ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

قدرتی اجزاء سے خوبصورتی حاصل کریں – بتول جولائی۲۰۲۲

ہم یہ بات تو اچھی طرح جانتے ہیں کہ پرانے وقتوںہی سے ہماری خواتین اپنی جلد اور بالوں کی دیکھ بھال کے لیے ’’ فطرت ‘‘ کی فیاضی سے فائدہ اٹھاتی رہی ہیں۔ یہ پرانے نسخے اور ٹوٹکے نباتاتی ورثے کی حیثیت سے نہ صرف وقت کی آزمائش پر پورے اترتے ہیں بلکہ مصنوعی اور کیمیائی پروڈکٹس کے نقصان دہ اثرات کا تدارک کرنے کے لیے بھی مفید ثابت ہوئے ہیں۔
جدید کریموں میں ہلدی کا استعمال قدیم جراثیم کش علاج اور جلد کو نرم بنانے کے طریقہ کار پر مبنی ہے۔ ہلدی کو کریموں میں ملا کر ابٹن کے طور پر غسل سے پہلے جلد پر لگانے سے یہ ملائم، گداز اور اچھی صاف وشفاف ہو جاتی ہے۔ اس کے استعمال سے جلد پہ ایک ایسی حفاظتی تہہ بن جاتی ہے جو صابن کے استعمال سے پیدا ہونے والی خشکی کے ا ثرات کو روک دیتی ہے۔
عورتیں اس مرکب کو جلد کے بال اتارنے کے دھیمے اور غیر تکلیف دہ عمل کے لیے استعمال کرتی تھیں۔ ہلدی کا ابٹن لگانے کی روایت اب بھی دلہن کی تیاری کے سلسلے میں موجود ہے۔
شہد ایک طاقتور قدرتی مائسچرائزر ہے۔ یہ جلد کی نمی کے نقصان کو روکتا ہے اور خود ضروری نمی مہیا کرتا ہے ۔ شہد کو خوبانی کے ساتھ ملا کر کریم یا پیک کی صورت میں استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ پیل آف پیک (خشک ہونے پر چھلکے اتر جانے والا پیک) ہے جو جلد کو صحت مند چمک دیتا ہے۔ کھلے مساموں کو سکیڑتا ہے اور چہرے کے بالوں کا خاتمہ کرتا ہے۔ خوبانی اور شہد دونوں ہی جلد پر انتہائی مفید اثرات مرتب کرتے ہیں۔ چنانچہ جلد ملائم اور چمکدار ہو جاتی ہے۔ مغرب میں ایک جنگلی پودینہ (تھائم) بہت مقبول ہے۔ اس کی تاثیر جراثیم کش ہے اور ایکنی کے علاج میں استعمال ہوتی ہے۔ عرق گلاب کے استعمال سے جلد کے مسام سکڑ جاتے ہیں اور جلدجواں سال نظر آتی ہے۔ اس کے باقاعدہ اور مسلسل استعمال سے جلد پہ بڑھاپے کے اثرات سست ہو جاتے ہیں۔
بید شک (LEMOM GRASS) کا شفا بخش استعمال بہت وسیع ہے اسے کھلے مساموں اور پھنسیوں (کیلوں ) کے علاج کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اسی طرح لیونڈر اور یاسمین کا استعمال قدیم زمانہ سے رائج رہا ہے۔
بیسن (چنے کا آٹا) اور گندم کی بھوسی آج بھی جلد کی صفائی کے لیے خواتین استعمال کرتی ہیں۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ صابن اور پانی سے جلد کو دھونے سے جلد پر بڑھاپے کے اثرات تیز تر ہو جاتے ہیں کیونکہ صابن کے استعمال سے قدرتی چکنائی ضائع ہو جاتی ہے اور جلد کا حفاظتی مینٹل اتر جاتا ہے۔
خواتین اپنی جلد کی صفائی اور رعنائی کے لیے بیسن یا گندم کی بھوسی کو دودھ میں ملا کر استعمال کرتی آئی ہیں اور یہ موثر بیوٹی ایڈ (معاون حسن) ثابت ہوتا ہے۔ گندم کی بھوسی انتہائی نرمی اور ملائمت سے جلد کا کھردرا پن دور کرتی ہے۔ جلد کے بیرونی مردہ خلیوں کو اتارتی ہے اور اسے صاف اور چمکدار بنا دیتی ہے۔
بالوں کی خوبصورتی کا راز سکا کائی اور ریٹھے سے دھونے میں پوشیدہ ہے۔ یہ دونوں نباتات قدرتی مصٰفی ہیں اور ہر قسم کے شیمپو میں پائے جانے والے مصز اثرات سے پاک ہیں۔ آملہ میں بالوں کو سیاہ کرنے والے قدرتی اجزا پائے جاتے ہیں۔ متعدد ہربل ہیئر آئل اسی سے بنائے جاتے ہیں۔
مہندی سے بالوں کا علاج ایک تاریخی حقیقت ہے۔ مغرب میں تو اب حنا شیمپو اور حنا ہیئر کنڈیشز استعمال میں آنا شروع ہوگئے ہیں جب کہ مشرق اس کے مفید اور شفا بخش استعمال سے صدیوں سے آگاہ ہے۔ برصغیر میں سفید بالوں کو بتدریج براؤن کلر میں لانے کے لیے مہندی کا استعمال انتہائی قدیم ہے۔
پسی ہوئی مہندی کو دہی، انڈے اور لیموں کے رس میں ملا کر بالوں میں لگایا جائے تو یہ گرتے ہوئے بالوں کو روک دیتی ہے، جزوی گنجے پن کو دور کرتی ہے اور بالوں کی نشوونما کو تیز تر کر تی ہے۔ اس کے استعمال سے نئے بال اگنے لگتے ہیں۔ مہندی خشکی سکری دور کرنے کا بھی مؤثر ترین ذریعہ ہے۔
عورتیں چائے کی پتی کے ساتھ ابالے ہوئے پانی کو چھان کر اور اس پانی میں لیموں کا رس ڈال کر بالوں کو چمکدار اور جاذب نظر بنانے کے طریقہ کار سے بھی آگاہ ہیں۔ اس سے کمزور بال طاقتور ہو جاتے ہیں۔
کچن کی بہت سی اشیاء ایسی ہیں جنہیں بیوٹی ایڈز کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے۔
دودھ کا استعمال بھی بالوں کے لیے بہت مفید ہے۔ اسے سر اور بالوں پہ لگانے سے بالوں کی نشوونما میں اضافہ ہوتا ہے۔ خصوصاً خشک، کمزور اور جھڑنے والے بالوں کی صحت دودھ کے بیرونی استعمال سے بحال ہو جاتی ہے۔ یہ ایک مکمل قدرتی علاج ہے۔
بالوں کو شیمپو کرنے سے پہلے ان پر ایک انڈہ پھینٹ کر لگایا جائے تو یہ انہیں صحت مند اور مضبوط بناتا ہے۔ انڈہ لگانے کے آدھے گھنٹے بعد بال خوب اچھی طرح دھوئیں اس طرح یہ خوب چمک دار، صاف اور صحت مند نظر آئیں گے۔ انڈے کو چہرے پر بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ انڈے کی زردی میں وٹامنز اور پروٹین پائی جاتی ہیں جب کہ سفیدی بافتوں کی تعمیر اور جلد کا صحت مند تناؤ پیدا کرتی ہے۔
سبزیاں اور پھل معاون حسن اجزاء کے گودام ہوتے ہیں۔ اگر آپ چہرے پر کچے آلو کے قتلے یا کچے آلو کو دو حصوں میں کاٹ کر نرمی سے رگڑیں تو ان میں موجود وٹامن سی جلد کو کنڈیشن کرنے میں مدد دیتی ہے۔ کچے آلو آنکھوں کے ارد گرد پائی جانے والی جلد کے لیے تو بہت مفید ہیں۔ ان سے آنکھوں کے نچلے حصہ کی سوجن نما پھولی ہوئی جلد نارمل ہو جاتی ہے ، آنکھیں شفاف اور چمکدار ہو جاتی ہیں۔ کھیرے کا جوس بھی آنکھوں کے حلقوں کے لیے مفید ہے۔ سیاہ حلقے تو خاص طور پر کھیرے کے استعمال سے تحلیل ہو جاتے ہیں۔
روئی کے چھوٹے چھوٹے پیڈ کھیرے کے جوس میں بھگو کر آئی پیڈ کی طرح استعمال کیے جاتے ہیں۔ چہرے کے اس نازک اور حساس حصہ کے لیے سب سے زیادہ سود مند نسخہ بادام اور لینولین کا مرکب ہے۔ یہ دونوں چیزیں کریم کی صورت میں آنکھوں کے زیریں حصہ کے لیے شافی علاج ہے۔ اس کریم کے استعمال سے چھائیاں اور سیاہ حلقے ختم ہو جاتے ہیں۔
ہماری نانیاں، دادیاں اپنی آنکھوں کو روشن اور چمکدار بنانے کے لیے چائے کا پانی (قہوہ) استعمال کی کرتی تھیں۔ ماڈرن خواتین اس مقصد کے لیے ٹی بیگ کو آئی پیڈ کی حیثیت سے استعمال کرتی ہیں۔
اب تو سبھی لوگ جانتے ہیں کہ لیموں، وٹامن سی کا خزانہ ہوتا ہے اور ہم زکام سے بچنے کے لیے لیموں کا استعمال گاہے بگاہے کرتے رہتے ہیں۔ گرمیوں میں پیاس کی شدت کو دور کرنے کے لیے تو لیموں کا استعمال ہمیشہ سے ایک عام بات رہی ہے۔ کھانوں کی لذت بڑھانے کے لیے لیموں ہمارے باورچی خانوں کی روز مرہ کی ضرورت ہے۔ لیکن کیا آپ کو معلوم ہے کہ لیموں کے فائدے اس استعمال سے بڑھ کر بھی حاصل کیے جا سکتے ہیں اور یہ فائدے بیوٹی ایڈ اور صحت وتندرستی کے حوالے سے ہیں۔
لیموں انفیکشن سے تحفظ کے لیے جسم میں قوت مدافعت بڑھاتا ہے۔ اس میں طاقتور اینٹی بکٹیریا اثرات پائے جاتے ہیں۔ لیموں میں موجود معدنی نمک، کیلشیم اور آئرن کے اجزاء اسے قدرت کا بہترین عطیہ بناتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسے سلاد کا لازمی جزو بنایا جاتا ہے ۔ لیموں کا استعمال وزن کم کرنے کے لیے بہت مفید ہے۔
معدے اور انتڑیوں کی تمام خرابیوں میں سرکہ کی بجائے لیموں کا استعمال بہتر رہتا ہے۔ جو لوگ ذہنی دباؤ اور اعصابی تناؤ کے شکار رہتے ہیں ان کے لیے لیموں نہایت مفید ہے۔ دانتوں کے ڈاکٹر بھی سرکہ استعمال کرنے سے گریز کا مشورہ دیتے ہیں۔ کیونکہ یہ دانتوں کے لیے بہت نقصان دہ ہوتا ہے۔ یہ نظام ہضم اور منہ کی بلغمی جھلیوں کو مشتعل کر دیتا ہے۔
لیموں، خون کی گردش کو بڑھاتا ہے۔ شریانوں پہ دباؤ کو کم کرتا ہے، صفراء کو تحریک دیتا ہے، انتڑیوں کی رطوبتوں کے ضروری اخراج میں اضافہ کرتا ہے اور عمومی صحت بڑھاتا ہے۔اپنے دن کا آغاز لیمن جوس کے ساتھ کریں۔ صبح کا بہترین مشروب ایک گلاس نیم گرم پانی میں آدھا لیموں اور ایک مالٹے کا رس نچوڑ کر پینا ہے۔ اسے شیریں بنانے کے لیے شہد شامل کر لینا سود مند بنا دیتا ہے۔ یہ مشروب نہار منہ چائے پینے کے مصز اثرات کو دور کرنے کے ساتھ ساتھ پیٹ صاف کر کے قبض سے بھی نجات دیتا ہے۔
صبح کے وقت گرم پانی میں صرف لیموں نچوڑ کر پینا بھی اچھا آغاز ہے۔ اس سے جلد چمکدار، مسوڑھے صحت مند، زکام سے تحفظ اور آنکھوں کی چمک کے فوائد حاصل ہوتے ہیں۔
انتڑیوں کی ناقص کاکردگی دور کرنے کے لیے گرم پانی میں لیموں کا جوس آزمائیں لیکن اس میں تھوڑا سا خشک آلو بخا را اور کچھ دانے کشمش ڈال لیں۔ رات بھر انہیں پانی میں بھگوئے رکھیں اور اگلی صبح نہار منہ یہ پانی پئیں۔
جو لوگ اپنے وزن پہ کڑی نظر رکھتے ہیں اور جو لوگ وزن کم کرنے کے پروگرام پر عملداآمد کر رہے ہوں ان کے لیے لیموں نہایت عمدہ چیز ہے۔ اس میں معاون حسن خوبیاں بھی ہیں، چونکہ یہ جلد کو صاف کرتا ہے اس لیے یہ اُن افراد کو ضرور استعمال کرنا چاہئے جن کی جلد پہ داغ دھبے ہیں۔
مہندی کے کرشمے
کیمیائی رنگوں کے استعمال سے طویل عرصہ پہلے بالوں، ہاتھوں اور ناخنوں کو پودوں سے حاصل ہونے والے رنگوں سے رنگا جاتا تھا۔ ان نباتاتی رنگوں میں سب سے زیادہ معروف اور مقبول مہندی رہی ہے۔
ہمارے قدیم آباؤ اجداد کے پاس آج کل کی طرح بیوٹی ایڈز تیار شدہ صورت میں میسر آنے کی سہولت نہیں تھی۔ چنانچہ انہیں پیسنے اور ملانے کے عمل سے گزرنا پڑتا تھا۔ اس کاایک فائدہ بہر حال انہیں تھا کہ وہ کیمیائی اور سنتھیٹک مادوں سے پوری طرح محفوظ تھے۔ کیمیکلز کے برے اثرات ان سے دور تھے اور انہیں قدرتی نباتات آرائش حسن میں مدد دیتی تھیں۔
مہندی کے استعمال کا سراغ قدیم مصر کے آثار میں بھی ملتا ہے۔ اسے پرانے وقتوں سے مشرق وسطیٰ اور ہندوستان میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ مہندی کو پرانے وقتوں میں ٹھنڈک مہیا کرنے کا ذریعہ بنایا جاتا تھا کیونکہ اس کی تاثیر یہ بھی ہے ۔ مہندی کے پتوں کا پیسٹ بخار کی حدت میں کم کرنے کے لیے جسم کے مختلف حصوںپر لگایا جاتا تھا۔ اسی طرح گرم موسم کی شدت اور لو کے اثرات زائل کرنے کے لیے بھی اسے زیر استعمال لاتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ منطقہ حارہ کے ملکوں میں مہندی کا استعمال وسیع پیمانے پر نظر آتا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ مہندی ، بیوٹی ایڈ میں شامل ہو گئی۔ ہاتھوں اور پاؤں پہ اس کے انتہائی پیچیدہ مگر خوبصورت نقش ونگار بناتے جاتے ہیں۔ شادی بیاہ کے موقع پر مہندی کا یہ استعمال ایک روایت بن چکا ہے۔ مصر میںبھی عورتیں اپنے ناخن رنگنے اور انہیں خوبصورت بنانے کے لیے اسے استعمال کرتی ہیں۔
مہندی کے استعمال کا بہترین فائدہ بالوں کے علاج کی صورت میں نظر آتا ہے۔ بالوں کے لیے مہندی کے فوائد تو جیسے ان گنت ہیں۔ تحفظ کے علاوہ جو خوبی اسے بالوں کے کیمیائی رنگوں سے ممتاز کرتی ہے وہ یہ ہے کہ مہندی زبردست قسم کی ہیئر کنڈیشنر ہے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ کیمیائی رنگ بالوں کوبہت نقصان پہنچاتے ہیں جبکہ مہندی حفاظت کرتی ہے۔ مہندی میں یہ صلاحیت پائی جاتی ہے کہ وہ بالوں پہ ایک حفاظتی تہہ چڑھا دیتی ہے۔ چنانچہ ایک ایک بال مضبوط اور توانا ہو جاتا ہے۔
مہندی کا لیپ خوبصورتی میں بھی اضافہ کرتا ہے۔ اس کے استعمال سے بال لچک دار، چمک دار اور خوبصورت ہو جاتے ہیں اور انہیں بنانا سنوارنا آسان ہو جاتا ہے۔ مہندی مؤثر کلینزر بھی ہے اور اس کی یہ تاثیر بالوں اور سر کی جلد دونوں کے لیے ہے۔ ڈیٹر جنٹ کی طرح سر کی جلد کو نقصان نہیں پہنچاتی۔ سر کی جلد میں چکنائی اور رطوبت کا توازن بالوں کی صحت مندی کے لیے بہت ضروری ہوتا ہے۔ مہندی کے پیسٹ میں لیموں کارس، انڈہ اور دہی ملا کر بالوں میں لگانا بالوں کو صاف اور کنڈیشن کرنے والا غالباً سب سے بہتر لیپ ہے۔ اس لیپ کا باقاعدہ استعمال سر کی جلد کو صحت مند اور بالوں کو نشوونما کو خوب تر بناتا ہے۔
مہندی کا فوری اور واضح طور پر نظر آنے والا فائدہ اس کی بالوں کو رنگنے کی صلاحیت ہے۔ ایک سوال جو عام طور پر پوچھا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ کیا مہندی بالوں کا رنگ سرخ نہ کر دے گی۔ چونکہ مہندی کے پتے سرخ رنگ پیدا کرتے ہیں اس لیے یہ اثر بلا شبہ سفید یعنی بے رنگ بالوں پہ ضرور ہوتا ہے۔ لیکن رنگدار بالوں پہ چاہے یہ کالے یا براؤن ہوں کوئی اثر نہیں ہوتا۔ کالے بال تو بہر حال کبھی بھی سرخ نہیں ہوتے البتہ مہندی کے اثر سے خوبصورت تانبے کی رنگت اختیار کر لیتے ہیں۔ اور ان میں چمک اور تب وتاب آ جاتی ہے۔
مہندی لگانے کا طریقہ مطلوبہ اثرات کے مطابق ہونا چاہیے۔ اگر اسے بالوں کو رنگنے کے مقصد کے لیے لگایا جانا ہے تو مہندی کے پیسٹ میں کافی شامل کر لیں تا کہ اس کارنگ گہرا بھورا ہو جائے۔ اس پیسٹ کو اس وقت تک بالوں پہ لگا رہنے دیں جب تک یہ سفید نہ ہو جائے اور پھر اسے دھو ڈالیں۔
مہندی کا استعمال بالوں کو سفیدہونے سے بچانے کے لیے کیا جاتا ہے۔ لیکن اگر بال پہلے ہی سفید ہو چکے ہوں تو پھر یہ انہیں دوبارہ قدرتی رنگ نہیں دے سکتی۔ اگر سفید بال زیادہ نہ ہوں تو مہندی کو انتہائی مؤثر طریقے سے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ کم تعداد میں موجود بال بھورے رنگ میں تبدیل ہو کر سیاہ بالوں میں مدغم ہو جاتے ہیں اور مجموعی تاثر خوبصورت ہو جاتا ہے۔
٭…٭…٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x