ہمیشہ انتہائی نامساعد حالات میں سعید روحیں میدانِ عمل میں اتر آتی ہیں۔ قوموں کی حالت جب جانوروں سے بھی بدتر ہوتی ہے تو انبیائے کرام کا ظہور ہوتا ہے۔ جب انسانیت دم توڑتی محسوس ہوتی ہے تو محسنِ انسانیت کی تشریف آوری ہوتی ہے۔
جب لوگ اپنے مقصدِ زندگی سے ہٹ جاتے ہیں تو اللہ سبحانہ و تعالیٰ کسی مجدد کو دنیا کے سامنے لے آتا ہے۔ لیکن کیا مجدد آسمان سے یکایک اتر آتے ہیں؟ مجدد کا تو اس وقت علم ہوتا ہے جب وہ اپنے حصے کا کام کر کے دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے۔
امتِ محمدیہ کس ہیرو یا مجدد کے انتظار میں ہے؟ جب کہ ہر مسلمان اپنی جگہ کسی ہیرو سے کم نہیں ہونا چاہیے۔
امت کی مائیں کیوں یہ دعائیں مانگتی ہیں کہ کوئی ماں تو صلاح الدین ایوبی پیدا کرے کیا وہ خود کسی بیٹے کی ماں نہیں ہے؟ کوئی پیدائشی طور پہ نجات دہندہ نہیں ہوتا ہے یہ تربیت ہی ہے جو ایسے سپوت سامنے لاتی ہے۔ مسلمان والدین جب محمد بن قاسم اور طارق ابن زیاد کی مثالیں دیتے ہیں تو وہ اپنے بیٹوں پہ محنت کیوں نہیں کرتے؟
پتہ نہیں ہم سب کس دنیا میں بس رہے ہیں جہاں اچھے اعمال کے لیے سب ایک دوسرے کا منہ دیکھ رہے ہیں۔ اور سب مطمئن ہیں کہ اب امام مہدی کی ذمہ داری کا وقت آگیا ہے ہم بے بس ہیں۔
کیا یہ احساسِ بے بسی بجائے خود جرم نہیں ہے؟ یقیناً یہ مایوسی جرمِ عظیم ہے۔
ہم شیطان اور اس کے کارندوں کے جال میں اپنی خوشی اور رضامندی سے عرصہٴ دراز سے پھنستے چلے جا رہے ہیں۔ یہودیوں کا معاشی مقاطعہ کرتے ہوئے اب ہم حیران و پریشان ہیں کہ کوالٹی کی ساری چیزیں ہمارے دشمن کی بنائی ہوئی ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ سر سے لے کر پائوں تک ہمیں زنجیروں میں جکڑ دیا گیا ہے… یقیناً ہم سب فلسطین میں قتل و غارت کے براہ راست ذمہ دار ہیں مگر بے حسی کی چادر تان کر آنکھیں موندے امام مہدی کے منتظر ہیں۔
کچھ طفل تسلیاں یہ ہیں کہ حکومت کے کرنے کے کام عوام الناس کیسے کریں؟
اسی بات کا تو رونا ہے کہ عوام کو ان عوامل کا ادراک نہیں کہ وہ خود ہی اپنے سر پہ ظلم کی تلواریں لٹکاتے ہیں اور اپنے حقوق سے نابلد رہتے ہیں۔ سچی بات ہے ہر طرف آوے کا آوا ہی بگڑا ہؤا ہے۔ انفرادی طور پہ نفس پرستی کا دور دورہ ہے اور یہی نفس پرستی اپنے جیسے حکمرانوں کو منتخب کرواتی ہے۔ ہم اپنے ملک کے حوالے سے سوچیں کہ کیا واقعی سارے پاکستانی جانتے ہیں کہ حکمران دراصل ان کے اپنے اعمال کا نتیجہ ہیں۔ بے شک آٹے میں نمک برابر لوگ مل جائیں گے جو اس صورتحال کو سمجھتے ہوں گے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ چٹکی بھر نمک آٹے میں اپنی حیثیت منوا کر رہتا ہے۔
آج صرف انہی لوگوں سے امید رکھی جا سکتی ہے جو اپنی قلیل تعداد کے باوجود دور سے پہچانے جاتے ہیں۔ ان ہی لوگوں کی ذمہ داری بڑھ گئی ہے، وہ زندگی کے جس شعبے میں بھی ہوں اپنا آپ منوا کر رہیں گے۔
معرکہ غزہ آج کے دور میں امت مسلمہ کے لیے مثال بنایا گیا ہے۔
یہ معرکۂ حق و باطل ختم ہونے والا نہیں ہے، فلسطین کے مسلمان ہمسائے اس آگ سے بے نیاز بیٹھے ہیں تو پھر آگ ان تک بھی پہنچے گی اور پھر یہ سلسلہ رکنے والا نہیں۔ جس ملک میں مسلمان غفلت کی نیند سوئے ہوئے ہوں گے وہاں تو سنبھلنے کا موقع ہی نہیں ملنے والا۔
تقدیر کے قاضی کایہ فتویٰ ہے ازل سے
ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات
جرم ضعیفی سے توبہ کا ابھی وقت ہے، کون جانے یہ مہلت کب ختم ہو جائے۔
اس وقت آپ اور ہم ہی زمین کا نمک ہیں اور ہم نے ہی اپنی کاوشوں، حوصلہ و ہمت، تگ و دو، خلوص اور استقامت میں نئی جان ڈالنی ہے۔ نامساعد حالات میں ہم نے ہی قیادت کا پرچم اٹھانا ہے، ہم نے ہی سعید روح بننا اور نسلِ نو کو سعید روحیں بننے کا شعور دینا ہے۔ اور یہ بات دل میں جاگزیں ہونی چاہیے کہ یہ کام ہم نے آج پوری تن دہی سے نہ کیا تو اللہ رب العالمین ہماری جگہ کسی اور کو اس کام کے لیے چن لے گا پھر پشیمان ہونے کا کوئی فائدہ نہ ہوگا۔
والدین اور اساتذہ پہلے خود مایوسی، بے دلی، سستی و کاہلی اور تن آسانی سے جان چھڑائیں۔ اللہ تعالیٰ کے حضور سچے دل سے اپنی کوتاہیو ں کو تسلیم کریں اور رجوع الی اللہ کے پانی سے دل کو صاف کریں۔ توبہ کریں، پاک دل میں نئے سرے سے خلوصِ نیت کا بیج بوئیں اور منظم و مربوط لائحہ عمل سے زندگی کی ابتدا کریں۔ جب تک والدین اور اساتذہ اپنے قول وعمل سے مثال نہیں بنتے نسلِ نو کی مٹی زرخیز نہیں ہو سکتی۔
والدین اور اساتذہ نے ہی قوم کی باگ ڈور سنبھالنے والے ہاتھ تیار کرنے ہیں۔ پون صدی سے پاکستانی قوم کو امتِ مسلمہ کی مضبوط کڑی سے جدا کرنے کی اندرونی و بیرونی سازشیں مکمل طور پہ کامیاب نہیں ہو سکیں…. الحمد للّہ کہ ابھی دلوں میں ایمان و اخوت کی چنگاری موجود ہے اور آپ اور ہم ٹوٹے ہوئے تارے کو مہ کامل بنانے کے ذمہ دار بنائے گئے ہیں۔
یہ کام اس وقت آسان ہوگا جب ہمارا قلب و ذہن ہمہ وقت اللہ رب العزت سے استعانت کا طلب گار رہے گا۔ وہ ذات ذرے کو آفتاب بنانے کی مکمل قدرت رکھتی ہے، یقین رکھیے اس قول پہ کہ’’آپ اور اللہ تعالیٰ مل کر دنیا کا ہر ناممکن کام کر سکتے ہیں‘‘۔
آپ اکیلے کچھ نہیں کر سکتے اور اللہ تعالیٰ نے دنیا کی قیادت کا کام آپ سے ہی لینا ہے۔ جب آپ مطلوبہ فکر و عمل کے معیار پہ پہنچ جاتے ہیں تو فرشتے آپ کی کمزور سی نفری میں اضافہ کرنے کو اتارے جاتے ہیں۔ فرشتوں کا انتظار اسی وقت زیب دیتا ہے جب سارے زمینی وسائل استعمال کر لیے گئے ہوں۔
ہم اپنے ملک میں موجود رہ کر بھی آفاقی کام کر سکتے ہیں امتِ مسلمہ کو جسد واحد بنانے کے خواب کی تعبیر پاکستانی قوم کے ذریعے ہو سکتی ہے، ہم پاکستانی یہ بات اپنے آپ کو باور کروا لیں اور اپنے اپنے گھر اور تعلیمی اداروں میں نصاب اور نصب العین بنا لیں تو امت مسلمہ کی نشاۃ ثانیہ ممکن ہے اور ہماری زندگی کی گاڑی صحیح پٹڑی پہ چڑھ سکتی ہے۔ یقین کیجیے ہر بڑے کام کی ابتدا حیرتوں کا سامنا کرنے سے ہی ہوتی ہے۔ اور کام کی لگن ایسی ہو جائے کہ دنیا مجنوں اور دیوانہ کہنے لگے تو کامیابی کا چراغ گل نہیں کیا جا سکتا۔
آج آپ زمین زرخیز کیجیے زندگی مہلت نہ دے تو زرخیز زمین میں بیج آپ کے اور ہمارے ساتھی ڈال دیں گے۔ بنیادیں شروع کیجیے عمارت بعد والے تعمیر کر دیں گے۔ آپ اور ہم بیج بونے اور بنیادیں کھودنے والے بنیں گے تو سابقون الاولون کے ساتھ ہمارا مقام ہو سکتا ہے۔ ان شاء اللہ۔
معرکۂ غزہ ہو یا دنیا کے کسی کونے میں زخمی ہمارے جسد کا کوئی بھی حصہ ہم نے اس کا مداوا کرنے کا تہیہ کرنا ہے۔ آپ سوچ رہے ہوں گے پاکستانی قوم جس آکٹوپس میں جکڑی ہوئی ہے اور جس دلدل میں پھنسی ہوئی ہے وہ امتِ مسلمہ کے زخموں کے لیے مرہم کیسے بن سکتی ہے؟ یہی سوچ تو ہمیں مایوسی کے اندھیرے میں دھکیل دیتی ہے اندھیرا جس قدر زیادہ ہوتا ہے امید کی ننھی سی کرن بھی روشنی کر سکتی ہے اور راکھ میں چھپی چنگاری بھی انقلاب لا سکتی ہے۔ ہم نے منفی سوچوں سے چھٹکارا پانا ہے اور جو سرمایہ بچا ہے اسے نفع بخش بنانا ہے۔
حکومتِ پاکستان کے کارپردازان نے امتِ مسلمہ کے حوالے سے اپنی ذمہ داری سے عملاً انکار کیا ہے بلکہ یہ کہنا مناسب ہے کہ اس نے اپنے ملک کے باسیوں کو بھی غیروں کے رحم و کرم پہ چھوڑ دیا ہے۔ کیا اس صورتحال میں ہماری ذمہ داری بڑھ نہیں جاتی؟
قوم کو جتنی مدت پستیوں میں گرنے کے لیے لگتی ہے اس سے زیادہ مدت بلندیوں پہ پہنچنے کے لیے درکار ہوتی ہے، پستی میں گرنا صرف کردار کے جھول سے ممکن ہے اور کردار کی مضبوطی ثابت کرنا ایک مسلسل عمل ہے۔ پاکستان میں سیاسی جماعتوں اور ان کے کارکنان کے پیروں کی لغزش اس بات کی دلیل ہے۔
آپ اور ہم اگر اپنے نیک ارادوں میں مضبوط قدموں پہ کھڑے ہیں تو ہم فلسطین کے جہاد میں شامل ہیں۔ مالی اور اخلاقی تعاون کے ساتھ ساتھ ہم انتخابات کے ذریعے مخلص ایماندار قیادت کو آگے لانے کے لیے مضبوط قدموں سے میدان میں ڈٹے ہوئے ہیں تو دراصل یہ مستقبل میں امتِ مسلمہ کو جسد واحد ہونے کا احساس زندہ کرنے کا عملی قدم ہے۔ ایک معمولی نظر آنے والا ننھا سا بیج کبھی تناور، ثمردار، سایہ دار شجر بن ہی جاتا ہے۔ آئیے اپنے آپ کو اللہ کے رنگ میں رنگ لیں اور اک نئی جہت سے اپنی صلاحیتوں کو اسی رب کے نام وقف کرنے کا جذبہ پیدا کر لیں۔ دل کے ستارے کو ایمان کی روشنی سے جگمگائیں اور کہکشاں بن جائیں۔
واللہ المستعان۔
٭٭٭

ہم ایسی تحریریں شائع نہیںکرتے!
٭…جن میںآیات، احادیث اور اقوال کے حوالے موجود نہیں ہوتے۔
٭…جن کامواد ہمارے کالموں کے مطابق نہیں ہوتا۔
٭…جن میں املا اور گرائمر غلط ہوتی ہے۔
٭…جن کی لکھائی پھیکی، خراب اور شکستہ ہوتی ہے۔
٭…جو صفحے کے دونوں جانب لکھی گئی ہوتی ہیں۔
٭…جوہمارے کالم کی مطلوبہ طوالت سے زیادہ ہوتی ہیں۔
٭…شاعری ہے تو شعری پیمانوں کے مطابق نہیں ہوتی۔
٭…لکھنے والے کا اصل نام، مکمل پتہ اور فون نمبر موجود نہیں ہوتا۔

’بتول‘‘آپ کا اپنا رسالہ ہے۔ اس کا معیار
برقرار رکھنے میں ہمارے ساتھ تعاون کیجیے۔

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
1 1 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x