ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ہیلیو سی نیشن-بتول جنوری ۲۰۲۱

احمد! احمد!
رات کے دس بجنے والے تھے‘ وہ بیٹے کے کمرے کے دروازے کے باہر کھڑے آوازیں دے رہے تھے۔
رابعہ نے سنا تو اپنے شوہر کو آواز دی۔
کیا بات ہے‘ وہ لوگ سو چکے ہیں۔ ادھر آئیں نا۔ اپنے کمرے میں میری بات سنیں۔
ہوں… اس کے شوہر واپس اپنے کمرے میں آگئے۔
رابعہ نے پھر پوچھا۔کیا کام ہے احمد سے؟احمد بہو اور چھوٹی گڑیا سونے جاچکے ہیں۔ آپ کو پتہ ہے نا۔
ندا …
کون ندا۔ اس کو صبح سات بجے نکلنا ہوتا ہے‘ ہاسپٹل‘ اپنی جاب پر پہنچنے میں اس کو گھنٹہ لگ جاتا ہے۔ رابعہ بولے جارہی تھی۔
آپ کیوں ان کا دروازہ کھٹکھٹا رہے تھے؟
اس کے شوہر دھاڑے۔ ہاں پاگل ہوگیا ہوں اس لئے۔
رابعہ نے فوراً بات پلٹی۔ نہیں‘ میں پوچھ رہی ہوں کوئی کام ہے احمد سے۔
ہاںہاں… اس کے شوہر کو بہت غصہ آرہا تھا۔
رابعہ اس سب کی عادی ہوچکی تھی۔ ہنس کر کہنے لگی‘ مجھے بتا دیں میں بھی آپ کی کچھ لگتی ہو ں۔ کوئی کام کر ہی دوں گی۔
اس کے شوہر کا غصہ کچھ ٹھنڈا ہوگیا۔
میں نے اس کو یہ بچے دکھانے ہیں۔ اس کے شوہر نے جواب دیا۔
بچے کون سے بچے… کہاں ہیں بچے… کس کے بچے؟اس نے ایکدم کئی سوال کر ڈالے۔
یہ بچے۔ یہ تین بچے ہیں…نومولود ہیں۔یہ ہیں‘ میری رضائی کے اوپر۔
اچھاااا۔ رابعہ نے خوب لمبا کرکے کہا اور پھر سوال کیا، لڑکے ہیں کہ لڑکیاں؟
اس کے شوہر کو یہ سوال جواب بہت اچھے لگ رہے تھے۔
انہوں نے کھل کر کہا‘ ایک لڑکا ہے‘ دو لڑکیاں۔
رابعہ نے پھر تسلی کرائی۔ اچھا میں دیکھتی ہوں۔
پھریاد آگیا۔یہ احمد کو دکھانے تھے۔
کس لئے؟ رابعہ نے پوچھا
انہیں پھر غصہ آگیا،کس لیے ،کس لیے۔ آپ بھی تو دیکھ رہی ہیں۔ اس کو بھی دکھانے تھے۔
اوہ۔ اچھا میں سمجھی۔ حنا بیٹی اپنے کمرے میں جاگ رہی ہے‘ اس کو بلا لائیں۔احمد تو سو چکا ہے۔اس نے ان کو نئی راہ سجھائی۔
وہ آوازیں دیتے ہوئے چل دیے۔
ذرا سی دیر میں اس کی پانچ سالہ بیٹی دوڑ تی ہوئی آگئی۔
نانو… نانا ابو کہہ رہے ہیںہمارے کمرے میں بچے ہیں جائو دیکھو۔ ہیں نانو… دکھائیں نا۔
وہ آکر رابعہ کی گود اور ٹانگوں سے رضائی ہٹانے اور بچے دیکھنے کے لیے مچلنے لگی۔
اس نے بھی رضائی ہٹا دی۔ لو دیکھ لو۔
اس نے ادھر ادھر دیکھا، تسلی کرلی کہ یہاں تو کوئی بچے نہیں ہیں۔ نانا ابو جی جھوٹ موٹ کہہ رہے تھے۔
پھر خود ہی ہنسنے لگی۔ کوئی بچے نہیں ہیں…کہہ رہے تھے بچے ہیں۔
اچھا بات سنو۔رابعہ نے اسے آواز دی۔نانا ابو جی کو جاکر کچھ نہ کہنا۔
وہ بھی ذرا سٹپٹائی۔ کیا… نانو! نانا ابو جی کو نہ بتائوں؟
ہاں۔رابعہ کو اسے سمجھانانہیں آرہا تھا۔
اچھا تو ماما کو تو بتا دوں کوئی بچے نہیں ہیں۔
ہاں ہاں ماما کو بتا دو۔ رابعہ کو اس میں عافیت لگی۔
اسے یاد آیا‘ کوئی ایک ماہ پہلے بھی ایسا ہی ہؤاتھا۔رات کے دو ہی بجے تھے غالباً ۔ اس کے شوہر نے اسے آواز دی۔
اٹھیں۔ اٹھیں۔
جی کیا ہؤا؟ وہ ہڑبڑا کر اٹھی۔
وہ پولیو کے قطرے پلانے والی لڑکیاں سامنے والوں کے گھر گئی ہیں۔ان کو بلا کر لائیں۔ وہ ہمارے بچوں کو قطرے پلا کر نہیں گئیں۔
اچھا۔ اس نے تھوڑا توقف کیااور بولی۔ پلا تو دیے ہیں انہوں نے قطرے۔
اچھا؟ اس کے شوہر حیرانی سے بولے اور پھر پوچھنے لگے۔ کتنے بچوں کو پلائے ہیں؟
دو کو۔ رابعہ نے جواب دیا۔
ان کی عمریں کیا ہیں؟ انہوں نے پوچھا۔
اس نے بھی فوری جواب دیا۔ چھ ماہ اور اور دو سال۔
اچھا۔ ان کے نام کیا کیا ہیں؟انہوں نے مزید سوال کیا۔
سارہ اور ولی ہیں نا۔ وہ بولی۔
چلو ٹھیک ہے۔ قطرے پلا گئی ہیں نا۔
جی ہاں۔
اس کے جواب پر ان کی تسلی ہوگئی۔ وہ لیٹے تو رابعہ بھی سونے کے لیے لیٹ گئی۔
رابعہ کے شوہر کی بیماری کا آغاز ہی اس طرح ہوا تھاکہ وہ دن بھر سوتے رہتے۔ کبھی تھوڑی دیر کے لیے اٹھتے کچھ کھالیتے اور پھر سو جاتے۔ جاگتے جو نظر آجاتاکھاتے رہتے۔
اس رات بھی رابعہ سو جاگ ہی رہی تھی کہ اسے اندازہ ہؤا کہ اس کے شوہر لابی میں نہیں ہیں۔ وہ ساتھ مسلسل آوازیںبھی نکالتے تھے‘ جن سے قریب‘ دور ہونے کا اور سمت وغیرہ کا تعین ہو جاتا تھا۔ اسے کوئی آواز نہیں آرہی تھی۔
وہ قدرے سرعت سے اٹھی۔ لابی میں کوئی نہ تھا۔ اس نے ڈرائنگ روم دیکھا‘ وہ بھی خالی تھا۔ کچن تو لاک تھا۔ سرونٹ کوارٹر میں جھانکا۔ اس کے شوہر وہاں بھی نہ تھے۔ وہ دوبارہ لابی میں آئی۔ تو سامنے والی بالکونی کا دروازہ پوری طرح بند نہیں تھا۔ حالانکہ وہ پوری ذمہ داری سے بند کیا جاتا تھا۔
رابعہ نے دروازے کو کھولا تو سردی کی لہر اندر آئی۔
دسمبر کی یخ رات۔ وہ باہر نکلی۔ بوندا باندی بھی شروع ہوچکی تھی۔
اس کے شوہر گھر کے سامنے والی سڑک پر کھڑے تھے۔ ساتھ‘ رات کو گشت کرنے والا‘ کالونی کا چوکیدار کھڑا تھا۔
اس نے بڑا دوپٹہ ہی اوڑھ رکھا تھا۔ گھونگٹ نکالا اور سڑک پر جاکر شوہر کا ہاتھ پکڑا اور ساتھ اندر لے آئی۔ چوکیدار اسے آتا دیکھ کر چلا گیا تھا۔
آپ کہاں جارہے تھے۔ اس نے اندر آکر پوچھا۔
وہ ریفوجی کیمپ ہے نا۔ مجھے ادھر کسی آدمی سے ملنا تھا۔
صبح مل لیجئے گا۔
نہیں مجھے ابھی اور ابھی ملنا ہے۔ اور پھر دروازے کی طرف لپکے۔
رابعہ نے آواز لگائی۔ اچھا رکیں میں رحمان کو جگاتی ہوں۔ آپ کو گاڑی میں لے جاتا ہے۔اس بارش میں پیدل کیسے جائیں گے۔ اندھیرا ہے۔ پھسل گئے تو کیا ہوگا۔
اچھاجگائو اس کو۔
جگاتی ہوں۔آپ یہ ذرا سا حلوہ تو کھائیں۔ اس نے جلدی سے حلوہ میز سے اٹھا کر ان کی طرف بڑھایا۔
انہوں نے دس پندرہ منٹ لگائے اور حلوہ کھا کر فارغ ہوگئے۔
کہاں ہے رحمان۔ رحمان…رحمان۔ وہ اونچی اونچی آوازیں دیتے ہوئے ان کے کمرے کی طرف بڑھے اور پورے زور سے دروازہ کھٹکھٹانا شروع کردیا۔
رابعہ نے بہتیراا چاہاکہ رک جائیںمگر اس کی ایک نہ چلی۔
رحمان نے دروازہ کھولا۔
جی ابو جی…جی امی کیا ہوا۔ وہ قدرے حیران تھا۔
میں نے کیمپ جانا ہے۔ رابعہ کے بولنے سے پہلے وہ بولے۔ یہ مجھے جانے نہیں دے رہیں کہ رحمان کے ساتھ گاڑی پر جائیں۔نکالو گاڑی۔ تم ابھی تک کھڑے ہو۔ جلدی کرو۔ مجھے دیر ہو رہی ہے۔
بیٹی اور داماد دو روز پہلے ہی آئے تھے‘ پیچھے پیچھے بیٹی بھی آگئی۔اس کو بھی کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی۔
میں ان کو باہر سے لے کر آئی ہوں۔ پتہ نہیں دروازہ کیسے کھول کر نکل گئے تھے‘ بارش میں چوکیدار کے ساتھ جانے کی ضد کر رہے تھے۔ میں ان کو لائی ہوں کہ گاڑی میں رحمان کے ساتھ چلے جائیں۔
جانا کہاں ہے۔ رحمان نے پوچھا۔
کہتے ہیں ریفوجی کیمپ ہے، اس میں کسی کو ملنا ہے۔ رابعہ نے وضاحت کی
لیکن ابو جی ! یہاں تو کوئی ایسا کیمپ قرب وجوار میں نہیں ہے۔
رحمان نے سمجھانے کی کوشش کی۔
ہاں میں جھوٹ بول رہا ہوں۔ تم چلو بس… زیادہ باتیں نہ بنائو۔ نہیں لے جاتے تو میں خود چلا جاتا ہوں۔ وہ باہر کے دروازے کی طرف بڑھے۔
رحمان بھی گھبرا گیا اور جلدی سے بولا۔ اچھا۔ اچھا میں سویٹر اور ٹوپی تو لے آئوں۔
اس نے گاڑی کی چابی دیوار سے اتاری اور ابو جی کو پکڑائی۔ آپ لیں میں بس آیا۔
پھر تینوں نے بڑی بے بسی سے ایک دوسرے کی طرف دیکھا کہ جانے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔
اچھا میں بھی چلتی ہوں۔ رابعہ نے کہا۔
اس کے شوہر فوراً پلٹے‘ نہیں۔ آپ کی کوئی ضرورت نہیں۔
اچھا نہیں جاتی۔ اس نے فوراً ہار مان لی۔
رحمان نے اپنی بیوی سے کہا‘ حنا ! تم چادر لے آئو،ساتھ بیٹھ جائو۔ پتہ نہیں راستے میں کیا ہوگا‘ کہاں جانا ہوگا۔
پھر وہ تینوں نکل گئے۔رابعہ لابی میں بیٹھی دعائیں مانگتی رہی۔
گھنٹے بعدگاڑی رکنے کی آواز آئی ۔اس کے شوہر اندر داخل ہوئے اور سیدھے اپنے کمرے میں جاکر لیٹ گئے۔
حنا بتانے لگی۔ امی ! جہاں کہتے تھے‘ یہ لے جاتے رہے‘ پھر ایک جگہ رک کر‘ ایک بینک کے چوکیدار کی منت کی کہ تم آکر کہو! کہ کیمپ یہاں سے شفٹ ہوگیا ہے‘ نیا ایڈریس معلوم نہیں۔امی! اللہ اس کا بھلا کرے۔ اس نے آکر کہا تو پھر ہم نے گاڑی گھر کی طرف موڑ لی اور ابو جی کچھ نہیں بولے۔
رابعہ خاموش سنتی رہی۔ حنا ماں کا ہاتھ تھام کر بولی۔
امی! یہ ہذیان ہے، تصور کا دھوکہ… Hallucinationsپانچ حواس خمسہ میں سے کسی کے حوالے سے دھوکہ ہونے لگتا ہے۔ آوازیں جو نہیں ہوتیںوہ مریض کو سنائی دیتی ہیں۔کبھی نظر کا دھوکہ ہوتا ہے۔ چیزیں ہوتی ہی نہیں ان کو نظر آتی ہیں۔ کبھی محسوسات کا دھوکہ بھی ہوتا ہے کہ جسم پر کچھ رینگ رہا ہے حالانکہ ایسا کچھ نہیں ہوتا۔ یا ان سب کی کوئی ملی جلی تصویر۔یہ کیفیات بڑھاپے کی بیماری Alzheimers اور یاداشت اور شخصیت کی تبدیلی Dementia کے علاوہ اور بھی کئی بیماریوں میں ہوتی ہیں۔
امی۔ زیادہ فکر کی بات نہیں۔بیماری ہے اور یہ بیماری کا حصہ ہے۔اللہ خیر کرے گا۔ بس اللہ سے ہی دعا ہے۔اٹھیں آئیں اندر چلیں۔
اس نے ماں کا ہاتھ پکڑ کر اٹھایا‘ کمرے میں چھوڑا۔ باہر کا دروازہ رحمان لاک کر چکا تھا۔ وہ بھی کمرے میں چلی گئی۔

٭…٭…٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x