ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

جنگ ۷۱ ءکے مشہور بیانیے حقائق کی روشنی میں-بتول جنوری ۲۰۲۱

ڈسکلیمر: اس مضمون کا مقصد مشرقی پاکستان میں پاک فوج کے آپریشن کو صحیح ثابت کرنا یا اس کےلیے جواز تلاش کرنا نہیں- صرف سرمیلا بوس اور دوسرے عالمی شہرت یافتہ مصنفین کی تحقیق کی روشنی میں حقائق کو ایک نئے زاویے سے دیکھنے کی کوشش ہے- انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کسی بھی فریق کی جانب سے سامنے آئیں، راقمہ ان کی سخت الفاظ میں مذمت کرتی ہے (تزئین)

تعارف
سقوط ڈھاکہ ایک ایسا قومی سانحہ ہے جس کا صرف ذکر ہی بہت سے زخموں کو کھول دیتا ہے۔ یہ واقعہ ملک کا آدھا بازو کٹ جانے کے ساتھ ساتھ پاک فوج اور خود پاکستانی قوم کو دنیا میں بری طرح بدنام کرنے کا سبب بنا جس کا شعور شاید ملک کے اندر کم پایا جاتا ہے۔ اس بدنامی کے پیچھے پاکستان کے مقتدرین کی فاش غلطیاں بھی موجود ہیں اور عالمی سطح پر انڈیا اور اس کے حواریوں کا پروپیگنڈا بھی۔ جو ہؤا وہ پلٹایا نہیں جا سکتا لیکن زندہ قومیں اپنی غلطیوں سے سیکھنے کی کوشش کرتی ہیں۔ آج بھی وطن عزیز کی سلامتی کو بہت سے اندرونی اور بیرونی چیلنجز در پیش ہیں۔ ان سب چیلنجز سے باوقار طریقے سے نمٹنے کے لیے ضروری ہے کہ جذباتیات سے ہٹ کر ٹھنڈے دل سے حقائق کی روشنی میں ان عوامل کا غیر جانب دارانہ تجزیہ کیا جائے جو ایسے سانحات کا باعث بن سکتے ہیں۔ لیکن کوئی بھی غیر جانبدارانہ تجزیہ عرق ریزی سے کی گئی تحقیق کا متقاضی ہے، جس کی روایت بد قسمتی سے وطن عزیز میں مفقود ہے۔ ہم وہ قوم ہیں جو اکیسویں صدی میں تحقیق کی اہمیت ہی سے نا واقف ہیں۔ پچھلے48 سال میں سقوط ڈھاکا یا یوں کہہ لیجئے کہ بنگلادیش کی تخلیق پر سینکڑوں کتابیں لکھی گئی ہیں لیکن ان میں سے بیشتر کتب میں تنازعہ کے کسی ایک فریق کی نظر سے حالات و واقعات کا جائزہ لیا گیا ہے لیکن بہت کم آزادانہ یا غیرجانبدارانہ تحقیقات سامنے آ ہیں جو مستند تحقیق اور صحافت کے معیارات پر بھی پوری اترتی ہوں۔
ایسے میں 2011 میں آکسفورڈ اور ہارورڈ کی تعلیم یافتہ ہندو بنگالی رائیٹر سرمیلا بوس معاملے کے تمام فریقین سے انٹرویوز کے بعد، اب تک اس موضوع پر جو کچھ لکھا گیا ہے اس سے استفادہ کر کے ‘ڈیڈ ریکننگ: ’’میموریز آف بنگلادیشی وار‘‘ کے نام سے ایک ہمہ جہتی تحقیقی کام سامنے لائی ہیں جس میں وہ 1971 کے تنازعہ سے متعلق عالمی سطح پر مقبول بیانیہ کو بڑی حد تک مسترد کرتی ہیں۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ ان کی اس کتاب نے علمی دنیا میں ہلچل مچانے کے علاوہ بھارت اور بنگلادیش کے بیانیہ کو نقصان پہنچایا ہے۔اہم بات یہ ہے کہ سرمیلا ہندو، بنگالی، اور کلکتہ کی شہری ہونے کی وجہ سے اس تنازعہ سے براہ راست اپنا تعلق محسوس کرتی ہیں۔ وہ اپنے ننھیال کا تعلق مشرقی بنگال سے بتاتی ہیں جو تقسیم سے قبل کلکتہ آ کر آباد ہو گیا تھا۔
آکسفورڈ اور ہارورڈ کی تعلیم یافتہ سرمیلا رشتے میں برطانیہ کے خلاف آزادی کی جدوجہد کرنے والے انڈین نیشنلسٹ لیڈر سبھاش چندر بوس کی پوتی ہوتی ہیں۔ ان کی والدہ ہندوستانی پارلیمنٹ کی ممبر رہی ہیں اور والد ایک بچوں کے اسپیشلسٹ تھے۔ 1971 کے تنا زعہ کے وقت سرمیلا کی عمر دس سال تھی۔
ان کا کہنا ہے کہ وہ کلکتہ میں یہ بیانیہ سنتے ہوئے بڑی ہوئیں کہ پاک فوج نے مشرقی پاکستان کے نہتے شہریوں کی نسل کشی کی اور انڈیا نے ہیرو کا کردار ادا کرتے ہوئے مظلوم کا ساتھ دے کراس نسل کشی کو روکنے کے لیے انسانی بنیادوں پر مجبوراً اپنی فوجیں مشرقی پاکستان میں اتاریں۔ سرمیلا کا کہنا ہے کہ انھوں نے بنگلہ دیش کے شہروں، گاؤں اور چھوٹے چھوٹے قصبوں سے اپنی تحقیق کا آغاز کیا تو ان کا خیال تھا کہ وہ پاک فوج کے مظالم اور نسل کشی کے ثبوت باریک بینی کے ساتھ دنیا کے سامنے لے کر آئیں گی۔ لیکن جیسے جیسے تنازعہ کے براہ راست متاثرین سے انٹرویوز کرتی گئیں، ایک متبادل بیانیہ ان کے سامنے آتا گیا۔ جس کے مطابق یہ تنازعہ نہتے سویلینز اور مسلح فوج کے درمیان نہیں تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ انڈیا نے مشرقی پاکستان میں اپنی فوجیں تین دسمبر کو نہیں اتا ری تھیں بلکہ بھارت اس تنازعہ میں شروع سے شریک رہا تھا۔ سرمیلا نے حقائق، اور شواہد کی بنیاد پر اس بیانیہ کو بھی مسترد کیا کہ پاک فوج تین ملین بنگالیوں کے قتل اور تین لاکھ بنگالی عورتوں کے قتل میں ملوث تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ صحیح ہے کہ پاک فوج علیحدگی کی کوشش کے رد عمل میں انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزیوں کی مرتکب ہوئی لیکن جینو سائیڈ یعنی نسل کشی کی تعریف کے مطابق نسل کشی جیسے جرم کی مرتکب نہیں ہوئی۔ انھوں نے شواہد کے ساتھ یہ بھی ثابت کیا کہ مجیب اور اس کی عوامی لیگ بظاھر گاندھی کے فلسفے پر عمل پیرا ہونے کا دعویٰ کرتے تھے لیکن ان کا عدم تشدد کی روایت سے دور کا بھی واسطہ نہیں تھا۔ مجیب کے جلسوں میں شرکت کرنے والے ہتھیاروں سے لیس ہوتے تھے۔ ڈھاکہ یونیورسٹی میں بنگلادیشی آزادی کے لیے مسلح ٹریننگ دی جا رہی تھی۔ مکتی باہنی کی خواتین کی سڑکوں پر مسلح مارچ کی خبریں فوجی آپریشن سے پہلے غیرملکی میڈیا تک نے رپورٹ کی تھیں۔ یاد رہے سرمیلا پاک فوج کی جانب سے ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا دفاع نہیں کرتیں لیکن ان کا کہنا ہے کہ پاک فوج کے خلاف دنیا میں جتنا پروپیگنڈا کیا گیا ہے وہ انصاف پر مبنی نہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس داغ کو پاک فوج صرف اس طرح دھو سکتی ہے کہ وہ زیادتیوں کے مرتکب فوجی افسران پر مقدمے قائم کر کے انہیں سزائیں دے۔
سرمیلا نے بنگلہ دیش کے شہروں، قصبوں یہاں تک کہ متعلقہ گاؤں پہنچ کر چشم دید گواہوں کی مدد سے 1971کے فوجی آپریشن کے دوران ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر ایک نیا بیانیہ سامنے لائی ہیں۔ ہمارے کالم نگاروں اور اینکرز کے برعکس سرمیلا نے محض بیان بازی نہیں کی بلکہ وہ اس دور کے عالمی میڈیا، امریکی صدر اور ہنری کسنجر کی گفتگو، خود بھارتی فوج کے افسران کے بیانات، عوامی لیگ کے حامی بنگالی اور مکتی باہنی کے ممبرز، پاکستان کے حامی بنگالی اور غیر بنگالی اور سب سے بڑھ کر بنگلادیش میں موجود متاثرین کے انٹرویو اور پہلے سے موجود تحقیقی مواد سے شہادتیں لے کر آئی ہیں۔ ان کا ذہانت سے پر تجزیہ ٹھوس ثبوت و شواہد پر مبنی ہے۔ انہوں نے اس جنگ کے موضوع پر دنیا بھر میں جو کچھ لکھا گیا اس سے بھی استفادہ کیا ہے اور بنگلادیش میں اس جنگ کے بارے میں فکشن اور نان فکشن ادب، فلم اور دوسری اصناف میں جو کام ہؤا اسے سامنے لا کر ایک متوازن بیانیہ دینے کی کوشش کی ہے۔
وہ بسا اوقات ایک ہی واقعہ کے بارے میں مختلف فریقین سے انٹرویو کر کے متضاد بیانات سامنے لے کر آتی ہیں اور پھر حقائق کا دلائل سے تجزیہ کر کے کسی ایک بیان کے حق میں اپنا وزن ڈالتی ہیں اور یہ سب کچھ وہ شفافیت کے ساتھ کرتی ہیں۔ اس تمام عمل میں وہ صحافت کی اعلیٰ ترین اخلاقی روایات پر کار بند رہتی ہیں اور ساتھ ساتھ اکہتر کے تنازعہ سے متعلق بہت سی سنی سنائی روایتوں کو غلط ثابت کرتی ہیں۔ یاد رہے سرمیلا نے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور جنگ کے عسکری پہلوؤں کو اپنا موضوع بنایا ہے معاملے کے سیاسی پہلوؤں یا آپریشن سے پہلے کے سیاسی فیصلوں کو نہیں۔
جن بیانیوں کو سرمیلا نے مسترد کیا ہے وہ مندرجہ ذیل ہیں۔
بیانیہ: پاک فوج کا آپریشن بلا اشتعال اور یک طرفہ تھا
وہ اس بیانیہ کومسترد کرتی ہیں کہ پاک فوج کا آپریشن یک طرفہ اور بلا اشتعال تھا اور پرتشدد واقعات کا آغاز پاک فوج نے کیا۔ اس حوالے سے وہ پاکستانی صحافی اینتھونی مکرنہاس کا’جینو سائیڈ‘ نامی مضمون ثبوت کے طور پر سامنے لاتی ہیں جو برطانیہ کے سنڈے ٹائمز میں شائع ہؤا۔ اس مضمون میں یکم اور پچیس مارچ کے درمیان بہاریوں اور غیر بنگالیوں کے قتل عام کا بھی تذکرہ ہے جب پاک فوج کا آپریشن شروع نہیں ہؤا تھا۔ یہ اور بات کہ اس کے مضمون کو مسلسل پاکستان کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے اور اس صحافی کو پاک فوج کے خلاف اپنی رپورٹنگ کی وجہ سے پاکستان چھوڑ کر برطانیہ منتقل ہونا پڑا تھا۔ اندرا گاندھی کا دعویٰ تھا کہ وہ اسی مضمون کو پڑھ کر مہاجرین کی مدد پر کمر بستہ ہوئیں۔ ریکارڈز اور انڈین آرمی کے افسران کے مطابق اندرا کا یہ بیان اب قطعی جھوٹ ثابت ہو چکا ہے۔ اس طرح تشدد کی شروعات انڈیا کی سرپرستی میں علیحدگی پسندوں نے کی۔ ایریزونا یونیورسٹی کی ایک محقق یاسمین سائکیا اس بات کے ثبوت بھی لاتی ہیں کہ انڈیا کے ایجنٹ بد امنی پھیلانے کے لیے مشرقی پاکستان میں یکم جنوری سے ہی سر گرم تھے اور باشندوں کو پاک فوج سے ڈرا کر بارڈر پار ہجرت کرنے کی ترغیب بھی دی جا رہی تھی۔
اس وقت کی عالمی میڈیا کی رپورٹنگ بھی اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ پاک فوج اور بہاریوں کے خلاف پر تشدد کارروائیوں کا آغاز مجیب کے حامیوں کی طرف سے یکم مارچ کو اسمبلی کا اجلاس ملتوی ہونے کے بعد سے شروع ہو گیا تھا۔ سرمیلا تفصیل کے ساتھ کھلنا کی جیوٹ مل میں غیر بنگالیوں کے قتل عام کی رپورٹ سامنے لاتی ہیں۔ اس کے علاوہ کشتیہ کے کنٹونمنٹ میں پاک فوج کے 155 میں سے 144 غیر بنگالی افسران اور جوانوں کا قتل عام اور باقی کو انڈیا کے حوالے کر دینے کا واقعہ بھی۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ ڈھاکہ میں ہندؤں کے خلاف پاک فوج کے آپریشن کا بھی تذکرہ تفصیل کے ساتھ کرتی ہیں۔ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ عالمی میڈیا نے مکتی باہنی اور عوامی لیگ کے ممبران کے غیر بنگالیوں کے خلاف تشدد کو بھی ریکارڈ کیا لیکن اس کی بات اب کوئی نہیں کرتا۔
بی بی سی کے مارک ٹلی، ان کی اس بات کی تائید کرتے ہیں۔ یو ٹیوب پر موجود اپنے ایک ویڈیو ٹاک میں وہ اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ شہریوں کے خلاف بہیمانہ قتل اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں عوامی لیگ اور مکتی باہنی نے بھی کیں۔ مارک ٹلی کا کہنا ہے کہ لیکن پاکستان کے خلاف انڈیا کا پروپیگنڈا اتنا بھرپور تھا کہ دوسری طرف کا بیانیہ نظر انداز ہؤا۔
ہمارے نزدیک پچیس مارچ کو فوجی آپریشن کا دفاع نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی یہ مقصود ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ یہ آپریشن بغاوت کے آغاز کے کوئی تئیس دن بعد شروع ہؤا۔ اس وقت تک مجیب کے حامی بنگالی پاک فوج، بہاریوں پر متعدد حملے کر چکے تھے جن میں غیر بنگالیوں اور پاکستان کے حامی بنگالیوں کا کافی جانی نقصان ہؤا تھا۔ پاک فوج اور دوسری قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کو رد عمل دکھانے کی اجازت نہیں تھی۔
بیانیہ: پاک فوج نے ارادتاً بنگالی مسلمانوں کی نسل کشی کی ہے
پاکستانی فوج پر مشرقی پاکستان کے بنگالی عوام کی نسل کشی کا الزام لگایا جاتا ہے جس کی بات اب پاکستان میں بھی شدو مد سے کی جا رہی ہے۔ سرمیلا کا کہنا ہے کہ ابتدا میں یہ ایک سول وار یعنی خانہ جنگی تھی جس میں دونوں فریقین نے انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کیں۔ فوجی آپریشن بغاوت کو ختم کرنے کی ایک کوشش تھی جس کا نشانہ تمام بنگالی نہیں بلکہ وہ بنگالی مسلمان تھے جو علیحدگی کے خواہش مند تھے اور جنھیں انڈیا کی حمایت حاصل تھی۔ دونوں فریقین نے شہریوں کا قتل عام کیا(یاد رہے کسی تنازع کو جینو سائیڈ اس وقت کہا جاتا ہے جب صرف ایک نسل یا مذہب کی بنیاد پر پورے گروہ کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی جائے) جب کہ مشرقی پاکستان کے منظر نامے میں بنگالیوں کی ایک بڑی تعداد پاکستان کی حمایتی بھی تھی۔ وہ خود بنگالی اور ہندو ہو کر بھارت اور بنگلادیشی حکومت کے اس بیانیہ کو مسترد کرتی ہیں جس کے مطابق پاکستانی فوج نے ارادتاً مشرقی پاکستان کے بنگالی عوام کی نسل کشی کی کوشش کی۔
بیانیہ: تین ملین بنگالیوں کو قتل کیا گیا
سرمیلا یہ بات تسلیم کرتی ہیں کہ پاکستانی فوج نے (بغاوت کچلنے کے لیے) بنگالیوں کو قتل کیا لیکن وہ تین ملین کے ان اعداد و شمار کو چیلنج کرتی ہیں جو بھارتی بیانیہ میں دیئے جاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے ہٹلر کی فوج پانچ سال کےعرصے میں چھ ملین یہودیوں کو موت کی گھاٹ اتارنے میں کامیاب ہوئی تھی تو 34000کی پاک فوج نو ماہ میں اس سے آدھے انسانوں کو کیسے قتل کر سکتی ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ اب تک بنگلادیشی حکومت اس حوالے سے کوئی اعداد و شمار جمع نہیں کر سکی ہے اور بھارتی بیانیہ بھی اعداد و شمار کے بغیر ہے۔ تحقیق کے دوران انھیں یہ جان کر تعجب ہؤا کہ بنگلادیش میں گراؤنڈ لیول پر کوئی مستند تحقیق اس موضوع پرموجود نہیں ہے جو تمام فریقین کے بیانیہ کو غیر جانبداری سے پرکھ اور سچائی کو دنیا کے سامنے لے کر آئے۔
بیانیہ: آپریشن پاک فوج اور سویلینز کے درمیان تھا
ایک اور افسانہ جو عالمی سطح پر حقیقت کی طرح تسلیم کیا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ یہ جنگ پاکستانی فوج اور سویلینز کے درمیان تھی اور اس سے نسل کشی کے بیانیہ کو عالمی سطح پر بہت تقویت ملتی ہے۔سرمیلا نے شواہد کے ساتھ یہ ثابت کیا کہ انڈین فوج شروع سے اس جنگ میں شریک تھی لیکن دنیا کو یہ دکھانے کی کوشش کی جاتی رہی کہ یہ مکتی باہنی یعنی آزادی کے متوالوں کی مزاحمت ہے اور اس طرح پاک فوج کے خلاف دنیا کی ہمدردیاں سمیٹی گئی ہیں۔
اپنی اس بات کے ثبوت میں سرمیلا انڈین فوج کے میجر جنرل لچھمن سنگھ کی گواہی لے کر آئی ہیں جن کا کہنا ہے کہ ’’پروپیگنڈا مشین نے بہت محنت سے کام کیا۔ لنگی پہنے رائفل بردار مکتی باہنی کے جوانوں کو فوری طور پر ہیرو بنا دیا۔ خبروں کے بھوکے پریس نے فوراً ان افسانوی کامیا بیو ں کے دعووں کو حلق سے اتار لیا‘‘۔سرمیلا کا کہنا ہے کہ انڈین فوج نے اعلانیہ حملہ تین دسمبر کو کیا لیکن وہ اس مسلح تنازعہ کے پورے عرصے میں مکتی باہنی کے ساتھ تھی۔ ان کی تحقیق کے مطابق مکتی باہنی کبھی بھی پاکستانی فوج کے حملے کے مقابلے میں کھڑی نہ رہ سکی اور انہوں نے ہمیشہ بھارتی فوج کو مایوس کیا۔ یہ دوسری بات کہ بھارتی فوج کو مکتی باہنی کی شکل میں مقامی آبادی کی حمایت حاصل تھی۔ سرمیلا نے اگست1971 میں برطانوی اخبار گارڈین کو انٹرویو دیتے ہوے ایک بنگلادیش کی آزادی کے لیے لڑنے والے ایک والنٹیر کے الفاظ بھی ثبوت کے طور پر پیش کیے ہیں۔’’بڑے آپریشن ہمیشہ بھارتی فوجی کرتے ہیں لیکن آپریشن کر کے پیچھے ہٹ جاتے ہیں اور پھر اسے مکتی باہنی کی فتح قرار دیا جاتا ہے‘‘۔
سرمیلا کے علاوہ گیری بیس اپنی کتاب بلڈ ٹیلی گرام میں اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ1970کے الیکشن کو بارڈر کے دوسری طرف بہت سنجیدگی سے مشاہدہ کیا جا رہا تھا اور اندرا گاندھی مارچ میں ہی انڈین فوج مشرقی پاکستان میں اتارنا چاہتی تھیں لیکن ان کے مشیروں اور بھارتی فوج کے کمانڈرز نے انھیں انتظار کرنے کو کہا۔ گیری جے بیس کے مطابق دو مارچ کو ہی مکتی باہنی کی ٹریننگ، پاک فوج کو مکتی باہنی کے پیچھے بھگا کر تھکا دینے کی کامیاب اسٹرٹیجی پر عمل کیا گیا اور اندرا گاندھی اس عرصے میں عالمی حمایت حاصل کرنے میں سرگرم رہیں۔ یہ بھی یاد رہے انڈیا پاکستان پر کراس بارڈر دہشت گردی کا الزام تواتر سے لگاتا رہا ہے جبکہ مشرقی پاکستان میں دھڑلے سے دخل اندازی میں ملوث رہا ہے۔
بیانیہ : پاک فوج قابض فوج تھی
اس کے علاوہ پاکستانی فوج کو قابض فوجی کہنا شرمیلا کے نزدیک تاریخ تبدیل کرنے کی کوشش ہے۔ مشرقی پاکستان، پاکستان کا ایک صوبہ تھا، پاک فوج میں بنگالی بھی سرو کر رہے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ بنگالی مزاحمت کاروں کو آزادی کے متوالے کہا جا سکتا ہے لیکن پاک فوج کو قابض فوج نہیں کہا جا سکتا۔
بیانیہ: انسانی حقوق کی بہیمانہ کارروائیاں صرف پاک فوج نے کیں
سرمیلا کا یہ بھی کہنا ہے کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں پاک فوج کی طرف سے بھی ہوئیں اور سویلینز کو موت کے گھاٹ اتارا گیا لیکن مکتی باہنی کی طرف سے ہونے والی کارروائیاں زیادہ بہیمانہ تھیں جن میں عورتوں بوڑھوں بچوں سب کو نشانہ بنایا گیا۔ پاک فوج نے جہاں ایکشن کیا وہاں صرف بالغ مردوں کو انڈیا کی در اندازی کے شک کی بنیاد پر مارا گیا لیکن بچوں، عورتوں اور بوڑھوں کو جنگی قوانین کے مطابق کچھ نہیں کہا گیا لیکن عوامی لیگ اور مکتی باہنی نے جن بہاریوں ، غیر بنگالیوں اور خود پاک فوج کے افسران کو مارا وہاں بچوں عورتوں سمیت پورے پورے خاندانوں کو موت کے گھاٹ اتارا۔
ہتھیار ڈالنے کے بعد غیر بنگالیوں کا بڑی تعداد میں قتل
سرمیلا اس بات کو بھی بحث کا حصہ بناتی ہیں کہ مکتی باہنی نے پاک فوج کے ہتھیار ڈالنے کے بعد بغیر مقدمہ چلائے، غیر بنگالیوں اور بہاریوں کا بہت بڑی تعداد میں قتل عام کیا ، جس کی بات انڈین اور بنگلادیشی بیانیہ میں نہیں کی جاتی۔
بیانیہ: بھارتی فوج کی مداخلت انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو روکنے کے لیے تھی
سرمیلا اس بیانیہ کو ثبوتوں کے ساتھ مسترد کرتی ہیں۔ یہ صحیح ہے کہ دنیا بھرمیں پاکستانی فوج کے مظالم کے پروپیگنڈے کے بعد بھارت نے جنگ میں اپنی شمولیت کا بہانہ مشرقی پاکستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو بنایا۔ لیکن جیری بیس اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ 1970 سے کچھ قبل خود بھارت میں الیکشن ہوئے تھے اور خود کلکتہ میں نکسلائٹ کو قابو کرنے کے لیے بارڈر سیکورٹی فورس اور پولیس کی بھاری نفری کے علاوہ دو ڈویژن فوج کو بلانا پڑا تھا۔ الیکشن کے بعد کلکتہ اور مغربی بنگال کی جیلیں بھارتی حکومت کے مخالفین سے بری طرح بھری ہوئی تھیں اور کوئی ایک لاکھ افراد پر مقدمات تھے۔ اس کے علاوہ اسی دور میں ناگا لینڈ کی بغاوت کو فرو کرنے کے لیے انڈیا کو اپنی فضائی طاقت کا استعمال کرنا پڑا۔
سرمیلا کے مطابق کلکتہ میں ان کے بچپن کی اولین یادوں میں سے ایک یہ تھی کہ روزصبح حکومت کے ہاتھوں اغوا ہونے والے نکسلائٹ کی لاشیں سڑکوں پر پائی جاتی تھیں۔ ان کہنا ہے کہ 1971 میں وہ دس سال کی تھیں۔ ان کے والد بچوں کے ڈاکٹر تھے اور والدہ انڈین پارلیمنٹ کی ممبر رہی تھیں، قومی سیاست سے ان کا تعارف انڈین حکومت اور نکسلائٹ کے تنازعہ سے ہؤا اور عالمی سیاست سے ان کا تعارف مشرقی پاکستان میں انڈیا کی فوجی مداخلت سے۔ سرمیلا کی تصدیق امریکی مصنف گیری جے بیس بھی اپنی کتاب بلڈ ٹیلی گرام میں کرتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس موضوع پر نئی آنے والی کتابیں اس بات کا سرسری ذکر ضرور کرتی ہیں کہ انڈیا اس وقت خود انسانی حقوق کی شدیدخلاف ورزیوں کا مجرم تھا اور بھارتی فوج مغربی بنگال کے علاوہ نا گا لینڈ، حیدرآباد، میزو رام سمیت بہت سے صوبوں میں بغاوتوں کو سختی سے کچلتی رہی تھی۔
بیانیہ: مجیب کو مشرقی پاکستان کے سارے عوام کی حمایت حاصل تھی
سرمیلا کے مطابق پاکستان میں پھیلے اس تاثر کے بر عکس مجیب کو بنگلادیش میں اکثریتی عوام کی حمایت حاصل تھی۔ ایک خاموش اور غیر جانبدار بہاری آبادی (جو مشرقی پاکستان کے رہائشی تھے ) کے ساتھ ساتھ بہت بڑی تعداد میں پاکستان کے حامی بنگالی بھی اس تنازع میں شریک تھے۔ مشرقی پاکستان میں ڈالے گئے ووٹوں کا تناسب کل ووٹوں کا 56 فیصد تھا جس میں سے پچھتر فیصد ووٹ مجیب کی عوامی لیگ کو ملے۔ اس طرح عوامی لیگ کو 44 فیصد عوامی حمایت حاصل تھی۔ اسی طرح یہ بات گو راز نہیں کہ مشرقی پاکستان میں بنگالیوں کا ایک قابل لحاظ حصہ متحدہ پاکستان کی حمایت کرتا تھا جو بعد ازاں بنگالی قوم پرستوں اور مکتی باہنی کے غیظ و غضب کا شکار ہؤا اور آج تک غداری کے الزام میں قید و بند اور پھانسیوں کی سزا کاٹ رہا ہے۔ سرمیلا اس طبقے کے لیے پاکستان کی حمایت کرنے والوں کی اصطلاح استعمال کرتی ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ اس طبقے کی موجودگی بھی یہ ثابت کرتی ہے کہ پاکستانی فوج کے آپریشن کو بنگالیوں کی نسل کشی نہیں کہا جا سکتا۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس پیچیدہ تنازعہ کا ایک تکلیف دہ پہلو یہ تھا کہ بھائی بھائی کے مقابل کھڑا ہو گیا تھا۔ ایسی صورت حال کا تذکرہ صدیق سالک نے اپنی کتاب میں بھی کیا ہے اور راقم کو انٹرویو دینے والے پاکستانی فوج کے ریٹائرڈ میجر ریاض جو 1971 میں ڈھاکہ سے سترمیل دور میمن سنگھ ڈسٹرکٹ میں جمال پورکے سرحدی علاقے میں تعینات تھے نے بھی اس بات کی تصدیق کی کہ پاکستان کی حمایت کرنے والا ایک بنگالی طالب علم ان کے پاس آیا۔ اس کا مطالبہ تھا کہ اس کے بھائی کو گرفتار کر لیا جائے کیونکہ وہ انڈیا جا کر پاک فوج کے بارے میں معلومات فراہم کرتا ہے۔ میجر ریاض کا کہنا تھا کہ انھوں نے طالب علم سے پوچھا کہ تمہیں معلوم ہے اس کی سزا موت بھی ہو سکتی ہے؟ طالب علم کا کہنا تھا کہ اسے اچھی طرح معلوم ہے لیکن اسکا بھائی وطن سے غداری کر رہا ہے۔ میجر ریاض کا یہ بھی کہنا تھا کہ جس وقت پاک فوج بنگالی رضا کار بھرتی کر رہی تھی، بہت سے پاکستان کے حمایتی طلبہ جو عمر میں چھوٹے ہوتے تھے اپنا قد بڑھانے کے لیے ایڑیوں کے بل کھڑے ہو جاتے تھےجس سے انہیں بدر کے معرکے میں شرکت کے خواہش مند بچے یاد آئے اور انھوں نے اس فورس کا نام البدر رکھا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ پاکستان کا ساتھ دینے والے یہ بنگالی آج اپنی سر زمین پر بہیمانہ انتقامی کاروائیوں کا شکار ہیں لیکن پاکستان کے مقتدرین ان کے لیے کوئی بیان دینے پر بھی راضی نہیں اور دوسری طرف عوام ان کی قربانیوں سے واقف ہی نہیں۔ سرمیلا شاید پہلی غیر پاکستانی رائٹر ہیں جو ان رضاکاروں کو پرو پاکستانی کہہ کر ان کا موقف بھی بیان کرتی ہیں۔
بیانیہ: مجیب گاندھی کے عدم تشدد پر عمل پیر تھا
اس بیانیہ کو مسترد کرنے کے لیے بھی سرمیلا اس وقت کے غیر ملکی اخبارات کی رپورٹس سامنے لاتی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک طرف مجیب کے بارے میں یہ کہا جاتا تھا کہ وہ اپنی عوام پر پورا کنٹرول رکھتا ہے۔اور دوسری طرف اسکا یہ کہنا تھا کہ وہ انہیں ہنگاموں کے دوران تشدد کا راستہ اختیار کرنے سے نہیں روک سکا۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ عوامی لیگ سے تعلق رکھنے والے طلبہ یہاں تک کہ طالبات کی بھی ہتھیار بند مارچنگ پکچرز اس دور میں شائع کی جاتی رہیں جسے غیر ملکی میڈیا نے بھی رپورٹ کیا۔ اس کےعلاوہ اس کے جلسوں کو سننے کے لیے جانے والے لوگ ڈنڈوں، لوہے کی سلاخوں، بانس سے مسلح ہوتے (سات مارچ کے حوالے سے گیری جے بیس نے بھی اس کی تصدیق کی ہے)۔ یہ گاندھی کے طرز عمل کے با لکل برعکس تھا۔ سرمیلا کا یہ بھی کہنا تھا کہ ان حقائق کی روشنی میں مجیب کا یہ دعویٰ گاندھی کے عدم تشدد کے فلسفہ کے برخلاف ہی نہیں ایک انتہائی مضحکہ خیز بات ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ متحدہ انڈیا میں بھی گاندھی کے عدم تشدد کے فلسفہ کو کبھی پذیرائی حاصل نہیں ہوئی اور وہاں انگریز کے خلاف تشدد کی انقلابی کاروائیاں سامنے آتی رہی تھیں۔ ان دہشت گردی کی کاروا ئیاں کرنے والوں کو آج بھی اسی طرح ہیرو سمجھا جاتا ہے جیسا غیر بنگالیوں پر تشدد کرنے والے مکتی باہنی کے ممبران کو بنگلادیش میں قومی ہیرو سمجھا جاتا ہے۔
بیانیہ: پاک فوج کی تعداد نوے ہزار تھی
سرمیلا کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہتھیار ڈالنے والی پاک فوج کی تعداد نوے ہزار نہیں تھی جیسا کہ مشہور ہے۔ اس کی تصدیق راؤ فرمان علی نے بھی اپنی کتاب میں کی کہ ہتھیار ڈالنےوالوں میں فوج کی تعداد نوے ہزار نہیں تھی بلکہ اس سے آدھی سے بھی کم تھی۔ البتہ سرمیلا اپنے موقف کی حمایت میں سی آئ اے کے ریکارڈز سے ثبوت لے کر آئ ہیں۔
بیانیہ: پاک فوج بہادری سے نہیں لڑی
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ پاک فوج بہادری سے نہیں لڑی۔ پاکستان میں سقوط ڈھاکہ کے سانحے کی بڑی ذمہ داری مشرقی پاکستان میں موجود فوجی قیادت اور جوانوں پر ڈالی جاتی ہے کہ وہ بہادری سے انڈیا کے خلاف نہیں لڑی لیکن سرمیلا اس تاثر کو غلط قرار دیتی ہیں۔ اس کے لیے وہ انڈین فوج کے اس وقت کے سربراہ پارسی قوم سے تعلق رکھنے والے جنرل مانک شا کی گواہی لے کر آتی ہیں جن کا کہنا ہے کہ پاک فوج اپنے وسائل کے مطابق بے جگری سے لڑی لیکن حالات اس کے حق میں نہیں تھے۔ بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے مانک شا کا کہنا تھا کہ وہ جنگ اس لیے نہیں جیتے کہ ’’پاکستان آرمی کومپٹینٹ (اہل) نہیں تھی۔ پاکستان آرمی بہت بہادری سے لڑی لیکن ان کے پاس کوئی چانس نہیں تھا، وہ اپنی بیس سے ہزار میل دور تھے، میرے پاس اس حملے کی تیاری کے لیے نو ماہ کا وقت تھا، میرے پاس ایک کے مقابلے میں پندرہ کی عددی برتری تھی‘‘۔
بیانیہ: ڈھاکہ یونیورسٹی میں پاک فوج کا آپریشن نہتے طلبہ اور پروفیسروں کے خلاف تھا
پاکستان کے فوجی آپریشن کا جو امیج سب سے پہلے دنیا میں پھیلا وہ ڈھاکہ یونیورسٹی پر حملہ تھا جو پچیس مارچ 1971کو آپریشن شروع ہوتے ہی کیا گیا۔ سرمیلا کا کہنا ہے کہ مکتی باہنی کے لیے ہمدردی حاصل کرنے کے لیے اس آپریشن کے بارے میں دنیا میں ایک عام تاثر یہ پھیلایا گیا کہ یہ غیر مسلح سویلینز کے خلاف اندھا دھند طاقت کا استعمال تھا۔ لیکن سرمیلا نے اس وقت کے عالمی پریس سے شواہد اکٹھے کرکے ثابت کیا کہ ڈھاکا یونیورسٹی میں قوم پرست طلبہ کو مسلح مزاحمت کی ٹریننگ دی جا رہی تھی جس میں خواتین بھی شامل تھیں۔ اس کے علاوہ یکم مارچ کو اسمبلی کا اجلاس ملتوی ہونے کے بعد مجیب کی کال کے بعد مکمل ہڑتال تھی اور یونیورسٹی ہوسٹل سے طلبہ اپنے گھروں کو جا چکے تھے۔ لیکن ان کا کہنا ہے کہ مسلح طلبہ ہوسٹل میں موجود تھے۔ یاد رہے یہاں اس آپریشن کی حمایت مقصود نہیں۔
بیانیہ: بنگالی انٹلیکچوئلز کا قتل عام
سرمیلا نے پاک فوج کے سرنڈر سے پہلے ڈھاکہ میں غائب اور بعد ازاں قتل ہو جانے والے 200انٹلیکچوئل حضرات کے گھر والوں کے بیانات لیے۔ چودہ اور پندرہ دسمبر 1971 کو بنگالی انٹلیکچوئل حضرات کا قتل جس کا الزام پاک فوج اور اسکا ساتھ دینے والے بنگالی رضا کاروں پر لگایا جاتا ہے، سرمیلا اسے اس تنازعہ کی سب سے زیادہ بہیمانہ اور ظالمانہ کاروائی قرار دیتی ہیں۔ سرمیلا کا کہنا ہے کہ انہیں اس قتل عام کا شکار ہونے والوں کے گھر والوں سے انٹرویوکر کے بھی واحد مستند بات یہ معلوم ہوئی کہ انٹلیکچوئلز کو گھروں سے لے جانے والے بنگالی قومیت سے تعلق رکھتے تھے اور انھوں نے ایک مائکروبس میں گھروں کے دروازے کھٹکھٹا کر بنگالی اسکالروں، ڈاکٹروں، مصنفین، پروفیسروں کو زبردستی اٹھایا اور بعد ازاں انہیں ریار بازار نامی علاقے میں گولی مار دی گئی۔
اس موضوع پر ریسرچ کے دوران راقم کو پاکستان کا ساتھ دینے والے ایک بنگالی پروفیسر نے اپنے انٹرویو کے دوران یہ سوال اٹھایا کہ پاکستانی فوج کو نو ماہ سے ڈھاکہ پر کنٹرول حاصل تھا۔ اگر وہ بنگالی انٹلیکچوئل حضرت کو ارادتاً قتل کرنا چاہتے تو ان کے پاس بہت وقت اور طاقت تھی۔ چودہ اور پندرہ دسمبر کی رات کو جب انڈین فوج عملاً ڈھاکہ میں داخل ہو چکی تھی، پاک فوج خود اپنی حفاظت کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھی۔ ایسے کسی وقت میں کیا پاک فوج کے پاس ایسے قتل عام کے وسائل موجود تھے؟ سرمیلا کے مطابق ان انٹلیکچوئل حضرات میں ڈھاکا یونیورسٹی کے ایک پروفیسرشاہد ا للہ قصر شامل تھے، جنکے صحافی بھائی بنگلادیشی آزادی کے سالوں بعد پراسرار طور پر غائب ہو گئے۔
بیانیہ: دو لاکھ عورتوں کا ریپ کیا گیا
سرمیلا دو لکھ عورتوں کے ریپ کے حوالے سے بھی بنگلادیشی بیان کو چیلنج کرتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ نو ماہ میں 34000فوجی کس طرح دو لاکھ عورتوں کا ریپ کر سکتے ہیں۔ یاد رہے حمود الرحمان رپورٹ میں اس بات کو تسلیم کیا گیا ہے کہ پاک فوج کے ہاتھوں ریپ ہوئے ہیں۔ اس موضوع پر البدر کے ایک رضا کارنے راقم کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ایسے واقعات کہیں کہیں ہوئے ہیں لیکن یہ کسی جنگی اسٹرٹیجی کا حصہ نہیں تھے۔
پھر یہ بات بھی یاد رہے کہ اس نے پاک فوج کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی سے بری نہیں کیا بلکہ اسکا کہنا یہ ہے کہ جہاں پاک فوج کے افسران نے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی ہے، پاک فوج کا اپنا کام ہے کہ ان خلاف ورزیوں کے خلاف تحقیقات کروائے اور ان لوگوں کو سزائیں دی جائیں۔وہ پاکستان کے حامی بنگالی رضاکاروں کو بھی بری نہیں کرتیں۔ ایک جگہ ان کا کہنا ہے کہ پاک فوج کے کچھ افسران زندگی اور موت کا فیصلہ کرنے والے یعنی خدا بن گئے تھے۔ انہوں نے یہ بات زور دے کر کہی ہے کہ پاک فوج اگر بدنامی کا دھبہ خود پر سے ہٹانا چاہتی ہے تو اسے اپنے ان افسران کے خلاف غیر جانبدارانہ تحقیقات کر کے انہیں کیفر کردار تک پہنچانا ہو گا۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ پاک فوج کے پاس سب ریکارڈ موجود ہو گا اس لیے وہی اس کام کو انجام دے سکتے ہیں۔
سرمیلا نے صرف مستند حقائق اکٹھے نہیں کے بلکہ ان کا تجزیہ اعلیٰ درجہ کی ذہانت کی مثال ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ایسے حالات میں جہاں پاک فوج کو پوری دنیا میں بدنام کیا جا رہا ہے اسکا بہترین دفاع ہے۔ یہ کام سرمیلا سے پہلے کسی پاکستانی تحقیق نگار کا تھا۔ مگر تحقیق کس چڑیا کا نام ہے، یہ جاننے والے ہم میں انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں اور جو ہیں ان کی بھی کوئی سنتا نہیں ہے۔ ہم گفتار کے غازی ہیں، گستاخی رسول ؐکے مسئلے پر جان دینے کے دعوے کر سکتے ہیں مگر میرے سرکار صلیٰ الله علیہ وسلم پر جو پہلی وحی نازل ہوئی ان الفاظ کو نظریات کا جامہ پہنا کر اپنی معاشرتی زندگی کا حصہ نہیں بنا سکتے۔
کتاب میں مذکور اہم واقعات:
فوجی کورٹس میں مارے جانے والوں کے لواحقین سے انٹرویوز
سرمیلا نے پاک فوج کے ہاتھوں مارے جانے والے باغی جنگجوؤں کے گھر والوں یا گرفتار ہونے والوں، فوجی کورٹس میں مقدمہ کا سامنا کرنے والوں سے بھی معلومات حاصل کیں۔ اس معلومات کی بنا پر ان کا کہنا بہت سے پڑھے لکھے بنگالی خاندانوں کے بچے انڈیا جا کر نہ صرف ٹریننگ حاصل کر کے بلکہ ہتھیار اور دھماکہ خیز مادہ اپنے ساتھ لے کر آئے اور غیر بنگالی شہریوں اور پاکستانی حکومت کے ملازمین کے قتل عام میں شریک ہوئے۔ ان میں سے کچھ اگست کے مہینے میں پاک فوج کے ایک کریک ڈاون کے دوران گرفتار ہوئے جن پر فوجی عدالتوں میں جرم ثابت ہؤا ان میں سے بیشتر دوبارہ کبھی نظر نہیں آئے۔ شرمیلا کا کہنا ہے کہ ان پڑھے لکھے بنگالی جنگجوؤں نے ان کے سامنے اعتراف کیا کہ وہ شہریوں کے قتل عام میں شریک رہے تھے، اس کے باوجود کہ اس سے آزادی کی تحریک کو کوئی فائدہ نہیں پہنچنا تھا مگر پاکستانی حکومت کی کسی بھی نشانی کو ختم کرنے سے آزادی کی جنگ لڑنے والوں کا مورال بلند ہوتا تھا۔ ان میں رومی نامی ایک مارے جانے والے بنگالی ملیٹینٹ کی والدہ جہاں آراء نے اپنی ڈائری کو بعد ازاں کتاب کی شکل دی۔ کتاب کے مطابق ان کا آرٹسٹ بیٹا ٹریننگ کے لیے انڈیا گیا، وہاں سے اسلحہ اور بارودی مواد بھی لایا جسے اس نے گھر میں محفوظ کیا۔ ایسے بیشمار آزادی کے متوالے اپنے گھروں کو مکتی باہنی کے انڈر گراؤنڈ نیٹ ورک کی بیس کے طور پر استعمال کرتے رہے۔ کتاب کے مطابق رومی ایک مغربی ملک کے سفیر کے چوکیدار کی ہلاکت میں ملوث تھا۔ سرمیلا کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان بغیر پلاننگ تشدد کی کاروائیوں کا آزادی کی جدو جہد سے تعلق بہت کمزور تھا لیکن یہ اس میں تشدد کے عنصر کو ظاہر کرتا ہے ۔ شرمیلا کے مطابق ایک سائیڈ کا دہشتگرد دوسری سائیڈ کا آزادی کا متوالا ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان ملٹنٹس کے بیانات سے یہ پتہ چلتاہے کہ فوجی کورٹس میں اندھا دھند فیصلے نہیں کیے گئے، بعض لوگوں کو چھوڑا بھی گیا۔
مزید تحقیق کی ضرورت
اس میں کوئی شک نہیں کہ کتاب صحافتی تحقیق کا شاہکار ہے، سرمیلا کا بیان دلائل سے پر اور متوازن ہے لیکن یہ یاد رہے یہ اس پیچیدہ تنازع کا ایک پہلو ہے جسے سرمیلا نے احاطہ کیا۔ ایک محقق ہر پہلو کا احاطہ نہیں کر سکتا اور انہوں نے بنگلادیشی حکومت اور پاک فوج دونوں کو مزید تحقیقات کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ تحقیق کا یہ سلسلہ رکنا نہیں چاہیے۔ یہ بھی یاد رہے 1971کے تنازعہ کے حوالے سے متعدد بیانیہ موجود ہیں جو ایک دوسرے سے متقابل ہی نہیں زمین اور آسمان کی دوری بھی رکھتے ہیں۔ یہ شرمیلا کی عینک سے سچ ہے۔ اس نے سفاک سچائی کھوجنے اور پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔
سرمیلا بوس کی کتاب 2007میں منظر عام پر آئی۔ اس کتاب کی وجہ سے سرمیلا کوبنگلادیش، بھارت پوری دنیا میں مخالفت اور سب و شتم کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ انہوں نے غیر جانبداری اور ثبوت و شواہد کے ساتھ جن لوگوں کا دفاع کیا ہے انہوں نے انہیں بری طرح نظر انداز کر دیا ہے۔ راقمہ پاکستان میں ایسے مقررین کو جانتی ہیں جو اپنی تقریروں میں سرمیلا کا نام لیے بغیر ان کے دلائل کو دہراتے ہیں۔
سرمیلا کتاب کے اختتام پر لکھتی ہیں کہ پچیس اور چھبیس مارچ 1971کی درمیانی رات جب پاک فوج کے افسران مجیب کو گرفتار کرنے پہنچے تو مجیب سراسیمہ ہو گیا۔ سپاہیوں نے اسے گرفتار کیا اور اسے غدار قرار دے کر قید کر دیا گیا۔ جب پندرہ اگست 1975کو بنگلادیشی فوج مجیب کے پاس آئی تو وہ ان کو اپنا سمجھ کر ان سے ملا۔ بنگلادیشی فوج نے مجیب اور اس کے پورے گھرانے کو موت کے گھاٹ اتار دیا جن میں اس کی بیوی دو بہوئیں، بیٹے شامل تھے جن میں سب سے چھوٹا دس سال کا تھا۔
نوٹ: اس مضمون کی تیاری میں سرمیلا کی کتاب کے علاوہ تنازعہ سے ذاتی طور پر متاثر چند حضرات کے انٹرویوز سے بھی مدد لی گئی ہے، جن میں پاکستان کی حمایت کرنے والے ایک بنگالی پروفیسر، پاکستان اور بنگلادیش کے عوام کو قریب لانے کے خواہشمند ایک سرگرم بنگالی سماجی کارکن، پاکستانی فوج کے ایک میجر جنہوں نے 1971میں پاکستان کے حمایتی رضاکاروں کی فوج تیار کرنے میں اہم کردار ادا کیا شامل ہیں۔ اس کے علاوہ کرنل صدیق سا لک، راؤ فرمان علی، گیری جے بیس، یاسمین سائکیا کی کتب سے بھی استفادہ کیا گیا ہے۔ سرمیلا سے کوشش کے باوجود رابطہ نہ کیا جا سکا۔

٭ ٭ ٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
1 Comment
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments
حمیرا فاطمہ
حمیرا فاطمہ
2 years ago

تزئین حسین کی حق گوئی اور دلیرانہ تحریر کی دلدادہ ہوں
💖

1
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x