ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ہٹلر-بتول جنوری ۲۰۲۱

چلتی ہوئی بس میں ’’ اینی فرینک‘‘ کی ڈائری کو پڑھتے ہوئے نہ جانے کب میری توجہ پوری طرح بس کی کھڑکی کی طرف مبذول ہو چکی تھی…بس کی رفتار اس کے شیشوں کو جھانجر کی طرح بجا رہی تھی ۔ اس بے ہودہ آواز نے مجھے کتاب سے اچاٹ کیا تھا یا شیشے کے کھسکنے سے باہر سے آنے والی تیز یخ بستہ ہوا نے ، جس میں تلوارکے دھار جیسی کاٹ یا شاید بار بار ہاتھ اٹھا کر اس شیشے کو بند کرنے کی کوشش … مجھے زیادہ اذیت دے رہی تھی ۔ میں یہ سمجھنے سے قاصر تھی۔
موبائل کے میسج ٹیون کی مدھم آواز مسلسل جاری تھی جس کی طرف سے میں لاپرواہ تھی۔ شاید اس لیے کہ گود میں رکھی’’ اینی فرینک‘‘ کی ڈائری اب بھی میرے دماغ پر حاوی تھی بلکہ میں اس ڈائری کے راوی کے مردہ جسم میں حلول کر کے … نیدر لینڈ کے 1942ء سے 1945 ء کی زندگی کو جی رہی تھی ۔ میں ہٹلر کے زمانے کی دنیا کے ایک گمنام محبق خانے میں ایک بیمار پندرہ سالہ لڑکی کی اذیت جھیل رہی تھی مگراس بیکار سی بس نے مجھے ایک نئی اذیت میں مبتلا کر کے واپس اکیسویں صدی کی آزادی ، خود مختاری ، معاشی بہتری اور بے فکری کے دور میں کھینچ لیا تھا ۔ اس سے پہلے کہ میں پوری طرح چوکس ہوتی بس ایک جھٹکے سے رک گئی۔
’’ کیا ہؤا‘‘۔ بس کے اندر ایک سراسمیگی در آئی۔
’’ ٹریفک جام ہے کیا ؟‘‘
’’ نہیں کوی ریلی لگتی ہے …‘‘ ایک آواز آئی۔
کچھ گاڑیاں تھوڑے تھوڑے وقفے سے لوگوں سے بھری ہوئی گزر رہی تھیں ، ہلٹر مچاتے ہوئے لوگ نہ جانے کس گمان میں تھے۔
’’ اس طرح کب تک رکیں گے ؟‘‘ کسی نے بے چین ہو کر سوال کیا۔
’’ آگے نکلنے کا راستہ نہیں ہوگا ابھی تو بہت بڑی بھیڑ اسی طرف آ رہی ہے ۔ دیکھیے پرائیویٹ کار والے کیسے اپنی گاڑیاں موڑ موڑ کر واپس بھاگ رہے ہیں‘‘۔
’’ حد ہے ، بھاگ کیوں رہے ہیں ؟ ریلی ہے گزر جائے گی ‘‘۔ ایک آدمی نے کندھے اچکائے ۔
’’ آپ نہیں جانتے … ؟‘‘ جواب میں دوسرا طنزیہ مسکرایہ۔
اس طرح کے پبلک ٹرانسپورٹ کا یہ فائد تو ہے کہ چاہے نچا ہے سارے سوال اور جواب کانوں میں پڑ کر آپ کو حالات حاضرہ سے با خبر کر دیتے ہیں۔
ایک شور کی آواز قریب آتی جا رہی تھی۔
کچھ لوگ بے چین ہوئے تو کھڑکی کھول کر اور سر باہر نکال کر قریب آتے شور کودیکھنے اور سمجھنے کی کوشش کرنے لگے ۔ میں نے بھی کوشش کی۔
’’ ہلٹر اور بد تمیزی کا اندازہ کر کے کسی نے مشور ہ دیا ۔
’’ بس کنارے اتار لو ۔ بھیڑ کا کیا بھروسہ‘‘۔
’’ ہاں ریلی نکل جانے دو ‘‘۔ کئی لوگوں نے تائید کی۔
’’ کیا مصیبت ہے؟ میرا ایک ٹیسٹ ہے آج ۔چھوٹ نہ جائے ، سائیڈ سے دھیرے دھیرے بڑھو ‘‘۔
’’ گائوں کی پتلی سی سڑک ہے اور کیا آپ لوگ دیکھ نہیں رہے سامنے کا ہجوم ، کدھر سے نکل سکتے ہیں ؟‘‘ یہ کنڈیکٹر تھا جو اس لڑکے کو جواب دے رہا تھا ۔
’’آج ٹائم پر نہ پہنچے تو منڈی بند ہو جائے گی ، مہاجن سے حساب کرنا تھا ‘‘۔ ایک غریب کسان نے بے چین ہو کر پہلو بدلا۔
سب کے اپنے اپنے غم تھے ۔ سکون اور سہولت سے جینے کی خواہش رکھنے والے محنتی لوگ ۔ اپنی زندگی کو پٹڑی پر رکھنے کی جدوجہد میں اپنی ذات اور زندگی سے پرے دیکھنا ہی بھول گئے تھے یا حالات انہیں اس کی اجازت ہی نہیں دیتے تھے ۔ اس بس میں بیٹھے سارے لوگ اپنے خوابوں سے صرف ایک فرلانگ کی دوری پر رہتے تھے اور یہ مان بیٹھے تھے کہ اپنی ذات کی حد تک کی گئی ان کی فکر سے سارے مسائل دور ہ جائیں گے ۔ کوئی طالب علم امتحانات میں کامیابی حاصل کر کے بے روز گاری کے گڑھے سے ایک جست میں باہر نکلنا چاہتا تھا ۔ کوئی کسان بینک سے قرض لینے کی امید باندھ کر اچھی فصل کے خواب پال رہا تھا ۔ کوئی بچہ ماں باپ کی محفوظ پناہ سے نکل کر ہوسٹل جا رہا تھا ۔ کسی عورت نے مردوں کے شانہ بشانہ کام کر کے زندگی کو پرآسائش بنانے کا رنگ آنکھوں میں سنجور رکھا تھا ۔ ان کے لیے اتنا ہی کافی تھا کہ وہ ایک آزاد جمہوریت کا حصہ ہیں اور وہ زمانے کی ساری ہلچل کو خود سے مناسب دوری پر رکھنے کے قائل اور عادی تھے مگر زندگی کی او بڑکھا بڑ سڑک پر دھچکے کھاتی ہوئی دوڑنے والی ان کی بس رکی تو وہ سب جھنجھلا اٹھے۔ انہیں اس بات سے زیادہ کوئی فکر اور کوئی تکلیف نہیں تھی کہ ان کا سفر جسے وہ جاری رکھنا چاہتے تھے ، ٹھہر گیا تھا۔نعروں کی تیز آواز قریب تر ہوتی جا رہی تھی ۔ کوئی سیاسی ریلی ہی تھی …
’’ بس کنارے اتار لینا ہی ٹھیک ہے ‘‘۔ ڈرائیور نے کہا اور بس سڑک سے ہٹا کر نیچے کچی زمین میں اتار کر کھڑی کردی ۔ اس کے آگے پیچھے چند اور سواریا ں، گاڑیاں اور بوریوں سے لدی ایک ٹریکٹر ٹرالی بھی سڑک چھوڑ دینے میں اپنی عافیت سمجھ کر کنارے ہو گئیں ۔ اب سڑک یکطرفہ ٹریفک کے لیے صاف تھی جس سے گزرتے ہوئے ٹریفک میں ، بس ، ٹرک ، کار ، جیپ یہاں تک کہ موٹر سائیکل اور سائیکل بھی ، غرض ہر طرح کی گاڑیاں اور اس میں بھرے ہوئے انسان ، جن کی جیبوں کی طرح ان کے دماغ بھی خالی تھے ، بھیڑ بکریوں کی طرح لدے ہوئے تھے۔ وہ لوگ اسی آزادجمہوریت کا حصہ ہوتے ہوئے بھی ذرا دوسری طرح کے لوگ تھے ۔ ملک میں ان کاحصہ مردم شماری کی حدتک تھا ورنہ تعلیم ، نوکری ، گھر ، زمین ہر طرح کی سہولت سے محروم ملک کے ان باشندوں کی اہمیت اچانک الیکشن سے پہلے بڑھ جاتی تھی اور اپنی اس اہمیت پر یہ پھولے نہیں سماتے تھے ۔ ان کے خالی دماغ کو ایک خاص مقصد کے تحت ایسے پروگرام کیا جاتا تھا کہ وہ سرکس کے جانور کے مشابہ لگ رہے تھے جنہیں کچھ کرتب دکھانے کے بعد چند نوالے ملنے کی امید ہوتی ہے ۔ گندے فقرے ، نفرت بھرے نعرے،غلیظ قسم کی گالیاں اور ایک ہلٹر مچاتی عوام کی ریلی نہیں ریلا تھا جو گزر رہا تھا اور خاموش تماشیوں کے دلوں میں دہشت پیدا کر رہا تھا ۔ اس میں پاپیادہ بھیڑ کی بھی کوئی کمی نہیں تھی ۔ بس میں ہر عمر ، طبقے اور مذہب کے لوگ جو اپنے اپنے موبائل پر جھکے وقت گزاری کر رہے تھے اور اس مٹھی میں سمٹ آنے والی خندق میں ڈوبے ہوئے اپنے سر پر ننگی تلوار بھی نہیں دیکھ پاتے تھے ، اچانک اس خندق سے باہر جھانکنے پر ذرا سی دیر کے لیے مجبور ہو گئے کیونکہ اچانک گزرنے والی ریلی میں پیدل چلنے والوں کی ایک بھیڑ سڑک سے ہٹ کر بس اور کنارے اتر کر کھڑی گاڑیوں کو گھیر کر کھڑی ہونے لگی ۔بس کے مسافر خوفزدہ ہو کر اپنی اپنی جگہ سمٹ گئے ۔ میرے بغل کی سیٹ پر بیٹھے ایک کرتہ پاجامہ اور سر پر گول سی کروشیا کی بنی ہوئی سفید ٹوپی میں بیٹھا چودہ سال کا لڑکا سہم کر مجھ سے بولا …
’’ یہ لوگ کیا کرنے والے ہیں آنٹی؟‘‘
میں نے اضطراری طور پر اس کے سر سے ٹوپی اتار کر اپنے پرس میں رکھ لی ۔
’’ شی ، کچھ نہیں کریں گے ، ڈرو مت ، چپ بیٹھے رہو ، کیا نام ہے تمہارا ؟‘‘
’’ احمد‘‘۔ اس نے بڑی دھیمی آواز میں کہا۔
’’ آ آ … پ… کا نام ؟ آپ ہندوہیں آنٹی ؟‘‘
اس نے بھرائی ہوئی آواز میں پوچھا ۔ شائد مجھ سے بھی وہ خوفزدہ تھا یا شاید میری ساڑھی دیکھ کر اس نے اندازہ لگانے کی کوشش کی تھی اور اسے محفوظ کر دینے کے میرے اضطراری عمل سے اسے کچھ حوصلہ ملا تھا ۔ شاید اس وقت وہ میری آڑ میں محفوظ ہے کہ نہیں یہ سمجھنا چاہتا تھا۔
’’ اتر سب نیچے اتر…‘‘ کوئی شیشے کے باہر چلایا۔
میں نے احمد کا سر د ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا ۔ نہ جانے یہ اس کا خوف کم کرنے کی کوشش تھی یا میں اپنا ڈر سنبھالنے کا جتن کر رہی تھی ۔ چھوٹے بچوں کو ان کی مائوں نے اپنے آنچل میں چھپا لیا تھا ۔
’’ یہ کیا ہورہا ہے …؟‘‘ بس میں بیٹھے کچھ تعلیم یافتہ نوجوان تیوری چڑھا کر اپنی جگہ سے اٹھنے لگے تو ان کے پاس بیٹھے لوگوں نے انہیں واپس بٹھا دیا ۔’’ چپکے بیٹھے رہو ۔جھگڑا مت کرنا ، بھیڑ پاگل ہوتی ہے‘‘۔
’’ یہ ہمیں اتار کیوں رہے ہیں ‘‘۔ ایک لڑکا غصہ ضبط کرتے ہوئے بولا۔
’’آنٹی … یہ ہمیں کہیں …‘‘
’’ کچھ نہیں ہوگا ، پولیس بھی تو ہو گی اتنی بڑی ریلی کے ساتھ …‘‘ میں نے اسے کچھ بھی بولنے سے روکتے ہوئے تسلی دینے کی کوشش کی مگر خود میرا دل جیسے کنپٹیوں میں دھڑک رہا تھا ۔ اچانک کچھ لفنگے اجڈ اور خود سرلڑکے بس میں چڑھے اور کود کر ڈرائیور کے سر پر پہنچ گئے ۔ نہ جانے اس سے کیا کہا کہ وہ اپنے سامنے لگی بھگوان کی تصویر دکھا کر دہائی دینے لگا ۔ ان بپھرے ہوئے لڑکوںنے اس سے زبردستی بس سٹارٹ کروائی اور اندر مسافروں کی طرف رخ کیا ۔ اس لڑکے کے ہاتھ پر میری گرفت مضبوط ہوئی اور ذہن نے نہ جانے کیا سوچ لیا۔
’’ سب لوگ چپ چاپ گاڑی سے اتر جائو ۔ چوں چوں کرنے کی کوشش کی تو …‘‘
’’ ارے کے کرو ہو بھائے ہم سب تمہارے بھائی بندھو ہیں ‘‘۔ ایک دیہاتی بزرگ بولے ۔
’’ جب ہی تو تائو اترنے کو ہی بول رہے ہیں …چلو اتر لو …‘‘
سب اترنے کے لیے کھڑے ہو گئے ۔ کسی نے اپنے سامان کی طرف ہاتھ بڑھایا ۔
’’ نہ نہ سامان چھوڑ کر اترو چپ چاپ… ‘‘ اس نے تمنچہ لہرایا۔
اس بوڑھے دیہاتی بزرگ نے پھر بھی اپنی گٹھڑی بغل میں دبائی اور اپنی جگہ سے آگے بڑھا۔
’’ ای گٹھڑی میں کاہے تائو … ستو ہے تو چھوڑ جائو ہمارے لیے ‘‘۔ اس نے جارہانہ انداز میں بزرگ کو روکا ۔
’’ نہ نہ بیٹا … ای چھوڑ دو … ہمری جندگی بھر کی پونجی ہے ۔ ہم مر جائیں گے …‘‘
دیہاتی بزر گ اس کی منتیں کر رہا تھا ، میرا دل رقت سے بھر آیا … سب اس بوڑھے کوگڑ گڑاتے دیکھ رہے تھے اور بس سے خاموشی سے اترتے جا رہے تھے ، مسافروں سے بس خالی ہونے لگی … مرد ، عورتیں ، بچے ، بوڑھے ، نوجوان سب ایک پاگل بھیڑ کی زد میں تھے اور اس بپھری ہوئی بے مقصد بھیڑ کی آنکھوں میں سب تہ وتیغ کر دینے کا غرور ایسے بھرا ہؤا تھا کہ ان آنکھوں میں خواب دیکھنے کی جگہ باقی نہ بچی تھی ۔ ان ہی میں سے دو دروازے پر کھڑے غور سے سب اترنے والوں کودیکھ رہے تھے اور کسی کے ہاتھ میںکچھ بھی ہوتا تو اس سے چھین لیتے۔پھر ایک طرف لائن میں کھڑا ہونے کی تاکید بھی کرتے جا رہے تھے ۔ مجھ سے آگے ایک عورت کا پرس اس کے کندھے سے کھینچ لیا، اس کے ساتھ جو بچی تھی ڈر کر رونے لگی۔ اس کے پیچھے ایک نقاب پوش عورت تھی ۔ اسے ایک نے روکنے کی کوشش کی مگر اس کے ساتھی نے ایسا کرنے نہیں دیا اور ڈانٹ کر کہا ابھی جو کرنے نکلے ہو اس پر دھیان دو ۔ میں نے اترتے ہوئے احمد کا ہاتھ نہ چھوڑا اور پرس خود ہی ان لفنگوں کی طرف بڑھا دیا ۔ اس افرا تفری میں نہ جانے کب میری ’’ اینی فرینک ‘‘ والی کتاب احمد نے پکڑ لی تھی ۔
ایک نے کتاب پر تمنچہ رکھ کر پوچھا ’’ یہ کیا ہے ؟‘‘
’’ کتاب ‘‘۔ میں منمنائی ۔
’’ ٹھیک ہے اس چوزے کو یہیں چھوڑ کر تم جائو ‘‘۔
’’ نہیں … ‘‘ میں نے اسے خود سے چمٹا تے ہوئے کہا۔
’’’ یہ ہمارے ساتھ ریلی میں جائے گا ‘‘۔
’’میں اپنے بیٹے کو نہیں چھوڑوں گی ‘‘۔ میں نے بڑے احمقانہ انداز میں اسے اپنا بیٹا ثابت کرنے کی کوشش کی ۔
’’ وہ بد تمیزی سے ہنسے ، اندر ڈرائیور کے سر پر کھڑے ان کے ساتھی چلائے … جلدی کرو‘‘۔
مجھ سے مخاطب لڑکے نے تمنچے کی ایک ٹھوکر سے کتاب دور پھینک دی اور کھا جانے والی نظروں سے احمد کو دیکھا ۔ میں جلدی سے اس کے ساتھ بس سے اترنے والے لوگوں کی بھیڑ میں جا کرکھڑی ہونے لگی کہ احمد کو کچھ لڑکوں نے اپنے درمیان کھینچ لیا ۔ وہ سب اسے تھپڑ لگا رہے تھے ، ادھر سے ادھر ایک دوسرے کی طرف دھکے دے کر بے شرمی سے ہنس رہے تھے ، مجھے ایسا لگا جیسے چار پانچ کتوں کے نرغے میں ایک اکیلی بلی پھنس گئی ہے اور سب اسے ان جنگلی کتوں کی طرح پنجے مار رہے ہیں ۔ میری آنکھوں سے اب آنسوجاری ہو گئے ۔ میں نے بس سے اترنے والے لوگوں کی طرف بے بسی سے دیکھا ، سب کے چہروں پر تکلی تھی مگر سب خاموش تھے… میں اچانک غصے سے لرزنے لگی ، میں اپنے غصے کے سامنے بالکل بے بس ہو چکی تھی ، چیختی ہوئی آگے ا حمد کی طرف بڑھی مگر ایک نوجوان جو بس میں بھی کھڑے ہونے کی کوشش میں بٹھا دیا گیا تھا ، مجھ سے پہلے ان لفنگوں کی طرف بڑھا اور احمد کو کھینچ کر میری طرف کردیا ، میں نے اسے سمیٹ کراپنے بازوئوں میں کرلیا۔
سب کے دھڑکتے ہوئے دل میں اس وقت ایک ہی سوا ل تھا اب یہ لوگ کیا کریں گے ۔ لٹے پٹے انداز میں اپنی کھلی پگڑ کے ساتھ بد حال بوڑھا دیہاتی بزرگ اترنے والوں میں شاید بس کا آخری مسافر تھا ، نیچے ابھی احمد کو ان لفنگوں کے نرغے سے نکالنے والے لڑکے کے ساتھ کچھ دھمامکی شروع ہو رہی تھی کہ اچانک بس خالی ہوتے ہی ان لڑکوں نے جو انسانوں کی اس بپھری ہوئی بھیڑ کو نہیں … بلکہ ریوڑ کو ہکا رہے تھے ، انہوں نے اس منتظر بھیڑ کو بس اک اشارہ کیا اور اس بھیڑ کا رخ اچانک بدل گیا ، انہوں نے بس پر یلغار کردی ، اندر سے لے کر باہر چھت تک سب لد گئے ۔ انہیں دیکھ کر ایسا لگ رہا تھا کہ اس وقت ان سے کچھ بھی کروایا جا سکتا ہے ۔ گاڑیوں اور انسانوں کی بھیڑ کے ساتھ پولیس کی جیپ کا گزر بھی ایسے ہو رہا تھا جیسے وہ کاٹھ کے بنے ہوئے ہوں یا سب کچھ وہی اور ویسے ہی ہو رہا ہے جیسے ہونا چاہیے تھا ۔ یہ ہندوستان کی وہ عام عوام تھی جسے ریلی میں شامل ہونے کے لیے مختلف مقامات سے جمع ہونے کے لیے بلایا گیا تھا ۔ انہوں نے مفت کی شراب پی رکھی تھی ، آج ان کا مقصد ایک مخصوص جگہ پر پہنچنا تھا ۔ کسی بھی طرح انہیں اپنی منزل کی طرف گامزن رہنا تھا ۔ ریلی کی ساری گاڑیاں یکے بعد دیگرے گزرتی جا رہی تھیں ۔ ان گزرنے والوں کا شور وغوغا اس لا قانونیت کو اور بھی خوفناک بنا رہا تھا مگر ان کی زد میں آنے والوں کی زبان گنگ ہو چکی تھی ۔ میں اور احمد اور وہ نوجوان اس وقت وہاںرہ جانے والے ان سارے لوگوں میں ان سے ذر الگ کھڑے یقین نہیں کر پا رہے تھے کہ سر سے پاگل بھیڑ ٹل چکی ہے۔
ہمارے ساتھ کنارے اترنے والی دوسری گاڑیاں بھی اب وہاں موجود نہیں تھیں مگر سواریاں اتار دی گئی تھیں ۔ بوریوں سے لدی ٹریکٹر ٹرالی اس جلد بازی میں خالی نہ کروائی جا سکی تھی نہ ہی اسے لوٹنے کی فرصت تھی ان کے پاس ۔ قبضہ کی ہوئی بس اور مال غنیمت کے ساتھ ہماری بس بھی اسی ریلی میں شامل ہونے کے لیے نکل گئی اور آزادی ، خود مختاری ، اکیسویں صدی میں جینے کا سارا احساس بس کے ساتھ اور اس گزرنے والی سیاسی ریلی کے شور ، نعروں اور ہلڑ کے ساتھ بہہ چکا تھا ۔ پیچھے رہ گئی خواب پالنے والی آنکھوں میں اب خواب کی جگہ خوف و ہراس کا رنگ بھرا ہؤا تھا ۔ یہ سب خود کو اس واقعے کا ذمہ دار نہیں سمجھ رہے تھے اور یقینا یہ سب ایسی صورت حال میں پڑنے سے ہمیشہ خود کو محفوظ سمجھتے تھ اور اب بھی یہ نہیں جانتے تھے کہ اپنے گھر میں لگی آگ اپنے دامن تک پہنچنے میں دیر نہیں لگتی کہ میزائلیں جب گرتی ہیں تومذہب نہیں دیکھتیں ۔ اپنے ہی گھر میں کھیلا جانے والا قانونیت اور نفرت کا یہ کھیل انہیں مضطرب نہیں کر رہا تھا لیکن میں سوچ رہی تھی کہ اس وقت اگر وہ دوسری طرف نہ مڑ گئے ہوتے تو احمد کا یا اس نوجوان کا کیا حشر ہوتا ؟ مگر یہاں کھڑے لوگ ایسے نہیں سوچ رہے تھے ، ان کے چہروں کا اطمینان بتا رہا تھا ک وہ یہ ضرور سوچ رہے ہیں کہ اب سب ٹھیک ہوچکا ہے اور اب وہ کچھ انتظام کر کے اپنے گھروں کو لوٹ سکتے ہیں۔
ایسے میں مجھے پھر اینی فرینک کی ڈائری کا خیال آیا … اس وقت بھی بارود برساتے آسمان کے نیچے تہہ خانے میں چھپی دھیرے دھیرے بیماری اور موت کی طرف بڑھتی ہوئی ’’ اینی فرینک‘‘ اور اس کے ساتھ جنگ میں پھنسے لوگوں نے اپنے چہار طرف سڑتی گلتی لاشوں کو دیکھ کر بھی تو سوچا ہوگا کہ ایک دن سب ٹھیک ہوجائے گا ، شاید کسی دن انہیں ان حالات میں پہنچا دینے والے ظالم کے دل میں خدا رحم ڈال دے گا اور بے قصور لوگوں کی زندگی کو جہنم بنانے سے وہ باز آجائے گا مگر اس نے اپنے چہار طرف بے بس لاشوں کو دیکھ کر یہ کبھی نہ سوچا ہوگا کہ یہ کبھی اٹھ کھڑی ہو جائیں گی … انہیں اس اذیت سے نکالنے کے لیے ۔ میں دل ہی دل میں لرز کر یہ سوچنے سے خود کو کسی طرح روک نہیں پائی کہ جنگ کا طریقہ وقت کے ساتھ بدل ضرور جاتا ہے مگر کچھ لوگ اسے بھی ختم نہیں ہونے دیتے ، شاید اسی لیے میں بھی آج کچھ ایسی ہی لاشوں کے درمیان کھڑی ہوئی ہوں اور مردہ لاشوں میں یہ شعور کہاں ہوتا ہے کہ وہ کچھ سوچ سکیں اور جان سکیں کہ وہ کن حالات میں جی رہے ہیں اس لیے اس کھلے آسمان کے نیچے ہوتے ہوئے بھی میں مرے ہوئے ان لوگوں کے درمیان ایسا محسوس کر رہی تھی جیسے ایک گیس چیمبر کے گھٹن زدہ ماحول میں سانس لینے پر مجبور ہوں اور یہ سب اپنے اپنے قید خانے اپنی مٹھی میں لے کر گھوم رہے ہیں اور یہ جانتے تک نہیں کہ وہ اس میں محبوس کر دیے گئے ہیں ۔ وہ ایسے تہہ خانے میں ہیں جس میں تازہ ہوا کا گزر بند ہوچکا ہے ۔ ٹھٹھری ہوئی قہر آلود فضااورڈوبتے ہوئے دن کے اُجالے پرچھانے والے نارنجی رنگ کے پھیلائو میں اس بھیڑ کے ہاتھ میں لہرانے والا جھنڈا آزاد ملک کا ترنگا نہیں تھا بلکہ شفق کی سرخی اور خوف کی سیاہی کے ساتھ مل کر یہ خوں آشام ہو گیا تھا اور بھیڑ کے کندھوں پرجمہوریت کا جنازہ اپنے پیچھے گونگے بہرے لوگوں کو چھوڑ کر دور نکلتا جا رہا تھا ۔’’ اینی فرینگ ‘‘ کی پیروں سے کچلی ڈائری اب دھول میںمل چکی تھی اور اس کی راوی کے چہرے کا پیلا پن صدیوں کا سفر کر کے اب میرے پاس کھڑے اس معصوم لڑکے کے چہرے پر نمور دار ہوچکا تھا اور ہٹلر کاچہرہ جا بجا پوسٹروں میں ہر سو مسکراتا ہؤا نظرآ رہا تھا ۔
(فنون141)

٭…٭…٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x